موت کا کھیل جاری ہے

اب قصے کو ختم ہونا چاہیے۔ ضرورت جب خون کی ہوتی ہے تو مسکرایا نہیں جاتا اور جب بات ہنسنے کی آتی ہے تو رویا نہیں جاتا۔


محمد عاصم January 23, 2016
غلطی کہاں ہوئی؟ کون سا فیصلہ تھاجسکی سزا قوم کو سہنا پڑرہی ہے؟ کن کی خواہش ہے کہ پاک سرزمین آگ اورخون کی لپیٹ میں رہے۔

کچھ لمحے انسان کی زندگی میں آکر ٹھہر سے جاتے ہیں۔ ان لمحوں کو آپ لاکھ بھلانا چائیں، لیکن بھول نہیں پاتے۔ یہ ساعتیں بھی ایسے ہی ایک المناک حادثے سے جڑی ہیں جنہیں میں آج یاد کرتا ہوں تو میرے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ موت چند لمحوں کے توقف کے بعد عین اسی جگہ اپنی وحشت پھیلا گئی تھی جہاں میں اپنے دوستوں کے ساتھ موجود تھا۔

یہ 20 اکتوبر 2009 کا دن اور قریباََ ظہر کی نماز کا وقت تھا۔ میں اپنے چند دوستوں کے ہمراہ اسلامی یونیورسٹی کے اکیڈمکس کیمپس میں ٹیلنٹ ایوارڈ شو کی رجسڑیشن ڈسکس کا جائزہ لے کر واپس ہاسٹل نماز اور کھانے کے لیے آیا تھا۔ یہ تیسری رکعت تھی، جب ایک زور دار دھماکے سے زمین لرز اُٹھی، اور پھر چند سیکنڈ بعد دوسرا دھماکہ ہوا۔ بڑی مشکل سے نماز مکمل کرکے ہاسٹل سے باہر بھاگا تھا۔ میرے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ دھماکہ یونیورسٹی میں ہوا ہے۔ لیکن یہ ہوچکا تھا۔ دوڑتا ہوا کیمپس پہنچا تو ساتھیوں نے بتایا کہ بلڈ سوسائٹی نے اپنا کام شروع کردیا ہے۔ امداد اللہ بھائی اور چند دیگرساتھی بلاک میں زخمیوں کی مدد کو پہنچ چکے ہیں۔

وہ مناظر انتہائی خوفناک اور المناک تھے۔ رحمٰن ملک یونیورسٹی آئے تو طلبہ نے ان پر پتھراؤ کیا۔ لوگ غم زدہ تھے۔ ایک انجان سا خوف تھا۔ والدین الگ پریشان تھے۔ ہم نے ذمہ دارانِ جامعہ اور اپنے ساتھیوں کی فوری میٹنگز کیں۔ ایک مربوط لائحہِ عمل تیار کیا اور کام میں لگ گے۔ مرد و خواتین کے لئے الگ الگ حکمت عملی ترتیب دی گئی۔ معلومات کی فراہمی سے بلڈ کی فراہمی تک اور پریشان حال طلبہ اور والدین کی رہنمائی سے لیکر کیمپس کی فضا کو پُر امن رکھنے تک کئی پہلو اور حوالے تھے جن کو توجہ دینا اور اس حوالے سے اپنا اور اپنی ٹیم کا حوصلہ بڑھانا کوئی آسان نہیں تھا۔ سب نے اپنی استطاعت سے بڑھ کر کام کیا۔ اللہ نے ہی توفیق دی۔

21 اکتوبر کی صبح اخبار کا مطالعہ کرتے ہوئے ہم چند ساتھی ہاسٹل پارکنگ کے قریب بیٹھے تھے۔ اچانک ایک گاڑی آکر رُکی، یہ الجزیرا ٹی وی کے رپورٹر تھے۔ غالباََ وہ دو تھے۔ ایک مرد اور ایک خاتون رپورٹر۔ آنکھوں میں حیرت لئے، انتہائی پریشان انداز میں خاتون نے سوال کیا، ''کیا آپ کو ڈر نہیں لگ رہا؟ آپ گھر کیوں نہیں گئے؟ وغیرہ وغیرہ۔ میں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ''آج تو کھڑے ہونے کا وقت ہے، بھلا ڈرنے کا کیا سوال، دشمن نے ہمارے دل پر حملہ کیا ہے تو کیا ہم پسپا ہوجائیں؟ اور پھر ان سب کی مدد کون کرے گا جو ہمارے ساتھی زخمی ہیں یا بیرونی ممالک سے یہاں علم کی پیاس بجھانے آئے ہیں؟''

وقت رکا نہیں۔ پر لگا کر اُڑ گیا۔ وہ دن ایک لمحے کی صورت میں میرے دل و دماغ میں بیٹھ سے گئے ہیں۔ معصوم صورتیں اورکل کے پاکستان کے لئے پرعزم جوانیاں خاک میں ملا دی گئیں۔ پر یہ سلسلہ رُکا نہیں۔ اسکول اور جامعات دشمن کی سفاکی کا نشانہ بنتے رہے۔ خون بہتا رہا۔ یہاں تک کہ باچا خان یونیورسٹی کا المناک سانحہ آکر گزر گیا۔

غلطی کہاں ہوئی؟ کون سا فیصلہ تھا جس کی سزا قوم کو سہنا پڑ رہی ہے؟ کن کی خواہشیں ہیں کہ پاک سرزمین آگ اور خون کی لپیٹ میں رہے۔ یہاں کی کلیاں سکون اور چین کو ترسیں۔ یہاں کا ذہین جوان مایوس ہوکر کسی اور سرزمین کی خاک چھانے اور اپنے جسم کا پسینہ بہا کر وہاں کی ترقی کا ضامن بنے۔ آخر کون ہے؟ معلوم کیوں نہیں ہوتا؟

بش ایڈمنسڑیشن نے 2003 اور بعد میں نیٹو سمٹ 2004 میں نیو گریٹر میڈل ایسٹ انیشی ایٹیو کا اعلان کیا تھا۔ اس گیم میں آخرکار حتمی طور پر پاکستان، افغانستان اور سینٹرل ایشیاء کی ریاستوں کو شامل کیا جانا ہے۔ دشمن اپنی ترکش کے تیر بڑی مہارت سے پھینک رہا ہے۔ پروکسی وار کے گجلنک میں ہر مسلمان نشانے پر ہے۔ بھارت کا وزیر دفاع جس فرعونی لہجے میں پاکستان کو آنے والے وقت کی منصوبہ بندی سے آگاہ کرتا ہے، وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ پھرغفلت کہاں ہے؟

خوف، مایوسی، انتشار، بدامنی، علاقائی اور عالمی منظر میں پاکستان کو ناقابلِ بھروسہ بنانے اور آپس کی نفرت کے ایسے بیج بونے کی منصوبہ بندی ہوچکی ہے۔ جس کا مقابلہ آج اور ابھی کیا جانا ضروری ہے۔ اکبر بگٹی قتل کیس میں شیر پاؤ اور پرویز مشرف کا بری ہونا، اور پھر چند دن بعد باچاخان یونیورسٹی میں المناک واقعہ ہونا۔ اس سے پہلے پٹھان کوٹ ائیر بیس پر حملہ اور بھارتی ردِعمل۔ پھر طالبان کا یونیورسٹی واقعہ کی مذمت کرنا یہ سب کڑیاں بہت واضح ہیں، اگر کوئی سمجھنا چاہے۔

خون جب بہتا ہے تو رائیگاں نہیں جاتا۔ جب کہیں قتلِ ناحق ہوتا ہے تو مجرم کو اس کی سزا ملتی ہے۔ یہی قدرت کا اصول ہے۔ اب فیصلہ ہمیں بحیثیت فرد اور بحیثیت قوم کرنا ہے۔ قومی ایکشن پلان بنا تو ضرور لیکن نامکمل اور ادھورا۔ ضرورت جب خون کی ہوتی ہے تو مسکرایا نہیں جاتا اور جب بات ہنسنے کی آتی ہے تو رویا نہیں جاتا۔ سادگی، خلوص، دیانت داری، جرات، حوصلہ، اللہ سے تعلق، جوابدہی کا خوف جیسے اوصاف کے بنا یہ جنگ جیتنا ممکن نہیں۔ آئیے ایک نئے عزم سے اپنے ظاہر و باطن کو ایک سا بناتے ہوئے اللہ سے توبہ کر کے اپنے سفر کو آگے بڑھائیں۔ ورنہ خون بہتا رہے گا اور انسانیت موت کی بھینٹ چڑھ جائے گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔


اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں