کم سن لڑکیوں کی شادی
کم سن بچیوں کی شادی سے بہت زیادہ سماجی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
کم سن بچیوں کی شادی سے بہت زیادہ سماجی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ تعلیم کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے اسکولوں کی ابتدائی جماعتوں میں ڈراپ آؤٹ ریٹ بہت زیادہ ہے، زیادہ تر اسکول چھوڑنے والی لڑکیاں ہوتی ہیں۔ تعلیم سے متعلق دستیاب اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ شرح دوسرے جنوبی ایشیائی ممالک میں سب سے زیادہ ہے۔
اسکول چھوڑنے والی لڑکیوں میں اکثریت کو غربت کی بناء پر اسکول چھوڑنا پڑتا ہے، والدین غربت سے نجات کے لیے بچوں کی فوری شادی میں حل تلاش کرتے ہیں۔ پاکستان کے دیہی علاقوں میں یہ روایت موجود ہے کہ والدین بوڑھے اور معمر افراد سے سے کم سن بچیوں کی شادی کر دیتے ہیں اور اس شادی کے عوض خطیر رقم وصول کرتے ہیں۔
یہ بچیاں ایک طرف بچے پیدا کرنے کی مشین بن جاتی ہیں اور گھر کے کام کے ساتھ ساتھ کھیتوں میں شوہر اور سسرال والوں کا ہاتھ بھی بٹاتی ہیں۔ مزدور بھٹیوں میں کام کرتے ہیں تو ان کی بیویاں بھی ان کے ہمراہ ہوتی ہیں۔ یہ بچیاں تعلیم یافتہ نہیں ہوتیں، ان میں اپنے حقوق کا شعور نہیں ہوتا، اپنے شوہر اور سسرال والوں کے تشدد کا نشانہ بھی بنتی ہیں۔ جب شوہر ان سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انھیں طلاق دے دیتے ہیں یا کاری قرار دے دیتے ہیں اور اپنے کسی دشمن کو قتل کر کے قانون سے بچ جاتے ہیں۔
کم سن بچیاں غربت افلاس کی بنا پر کم غذائیت کا شکار ہوتی ہیں۔ چھوٹی سی عمر میں ازدواجی فریضے سے ان کی صحت بری طرح متاثر ہوتی ہے، ان عورتوں کے بچے انتہائی کمزور اور لاغر پیدا ہوتے ہیں۔ پبلک ہیلتھ کے ماہر ڈاکٹر عنایت تھاور کہتے ہیں کہ عورتوں میں کم غذائیت کا مسئلہ اچانک پیدا نہیں ہوتا۔ وہ اس تحقیق کی وضاحت کرنے کے لیے لکھتے ہیں کہ ایک بچی انتہائی کم وزن کے ساتھ پیدا ہوتی ہے، اس کو صاف ستھرا دودھ پلانے اور مناسب عمر میں پروٹین دینے پر توجہ نہیں دی جاتی، وہ بالغ ہو جاتی ہے تو اس عمل میں مزید کمزور ہوتی ہے۔
اس کی شادی ہو جانے کے بعد اس کے حاملہ ہونے پر اس کو مناسب کیلوریز پر مشتمل غذا میسر نہیں ہوتی، عموماً مشترکہ خاندان میں لڑکیوں، بہنوں، ماؤں، بہوؤں کو خاندان کے مردوں کے کھانے کے بعد بچا کچھا کھانا ملتا ہے، یوں ماں کے رحم میں موجود بچہ ابتدائی دنوں سے کم غذائیت کا شکار ہوتا ہے۔ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو ماں اور بچے کی زندگی مشکل ہوتی نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ماں اور نوزائیدہ بچے کی شرح اموات میں کمی نہیں ہو رہی ہے۔ پاکستان کے معرف آغا خان یونیورسٹی اسپتال کے ماہر ڈاکٹر ذوالفقار بھٹہ کا کہنا ہے کہ کم عمر میں بچیوں کی شادی کم غذائیت والے بچوں کی پیدائش کی بنیادی وجہ ہے۔ ڈاکٹر ذوالفقار کا مزید کہنا ہے کہ کم سن مائیں سانس لینے، کھانسی اور کم وزن جیسے مسائل کا شکار ہوتی ہیں۔
تھر میں گزشتہ کئی سال سے قحط کی صورتحال ہے، اس علاقے کا دارومدار مون سون کی بارشوں پر ہوتا ہے۔ بارش ہونے سے اس علاقے میں بننے والے تالابوں میں پانی ذخیرہ کر لیا جاتا ہے اور نئے کنوئیں کھودے جاتے ہیں، مگر کئی سال تک مسلسل بارش نہیں ہوتی تو پانی کی سطح کم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ اس صورتحال میں غذائی کمی کا براہ راست نشانہ خواتین اور بچے بنتے ہیں۔ تھر میں بڑی تعداد نچلی ذات کے ہندؤں کی ہے۔ یہ لوگ اپنی بچیوں کی کم عمری میں شادی کر دیتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ یہاں کم سن بچوں کی شرح اموات سب سے زیادہ ہے۔ حکومت سندھ نے تھر میں خشک سالی کے خاتمے کے لیے متعدد اسکیمیں شروع کیں، اس میں سڑکوں کی تعمیر، اسپتالوں کا قیام، طبی عملے کی تعیناتی اور دواؤں کی فراہمی شامل ہے۔ حکومت اور غیر سرکاری تنظیموں کی کوششوں کے باوجود کم سن بچوں کی شرح اموات میں کمی نہیں ہو سکی۔
اس سال موسم سرما میں جب تھر میں خاصی سردی ہے، کم سن بچوں کی اموات کی خبریں روزانہ آ رہی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق کم سن بچے کم غذائیت، ملیریا، سینے کے انفیکشن، تپ دق جیسی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ تھر میں کام کرنے والے ایک سماجی کارکن کا کہنا ہے کہ تھر میں بچوں کی اموات کا معاملہ کم عمری میں لڑکیوں کی شادی سے منسلک ہے۔
بچیاں کم غذائیت کے باعث مختلف بیماریوں کا شکار ہوتی ہیں، یوں ان کے یہاں پیدا ہونے والے بچے بھی کم غذائیت کی وجہ سے مختلف امراض کا شکار ہوتے ہیں۔ کم عمر بچیوں کی شادی پر پابندی انتہائی ضروری ہے۔ صحت اور ترقی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ مذہبی نہیں ہے، بلکہ بچوں کی صحت اور خاندان کی ترقی سے منسلک ہے۔ حکومت سندھ 2014ء میں اس بارے میں قانون سازی کر چکی ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف پاکستان کو لبرل اور پروگریسو ملک بنانے کا عہد کر رہے ہیں۔ کیا میاں نواز شریف محمد علی جناح کی پیروی کرتے ہوئے لڑکیوں کی شادی کی عمر 18 سال مقرر کرنے کا قانون منظور کرائیں گے؟