ترقی کی نوید
ہمارے حکمرانوں کی طرف سے ہر روز عوام کو ملک میں ہونے والی اقتصادی ترقی کی نوید سنائی جاتی ہے۔
ہمارے حکمرانوں کی طرف سے ہر روز عوام کو ملک میں ہونے والی اقتصادی ترقی کی نوید سنائی جاتی ہے۔ موٹر وے کی تعمیر، لاہور میں بس سروس، اورنج لائن، میٹرو لائن، سرخ لائن کے منصوبے ملک کے مختلف حصوں میں انرجی پروجیکٹ کا آغاز، بڑے شہروں میں انڈر پاس اوور ہیڈ برج اور سارے منصوبوں کا باپ اقتصادی راہداری منصوبہ، یہ چند ایسے منصوبے ہیں جن کا ذکر ہمارا حکمران طبقہ بڑے فخر سے کرتا رہتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس قسم کے منصوبوں سے ملک کے مستقبل میں آسانیاں اور سہولتیں حاصل ہوتی ہیں، لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس ملک کے 20 کروڑ عوام عشروں سے جن مسائل اور مصائب کا شکار ہیں، کیا ان منصوبوں سے عوام کو کوئی ریلیف مل سکتا ہے؟ مثلاً ملک میں آسمان کو چھوتی ہوئی مہنگائی ہے، جس کی وجہ سے عوام کی زندگی عذاب بنی ہوئی ہے، مڈل کلاس مہنگائی سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔
غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے لوگوں کی حالت زار کیا ہے، اسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ کیا اقتصادی راہداری کا 43 ارب ڈالر کا منصوبہ ملک سے مہنگائی دور کرنے میں کوئی کردار ادا کر سکتا ہے؟ ملک میں لاکھوں عوام بے روزگاری کی آگ میں جل رہے ہیں، خاص طور پر تعلیم یافتہ اور اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان حصول روزگار کے لیے برسوں سے جوتے چٹخا رہے ہیں۔ حالت یہ ہے کہ ایم اے پاس نوجوان اور انجینئرنگ کی ڈگری لینے والے نوجوان معمولی درجے کی نوکریوں کے لیے درخواستیں دینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ ناخواندہ بے روگاروں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔
کیا کوئی موٹر وے یا اورنج لائن منصوبہ ان لاکھوں بیروزگاروں کو روزگار فراہم کر سکتا ہے؟ ملک میں بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ عوام کے لیے عذاب بنی ہوئی ہے، کیا کوئی موٹروے ملک سے گیس بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کر سکتا ہے۔ ملک کے 20 کروڑ عوام علاج کی سہولتوں سے محروم ہیں، کیا قطر سے درآمد کی جانے والی ایل این جی علاج سے محروم عوام کو علاج کی سہولتیں فراہم کر سکتی ہے؟ ملک میں ہر سال لاکھوں بچے دودھ اور غذا نہ ملنے کی وجہ سے موت کا شکار ہو رہے ہیں۔
تھرپارکر کا المیہ ہمارے سامنے ہے۔ کیا بڑے بڑے انڈر پاس، اوورہیڈ برج بچوں کی غذائی قلت سے ہونے والی اموات کو روک سکتے ہیں؟ ہر سال لاکھوں خواتین زچگی میں طبی سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے موت کا شکار ہو رہی ہیں، کیا نندی پور پراجیکٹ انھیں مرنے سے بچا سکتا ہے۔ ہر سال لاکھوں عوام بھوک سے مر جاتے ہیں۔ کیا پنجاب کی ترقی ان فاقہ کشوں کو موت سے بچا سکتی ہے؟ ملک میں غریب طبقات سے تعلق رکھنے والے لاکھوں بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ کیا اقتصادی راہداری کا منصوبہ لاکھوں بچوں کو علم کے حصول کی سہولتیں فراہم کر سکتا ہے، ہمارے ملک میں غریب والدین اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو معاشی اعانت کے لیے چائلڈ لیبر کی بھٹی میں دھکیل دیتے ہیں۔
کیا اداروں کی نجکاری ملک سے چائلڈ لیبر کے خاتمے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے؟ ہمارے ملک کے ساڑھے چار کروڑ مزدور دو وقت کی روٹی سے محروم ہیں، کیا آئی ایم ایف سے لیا جانے والا اربوں ڈالر کا قرض ساڑھے چار کروڑ مزدوروں کو تین وقت کی روٹی مہیا کر سکتا ہے۔ ہمارے ملک کی دیہی آبادی کا 60 فیصد حصہ کسان اور ہاری وڈیروں اور جاگیرداروں کا غلام بنا ہوا ہے، کیا ورلڈ بینک سے لیا جانے والا کروڑوں ڈالر کا قرض کسانوں اور ہاریوں کو وڈیرہ شاہی کی غلامی سے نجات دلا سکتا ہے۔
ہمارا نظام سر سے پاؤں تک کرپشن میں ڈوبا ہوا ہے، کیا سندھ اسمبلی میں پاس کیا جانے والا یہ بل عدالتی نظام میں کوئی تبدیلی لا سکتا ہے؟ ہمارا حکمران طبقہ اور سیاست دان اربوں کی کرپشن کے الزامات پیشانیوں پر سجائے پھر رہے ہیں، کیا کوئی احتسابی ادارہ اس اعلیٰ سطح کی کرپشن کو روک سکتا ہے؟ ہمارا پولیس کا پورا نظام کرپشن میں نہایا ہوا ہے، کیا کوئی پولیس اصلاحات اس کرپشن کو روک سکتی ہے؟
یہ ایسے سوالات ہیں جن کا جواب نہ حکمرانوں کے پاس ہے نہ سیاست کاروں کے پاس۔ کیوں کہ عوام ان کو ہی ان خرابیوں، ان جرائم کا ذمے دار سمجھتے ہیں۔ کراچی ہمارے ملک کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ شہر ہے، اس شہر میں ٹرانسپورٹ کا مسئلہ عوام کے لیے عذاب بنا ہوا ہے۔
ہمارا حکمران طبقہ اگر چاہے تو فوری ہزار دو ہزار بسیں، منی بسیں سڑکوں پر لا کر اس سنگین مسئلے کو حل کر سکتا ہے، لیکن اس کی ترجیح انڈر گراؤنڈ ریلوے نظام، اس کی ترجیح لوکل ٹرینوں کا نظام ہے، جن پر اربوں ڈالر لاگت آتی ہے اور ان بڑے بڑے منصوبوں سے ہماری اشرافیہ نہال ہو جاتی ہیں۔ ملک میں لاکھوں لوگ بے روزگار ہیں، لاکھوں تعلیم یافتہ نوجوان ڈگریاں ہاتھوں میں لیے پھر رہے ہیں، ملک میں صنعتوں کا جال بچھا کر، آئی ٹی کے شعبے کو ترقی دے کر بے روزگاری کم کی جا سکتی ہے لیکن یہ حکمرانوں کی ترجیح نہیں ہے۔
ہمارا ملک ایک زرعی ملک ہے، ساری دنیا میں زرعی معیشت رکھنے والے ملک ترقی یافتہ زرعی نظام کی بدولت تیزی سے ترقی کر رہے ہیں، ہماری زرعی معیشت ابھی تک انتہائی فرسودہ طریقہ کاشت میں پھنسی ہوئی ہے، ملک کی دیہی آبادی کا 60 فیصد حصہ ابھی تک زرعی غلاموں کی زندگی گزار رہا ہے، ان کی صلاحیت وڈیروں کی خدمت میں صرف ہو رہی ہیں۔ وڈیرے اور جاگیردار زرعی معیشت سے سرمایہ نکال کر صنعتی شعبوں میں لگا رہے ہیں، یوں وہ وقت واحد میں جاگیردار اور صنعت کار بنے ہوئے ہیں، ہمارے ملک میں چونکہ اب تک سیاست جاگیرداروں اور صنعت کاروں کی لونڈی بنی ہوئی ہے۔
لہٰذا جمہوریت کو وہ جس طرح چاہتے ہیں نچاتے رہتے ہیں، طرز سیاست چوں کہ شاہانہ ہے لہٰذا اس موروثی سیاست اور موروثی حکمرانی نے زمینی اور زرعی اشرافیہ کو اس طرح اختیار کلی کا مالک بنا دیا ہے کہ ان کی مرضی کے بغیر نہ سیاست کا پتہ چلتا ہے نہ جمہوریت کا پتہ چلتا ہے، سیاست اور جمہوریت کے پاؤں میں ان محترمین نے گھنگرو باندھ دیے، ہیں، ایسے نظام میں عوام کی ترقی ایک رنگین خواب کے علاوہ کچھ نہیں۔
ترقی کا مطلب عوام کی زندگی میں بہتر تبدیلی ہوتا ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عوام کی زندگی میں کوئی تبدیلی آئی ہے؟ جو مزدور آج سے 68 سال پہلے جو ناشتہ کرتا تھا، وہی آج کر رہا ہے، اس کا ناشتہ سوکھی روٹی اور پیاز یا چائے ہی ہے۔ 68 سال پہلے غریب کے بچے تعلیم سے محروم تھے یا لال پیلے سرکاری اسکول جاتے تھے، آج بھی ان کا یہی حال ہے، 68 سال پہلے وہ جو کپڑے پہنتے تھے وہ آج بھی وہی کپڑے پہنتے ہیں۔
68 سال پہلے وہ جس طرح علاج سے محروم تھے وہ آج بھی علاج سے محروم ہیں۔ 68 سال پہلے وہ جن ''گھروں'' میں رہتے تھے وہ آج بھی انھیں گھروں میں رہ رہے ہیں۔ 68 سال پہلے ان کی بستیاں جس طرح گندگی کے ڈھیر ہوتی تھیں، وہ آج بھی گندگی کی ڈھیر ہیں۔ 68 سال پہلے وہ جس طرح بیروزگاری کا شکار تھے وہ آج بھی اسی طرح بیروزگار ہیں۔ البتہ اشرافیہ اب ارب پتی کھرب پتی بن گئی ہے، ملک کے اندر اور ملک کے باہر اس کے اربوں کے اثاثے ہیں، اگر اسے ترقی کہا جاتا ہے تو ملک بے شک ترقی بلکہ حیران کن ترقی کر رہا ہے۔