اہل خیبر پختونخوا کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کو ہے
باچا خان یونیورسٹی چارسدہ کے المناک سانحہ کے بعد سے پشاور اور خیبر پختونخوا سمیت سارا ملک سوگ میں ہے
باچا خان یونیورسٹی چارسدہ کے المناک سانحہ کے بعد سے پشاور اور خیبر پختونخوا سمیت سارا ملک سوگ میں ہے۔ مادر علمی پر دہشتگردوں کے حملے نے ساری قوم کو ایک بار پھر یکجا کر دیا ہے اور ایک طرف جہاں سکیورٹی معاملات پر بہت سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں وہیں نیشنل ایکشن پروگرام پر عملدرآمد کے حوالے سے بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔
یہ یونی ورسٹی پشاور سے تقریبا ستائیس کلومیٹر دور قائم ہے یہاں طلباء کی تعداد تین ہزار کے لگ بھگ ہے جن میں پانچ سو طالبات بھی شامل ہیں۔یونیورسٹی عدم تشدد کا پرچار کرنیوالے عوامی نیشنل پارٹی کے بانی خان عبدالغفار خان کے نام سے منسوب ہے اور اس کی وجہ عوامی نیشنل پارٹی کے سابق دور میں اس کا قیام ہے جس طرح مردان میں بنائی جانیوالی یونی ورسٹی کو خان عبدالولی خان کے نام سے منسوب کیا گیا اسی طرح اس یونیورسٹی کو باچا خان کا نام دیا گیا۔
جب سابق دور حکومت میں صوبے بھر میں یونیورسٹیوں کا جال بچھایا جا رہا تھا تو بنیادی مطمع نظر اس صوبے کے غریب اور پسماندہ عوام کو زیور تعلیم سے آراستہ کر کے انھیں ترقی کا ہم سفر بنانا تھا خاص طور ایک ایسے وقت میں جب کہ سارا صوبہ دہشتگردی کی لپیٹ میں تھا ہر روز دھماکے ہو رہے تھے روزانہ قیمتی جانیں ملک و قوم کی بقاء اور سالمیت پر قربان ہو رہی تھیں۔ سکیورٹی فورسز خاص طور پر خیبر پختون خوا پولیس کے افسر و جوان اور بیگناہ شہری قربانیوں کی ناقابل فراموش تاریخ رقم کر رہے تھے، تعلیم کا فروغ دہشتگردوں کے عزائم ناکام بنانے کا واحد ہتھیار تھا مگر کسی کے خواب و خیال میں نہ تھا کہ دہشتگرد تعلیمی اداروں کو نشانہ بنائینگے اور ملک و قوم کے تابناک مستقبل کوتاریک بنانے کی کوشش کرینگے۔
آرمی پبلک اسکول پر حملے نے پہلی مرتبہ خیبر پختون خوا کے بعد ساری قوم کو جگایا، سیاستدان ایک پیج پر آ گئے اور آپریشن ضرب عضب کو بھرپور سپورٹ ملی۔خیال کیا جا رہا تھا کہ قبائلی علاقوں میں آپریشن شروع ہونے کے بعد دہشتگرد یا تو افغانستان بھاگ گئے اور یا پھر توبہ تائب ہو گئے۔یہ بھی خیال کیا جا رہا تھا کہ اس آپریشن کے نتیجے میں اب سارے ملک میں سکون لوٹ آئیگا اور محب وطن قبائلی سکھ کا سانس لیں گے۔ کئی مواقع پر آپریشن کی کامیابی کا ذکر کیا گیا اور قوم کو یہ امید دلائی گئی کہ آنیوالے دن وطن عزیز کی ترقی و خوشحالی کے دن ہوں گے۔ ہر روز دہشت گردوں کے مارے جانے کی اطلاعات سے قوم کا حوصلہ بڑھا۔
دوسری طرف عمران خان کی قابل فخرسیاست سے پاک خیبر پختون خوا کی پولیس بھی دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں میں مصروف رہی اور سیکڑوں دہشت گردوں کوگرفتار کیا گیا ۔جب کچھ عرصہ دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئی تو تب بھی دہشت گردی کی دھمکیاں ملتی رہیں اور فوج سمیت دیگر سکیورٹی ادارے اسے ناکام بنانے میں سرگرداں رہے۔بھرپور کارروائیوںکے باوجود دھمکیوں نے شہریوں کو ایک نئی اذیت میں مبتلا کر دیا تھا اور خاص طور پر پشاور میں خوف و ہراس رہا کبھی اسکول بند ہو جاتے تو کبھی والدین اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے سے گریز کرتے اور جب کارخانو چیک پوسٹ پر خود کش حملہ ہوا اور مقامی صحافی محبوب آفریدی سمیت پچیس افراد شہید ہو گئے تو دہشت گردی کی افواہیں سچ ثابت ہونے لگیں، اگلے ہی روز باچا خان یونی ورسٹی پر دہشت گردی کی سفاکانہ کارروائی نے ایک نہیں بے شمار سوالات اٹھا دیے ہیں۔
مجھے اس سے قطعاً اتفاق نہیں ہے کہ اسکولوں کی دیواریں بڑھا دی جائیں ،پرائیویٹ سکیورٹی گارڈز کی تعداد میں اضافہ کر دیا جائے،اسکول میں اسلحہ رکھا جائے،خفیہ کیمرے لگا دیے جائیں اور خود کو مطمئن کر لیا جائے۔جب مردان میں نادرا کے دفتر پر خود کش حملہ ہوا تو ایک نادرا کے اہل کار نے اپنے کسی ساتھی کو ایس ایم ایس کیا کہ دھماکہ ہو گیا ہے، جواب میں دوست جو نادرا کے ہاتھوں تنگ آیا ہوا تھا نے واپس غصے میں جواب دیا کہ اگر میرے بس میں ہو تو سارے نادرا کو اڑا دوں ۔یہ ایک محض غصے کا اظہار تھا اور اگلے دن خفیہ ایجنسیوں والے اس نوجوان کو اٹھا کر لے گئے۔
غم سے اس کے والد کا انتقال ہو گیا، لواحقین نے میت سڑک پر رکھ کر جی ٹی روڈ بلاک کر دیا، پچیس روز گذرنے کے بعد بھی اس نوجوان کو رہا نہیں کیا گیا اور دوسری طرف دہشت گرد دندناتے پھر رہے ہیں کال تو ٹریس ہو جاتی ہے لیکن انھیں پکڑا نہیں جاتا ۔اگر آپ فیس بک پر کچھ پوسٹ کردیں یا پھر کوئی ای میل کریں اسے چند منٹوں میں ٹریس کر لیا جاتا ہے اور تو اور اگر فیس بک اکاؤنٹ کسی دوسرے مقام سے اوپن کیا جائے تو فوری جواب آ جاتا ہے کہ آپ کا اکاؤنٹ کسی اور آئی پی پی ایڈریس سے کھولا گیا ہے اس کا وقت اور مقام بھی بتا دیا جاتا ہے، حیرت تو یہ ہے کہ چارسدہ واقعہ کے بعد دہشت گردوں کی ایک ویڈیو فیس بک پر چل رہی ہے اور لوگوں میں خوف وہراس پھیلایا جا رہا ہے لیکن ہمارے خفیہ ادارے یہ پتہ نہیں لگا پا رہے کہ یہ ویڈیو کس نے اور کہاں سے پوسٹ کی ؟
کہا جاتا ہے کہ دہشت گرد افغانستان کے موبائل نمبر استعمال کر رہے ہیں ۔یقیناً کر رہے ہوں گے لیکن پاکستان کے قبائلی علاقوں کے اندر سے بھی تو افغان سم استعمال کی جا سکتی ہے آخرکیوں ہمارے قابل فخر آئی ٹی ادارے اس کا توڑ تلاش نہیں کر سکتے؟افغان سگنلز جام کیے جا سکتے ہیں اور اگر ہمارے پاس صلاحیت نہیں تو آخر موبائل سروس ان علاقوں میں کیوں بند نہیں کر دی جاتی سہولت سے زیادہ انسانی جانوں کی قدر وقت کا تقاضا ہے۔کہتے ہیں کہ طورخم سرحد سے روزانہ ہزاروں لوگ بغیر پاسپورٹ پاکستان میں داخل ہوتے ہیں کیا اس کے قصور وار وہ ہیں جو داخل ہوتے ہیں یا وہ جو انھیں '' قائداعظم '' کے نام پر داخل ہونے دیتے ہیں؟
اب تو لوگ سوال پوچھنے لگے ہیں کہ یہ کیسا ملک ہے جہاں لاکھوں افغانی قیام پذیر ہیں ؟یہ کیسی خود مختاری ہے کہ ہم اپنی سرحدوں کو محفوظ نہیں بنا سکتے؟یہ کیاکہانی ہے کہ پشاور سمیت سارے صوبے میں اسلحہ سرعام بکتا ہے ،کارخانے ہیں مگر کوئی پوچھنے والا نہیں؟یہ کیسا قانون ہے کہ ہر حکومت قبائلی علاقوں میں اصلاحات کے نام پر وقت گذارتی اور اربوں روپے ادھر ادھر کر دیتی ہیں لیکن ایف سی آر کا قانون ختم نہیں کر سکتی قبائل کو قومی دھارے میں شامل نہیںکرتی!ایک عجیب تماشہ ہے جو خاص طور پر اب اہل خیبر پختون خوا کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کو ہے اور اس سے پہلے کہ وہ خود ان سوالوں کے جواب دینا شروع کر دیں خدارا کوئی تو کچھ کرے کہ تاریخ بار بار دہرانے کی اب ہمت نہیں رہی!
یہ یونی ورسٹی پشاور سے تقریبا ستائیس کلومیٹر دور قائم ہے یہاں طلباء کی تعداد تین ہزار کے لگ بھگ ہے جن میں پانچ سو طالبات بھی شامل ہیں۔یونیورسٹی عدم تشدد کا پرچار کرنیوالے عوامی نیشنل پارٹی کے بانی خان عبدالغفار خان کے نام سے منسوب ہے اور اس کی وجہ عوامی نیشنل پارٹی کے سابق دور میں اس کا قیام ہے جس طرح مردان میں بنائی جانیوالی یونی ورسٹی کو خان عبدالولی خان کے نام سے منسوب کیا گیا اسی طرح اس یونیورسٹی کو باچا خان کا نام دیا گیا۔
جب سابق دور حکومت میں صوبے بھر میں یونیورسٹیوں کا جال بچھایا جا رہا تھا تو بنیادی مطمع نظر اس صوبے کے غریب اور پسماندہ عوام کو زیور تعلیم سے آراستہ کر کے انھیں ترقی کا ہم سفر بنانا تھا خاص طور ایک ایسے وقت میں جب کہ سارا صوبہ دہشتگردی کی لپیٹ میں تھا ہر روز دھماکے ہو رہے تھے روزانہ قیمتی جانیں ملک و قوم کی بقاء اور سالمیت پر قربان ہو رہی تھیں۔ سکیورٹی فورسز خاص طور پر خیبر پختون خوا پولیس کے افسر و جوان اور بیگناہ شہری قربانیوں کی ناقابل فراموش تاریخ رقم کر رہے تھے، تعلیم کا فروغ دہشتگردوں کے عزائم ناکام بنانے کا واحد ہتھیار تھا مگر کسی کے خواب و خیال میں نہ تھا کہ دہشتگرد تعلیمی اداروں کو نشانہ بنائینگے اور ملک و قوم کے تابناک مستقبل کوتاریک بنانے کی کوشش کرینگے۔
آرمی پبلک اسکول پر حملے نے پہلی مرتبہ خیبر پختون خوا کے بعد ساری قوم کو جگایا، سیاستدان ایک پیج پر آ گئے اور آپریشن ضرب عضب کو بھرپور سپورٹ ملی۔خیال کیا جا رہا تھا کہ قبائلی علاقوں میں آپریشن شروع ہونے کے بعد دہشتگرد یا تو افغانستان بھاگ گئے اور یا پھر توبہ تائب ہو گئے۔یہ بھی خیال کیا جا رہا تھا کہ اس آپریشن کے نتیجے میں اب سارے ملک میں سکون لوٹ آئیگا اور محب وطن قبائلی سکھ کا سانس لیں گے۔ کئی مواقع پر آپریشن کی کامیابی کا ذکر کیا گیا اور قوم کو یہ امید دلائی گئی کہ آنیوالے دن وطن عزیز کی ترقی و خوشحالی کے دن ہوں گے۔ ہر روز دہشت گردوں کے مارے جانے کی اطلاعات سے قوم کا حوصلہ بڑھا۔
دوسری طرف عمران خان کی قابل فخرسیاست سے پاک خیبر پختون خوا کی پولیس بھی دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں میں مصروف رہی اور سیکڑوں دہشت گردوں کوگرفتار کیا گیا ۔جب کچھ عرصہ دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئی تو تب بھی دہشت گردی کی دھمکیاں ملتی رہیں اور فوج سمیت دیگر سکیورٹی ادارے اسے ناکام بنانے میں سرگرداں رہے۔بھرپور کارروائیوںکے باوجود دھمکیوں نے شہریوں کو ایک نئی اذیت میں مبتلا کر دیا تھا اور خاص طور پر پشاور میں خوف و ہراس رہا کبھی اسکول بند ہو جاتے تو کبھی والدین اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے سے گریز کرتے اور جب کارخانو چیک پوسٹ پر خود کش حملہ ہوا اور مقامی صحافی محبوب آفریدی سمیت پچیس افراد شہید ہو گئے تو دہشت گردی کی افواہیں سچ ثابت ہونے لگیں، اگلے ہی روز باچا خان یونی ورسٹی پر دہشت گردی کی سفاکانہ کارروائی نے ایک نہیں بے شمار سوالات اٹھا دیے ہیں۔
مجھے اس سے قطعاً اتفاق نہیں ہے کہ اسکولوں کی دیواریں بڑھا دی جائیں ،پرائیویٹ سکیورٹی گارڈز کی تعداد میں اضافہ کر دیا جائے،اسکول میں اسلحہ رکھا جائے،خفیہ کیمرے لگا دیے جائیں اور خود کو مطمئن کر لیا جائے۔جب مردان میں نادرا کے دفتر پر خود کش حملہ ہوا تو ایک نادرا کے اہل کار نے اپنے کسی ساتھی کو ایس ایم ایس کیا کہ دھماکہ ہو گیا ہے، جواب میں دوست جو نادرا کے ہاتھوں تنگ آیا ہوا تھا نے واپس غصے میں جواب دیا کہ اگر میرے بس میں ہو تو سارے نادرا کو اڑا دوں ۔یہ ایک محض غصے کا اظہار تھا اور اگلے دن خفیہ ایجنسیوں والے اس نوجوان کو اٹھا کر لے گئے۔
غم سے اس کے والد کا انتقال ہو گیا، لواحقین نے میت سڑک پر رکھ کر جی ٹی روڈ بلاک کر دیا، پچیس روز گذرنے کے بعد بھی اس نوجوان کو رہا نہیں کیا گیا اور دوسری طرف دہشت گرد دندناتے پھر رہے ہیں کال تو ٹریس ہو جاتی ہے لیکن انھیں پکڑا نہیں جاتا ۔اگر آپ فیس بک پر کچھ پوسٹ کردیں یا پھر کوئی ای میل کریں اسے چند منٹوں میں ٹریس کر لیا جاتا ہے اور تو اور اگر فیس بک اکاؤنٹ کسی دوسرے مقام سے اوپن کیا جائے تو فوری جواب آ جاتا ہے کہ آپ کا اکاؤنٹ کسی اور آئی پی پی ایڈریس سے کھولا گیا ہے اس کا وقت اور مقام بھی بتا دیا جاتا ہے، حیرت تو یہ ہے کہ چارسدہ واقعہ کے بعد دہشت گردوں کی ایک ویڈیو فیس بک پر چل رہی ہے اور لوگوں میں خوف وہراس پھیلایا جا رہا ہے لیکن ہمارے خفیہ ادارے یہ پتہ نہیں لگا پا رہے کہ یہ ویڈیو کس نے اور کہاں سے پوسٹ کی ؟
کہا جاتا ہے کہ دہشت گرد افغانستان کے موبائل نمبر استعمال کر رہے ہیں ۔یقیناً کر رہے ہوں گے لیکن پاکستان کے قبائلی علاقوں کے اندر سے بھی تو افغان سم استعمال کی جا سکتی ہے آخرکیوں ہمارے قابل فخر آئی ٹی ادارے اس کا توڑ تلاش نہیں کر سکتے؟افغان سگنلز جام کیے جا سکتے ہیں اور اگر ہمارے پاس صلاحیت نہیں تو آخر موبائل سروس ان علاقوں میں کیوں بند نہیں کر دی جاتی سہولت سے زیادہ انسانی جانوں کی قدر وقت کا تقاضا ہے۔کہتے ہیں کہ طورخم سرحد سے روزانہ ہزاروں لوگ بغیر پاسپورٹ پاکستان میں داخل ہوتے ہیں کیا اس کے قصور وار وہ ہیں جو داخل ہوتے ہیں یا وہ جو انھیں '' قائداعظم '' کے نام پر داخل ہونے دیتے ہیں؟
اب تو لوگ سوال پوچھنے لگے ہیں کہ یہ کیسا ملک ہے جہاں لاکھوں افغانی قیام پذیر ہیں ؟یہ کیسی خود مختاری ہے کہ ہم اپنی سرحدوں کو محفوظ نہیں بنا سکتے؟یہ کیاکہانی ہے کہ پشاور سمیت سارے صوبے میں اسلحہ سرعام بکتا ہے ،کارخانے ہیں مگر کوئی پوچھنے والا نہیں؟یہ کیسا قانون ہے کہ ہر حکومت قبائلی علاقوں میں اصلاحات کے نام پر وقت گذارتی اور اربوں روپے ادھر ادھر کر دیتی ہیں لیکن ایف سی آر کا قانون ختم نہیں کر سکتی قبائل کو قومی دھارے میں شامل نہیںکرتی!ایک عجیب تماشہ ہے جو خاص طور پر اب اہل خیبر پختون خوا کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کو ہے اور اس سے پہلے کہ وہ خود ان سوالوں کے جواب دینا شروع کر دیں خدارا کوئی تو کچھ کرے کہ تاریخ بار بار دہرانے کی اب ہمت نہیں رہی!