عمران سے بد سلوکی
جب ہمارے شہریوں کی ملک کے اندر کوئی عزت نہیں کی جائے گی تو باہر والے کیونکر کریں گے
کینیڈا سے امریکا آتے ہوئے عمران کو پوچھ گچھ کا نشانہ بنایا گیا۔اس تفتیش کی وجہ سے ان کی طے شدہ پرواز نکل گئی اور امریکا میں ایک تقریب کے مہمان بھی مضطرب انداز میں عمران کے منتظر رہے۔
عمران کا یہ بیرونی سفر فنڈ ریزنگ کے سلسلے میں تھا جس میں رخنہ ڈال دیا گیا۔تفتیش کاروں کا اصل مقصد کیا تھا، وہ کسی کو معلوم نہیں ہو سکا ،اگر وہ ڈرون حملوں پر عمران خاں کا موقف جاننا چاہتے تھے تو یہ موقف کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، عمران نے تو کھل کر ڈرون حملوں کی مخالفت کی ہے اور ان کے خلاف ایک با قاعدہ احتجاج بھی کیا ہے۔وہ وہاں گئے جہاں جاتے ہوئے بہت سوں کے پر جلتے ہیں۔عمران خاں کا کہنا ہے کہ ایک تو ڈرون حملے پاکستان کی خود مختاری کی دھجیاں اڑا رہے ہیں، دوسرے ان میں بے گناہ بھی مارے جاتے ہیں ، ایسے لوگ جن کا دہشت گردی کی جنگ سے کوئی تعلق نہیں ، ان میں چھوٹی عمر کے بچے اور گھریلو خواتین شامل ہوتی ہیں۔
تیسرے ڈرون حملوں کے رد عمل میں دہشت گردی کا دائرہ وسیع ہوتا ہے اور جرم بے گناہی میں مارے جانے والوں کے رشتے دار ان کے رد عمل میں انتقام پر اتر آتے ہیں۔وہ اپنا غصہ پاکستان پر اتارتے ہیں کیونکہ ان کا خیال یہ ہے کہ ڈرون حملے پاکستان کی تائید اور منظوری سے ہوتے ہیں۔عمران خان نیٹو سپلائی کو روکنے کے لیے بھی دھرنا دے چکے ہیں ، دہشت گردی کے موضوع پر عمران خان نے اپنی خود نوشت میں کھل کر بحث کی ہے، وہ دہشت گردی کے ہر گز حامی نہیں لیکن اس کے پھیلائو کی ذمے داری امریکا ، نیٹو اور پاکستان پر ضرور ڈالتے ہیں۔
ان واضح خیالات کے ہوتے ہوئے کینیڈا میں امیگریشن حکام نے انھیں کیوں روکا، اس کی وجہ سمجھ سے بالاتر ہے۔امریکی حکام نے جو وضاحتیں جاری کی ہیں ، ان میں بھی عمران خاں کے کسی گناہ کا ذکر نہیں کیا گیا البتہ یہ کہا گیا کہ انھیں روکا گیا تو لازمی کوئی وجہ ہو گی مگر اب انھیں امریکا میں خوش آمدید کہتے ہیں۔ پاکستان میں ایک مریکی سفارتی اہل کار نے کہا ہے کہ ڈرون حملوں میں بے گناہ نہیں مرتے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکا کو نہ عمران خاں کے احتجاج کی پروا ہے، نہ پاکستانی پارلیمنٹ کی منظور کردہ قراردادوں کا کوئی لحاظ ہے اور وہ اپنی اڑی پر قائم ہے۔
بہر حال اگر عمران کے موقف پر امریکا کو کوئی اعتراض تھا تو وہ سرے سے ان کو ویزہ ہی نہ دیتا، آخر برطانیہ نے بھی تو دنیا کی ہر ایئر لائن کو خبرادر کر دیا ہے کہ وہ حاجی غلام احمد بلور کو برطانیہ نہ لائیں۔اسی طرح کی وارننگ عمران خان کے بارے میں بھی جاری کی جا سکتی ہے کہ وہ امریکا کے خلاف بیانات دیتے ہیں تو ادھر کا رخ ہی نہ کریں، ویسے آہستہ آہستہ امریکا کو ایسی وارننگ ہر مسلمان کے بارے میں جاری کرنا پڑ سکتی ہے کیونکہ ایئر پورٹوں پر جو سلوک روا رکھا جا تا ہے ، اس سے تو بہتر ہے کہ کسی مسلمان کو ویزہ ہی جاری نہ کیا جائے۔
نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ جنرل مشرف امریکا گئے تھے تو ان کے ساتھ میجر جنرل راشد قریشی بھی تھے، یہ دورہ بھی سرکاری تھا، پھر بھی واشنگٹن ایئر پورٹ پر مشرف صاحب کی جوتیاں اتروا کر تلاشی لی گئی اور وہ وہیں چیخ اٹھے کہ آیندہ امریکا نہیں آئوں گا، پتہ نہیں وہ پھر کبھی گئے یا نہ گئے لیکن امریکا نے اس بد سلوکی پر کوئی معذرت نہیں کی جب کہ ایک بھارتی وزیر دفاع میکسیکو کے راستے امریکا آئے تو ان کے ساتھ یہی بد سلوکی روا رکھی گئی، بھارت شاید ہم سے زیادہ عزت دار ملک ہے ، اس کی حکومت نے امریکا سے شدید احتجاج کیا اور امریکا کو اس بدسلوکی پر باقاعدہ سرکاری سطح پر معذرت کرنا پڑی ، اس کے باوجود بھارتی وزیر خارجہ نے کہا کہ وہ آیندہ امریکا کا رخ نہیں کریں گے۔
عمران خان نے بھی کہا ہے کہ یہ میری نہیں ، پاکستان کی بے عزتی ہے لیکن پاکستان میں تو عمران کی بے عزتی پر خوشی کا اظہار کیا گیا ہے حالانکہ آج خوش ہونے والے کل کو امریکا کے ہاتھوں اسی بد سلوکی کا نشانہ بن سکتے ہیں۔عمران نے یہ بھی کہا ہے کہ جب ہمارے شہریوں کی ملک کے اندر کوئی عزت نہیں کی جائے گی تو باہر والے کیونکر کریں گے۔ملک کے اندر واقعی کسی کی عزت ملحوظ نہیں رکھی جاتی۔ ہمارا میڈیا لوگوں کے جس طرح کپڑے اتارتا ہے، اس طرح تو امریکیوں نے مسلمانوں کو اپنے ایئر پورٹوں پر کبھی ننگا نہیں کیا ہوگا۔ہماری اپوزیشن کی جو زبان ہے، وہ ہوم لینڈسیکیورٹی والے کوشش کے باوجود استعمال نہیں کر سکتے، ہر لیڈر دوسرے کو صیغہ واحد غائب میں مخاطب کرتا ہے،چور اچکے، ٹھگ،لٹیرے نجانے کن کن القابات سے یاد کیا جاتا ہے، مخالف کو چوک میں پھانسی دینے کے عزم کا اعلان کیا جاتا ہے۔
میں یہاں عمران خان کا کیس ہی زیر بحث لانے کا ارادہ رکھتا ہوں، عمران کا قصور کیا ہے، سیاست میں حصہ لینا ، کیا عمران واحد شخص ہے جو اس گناہ کا ارتکاب کر رہاہے۔ کیا باقی سیاستدان فرشتوں کے ساتھ تسبیح و تحلیل میں مشغول رہتے ہیں۔کیا عمران کا گناہ یہ ہے کہ وہ تبدیلی کی بات کرتا ہے تو کیا جنرل ضیاالحق کا بنایا ہوا نظام اتنا ہی مقدس ہے کہ اس کو تبدیل کرنے کی خواہش کا اظہار بھی نہیں کیاجا سکتا۔اب تو اس نظام سے سڑاند اٹھنے لگی ہے۔تیس برس سے جاری اس نظام نے لوگوں کو اندھیرا دیا، بیماریاں دیں،بے روزگاری دی، مہنگائی دی، خود کشیوں پر مجبور کیا۔امریکا میں ہر چار سال بعد تبدیلی کا نعرہ بلند ہوتا ہے اور کم از کم آٹھ سال بعد تبدیلی آہی جاتی ہے۔
پاکستان کے چند چہرے ہی صادق اور امین کیسے ہو گئے، کیا انھوں نے کوئی ٹینڈر بھر رکھا ہے کہ ان کے سوا کوئی اور صادق اور امین نہیں ہو سکتا۔بعض لوگ گلہ کرتے ہیں کہ عمران کے نوجوان گالیاں دیتے ہیں ، سخت نتائج کی دھمکیاں دیتے ہیں تو کونسی جماعت کے نوجوان اس صفت سے بہرہ مند نہیں ، یہاں تو وہ نوجوان بھی ہیں جنہوں نے ایک ہی روز میں دو قومی اخبارات کے دفتر جلائے تھے، یہاں ایسے نوجوانوں سے بھی پالا پڑتا ہے جو برملا کہتے ہیں کہ آیندہ اقتدار ملا تو تمہاری دوسری ٹانگ بھی توڑ ڈالیں گے، پہلی ٹانگ کارگل کی جنگ کے دوران توڑی گئی تھی۔
تو پھر اکیلے عمران کے نوجوانوں سے کیا گلہ، نوجوانوں سے گلہ ہو بھی کیسے سکتا ہے ، وہ نوجوان ہی کیا ہوا جس کی رگوں میں خون جوش نہیں مارتا۔اور عمران اگر پچھلے سال اکتوبر تک کسی گناہ کامرتکب نہیں تھا، وہ قوم کا ہیرو تھا، اس نے کرکٹ کا ورلڈ کپ جیت کر دیا تھا، اس نے کینسر اسپتال کی تعمیر کا معجزہ انجام دیا تھا، اس نے میانوالی کے سنگلاخ ویرانوں میں نمل یونیورسٹی کاشجر سایہ دار لگایا تھا۔اور وہ دنیا بھر میں پاکستان کی پہچان تھا۔میں 1990 میں فلوریڈا کے جوس بنانے کے ایک چھوٹے سے کارخانے میں گیا تھا اور وہاں ایک محنت کش کو معلوم ہوا کہ پاکستان سے آیا ہوں تو اس نے یہ کہہ کر کہ عمران خان کا دیس، اور مجھے والہانہ طورپر اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔یہ عزت عمران نے پاکستان کو اور اس کے شہریوں کو دی تھی۔مگر جس دن اس نے اسٹیٹس کو کے علم برداروں کو للکارا تو راتوں رات وہ ہیرو سے زیرو میں تبدیل کر دیا گیا۔یہ کارزار سیاست ہے ، یہاں پگڑی اچھلتی ہے، مگرچوہدری شجاعت نے صحیح کہا ہے کہ یہ میدان ہے اور یہ گھوڑے ہیں ، آیئے، اس کھیل کے انجام کی طرف بڑھیں۔مگر پہلے ہتھ جوڑی!!!
عمران کا یہ بیرونی سفر فنڈ ریزنگ کے سلسلے میں تھا جس میں رخنہ ڈال دیا گیا۔تفتیش کاروں کا اصل مقصد کیا تھا، وہ کسی کو معلوم نہیں ہو سکا ،اگر وہ ڈرون حملوں پر عمران خاں کا موقف جاننا چاہتے تھے تو یہ موقف کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، عمران نے تو کھل کر ڈرون حملوں کی مخالفت کی ہے اور ان کے خلاف ایک با قاعدہ احتجاج بھی کیا ہے۔وہ وہاں گئے جہاں جاتے ہوئے بہت سوں کے پر جلتے ہیں۔عمران خاں کا کہنا ہے کہ ایک تو ڈرون حملے پاکستان کی خود مختاری کی دھجیاں اڑا رہے ہیں، دوسرے ان میں بے گناہ بھی مارے جاتے ہیں ، ایسے لوگ جن کا دہشت گردی کی جنگ سے کوئی تعلق نہیں ، ان میں چھوٹی عمر کے بچے اور گھریلو خواتین شامل ہوتی ہیں۔
تیسرے ڈرون حملوں کے رد عمل میں دہشت گردی کا دائرہ وسیع ہوتا ہے اور جرم بے گناہی میں مارے جانے والوں کے رشتے دار ان کے رد عمل میں انتقام پر اتر آتے ہیں۔وہ اپنا غصہ پاکستان پر اتارتے ہیں کیونکہ ان کا خیال یہ ہے کہ ڈرون حملے پاکستان کی تائید اور منظوری سے ہوتے ہیں۔عمران خان نیٹو سپلائی کو روکنے کے لیے بھی دھرنا دے چکے ہیں ، دہشت گردی کے موضوع پر عمران خان نے اپنی خود نوشت میں کھل کر بحث کی ہے، وہ دہشت گردی کے ہر گز حامی نہیں لیکن اس کے پھیلائو کی ذمے داری امریکا ، نیٹو اور پاکستان پر ضرور ڈالتے ہیں۔
ان واضح خیالات کے ہوتے ہوئے کینیڈا میں امیگریشن حکام نے انھیں کیوں روکا، اس کی وجہ سمجھ سے بالاتر ہے۔امریکی حکام نے جو وضاحتیں جاری کی ہیں ، ان میں بھی عمران خاں کے کسی گناہ کا ذکر نہیں کیا گیا البتہ یہ کہا گیا کہ انھیں روکا گیا تو لازمی کوئی وجہ ہو گی مگر اب انھیں امریکا میں خوش آمدید کہتے ہیں۔ پاکستان میں ایک مریکی سفارتی اہل کار نے کہا ہے کہ ڈرون حملوں میں بے گناہ نہیں مرتے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکا کو نہ عمران خاں کے احتجاج کی پروا ہے، نہ پاکستانی پارلیمنٹ کی منظور کردہ قراردادوں کا کوئی لحاظ ہے اور وہ اپنی اڑی پر قائم ہے۔
بہر حال اگر عمران کے موقف پر امریکا کو کوئی اعتراض تھا تو وہ سرے سے ان کو ویزہ ہی نہ دیتا، آخر برطانیہ نے بھی تو دنیا کی ہر ایئر لائن کو خبرادر کر دیا ہے کہ وہ حاجی غلام احمد بلور کو برطانیہ نہ لائیں۔اسی طرح کی وارننگ عمران خان کے بارے میں بھی جاری کی جا سکتی ہے کہ وہ امریکا کے خلاف بیانات دیتے ہیں تو ادھر کا رخ ہی نہ کریں، ویسے آہستہ آہستہ امریکا کو ایسی وارننگ ہر مسلمان کے بارے میں جاری کرنا پڑ سکتی ہے کیونکہ ایئر پورٹوں پر جو سلوک روا رکھا جا تا ہے ، اس سے تو بہتر ہے کہ کسی مسلمان کو ویزہ ہی جاری نہ کیا جائے۔
نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ جنرل مشرف امریکا گئے تھے تو ان کے ساتھ میجر جنرل راشد قریشی بھی تھے، یہ دورہ بھی سرکاری تھا، پھر بھی واشنگٹن ایئر پورٹ پر مشرف صاحب کی جوتیاں اتروا کر تلاشی لی گئی اور وہ وہیں چیخ اٹھے کہ آیندہ امریکا نہیں آئوں گا، پتہ نہیں وہ پھر کبھی گئے یا نہ گئے لیکن امریکا نے اس بد سلوکی پر کوئی معذرت نہیں کی جب کہ ایک بھارتی وزیر دفاع میکسیکو کے راستے امریکا آئے تو ان کے ساتھ یہی بد سلوکی روا رکھی گئی، بھارت شاید ہم سے زیادہ عزت دار ملک ہے ، اس کی حکومت نے امریکا سے شدید احتجاج کیا اور امریکا کو اس بدسلوکی پر باقاعدہ سرکاری سطح پر معذرت کرنا پڑی ، اس کے باوجود بھارتی وزیر خارجہ نے کہا کہ وہ آیندہ امریکا کا رخ نہیں کریں گے۔
عمران خان نے بھی کہا ہے کہ یہ میری نہیں ، پاکستان کی بے عزتی ہے لیکن پاکستان میں تو عمران کی بے عزتی پر خوشی کا اظہار کیا گیا ہے حالانکہ آج خوش ہونے والے کل کو امریکا کے ہاتھوں اسی بد سلوکی کا نشانہ بن سکتے ہیں۔عمران نے یہ بھی کہا ہے کہ جب ہمارے شہریوں کی ملک کے اندر کوئی عزت نہیں کی جائے گی تو باہر والے کیونکر کریں گے۔ملک کے اندر واقعی کسی کی عزت ملحوظ نہیں رکھی جاتی۔ ہمارا میڈیا لوگوں کے جس طرح کپڑے اتارتا ہے، اس طرح تو امریکیوں نے مسلمانوں کو اپنے ایئر پورٹوں پر کبھی ننگا نہیں کیا ہوگا۔ہماری اپوزیشن کی جو زبان ہے، وہ ہوم لینڈسیکیورٹی والے کوشش کے باوجود استعمال نہیں کر سکتے، ہر لیڈر دوسرے کو صیغہ واحد غائب میں مخاطب کرتا ہے،چور اچکے، ٹھگ،لٹیرے نجانے کن کن القابات سے یاد کیا جاتا ہے، مخالف کو چوک میں پھانسی دینے کے عزم کا اعلان کیا جاتا ہے۔
میں یہاں عمران خان کا کیس ہی زیر بحث لانے کا ارادہ رکھتا ہوں، عمران کا قصور کیا ہے، سیاست میں حصہ لینا ، کیا عمران واحد شخص ہے جو اس گناہ کا ارتکاب کر رہاہے۔ کیا باقی سیاستدان فرشتوں کے ساتھ تسبیح و تحلیل میں مشغول رہتے ہیں۔کیا عمران کا گناہ یہ ہے کہ وہ تبدیلی کی بات کرتا ہے تو کیا جنرل ضیاالحق کا بنایا ہوا نظام اتنا ہی مقدس ہے کہ اس کو تبدیل کرنے کی خواہش کا اظہار بھی نہیں کیاجا سکتا۔اب تو اس نظام سے سڑاند اٹھنے لگی ہے۔تیس برس سے جاری اس نظام نے لوگوں کو اندھیرا دیا، بیماریاں دیں،بے روزگاری دی، مہنگائی دی، خود کشیوں پر مجبور کیا۔امریکا میں ہر چار سال بعد تبدیلی کا نعرہ بلند ہوتا ہے اور کم از کم آٹھ سال بعد تبدیلی آہی جاتی ہے۔
پاکستان کے چند چہرے ہی صادق اور امین کیسے ہو گئے، کیا انھوں نے کوئی ٹینڈر بھر رکھا ہے کہ ان کے سوا کوئی اور صادق اور امین نہیں ہو سکتا۔بعض لوگ گلہ کرتے ہیں کہ عمران کے نوجوان گالیاں دیتے ہیں ، سخت نتائج کی دھمکیاں دیتے ہیں تو کونسی جماعت کے نوجوان اس صفت سے بہرہ مند نہیں ، یہاں تو وہ نوجوان بھی ہیں جنہوں نے ایک ہی روز میں دو قومی اخبارات کے دفتر جلائے تھے، یہاں ایسے نوجوانوں سے بھی پالا پڑتا ہے جو برملا کہتے ہیں کہ آیندہ اقتدار ملا تو تمہاری دوسری ٹانگ بھی توڑ ڈالیں گے، پہلی ٹانگ کارگل کی جنگ کے دوران توڑی گئی تھی۔
تو پھر اکیلے عمران کے نوجوانوں سے کیا گلہ، نوجوانوں سے گلہ ہو بھی کیسے سکتا ہے ، وہ نوجوان ہی کیا ہوا جس کی رگوں میں خون جوش نہیں مارتا۔اور عمران اگر پچھلے سال اکتوبر تک کسی گناہ کامرتکب نہیں تھا، وہ قوم کا ہیرو تھا، اس نے کرکٹ کا ورلڈ کپ جیت کر دیا تھا، اس نے کینسر اسپتال کی تعمیر کا معجزہ انجام دیا تھا، اس نے میانوالی کے سنگلاخ ویرانوں میں نمل یونیورسٹی کاشجر سایہ دار لگایا تھا۔اور وہ دنیا بھر میں پاکستان کی پہچان تھا۔میں 1990 میں فلوریڈا کے جوس بنانے کے ایک چھوٹے سے کارخانے میں گیا تھا اور وہاں ایک محنت کش کو معلوم ہوا کہ پاکستان سے آیا ہوں تو اس نے یہ کہہ کر کہ عمران خان کا دیس، اور مجھے والہانہ طورپر اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔یہ عزت عمران نے پاکستان کو اور اس کے شہریوں کو دی تھی۔مگر جس دن اس نے اسٹیٹس کو کے علم برداروں کو للکارا تو راتوں رات وہ ہیرو سے زیرو میں تبدیل کر دیا گیا۔یہ کارزار سیاست ہے ، یہاں پگڑی اچھلتی ہے، مگرچوہدری شجاعت نے صحیح کہا ہے کہ یہ میدان ہے اور یہ گھوڑے ہیں ، آیئے، اس کھیل کے انجام کی طرف بڑھیں۔مگر پہلے ہتھ جوڑی!!!