ترقی یافتہ پاکستان خواب نہیں حقیقت
بدقسمتی یہ کہ ہمارے نوجوان بسا اوقات موجودہ صورتحال سے مایوس نظر آتے ہیں، لیکن درحقیقت یہ مایوسی ہی زہر قاتل ہے۔
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کی 40 فیصد سے زائد آبادی نوجوان طبقے پر مشتمل ہے۔ وہی نوجوان جو کسی بھی معاشرے کا فخر ہوتے ہیں، ہر معاشرے کی طاقت کہلوانے والا یہ طبقہ پاکستان کو تبدیل کرنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے، ہنرمند، با ادب، روشن خیال اور ہمت و عزم جیسی خوبیوں سے مالا مال یہ نوجوان پاکستان کا فخر ہیں، لیکن یہ نوجوان بسا اوقات موجودہ صورتحال سے مایوس نظر آتے ہیں، یہ مایوسی ہی زہر قاتل ہے۔ اس مایوسی کا پردہ چاک کرکے ذرا ان افراد پر ایک نظر ڈالئے جو انہیں حالات میں کسی شکوہ کے بغیر عملی طور پر پاکستان کی ترقی کیلئے کوشاں ہیں۔
اگر آپ واقعی پاکستان سے محبت کرتے ہیں تو یہ ضروری ہے کہ آپ اس کا عملی ثبوت بھی دیں اور ملک کی ترقی اور فلاح میں اپنا بھر پور حصہ ڈالیں اور اپنی جانب سے پوری عملی کوشش کریں۔ تسلیم کیا کہ جہاں پاکستان بھر کے تمام افراد دہشتگردی، بدعنوانی اور معاشرتی ناہمواریوں سے متاثر ہیں۔ وہیں نوجوانوں کی حوصلہ شکنی کا بھی تمام سامان موجود ہے، لیکن انہی حالات میں پہلے خود سنبھلنا اور پاکستان کو سنبھالنا ہی نوجوانوں کا اصل امتحان ہے۔ پھر کچھ ایسی ہی صورتحال حقیقت میں نظر بھی آتی ہے جہاں کھیل سے لیکر اعلیٰ تعلیم کا حصول ہو، فیشن انڈسٹری ہو یا زراعت ہر شعبے میں زندہ دل، ہاہمت اور باکمال نوجوان اپنا اور ملک کا نام روشن کررہے ہیں۔ نامساعد حالات میں بھی عزم و حوصلے سے اپنی منزل کا سراغ پا رہے ہیں۔ ایسے ہی نوجوان پاکستان کا سرمایہِ افتخار ہیں اور پوری قوم کیلئے تابندہ مثال ہیں کہ اگر کچھ پانے کی لگن ہو تو راستے کی مشکلات کو نظر انداز کرنا ہوتا ہے۔
اگر آپ پاکستان سے محبت کرتے ہیں اور اس محبت کا قرض اتارتے ہوئے اس سرزمین کی ترقی کے لئے سرگرم عمل ہیں تو بہترین ہے، لیکن اگر کہیں آپ اس معاشرے کی تلخ حقیقتوں سے شناسائی کے بعد بد دل ہورہے ہیں تو اس فکر کو ختم کیجئے اور نئے عزم کے ساتھ سفر کا آغاز کیجئے، کیونکہ ان ناہمواریوں کا خاتمہ اور شعور یافتہ قوم کی تشکیل ہی تو پاکستان کا اصل ہدف ہے۔ اگر آپ کو شکایت ہے کہ آپ کو اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے مواقع میسر نہیں تو حالات سے نبرد آزما ہوجائیے کیونکہ نظام میں بہتری ہی تعمیرِ پاکستان کی جانب پہلا قدم ہے۔
اگر حقیقت کا جائزہ لیا جائے تو تعلیم کا دہرا معیار، طبقاتی فرق اور طاقت کے بل بوتے پر داخلہ حاصل کرنا اور ڈگریوں کا حصول یقینی طور پر ان نوجوان طالب علموں کیلئے حوصلہ شکن ہے، جو محنت پر یقین کرتے ہوئے آگے بڑھنے کے قائل ہیں۔ سیاسی اثر ورسوخ پر داخلہ حاصل کرنا اور نقل کلچر جیسی نا انصافیوں پر کڑھ کڑھ کر ہی سہی لیکن علم کی جستجو کو اپنا نصب العین بناتے ہوئے، اپنی قابلیت کے بل بوتے پر ڈگری حاصل کیجئے کیونکہ معاشرے کے جو خدوخال بگڑ کر اس نہج تک آپہنچے ہیں اُن کا علاج تعلیم اور خواندہ معاشرہ ہے۔ اگر ہر نوجوان اپنی جگہ یہی عہد کرے تو کوئی تعجب نہیں کہ روشنیاں پاکستان کا مقدر ہوں۔
اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود نوجوانوں کی بیشتر تعداد بے روزگار دکھائی دیتی ہے یا نوکری کیلئے ان سے تجربہ کی سند طلب کر لی جاتی ہے جو کہ یقیناً مضحکہ خیز ہے، جب تک نوکری ملے گی نہیں تجربہ کہاں سے آئیگا؟ اس کے علاوہ سفارش جیسی معاشرتی برائی کے سبب بھی نوجوان اپنے متعلقہ شعبوں میں نوکری کے حصول میں ناکامی کے بعد دل برداشتہ نظر آتے ہیں، اور کوشش کرتے ہیں کہ وطن عزیز سے دیارِ غیر کوچ کر جائیں اور قسمت آزمائیں۔ اس ماحول اور فکر نے پاکستان کی طاقت، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے حامل نوجوان جوکہ اس ملک کی سب سے بڑی ضرورت ہیں کو وطن سے محروم کردیا ہے۔ اگر آپ کو یہ نظام پسند نہیں تو اس کو تبدیل کرنے کی ٹھان لیجئے کیونکہ اگر آپ اس نظام کو درست نہیں کریں گے تو آپ نے بھی اس ملک کے ساتھ انصاف نہیں کیا کیونکہ آپ کی صلاحیتوں اور قابلیت کی ضرورت پاکستان کو ہے۔
لہذا آپ جس شعبے میں ہیں محنت سے اپنے فرائض ادا کیجئے پوری دیانت داری کیساتھ، آپ زراعت سے منسلک ہیں تو نت نئی ٹیکنالوجیز اور تحقیقات کو آزماتے ہوئے آپ پہلے سے بہتری اور پھر مزید بہتری کی جانب آسکتے ہیں، اور اگر آپ کسی اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں تو بھی دیانت داری کے ساتھ اپنے اختیارات کا جائز استعمال اور لگن آپ کے ادارے کی ترقی، آپ کے مستقبل کے ساتھ ملک کے وقار میں اضافے کی بھی ضامن ہے۔
تو اس ملک کے نظام اور معاشرہ کی نا قدری پر افسوس کرنا ترک کرتے ہوئے پاکستان کی بقا کیلئے اٹھ کھڑے ہوں اور اپنی طاقت پر یقین رکھتے ہوئے فرسودہ نظام کی تبدیلی اور بہتری کے لئے صف آرا ہوجائیے اور اس کے لئے سب سے اہم بات ہے یہ کہ تمام نوجوان اپنے متعلقہ شعبوں میں رہتے ہوئے اپنے کام کو پوری ایمانداری سے ادا کریں اور اپنی ذمہ داریوں کو معمولی نہ سمجھیں بلکہ ان کے ساتھ مکمل انصاف کرتے ہوئے بہترین طور پر انجام دیں تو ترقی یافتہ پاکستان خواب نہیں بلکہ حقیقت بن جائے گا۔ اگر آپ غور کریں تو عبد الستار ایدھی صاحب اور ڈاکٹر ادیب الحسن جیسے ہزاروں پاکستانی نظر آئیں گے جنہوں نے اپنی جوانی ایک عظیم مقصد کی نذر کردیں اور دنیا کی ناقدری اور منفی رویوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے مقصد کی تکمیل میں کچھ اس طرح سرگرم ہوئے کہ دنیا سے منوادیا کہ انسانیت کو ناز ہے ان افراد پر۔
تو نوجوانوں کو بس اپنا مقصد کا حصول واضح رکھتے ہوئے انتھک محنت کرنی ہے تاکہ ایک ایسے پاکستان کی تعمیر ممکن ہوسکے جس پر دنیا ناز کرے اور اس کے ساتھ حکومت سے گذارش ہے کہ وہ حالیہ دہشت گردی کے واقعات کے بعد ماحول سے مایوسی ختم کرنے اور نوجوانوں کی حوصلہ افزائی اور مستقبل کے لئے قومی اور علاقائی سطح پر ایسے منصوبے اور سرگرمیاں منعقد کرے جو نوجوانوں کا اعتماد بڑھانے اور حوصلہ افزا ہو۔ علاقائی سطح پر ایسی یونینز کا قیام، ادبی سوسائٹی کی بنیاد، فنون لطیفہ سے جڑی سرگرمیوں کا انعقاد کرے جو نوجوان طبقہ کی صلاحیتیوں کو سامنےلانے میں معاون ہو۔
اگر آپ واقعی پاکستان سے محبت کرتے ہیں تو یہ ضروری ہے کہ آپ اس کا عملی ثبوت بھی دیں اور ملک کی ترقی اور فلاح میں اپنا بھر پور حصہ ڈالیں اور اپنی جانب سے پوری عملی کوشش کریں۔ تسلیم کیا کہ جہاں پاکستان بھر کے تمام افراد دہشتگردی، بدعنوانی اور معاشرتی ناہمواریوں سے متاثر ہیں۔ وہیں نوجوانوں کی حوصلہ شکنی کا بھی تمام سامان موجود ہے، لیکن انہی حالات میں پہلے خود سنبھلنا اور پاکستان کو سنبھالنا ہی نوجوانوں کا اصل امتحان ہے۔ پھر کچھ ایسی ہی صورتحال حقیقت میں نظر بھی آتی ہے جہاں کھیل سے لیکر اعلیٰ تعلیم کا حصول ہو، فیشن انڈسٹری ہو یا زراعت ہر شعبے میں زندہ دل، ہاہمت اور باکمال نوجوان اپنا اور ملک کا نام روشن کررہے ہیں۔ نامساعد حالات میں بھی عزم و حوصلے سے اپنی منزل کا سراغ پا رہے ہیں۔ ایسے ہی نوجوان پاکستان کا سرمایہِ افتخار ہیں اور پوری قوم کیلئے تابندہ مثال ہیں کہ اگر کچھ پانے کی لگن ہو تو راستے کی مشکلات کو نظر انداز کرنا ہوتا ہے۔
اگر آپ پاکستان سے محبت کرتے ہیں اور اس محبت کا قرض اتارتے ہوئے اس سرزمین کی ترقی کے لئے سرگرم عمل ہیں تو بہترین ہے، لیکن اگر کہیں آپ اس معاشرے کی تلخ حقیقتوں سے شناسائی کے بعد بد دل ہورہے ہیں تو اس فکر کو ختم کیجئے اور نئے عزم کے ساتھ سفر کا آغاز کیجئے، کیونکہ ان ناہمواریوں کا خاتمہ اور شعور یافتہ قوم کی تشکیل ہی تو پاکستان کا اصل ہدف ہے۔ اگر آپ کو شکایت ہے کہ آپ کو اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے مواقع میسر نہیں تو حالات سے نبرد آزما ہوجائیے کیونکہ نظام میں بہتری ہی تعمیرِ پاکستان کی جانب پہلا قدم ہے۔
اگر حقیقت کا جائزہ لیا جائے تو تعلیم کا دہرا معیار، طبقاتی فرق اور طاقت کے بل بوتے پر داخلہ حاصل کرنا اور ڈگریوں کا حصول یقینی طور پر ان نوجوان طالب علموں کیلئے حوصلہ شکن ہے، جو محنت پر یقین کرتے ہوئے آگے بڑھنے کے قائل ہیں۔ سیاسی اثر ورسوخ پر داخلہ حاصل کرنا اور نقل کلچر جیسی نا انصافیوں پر کڑھ کڑھ کر ہی سہی لیکن علم کی جستجو کو اپنا نصب العین بناتے ہوئے، اپنی قابلیت کے بل بوتے پر ڈگری حاصل کیجئے کیونکہ معاشرے کے جو خدوخال بگڑ کر اس نہج تک آپہنچے ہیں اُن کا علاج تعلیم اور خواندہ معاشرہ ہے۔ اگر ہر نوجوان اپنی جگہ یہی عہد کرے تو کوئی تعجب نہیں کہ روشنیاں پاکستان کا مقدر ہوں۔
اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود نوجوانوں کی بیشتر تعداد بے روزگار دکھائی دیتی ہے یا نوکری کیلئے ان سے تجربہ کی سند طلب کر لی جاتی ہے جو کہ یقیناً مضحکہ خیز ہے، جب تک نوکری ملے گی نہیں تجربہ کہاں سے آئیگا؟ اس کے علاوہ سفارش جیسی معاشرتی برائی کے سبب بھی نوجوان اپنے متعلقہ شعبوں میں نوکری کے حصول میں ناکامی کے بعد دل برداشتہ نظر آتے ہیں، اور کوشش کرتے ہیں کہ وطن عزیز سے دیارِ غیر کوچ کر جائیں اور قسمت آزمائیں۔ اس ماحول اور فکر نے پاکستان کی طاقت، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے حامل نوجوان جوکہ اس ملک کی سب سے بڑی ضرورت ہیں کو وطن سے محروم کردیا ہے۔ اگر آپ کو یہ نظام پسند نہیں تو اس کو تبدیل کرنے کی ٹھان لیجئے کیونکہ اگر آپ اس نظام کو درست نہیں کریں گے تو آپ نے بھی اس ملک کے ساتھ انصاف نہیں کیا کیونکہ آپ کی صلاحیتوں اور قابلیت کی ضرورت پاکستان کو ہے۔
لہذا آپ جس شعبے میں ہیں محنت سے اپنے فرائض ادا کیجئے پوری دیانت داری کیساتھ، آپ زراعت سے منسلک ہیں تو نت نئی ٹیکنالوجیز اور تحقیقات کو آزماتے ہوئے آپ پہلے سے بہتری اور پھر مزید بہتری کی جانب آسکتے ہیں، اور اگر آپ کسی اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں تو بھی دیانت داری کے ساتھ اپنے اختیارات کا جائز استعمال اور لگن آپ کے ادارے کی ترقی، آپ کے مستقبل کے ساتھ ملک کے وقار میں اضافے کی بھی ضامن ہے۔
تو اس ملک کے نظام اور معاشرہ کی نا قدری پر افسوس کرنا ترک کرتے ہوئے پاکستان کی بقا کیلئے اٹھ کھڑے ہوں اور اپنی طاقت پر یقین رکھتے ہوئے فرسودہ نظام کی تبدیلی اور بہتری کے لئے صف آرا ہوجائیے اور اس کے لئے سب سے اہم بات ہے یہ کہ تمام نوجوان اپنے متعلقہ شعبوں میں رہتے ہوئے اپنے کام کو پوری ایمانداری سے ادا کریں اور اپنی ذمہ داریوں کو معمولی نہ سمجھیں بلکہ ان کے ساتھ مکمل انصاف کرتے ہوئے بہترین طور پر انجام دیں تو ترقی یافتہ پاکستان خواب نہیں بلکہ حقیقت بن جائے گا۔ اگر آپ غور کریں تو عبد الستار ایدھی صاحب اور ڈاکٹر ادیب الحسن جیسے ہزاروں پاکستانی نظر آئیں گے جنہوں نے اپنی جوانی ایک عظیم مقصد کی نذر کردیں اور دنیا کی ناقدری اور منفی رویوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے مقصد کی تکمیل میں کچھ اس طرح سرگرم ہوئے کہ دنیا سے منوادیا کہ انسانیت کو ناز ہے ان افراد پر۔
تو نوجوانوں کو بس اپنا مقصد کا حصول واضح رکھتے ہوئے انتھک محنت کرنی ہے تاکہ ایک ایسے پاکستان کی تعمیر ممکن ہوسکے جس پر دنیا ناز کرے اور اس کے ساتھ حکومت سے گذارش ہے کہ وہ حالیہ دہشت گردی کے واقعات کے بعد ماحول سے مایوسی ختم کرنے اور نوجوانوں کی حوصلہ افزائی اور مستقبل کے لئے قومی اور علاقائی سطح پر ایسے منصوبے اور سرگرمیاں منعقد کرے جو نوجوانوں کا اعتماد بڑھانے اور حوصلہ افزا ہو۔ علاقائی سطح پر ایسی یونینز کا قیام، ادبی سوسائٹی کی بنیاد، فنون لطیفہ سے جڑی سرگرمیوں کا انعقاد کرے جو نوجوان طبقہ کی صلاحیتیوں کو سامنےلانے میں معاون ہو۔
[poll id="910"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔