شاہ عنایت چشمۂ عشق پر وضو کیا
شاہ عنایت ان صوفیوں میں سے نہیں تھے جو دھونی رما کر کسی ایک جگہ بیٹھ جاتے ہیں
ISLAMABAD:
سندھ ایک قدیم اور ناقابل تقسیم خطہ ارض اور عظیم تاریخ کا وارث ہے۔ موئن جودڑو سے جو کہانی شروع ہوئی، وہ اکیسویں صدی تک آتے آتے ایک شاندار داستان بن گئی ہے۔ ہمالیہ کی بلندیوں سے نکلنے والا سندھو دریا جہاں سے گزرتا ہے ہریالی اور خوش حالی بانٹتا ہوا چلتا ہے، اس کے چوڑے پاٹ کی طرح وسیع المشربی اور دریا دلی سندھ اور سندھ کے رہنے والوں کا طرۂ امتیاز ہے۔
یہاں بدھ مت کے ماننے والوں کا ڈیرا بسیرا رہا ہے اور یہیں صدیوں تک ہندومت اور اسلام ایک دوسرے کی بانھوں میں بانھیں ڈال کر رہے ہیں۔ سیکیولرازم ایک ایسا لفظ ہے جس سے سندھی سماج ناواقف ہونے کے باوجود سیکڑوں برس سے سیکیولر رہا ہے۔ اس کے بغیر رواداری اور وسیع المشربی ممکن ہی نہیں تھی۔ اسی طرح کمیونزم جو ایک جدید سیاسی اصطلاح ہے، اس کا تجربہ سندھ میں اب سے 300 برس پہلے کیا گیا اور اس شخص نے کیا جو 'کمیون' کے لفظ سے ناواقف تھا، اس کا نام شاہ عنایت تھا جو بعد میں شاہ عنایت شہید کہلایا اور جس کی یاد منانے ہم یہاں جمع ہوئے ہیں۔
شاہ عنایت ان صوفیوں میں سے نہیں تھے جو دھونی رما کر کسی ایک جگہ بیٹھ جاتے ہیں۔ شاہ عنایت نے پہلے اپنے عالم و فاضل والد کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیا، اس کے بعد ملتان گئے اور اس عہد کے ایک جید عالم شیخ شمس الدین ملتانی کی شاگردی اختیار کی۔ وہاں کچھ وقت گزار کر اور اپنے سینے کو علم سے منور کر کے انھوں نے ہندوستان کا رخ کیا۔ مختلف شہروں میں پھرتے ہوئے اور عام انسان کی زندگی کا مشاہدہ کرتے ہوئے، عالموں کی صحبت سے فیضیاب ہوتے ہوئے وہ حیدر آباد دکن میں بیجاپور پہنچے اور شاہ عبدالملک کی شاگردی اختیار کی۔
وہاں انھوں نے علم کے دریا کی شناوری کی اور اس کے ساتھ ہی دربار سرکار کو قریب سے دیکھا۔ کئی برس وہاں گزار کر جب استاد سے رخصت ہونے لگے تو روایت کے مطابق استاد نے شاگرد کو سند اور خلعت عطا کی۔ شاہ عنایت نے استاد کی دی ہوئی چیزوں کو سر آنکھوں پر رکھا لیکن استاد سے ان کی شمشیر آب دار بھی مانگ لی، استاد نے اپنی شمشیر شاہ عنایت کو عطا کی۔ اس وقت شاہ کے ذہن میں بھی نہ تھا کہ اسی تلوار سے ان کا سر اتارا جائے گا۔ وہ دلی گئے جو اس زمانے میں شاہجہاں آباد کہلاتا تھا، افغانستان اور عراق سے ہوتے ہوئے بارہ برس بعد سندھ لوٹے اور ٹھٹھہ میں پڑاؤ کیا۔
ایران کے سفر نے انھیں مزدک و مانی کی باغیانہ اور انسان دوست تحریکوں سے روشناس کرایا۔ اپنے وسیع مطالعے اور تاریخ میں درج ہونے والی بغاوتوں کو جانتے اور سمجھتے ہوئے وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ بادشاہ، عامل، ملّا اور جاگیرداروں کی گٹھ بندی سندھ کے کسان کی عزت نفس کو چاٹ رہی ہے اور اس کو بھوک سے دوچار کر رہی ہے۔ اس کی خون پسینے کی کمائی دوسروں کے گھروں میں رونق اور عیش و عشرت کا سبب ہے جب کہ کسان اور اس کی آل اولاد کا مقدر بھوک، افلاس اور بیگار ہے۔
شاہ عنایت نے جو کچھ پڑھا تھا، تاریخ کی جتنی بغاوتیں ان کی نگاہ میں تھیں، حکمرانوں کے جو ظلم و ستم کسانوں کی پشت پر تحریر ہو رہے تھے اور گزرے ہوئے جتنے انقلابیوں کی زندگی سے وہ واقف تھے، اس نے انھیں اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ اپنے اردگرد کے کسانوں کو اکٹھا کریں اور انھیں 'زمین اللہ جی آہے، جیکو کھیڑے سو کھائے' (زمین خدا کی ہے، جو اگائے وہ کھائے) کا نعرہ دیں۔ یہ ایک ایسا نعرہ تھا جو کسانوں نے کبھی نہیں سنا تھا۔
ٹھٹھہ جو اس زمانے میں ایک بڑا شہر تھا، انھوں نے وہاں ایک بڑے میدان میں اپنے ساتھی کسانوں کے ساتھ قیام کیا اور اجتماعی کاشت کاری کا آغاز کیا، جس میں سب کی محنت انھیں فصل میں برابر کا حق دار بناتی تھی۔ کچھ وقت وہاں گزار کر انھوں نے اپنے گاؤں کا رخ کیا۔ ان کے ساتھ ہزاروں کسان تھے۔
انھوں نے اجتماعی کھیتی (کمیون) کا طریقہ اختیار کیا جو اس زمانے کے گورنروں، جاگیرداروں، زمینداروں اور ظاہر پرست ملاؤں کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ تھا۔ اس خطرے سے نمٹنے کے لیے وہ تمام حربے استعمال کیے گئے جو اہل اقتدار ہمیشہ سے کرتے آئے ہیں۔
یہ بات ہمارے لیے ایک اعزاز سے کم نہیں ہے کہ اب سے تین سو برس پہلے سندھ کے جامد سماج میں صوفی شاہ عنایت نے انقلاب فرانس اور مارکس ازم کے ظہور سے بہت پہلے اجتماعی کھیتی یا کمیون کا تصور پیش کیا تھا۔ انھوں نے انسان دوستی کے فروغ کی بات کی اور یہ نعرہ لگایا کہ جو بوئے وہ کھائے۔ وہ مذہبی، مسلکی اور نسلی تفریق کے قائل نہیں تھے۔
تب ہی ان کے مرید کسانوں میں اردگرد کے ہندو اور بودھ مت کے لوگ بھی شامل ہوئے۔ ان لوگوں نے جھوک کے محاصرے کے دوران گورنر ٹھٹھہ اعظم خان کے لشکریوں سے جنگ کی اور اس جنگ میں جو خون بہا وہ مسلمانوں، ہندوؤں اور بودھوں کا تھا۔ عوام کے اتحاد اور ایکتا کی یہ ایک خوبصورت مثال تھی۔ سیکولر بنیادوں پر شاہ شہید کے خوابوں کے سماج کی تعبیر کا خواب پورا نہ ہو سکا۔ لیکن یہ خواب تاریخ میں سفر کرتا رہا اور آج ہم تک آیا ہے۔ سندھ کے صوفی، کثیر المشرب، روادار اور سیکولر سماج کا یہ تانا بانا، شاہ شہید عنایت، شاہ لطیف سے شیخ ایاز تک ایسے ہی خیالات اور عملی جدوجہد نے بُنا ہے۔
شاہ عنایت صوفی کی تعلیمات، تنگ نظری اور مذہبی انتہاپسندی کے خلاف ایک کھلا چیلنج تھیں۔ ملاؤں اور پیروں نے شریعت و طریقت کو اپنے استحصال و اقتدار کا کھلونا بنا رکھا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ صوفی عنایت جیسے بزرگ کو اس تصنع اور ڈھونگ کے خلاف کھلی بغاوت کا اعلان کرنا پڑا۔ وہ سندھ کے سماج میں ایک ایسا انقلاب لانا چاہتے تھے کہ جو اس عہد کے تسلیم شدہ نظریوں، دستوروں اور قوانین کی بیخ کنی کے مترادف تھا۔ اسی وجہ سے اس دور کے وڈیروں، مولویوں، پیروں اور حکمرانوں کا ان سے خائف ہونا فطری امر تھا۔
شاہ عنایت کے قتل کا جب فتویٰ حاصل کیا گیا تو اس کے جواز میں ان کے گناہ یوں گنوائے گئے:
٭ وہ اس وقت کے ملاؤں کے اعتقادات نیز پیران وقت کے پیری مریدی کے کاروبار کو جائز تسلیم نہیں کرتے تھے اور آزاد خیالی کی تبلیغ کرتے تھے۔ ٭ مذہبی فرقہ بندیوں کو ختم کر کے آزاد خیالی کے رشتہ کی بنیاد پر بلاتفریق مذہب و فرقہ، ذات و طبقہ انھوں نے اپنی جماعت بنائی جس سے اس وقت کے مذہبی اثرات و اقتدار کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ محسوس کیا گیا۔ ٭ اپنی جماعت کے لوگوں کے لیے انھوں نے جو لباس مقرر کیا اس کا رنگ ہندو سنیاسیوں یا بدھ دھرم کے بھکشوؤں اور لاماؤں کے لباس کے رنگ جیسا یعنی گیروا تھا۔
اس رنگ و لباس سے مولوی اور ملا خاص طور پر تعصب رکھتے تھے۔ ٭ صوفی صاحب کی جماعت کے لوگوں نے حکومت وقت کو مالیانہ دینے سے انکار کیا تھا۔ ٭ شاہ صاحب کا خیال تھا کہ لوگوں کے ذاتی اعتقادات جن کو انھوں نے غور و فکر کے بعد صداقت کے ساتھ اختیار کیا ہو، ان کے ذاتی معاملات ہیں۔ سماج اور حکومت کو اس میں دخل اندازی کا کوئی حق نہیں۔
شاہ کے دشمنوں نے ان سے نجات کے لیے ٹھٹھہ کے گورنر سے امداد طلب کی۔ گورنر اعظم خان ایک بڑا لشکر لے کر آیا۔ شاہ کے مریدین بے جگری سے لڑے۔ شاہ سے کہا گیا کہ ہم آپ کی شرائط پر صلح کر لیں گے۔ اس طرح آپ کے مریدین کی جان بچ جائے گی۔ یوں جھوک کے طویل محاصرے کے بعد قرآن کو درمیان میں لا کر صوفی عنایت شاہ سے صلح کی بات کی گئی۔
انھوں نے صلح کی تجویز منظور کر لی۔ جھوک کے پھاٹک کھول دیے گئے اور انھیں بہت عزت و احترام کے ساتھ نواب اعظم خان کے خیمے میں لے جایا گیا جہاں پہنچتے ہی انھیں ہتھکڑیاں اور بیڑیاں پہنا دی گئیں۔ قرآن کو درمیان میں لا کر جو عہد شکنی کی گئی اس کے بعد جو کچھ ہوا، اس کے بارے میں سبط حسن نے لکھا ہے کہ ''تب شاہی انتقام کی آگ نے جھوک کا رخ کیا اور فقیروں کا قتل عام شروع ہوا۔ ان کے گھر جلا دیے گئے۔ ان کا اثاثہ لوٹ لیا گیا اور بستی کی چہار دیواری مسمار کر دی گئی۔ جھوک کی اجتماعی کھیتی خون کے دریا میں ڈوب گئی۔ نہ بیج بونے والے بچے اور نہ فصل کاٹنے والے۔'' یہ سبط حسن تھے جنھوں نے شاہ شہید کو ''وادی سندھ کا پہلا سوشلسٹ صوفی'' قرار دیا۔ سبط صاحب نے بجا طور پر لکھا تھا کہ:
''یہ تحریک کسی چھوٹے سے تالاب کے بند پانی میں ایک کنکری کی موجوں سے زیادہ نہ تھی مگر ان لہروں میں طوفانی موجوں کی توانائی چھپی ہوئی تھی جو ابھر کر سامنے آئے تو پورے جاگیردارانہ نظام کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جانے کی قوت رکھتی ہے۔''
آج کے تناظر میں شاہ عنایت شہید کی جدوجہد پر نگاہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ انقلابی دہشتگرد ہرگز نہیں ہوتا وہ مظلوم انسانوں کی جان نہیں لیتا، ان کے لیے اپنی جان وار دیتا ہے۔
سید سبط حسن نے اعظم خان اور صوفی شاہ عنایت کے درمیان ہونے والا مکالمہ جو حافظ شیرازی کے اشعار سے ہوا، تفصیل سے لکھا ہے۔ وہ جب قید خانے کی طرف لے جائے جا رہے تھے تو انھوں نے دربار میں بلند آواز میں کہا:
میں نے جس چشمۂ عشق پر وضو کیا
اسی وقت ہستی کی ہر شے کو سات سلام کیا
(حیدرآباد کے سیمینار میں پڑھا گیا)