پردہ ہے پردہ
اگر ایک ہی دوا سے سارے مرض ختم ہوجاتے تو پھر یہ جگہ جگہ دکانیں کیوں کھلتیں؟
MANILA/
KABUL:
اگر ایک ہی دوا سے سارے مرض ختم ہوجاتے تو پھر یہ جگہ جگہ دکانیں کیوں کھلتیں؟ اگر ایک ہی زہر سے سارے کیڑے مرجاتے تو پھر لال بیگ اور مچھر میں کیا فرق رہتا؟ تمام جانوروں کا گوشت ایک جیسا ہوتا تو پھر پسند ناپسند کا سوال کیوں اٹھتا؟ مگر یہاں تاریخ کے سب سے زیادہ عقل مند لوگ رہتے ہیں، جو ہر مرض کا علاج ایک ہی گولی سے کرتے ہیں اور سارے خونخوار درندوں کو مارنے کے لیے بھی ایک ہی زہر کا انجکشن لگاتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارا بیمار معاشرہ اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ یہاں ہر مرض کا علاج ایک ہی ہے۔ یہاںآدم خوروں کا خاتمہ نہیں ہوپا رہا کیونکہ یہ ایک ہی طریقے سے سارے درندوں کو ہلاک کرنے پر لگے ہوئے ہیں۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ یہاں کوئی دماغ کا مریض ہے جس کے مغز میں نفرت کے سوا کچھ اور ڈالا ہی نہیں گیا ہے اور کوئی اپنے دل میں مفاد کا بوجھ لے کر گھوم رہا ہے۔ دنوں کا علاج ایک ہی دوا سے ممکن نہیں ہے۔ مگر قسمت کے مارے ہم فقیر کہاں جائیں، جو اپنا سر دیوار پر مارنے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتے ہیں۔
میں یہاں بات بندوق کی نہیں کررہا بلکہ بندوق کو چلانیوالے ہاتھ کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ میں یہاں اپنے پیاروں کے جنازوں پر سیاست نہیں کرنا چاہتا بلکہ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ بندوق کو چلانیوالے ہاتھ کے دماغ کو کس نے گولی چلانے کا حکم دیا ہے۔ ہم جس جنگ کی زد میں ہیں، اس کو جیتنے کا پہلا مرحلہ ہی یہ ہوتا ہے کہ کیسے بندوق اور ہاتھ کا فاصلہ بڑھایا جائے۔
اگر موٹی بات کو عوامی انداز میں پیش کروں تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر یہ بندوق دہشتگردی کی ہے تو اس کے پیچھے ہاتھ انتہاپسندی کا ہے۔ یہاں ہر روز بیٹھ کر دہشتگردی پر تو لمبے لمبے لیکچر دیے جاتے ہیں، لیکن کیا اس وجہ کو ڈھونڈنے کی کوشش کی گئی ہے کہ تمام تر دعوؤں کے باوجود دہشتگردوں کی بھرتی میں کوئی کمی نہیں ہوئی ہے۔ ہم نرسری ختم کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ دو لمحے کے لیے سکون کا سانس لیتے ہیں اور پھر ایک دھماکے کی وجہ سے اچھل کر بیٹھ جاتے ہیں۔
مان لیتے ہیں کہ دور جدید میں آپ نے بندوق کو ہاتھ تک پہنچانیوالے ''سہولت کار'' کا لفظ پیش کردیا ہے، مگر ابھی تک جن پر ہاتھ رکھا گیا اس میں سے اکثریت ''مالی سہولت کار'' ہیں۔ میں نے سیکڑوں لوگوں سے بات کی اور یہ بات سمجھنے کی کوشش کی کہ مالی سہولت کار تو بعد میں آتا ہے، پہلا مرحلہ تو اس بیماری کو تلاش کرنا ہے جو ان کے دماغوں میں نفرت بھردیتا ہے، یعنی کہ ذہنی سہولت کار۔ آئیے اور مجھے بتائیں کہ ان لوگوں کی تعداد کتنی ہے؟ ان میں سے کتنے لوگوں کو گرفتار کیا گیا؟ اس معاشرے کو ذہنی مریض بنانیوالے کتنے لوگوں کو اچھے ڈاکٹرز کے پاس بھیجا گیا؟ یہ لوگ ہیں کون جو ذہنی سہولت کار کے طور پر کام کرتے ہیں۔
جو ہمارے نوجوانوں کو یہ بتاتے ہیں کہ پوری دنیا تمھاری دشمن ہے۔ اور اس کا حل یہ ہے کہ تم تباہ ہو کر ان کو بھی تباہ کردو۔ یہاں پر بھی دو طرح کے افراد اور گروہ ہیں، پہلے وہ ہیں جو انھیں یہ بتاتے ہیں کہ پوری دنیا تمھاری دشمن ہے اور دوسرے وہ ہیں کہ جو انھیں تباہی کا راستہ دکھاتے ہیں۔کام پہلے والے مرحلے سے شروع ہوتا ہے، جب ایک بچے کو یہ بتایا جاتا ہے کہ دنیا بھر میں تمھارے دشمن ہیں اور تمھیں ان سب سے دور رہ کر اپنی پہچان کو قائم رکھنا ہے۔
ہمارے معاشرے میں سب سے زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جو ابتدائی طور پر ایک بچے کو نوجوان ہونے تک یہ باور کرادیتے ہیں کہ اجنبیوں کی دنیا میں وہ اکیلا ہے۔ یہ لوگ چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے، کھاتے پیتے ہر جگہ آپ کو اپنی اصلیت کی طرف لے جانے کی بات کرتے ہیں۔ یہ اسکول سے لے کر کالج اور گھر سے لے کر آفس ہر جگہ موجود ہیں۔ جو آپ کو اصل اور نقل کا فرق بتاتے ہیں۔ یہ سماجی رابطوں کے ذرایع سے لے کر سڑکوں کے کناروں تک اپنا اثر رکھتے ہیں۔
ابتدائی سطح پر بنائے گئے ان ذہنوں میں یہ بات باور کرادی جاتی ہے کہ دنیا میں ہمارا کوئی بھی نہیں ہے۔ اور سب لوگ ہمارے دشمن ہیں۔ ایک سروے کیمطابق پاکستان کے نوجوانوں کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ ہمارے ملک اور ہمارے ان حالات کی وجہ ہم نہیں، بلکہ اس کی وجہ دوسرے ہیں۔
اس ذہن سازی کے عمل کو مکمل کرنے میں جانے انجانے طور پر ہم سب لوگوں کا کردار ہوتا ہے۔ بعض اوقات اس میں ہماری نیتیں نیک ہوتی ہیں، لیکن ہم اس بات کو سمجھ نہیں پاتے کہ ہم معاشرے کو دے کیا رہے ہیں، اور جب ذہن بن جاتا ہے تو پھر اس میں سے لوگ راستے نکالتے ہیں۔ کچھ لوگ خود کو بہتر اور دوسروں کا اچھا کرنے کی مہم میں مصروف ہوجاتے ہیں، جب کہ کچھ لوگ ہماری تباہ حالی کا بدلا لینے کے لیے خود کو تباہ کرنے کے راستے پر چل نکلتے ہیں۔ انھیں سہولت کار بھی مل جاتے ہیں جو بندوق سے ہاتھ تک کا فاصلہ ختم کردیتے ہیں۔ حکومت اب تک بندوق کی بات کررہی ہے۔ ہم سب کا نشانہ بندوق ہے۔ لیکن کوئی بھی اس ہاتھ کے بننے کے عمل پر بات نہیں کرنا چاہتا۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس میں ہمارے دامن تک چھینٹ آتی ہے۔
اب بات وہیں آتی ہے جہاں سے شروع ہوئی کہ کیا ان سب کا حل یہ ہے کہ جو جہاں ملے مار دو، اور جو جہاں پکڑا جائے اسے گرفتار کرلو۔ یا پھر اس پورے معاشرے کی تھراپی کی ضرورت ہے، جو اس کے نفسیاتی مسائل کو حل کرے، یا پھر ہم وہ غلطی کریں جو تاجکستان کررہا ہے۔
تاجکستان وہ ملک ہے جو سوویت کا شیرازہ بکھر جانے کے بعد ایک آزاد ریاست کے طور پر سامنے آیا۔ تاجکستان کی تقریباً پوری آبادی یعنی 99 فیصد لوگ مسلمان ہیں۔ یہاں کے صدر امام علی رحمانوف 1994 سے اقتدار سے جڑے ہوئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ایک لمبا عرصہ سوویت یونین کے ساتھ رہنے کی وجہ سے یہاں کی اکثریت کے خیالات سیکولر ہیں۔ لیکن ایک عرصے تک کسی کے ساتھ رہنے سے نظریات اور عقائد میں فرق پڑتا تو شاید برصغیر میں اس حد تک مسلمان یا ہندو نہیںہوتے۔ خیر یہ ایک الگ بحث ہے۔
مگر کہنے کی بات یہ ہے کہ گزشتہ ایک سال میں یہ اطلاعات موصول ہوئی تھی کہ تاجکستان میں شدت پسند اور انتہاپسند تحریکیں سر اٹھا رہی ہیں اور یہ بھی کہا گیا کہ 1500 سے زیادہ لوگ شام یا عراق منتقل ہوئے ہیں۔ تاجکستان کی حکومت نے جہاں دہشت گردوں سے نمٹنا شروع کیا وہیں ایک بھونڈے انداز میں انھوں نے انتہاپسندی سے ٹکرانے کا فیصلہ بھی کیا۔ گزشتہ روز خلتون پولیس کے سربراہ نے فخر سے بتایا کہ انھوں نے 35 ہزار مردوں کی داڑھی صاف کرادی ہے، جب کہ سیکڑوں خواتین کو راضی کیا ہے کہ وہ حجاب مت لگائیں۔
انھوں نے فخریہ انداز میں کہا کہ ان دکانوں کے خلاف آپریشن کیا جارہا ہے جو حجاب فروخت کرتے ہیں۔ کیا اس سے تاجکستان کی حکومت بندوق اور ہاتھ کا فاصلہ بڑھا سکے گی؟ میں اس بات کا جواب دینے سے پہلے یہ بھی بتادوں کہ وہاں کے صدر امام علی فرماتے ہیں کہ تاجکستان کے لوگوں کو غیر ملکی طریقے سے عبادت نہیں کرنی چاہیے بلکہ اپنے ملکی طریقے کیمطابق عبادت کریں۔ وہ یہاں تک کہتے ہیں کہ عورتیں سیاہ لباس نہ پہنیں۔
ان سب باتوں اور طریقہ کار سے کیا وہ انتہاپسندی کو روک سکیں گے؟ اس بات کا جواب میں وہیں کے شہری کی زبان میں دیتا ہوں جس کی داڑھی صاف کی گئی۔ جاوید اکرم کہتے ہیں کہ میں اپنے سات سالہ بیٹے کے ہمراہ جارہا تھا کہ تاجک پولیس نے مجھے پکڑلیا۔ دو اہلکاروں نے میرے ہاتھ مضبوطی سے پکڑے اور مجھے انسان دشمن کہتے رہے، اور پھر تیسرے شخص نے میری آدھی داڑھی کاٹ دی۔ جاوید نے ایک انٹرویو میں کہا کہ میں اس بدتمیزی کو کبھی نہیں بھول سکتا۔
اور یہیں سے میری بات کا آغاز ہوا تھا کہ کیا ہر طرح کے مرض کا علاج زبردستی ہے۔ تو پھر ان انتہاپسندوں اور دوسروں میں کیا فرق رہ جاتا ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اب تک بندوق اور ہاتھ کا فاصلہ بڑھانے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ دوسری طرف ہمارے یہاں کے کچھ دانشور تاجکستان جیسا حل پیش کررہے ہیں۔
ایک نفسیاتی مسئلے کو دوسری نفسیاتی بیماری کی جگہ بدلنے کی بات کررہے ہیں۔ پہلے مرحلے میں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے بچوں کو نوجوان ہونے تک کون کون اور کس کس طریقے سے دنیا سے الگ کردیتا ہے، اور پھر دوسرے مرحلے میں یہ دیکھنا ہے کہ کون اس تیار دماغ کے ہاتھ کو بندوق تک لے جاتا ہے۔ اگر میں نے اس میں کچھ کہا تو شاید کئی پردہ نشینوں کے نام آجائیں۔ تو آپ گنگناتے جائیں کہ ''پردہ ہے پردہ''۔