سانحہ چار سدہ دہشت گردوں کے سہولت کاروں کی گرفتاری

سہولت کار عام سے کارندے معلوم ہوتے ہیں جب تک بڑے مگرمچھ پکڑے نہیں جاتے دہشت گردی کی کارروائیاں جاری رہیں گی

دہشت گردی کے خلاف لڑنا صرف فوج ہی کی ذمے داری نہیں بلکہ پوری قوم پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ متحد ہو کر میدان عمل میں اتر آئے۔ فوٹو : فائل

ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر عاصم سلیم باجوہ نے ہفتے کو پشاور میں پریس بریفنگ کے دوران حملے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ باچا خان یونیورسٹی چارسدہ پر حملے میں چار دہشتگرد اور چار سہولت کار ملوث تھے جب کہ یہ کارروائی افغانستان کے ایک علاقے سے کمانڈر عمر اور اس کے نائب ذاکر نے کنٹرول کی' دہشت گردوں کو ذاکر نے طورخم بارڈر پار کرایا جہاں سے وہ عام شہریوں کے روپ میں پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے مردان پہنچے جہاں پر سہولت کاروں عادل اور ریاض نے ان کو مردان چارسدہ روڈ پر واقع دو گھروں میں ٹھہرایا۔

مستری عادل جو کچھ عرصہ قبل یونیورسٹی میں تعمیراتی کام کر چکا تھا، نے ان کو یونیورسٹی کا نقشہ فراہم کیا جب کہ ذاکر اور ایک دوسرے سہولت کار نوراﷲ نے کچھ روز قبل ایک رکشہ خریدا جس میں دہشتگردوں کو یونیورسٹی کے اردگرد کے علاقوں کی ریکی عادل نے کرائی اور اسی رکشہ میں حملے والے روز دہشتگردوں کو لے جاکر یونیورسٹی کے باہر گنے کے کھیتوں میں اتارا گیا۔ انھوں نے کہاکہ کارروائی کے لیے اسلحہ درہ آدم خیل سے لیا گیا اور اسلحہ لانے کے لیے مفرور دہشتگرد کی بیوی اور بھانجی کو بھی استعمال کیاگیا تاکہ چیکنگ سے بچاجاسکے۔

انھوں نے کہاکہ یونیورسٹی میں دہشتگردی کی کارروائی کے دوران افغانستان سے 10 کالز ریکارڈ کی گئیں۔ بریفنگ کے دوران عمر اور ایک پاکستانی صحافی کے مابین ہونے والی گفتگو بھی سنائی گئی جس میں عمر نے حملے کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے دہشت گردوں کے نام عمر، عثمان، علی محمد اور عابد بتائے اور کہاکہ یہ تمام فدائی ہیں۔ فوجی ترجمان نے کہاکہ یونیورسٹی پر حملہ کرنے والے تمام دہشتگرد مارے گئے جب کہ سہولت کار ریاض، عادل، نوراﷲ اور ریاض کا بیٹا ابراہیم گرفتار کیے جاچکے ہیں جب کہ ایک سہولت کار روپوش ہے جس کی گرفتاری کے لیے کارروائی جاری ہے۔ انھوں نے کہا یونیورسٹی پر حملہ کرنیوالے دہشتگرد امیر رحمان کی شناخت نادرا نے کردی ہے جو جنوبی وزیرستان کا رہنے والا تھا جب کہ تین دہشتگردوں کی ڈی این اے کے ذریعے شناخت کی جا رہی ہے۔

دہشت گردوں کے سہولت کاروں کا پکڑے جانا خوش آیند ہے' باچا خان یونیورسٹی پر حملے کے بعد فوج نے بہت تیزی سے کارروائی کی اور دہشت گردوں کے سہولت کاروں کو گرفتار کرکے انھیں قوم کے سامنے پیش کر دیا۔ بظاہر یہ سہولت کار عام سے کارندے معلوم ہوتے ہیں جب تک بڑے مگرمچھ پکڑے نہیں جاتے دہشت گردی کی کارروائیاں جاری رہیں گی۔ بعض حلقوں کی جانب سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بہت سے بااثر افراد ان دہشت گردوں کی مالی معاونت کے علاوہ سہولت کار کا کردار بھی ادا کرتے ہیں۔


کسی عام سے سہولت کار کے پکڑے جانے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا کیونکہ بااثر افراد مزید سہولت کار تیار کر لیتے ہیں اور اس طرح یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے' اس لیے دہشت گردوں کی کمر توڑنے کے لیے ناگزیر ہے کہ ان طاقتور اور بااثر سہولت کاروں کو گرفتار کر کے قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔ اخبارات میں بعض ایسی خبریں بھی شایع ہوتی رہی ہیں کہ انتہا پسندوں کے بہت سے حمایتی اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں جو بااثر ہونے کے باعث دہشت گردوں کے بارے میں عام شہریوں کے اندر ہمدردانہ جذبات پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں جو دہشت گردی کے خلاف مہم کے لیے خطرے کا سگنل ہے لہٰذا ایسے افراد پر کڑی نگاہ رکھنا بھی اشد ضروری ہے۔

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ اگر ملک کی سیکیورٹی ٹھیک کرنی ہے تو پاک افغان سرحد سمیت تمام سرحدوں کو محفوظ کرنا ہو گا، وفاقی حکومت فوری طور پر افغان مہاجرین کو واپس بھجوائے۔ ملکی سلامتی کے لیے کی جانے والی کوششوں کو موثر بنانے کے لیے لازم ہو چکا ہے کہ افغان مہاجرین کی واپسی کا جلد از جلد فیصلہ کیا جائے۔ تعلیمی ادارے دہشت گردوں کے لیے آسان ہدف معلوم ہوتے ہیں لہٰذا تعلیمی اداروں میں کمانڈوز چیک پوسٹیں قائم کرنے کے ساتھ ساتھ اساتذہ اور طلباء کو بھی مسلح تربیت دی جائے تاکہ مشکل کی کسی گھڑی میں وہ بھرپور کردار ادا کر سکیں۔

گزشتہ دنوں فرانس میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائی کے بعد حکومت اور پوری قوم متحد ہو گئی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اپنے عزم کا اظہار کیا مگر ہمارے ہاں کسی بھی دہشت گردی کی بڑی کارروائی کے بعد ایسا کبھی نہیں ہوا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ باچا خان یونیورسٹی پر حملے کے بعد ملک بھر میں تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں باہر آ جاتیں اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مشترکہ پلیٹ فارم تشکیل دیتیں اور پوری قوم کو اس برائی کے خلاف متحد کرتیں مگر سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی جانب سے سوائے مذمتی بیانات کے عملی طور پر کوئی کردار سامنے نہیں آیا۔

موجودہ حالات کا جائزہ لیا جائے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے فوج ملکی سلامتی کے لیے تن تنہا دہشت گردی کے خلاف اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہی ہے اور تمام صوبائی حکومتیں اور سول ادارے زبانی جمع خرچ ہی پر اکتفا کر رہے ہیں۔ تمام صوبائی حکومتوں کو اکٹھا ہو کر دہشت گردی کے خلاف لائحہ عمل طے کرنا ہو گا۔ اب جب بلدیاتی ادارے بھی وجود میں آ چکے ہیں لہٰذا ان کو بھی متحرک کرنا ہو گا۔ دہشت گردی کے خلاف لڑنا صرف فوج ہی کی ذمے داری نہیں بلکہ پوری قوم پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ متحد ہو کر میدان عمل میں اتر آئے۔
Load Next Story