سپریم کورٹ نے بلوچستان پر عبوری حکم واپس لینے کی استدعا مسترد کردی چیف جسٹس
بلوچستان حکومت آئینی حیثیت کھو چکی، جسٹس افتخار،کشمیر، ناگا لینڈ میں خلفشار کے باوجود جمہوری حکومتیں چل رہی ہیں.
KARACHI:
سپریم کورٹ نے بلوچستان میں حکومت کی ناکامی کے بارے میں جاری کیا گیا عبوری حکم واپس لینے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت کو یہ تحریری جواب نہیں دیا گیا کہ بلوچستان حکومت کس اتھارٹی کے تحت کام کررہی ہے۔
وفاق اندرونی خلفشار روکنے کیلیے آئینی اقدامات کرنے کا پابند ہے' وفاقی حکومت نے ایف سی بھجوانے کے سوا صوبے سے کوئی تعاون نہیں کیا، حکومت لاپتہ افراد کی بازیابی کیلیے اقدامات کرے جبکہ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ بلوچستان حکومت اپنی آئینی حیثیت کھو چکی ہے اب کیا ہمیں ایمرجنسی کے نفاذ کیلیے کہا جا رہا ہے، یہ اختیار صرف صدر مملکت کا ہے' ملک میں جمہوری نظام کو مستحکم عدالت نے کیا ہوا ہے، بلوچستان کے مسائل کی تپش کا اندازہ اسلام آباد میں بیٹھ کر نہیں لگایا جا سکتا، بلوچستان میں پولیس کی وجہ سے کچھ بہتری آئی ہے، بلوچستان کابینہ کے وزرا ء پر اغوابرائے تاوان میں ملوث ہونے کاالزام ہے ٗ صوبہ کے حالات کی ذمہ دار بلوچستان حکومت ہے ٗ بلوچستان پر عبوری حکم نافذ العمل رہے گا۔
جمعے کو اسلام آباد میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں جسٹس جواد ایس خواجہ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے بلوچستان بار کونسل کی طرف سے دائر کی گئی درخواست بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال کے معاملے کی سماعت کی۔ وزیراعلیٰ بلوچستان سردار اسلم رئیسانی کیساتھ پندرہ ارکان صوبائی اسمبلی اور آئی جی پولیس بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل عرفان قادر نے بلوچستان کی صورتحال پر وزارتِ داخلہ کی رپورٹ پیش کی جس میں کہا گیا کہ بلوچستان میں تمام ادارے اپنا کام کر رہے ہیں اور پولیس کے محکمے میں نئی تعیناتیوں کی وجہ سے ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں کمی آئی ہے، بلوچستان کی صورتحال اکبر بگٹی کی ہلاکت کے بعد خراب ہوئی۔
یہ نہیں کہا جا سکتا کہ صوبائی حکومت ناکام ہو چکی ہے اور عدالتی حکم پر انھیں تحفظات ہیں، عدالت کے عبوری حکم کے بعد تمام آئینی عہدیدار کام کر رہے ہیں، جمہوری حکومت چند ماہ میں اپنی مدت پوری کر رہی ہے، اس لیے وفاق نہیں چاہتا کہ صوبائی حکومت کو محدود یا قوم پرستوں کے نقطہ نظر کو دیکھتے ہوئے گھر بھیج دے، تمام صوبائی ادارے کام کر رہے ہیں، کچھ صوبائی اداروں کی کارکردگی قابل اطمینان اور کچھ کی ٹھیک نہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ ہمیں بھارت کی طرف دیکھنا چاہیے، کشمیر اور ناگا لینڈ میں خلفشار کے باوجود جمہوری حکومتیں چل رہی ہیں، بلوچستان کی حکومت کی ناکامی کے فیصلے سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا، رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ صوبے یا ملک میں ہنگامی حالت کے نفاذ کے اعلان کا اختیار صرف صدرکوحاصل ہے۔ رپورٹ میں عدالت سے استفسارکیا گیا کہ کیا سپریم کورٹ بلوچستان میں ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کر رہی ہے؟
اس سے قبل وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے سماعت کے دوران اٹھ کر بولنے کی کوشش کی جس پر چیف جسٹس نے رحمٰن ملک کو ہدایت کی کہ آپ تشریف رکھیں، آپ کیوں آ گئے جس پر رحمٰن ملک نے کہا کہ آج مجھے نہ سنا گیا تو تاریخ آپ کو اور مجھے معاف نہیں کریگی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارا ضمیر مطمئن ہے، تاریخ ہمیں معاف کر دیگی آپ کو معاف نہیں کرے گی۔ سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان امان اللہ کنرانی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں خلفشار نواب اکبر بگٹی کے قتل سے شروع ہوا، بلوچستان میں گڑ بڑ کے ذمے دار اکبر بگٹی کے قاتل ہیں، عدالتی حکم میں بھی کہا گیا کہ گڑ بڑ2006 سے شروع ہوئی۔ 12 سال میں کچھ نہیں ہوا، 2 سال میں کیا ہو گا؟
اس پر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ ہم نے کہا تھا الیکشن کروا دیں، اس کے سوا کوئی حل نہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے کہا کہ 2 ماہ میں انتخابات کرانے جا رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بلوچستان میں جو بہتری آئی، وہ پولیس کی وجہ سے آئی ہے، کابلی گاڑیاں پکڑی گئیں، وہ جرائم میں استعمال ہوتی تھیں، کسٹم ڈیپارٹمنٹ کابلی گاڑیاں نہیں پکڑتا تھا، بلوچستان کابینہ کے وزرا پر الزام ہے کہ وہ اغوا برائے تاوان میں ملوث ہیں، بلوچستان میں کاروبار بن گیا ہے کہ پکڑو اور پیسے لو، ایک انتہائی با عزت وکیل کا بیٹا 70 لاکھ روپے دیکر رہا ہوا، یہ ایک نہیں، ایسے سیکڑوں واقعات ہیں۔ نجی ٹی وی کے مطابق سماعت کے دوران وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے کہا کہ طالبان، بی ایل اے اور جنداللہ کا بلوچستان میں گٹھ جوڑ ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ جائیں اور جا کر انھیں پکڑیں، کیوں گرفتار نہیں کرتے۔
رحمٰن ملک نے کہا کہ اس سے متعلق پاور پوائنٹ پر بریفنگ دوں گا تو چیف جسٹس نے ان کی بریفنگ کی پیشکش کو رد کرتے ہوئے کہا کہ اس بارے میں صدر کا کراچی کی صورتحال پر اچھا بیان آیا ہے کہ صرف بریفنگ نہ دیں کچھ کر کے بھی دکھائیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ بلوچستان میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ صوبائی حکومت کی ذمے داری ہے، ہم سب اسلام آباد میں بیٹھ کر اس کی حرارت کا اندازہ نہیں کر سکتے، کیا لوگوں کیلیے بلوچستان میں آزادانہ گھومنا ممکن ہے، کیا کوئی کسی جگہ پر محفوظ ہے، وزیراعلی کا اپنا بھتیجا قتل ہوا اور قاتل نہ پکڑے گئے۔
اس پر وزیر داخلہ نے کہا کہ یہ تاثر درست نہیں، آپ میرے ساتھ چلیں، میں خود گاڑی چلا کر لے جائوں گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اچھی ڈرائیو کرتے ہیں مگر بلوچستان صرف کوئٹہ تک نہیں، قلات سے ہندو چلے گئے، ساری دکانیں بند ہیں، قلات میں رات کو سیکیورٹی میں قافلے چلتے ہیں، گورنر اور چیف سیکرٹری پر فائرنگ ہوتی ہے، آپ اسلام آباد کی ہوائوں میں بیٹھ کر کہتے ہیں کہ سب ٹھیک ہے۔ رحمن ملک نے کہا کہ آپ کی آبزرویشن درست ہے کیونکہ آپ وہاں کے رہنے والے ہیں لیکن کیا یہ سارا کچھ حکومت کرا رہی ہے، یہ چیزیں ہمیں پرویز مشرف سے جہیز میں ملی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپکو حکومت کا حق اس لیے نہیں دیا جاتا کہ دوسری چیزوں میں پڑیں، حکومت لوگوں کے جان ومال کے تحفظ کیلیے دی جاتی ہے۔
جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ آپ کے پاس معلومات ہیں تو پولیس کو دیں، 800 واقعات ایسے ہوئے جن میں 432 فوج اور ایف سی کے اہلکار جاں بحق ہوئے، کوئی ایک واقعہ بتائیں جس میں ملزمان کو پکڑا گیا ہو۔ رحمٰن ملک نے کہا کہ میرے علم کے مطابق بلوچستان میں 6 ہزار افراد لاپتہ ہیں، میرے آنے سے پہلے ایف آئی آر بھی درج نہیں ہوتی تھی، میں نے بلوچستان کے لاپتہ افراد کی ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آرڈر میں لکھ دیتے ہیں کہ آپ نے لاپتہ افراد کو بازیاب کرانے کا وعدہ کیا ہے جس پر وزیر داخلہ نے کہا کہ لوگوں کو پکڑنا، بازیاب کرانا میرا کام نہیں بلکہ صوبائی حکومت کا ہے میں صرف لاجسٹک سپورٹ دے سکتا ہوں۔
رحمٰن ملک نے عدالت کو بتایا کہ صوبے میں امن و امان کی خرابی کے ذمے دار صرف 387 افراد ہیں۔ انھوں نے استدعا کی کہ عدالت اپنا عبوری حکم واپس لے یا تبدیل کرنے کے احکام جاری کرے، عدالتی عبوری حکم سے مسائل آ رہے ہیں، آئینی بریک ڈائون ہو رہا ہے۔ چیف جسٹس نے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلیے اقدامات اٹھانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان پر عبوری حکم نافذ العمل رہے گا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے مشورہ دیا کہ بلوچستان کے دورے کیلیے کمیشن تشکیل دیا جائے جس میں وکلا اورمیڈیا کے نمائندے بھی شامل ہوں۔ کمر ہ عدالت میں موجود بلوچستان کے ایڈووکیٹ جنرل امان اللہ کنرانی نے بھی عدالت سے استدعا کی کہ وہ 12 اکتوبر کو حکومت بلوچستان کی اہلیت کے بارے میں جاری کیا گیا عبوری حکم واپس لے لے کیوں کہ اس سے آئینی اور انتظامی مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔
تاہم عدالت نے ان کی درخواست ماننے سے انکار کر دیا بعد ازاں بلوچستان حکومت نے عدالت سے وکیل کی تقرری کیلیے 4 ہفتے کی مہلت مانگی تاہم عدالت نے دو ہفتے کا وقت دیتے ہوئے سماعت 20نومبر تک ملتوی کر دی۔ دریں اثنا سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو میں وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے کہا کہ بلوچستان میں کوئی بریک ڈائون نہیں ہوا ،تمام ادارے آئینی طریقے سے کام کررہے ہیں ، صوبے میں ایمرجنسی لگائی جائے گی نہ ہی اسپیکر صوبائی اسمبلی کو ہٹایا جائیگا، غیرملکی طاقتیں بلوچستان میں بغاوت کو ہوا دے رہی ہیں ، آئندہ 4 سے 6 ماہ میں غیرملکی طاقتیں پاکستان کیخلاف کئی خوفناک سازشیں کرنیوالی ہیں، سپریم کورٹ میں موقف سنے جانے پر چیف جسٹس کے شکرگزار ہیں ۔
انھوں نے کہا کہ بلوچستان میں کوئی فوجی آپریشن نہیں ہورہا ، ایف سی اور پولیس کی وردی میں بی ایل اے اور دیگر گروپ لوگوں کو مارتے اور اغوا کرتے ہیں، مقامی لوگوں کی خواہش پر ایف سی کی چیک پوسٹیں ختم کی ہیں،بلوچستان میں لوگ گزشتہ دور حکومت میں لاپتہ ہوئے، پاکستان توڑنے کی باتیں کرنیوالے لاپتہ افراد کے غلط اعداد و شمار پیش کر رہے ، 134عورتوں کے اغوا کی کہانی ازخود ختم ہوگئی ،اس وقت صرف 36 افراد لاپتہ ہیں۔آئی این پی کے مطابق رحمن ملک نے کہا کہ بلوچستان میں گورننس کیساتھ بغاوت کی بات بھی کی جائے، مقبوضہ کشمیر سمیت بھارت کے کئی علاقوں میں آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں مگر بھارتی سپریم کورٹ نے تومقبوضہ کشمیر کی حکومت کو ختم کرنے کا حکم نہیںدیا ، بلوچستان کے حالات دیگر صوبوں سے بہتر ہیں، وہاں جرائم کی شرح پنجاب سے کم ہے، کئی آف دی ریکارڈ چیزیں عدالت کو بتائی ہیں۔
آن لائن کے مطابق رحمن ملک نے کہا کہ آئندہ سماعت تک عدالت میں بہت سارے حقائق پیش کرونگا ،عدالت نے جو فیصلہ دیا اس میں حقائق نہیں تھے اور نہ ہی حقائق سے عدالت کو آگاہ کیا گیا تھا، وزارت قانون سے مشاورت کے بعد بلوچستان کیلیے اعلیٰ کمیشن قائم کیا جائیگا۔ وزیرداخلہ سے بھارتی ہائی کمشنر شرت سبھروال نے ملاقات کی ، اس دوران ممبئی حملوں کی تحقیقات اور باہمی تعلقات پر تبادلہ پر تبادلہ خیال کیا گیا، رحمن ملک نے کہا کہ پاکستان بھارت کیساتھ بہتر تعلقات کاخواہاں ہے ، کھیلوں کے روابط کی بحالی سے تعلقات میں مزید بہتری آئیگی۔
سپریم کورٹ نے بلوچستان میں حکومت کی ناکامی کے بارے میں جاری کیا گیا عبوری حکم واپس لینے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت کو یہ تحریری جواب نہیں دیا گیا کہ بلوچستان حکومت کس اتھارٹی کے تحت کام کررہی ہے۔
وفاق اندرونی خلفشار روکنے کیلیے آئینی اقدامات کرنے کا پابند ہے' وفاقی حکومت نے ایف سی بھجوانے کے سوا صوبے سے کوئی تعاون نہیں کیا، حکومت لاپتہ افراد کی بازیابی کیلیے اقدامات کرے جبکہ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ بلوچستان حکومت اپنی آئینی حیثیت کھو چکی ہے اب کیا ہمیں ایمرجنسی کے نفاذ کیلیے کہا جا رہا ہے، یہ اختیار صرف صدر مملکت کا ہے' ملک میں جمہوری نظام کو مستحکم عدالت نے کیا ہوا ہے، بلوچستان کے مسائل کی تپش کا اندازہ اسلام آباد میں بیٹھ کر نہیں لگایا جا سکتا، بلوچستان میں پولیس کی وجہ سے کچھ بہتری آئی ہے، بلوچستان کابینہ کے وزرا ء پر اغوابرائے تاوان میں ملوث ہونے کاالزام ہے ٗ صوبہ کے حالات کی ذمہ دار بلوچستان حکومت ہے ٗ بلوچستان پر عبوری حکم نافذ العمل رہے گا۔
جمعے کو اسلام آباد میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں جسٹس جواد ایس خواجہ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے بلوچستان بار کونسل کی طرف سے دائر کی گئی درخواست بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال کے معاملے کی سماعت کی۔ وزیراعلیٰ بلوچستان سردار اسلم رئیسانی کیساتھ پندرہ ارکان صوبائی اسمبلی اور آئی جی پولیس بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل عرفان قادر نے بلوچستان کی صورتحال پر وزارتِ داخلہ کی رپورٹ پیش کی جس میں کہا گیا کہ بلوچستان میں تمام ادارے اپنا کام کر رہے ہیں اور پولیس کے محکمے میں نئی تعیناتیوں کی وجہ سے ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں کمی آئی ہے، بلوچستان کی صورتحال اکبر بگٹی کی ہلاکت کے بعد خراب ہوئی۔
یہ نہیں کہا جا سکتا کہ صوبائی حکومت ناکام ہو چکی ہے اور عدالتی حکم پر انھیں تحفظات ہیں، عدالت کے عبوری حکم کے بعد تمام آئینی عہدیدار کام کر رہے ہیں، جمہوری حکومت چند ماہ میں اپنی مدت پوری کر رہی ہے، اس لیے وفاق نہیں چاہتا کہ صوبائی حکومت کو محدود یا قوم پرستوں کے نقطہ نظر کو دیکھتے ہوئے گھر بھیج دے، تمام صوبائی ادارے کام کر رہے ہیں، کچھ صوبائی اداروں کی کارکردگی قابل اطمینان اور کچھ کی ٹھیک نہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ ہمیں بھارت کی طرف دیکھنا چاہیے، کشمیر اور ناگا لینڈ میں خلفشار کے باوجود جمہوری حکومتیں چل رہی ہیں، بلوچستان کی حکومت کی ناکامی کے فیصلے سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا، رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ صوبے یا ملک میں ہنگامی حالت کے نفاذ کے اعلان کا اختیار صرف صدرکوحاصل ہے۔ رپورٹ میں عدالت سے استفسارکیا گیا کہ کیا سپریم کورٹ بلوچستان میں ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کر رہی ہے؟
اس سے قبل وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے سماعت کے دوران اٹھ کر بولنے کی کوشش کی جس پر چیف جسٹس نے رحمٰن ملک کو ہدایت کی کہ آپ تشریف رکھیں، آپ کیوں آ گئے جس پر رحمٰن ملک نے کہا کہ آج مجھے نہ سنا گیا تو تاریخ آپ کو اور مجھے معاف نہیں کریگی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارا ضمیر مطمئن ہے، تاریخ ہمیں معاف کر دیگی آپ کو معاف نہیں کرے گی۔ سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان امان اللہ کنرانی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں خلفشار نواب اکبر بگٹی کے قتل سے شروع ہوا، بلوچستان میں گڑ بڑ کے ذمے دار اکبر بگٹی کے قاتل ہیں، عدالتی حکم میں بھی کہا گیا کہ گڑ بڑ2006 سے شروع ہوئی۔ 12 سال میں کچھ نہیں ہوا، 2 سال میں کیا ہو گا؟
اس پر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ ہم نے کہا تھا الیکشن کروا دیں، اس کے سوا کوئی حل نہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے کہا کہ 2 ماہ میں انتخابات کرانے جا رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بلوچستان میں جو بہتری آئی، وہ پولیس کی وجہ سے آئی ہے، کابلی گاڑیاں پکڑی گئیں، وہ جرائم میں استعمال ہوتی تھیں، کسٹم ڈیپارٹمنٹ کابلی گاڑیاں نہیں پکڑتا تھا، بلوچستان کابینہ کے وزرا پر الزام ہے کہ وہ اغوا برائے تاوان میں ملوث ہیں، بلوچستان میں کاروبار بن گیا ہے کہ پکڑو اور پیسے لو، ایک انتہائی با عزت وکیل کا بیٹا 70 لاکھ روپے دیکر رہا ہوا، یہ ایک نہیں، ایسے سیکڑوں واقعات ہیں۔ نجی ٹی وی کے مطابق سماعت کے دوران وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے کہا کہ طالبان، بی ایل اے اور جنداللہ کا بلوچستان میں گٹھ جوڑ ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ جائیں اور جا کر انھیں پکڑیں، کیوں گرفتار نہیں کرتے۔
رحمٰن ملک نے کہا کہ اس سے متعلق پاور پوائنٹ پر بریفنگ دوں گا تو چیف جسٹس نے ان کی بریفنگ کی پیشکش کو رد کرتے ہوئے کہا کہ اس بارے میں صدر کا کراچی کی صورتحال پر اچھا بیان آیا ہے کہ صرف بریفنگ نہ دیں کچھ کر کے بھی دکھائیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ بلوچستان میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ صوبائی حکومت کی ذمے داری ہے، ہم سب اسلام آباد میں بیٹھ کر اس کی حرارت کا اندازہ نہیں کر سکتے، کیا لوگوں کیلیے بلوچستان میں آزادانہ گھومنا ممکن ہے، کیا کوئی کسی جگہ پر محفوظ ہے، وزیراعلی کا اپنا بھتیجا قتل ہوا اور قاتل نہ پکڑے گئے۔
اس پر وزیر داخلہ نے کہا کہ یہ تاثر درست نہیں، آپ میرے ساتھ چلیں، میں خود گاڑی چلا کر لے جائوں گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اچھی ڈرائیو کرتے ہیں مگر بلوچستان صرف کوئٹہ تک نہیں، قلات سے ہندو چلے گئے، ساری دکانیں بند ہیں، قلات میں رات کو سیکیورٹی میں قافلے چلتے ہیں، گورنر اور چیف سیکرٹری پر فائرنگ ہوتی ہے، آپ اسلام آباد کی ہوائوں میں بیٹھ کر کہتے ہیں کہ سب ٹھیک ہے۔ رحمن ملک نے کہا کہ آپ کی آبزرویشن درست ہے کیونکہ آپ وہاں کے رہنے والے ہیں لیکن کیا یہ سارا کچھ حکومت کرا رہی ہے، یہ چیزیں ہمیں پرویز مشرف سے جہیز میں ملی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپکو حکومت کا حق اس لیے نہیں دیا جاتا کہ دوسری چیزوں میں پڑیں، حکومت لوگوں کے جان ومال کے تحفظ کیلیے دی جاتی ہے۔
جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ آپ کے پاس معلومات ہیں تو پولیس کو دیں، 800 واقعات ایسے ہوئے جن میں 432 فوج اور ایف سی کے اہلکار جاں بحق ہوئے، کوئی ایک واقعہ بتائیں جس میں ملزمان کو پکڑا گیا ہو۔ رحمٰن ملک نے کہا کہ میرے علم کے مطابق بلوچستان میں 6 ہزار افراد لاپتہ ہیں، میرے آنے سے پہلے ایف آئی آر بھی درج نہیں ہوتی تھی، میں نے بلوچستان کے لاپتہ افراد کی ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آرڈر میں لکھ دیتے ہیں کہ آپ نے لاپتہ افراد کو بازیاب کرانے کا وعدہ کیا ہے جس پر وزیر داخلہ نے کہا کہ لوگوں کو پکڑنا، بازیاب کرانا میرا کام نہیں بلکہ صوبائی حکومت کا ہے میں صرف لاجسٹک سپورٹ دے سکتا ہوں۔
رحمٰن ملک نے عدالت کو بتایا کہ صوبے میں امن و امان کی خرابی کے ذمے دار صرف 387 افراد ہیں۔ انھوں نے استدعا کی کہ عدالت اپنا عبوری حکم واپس لے یا تبدیل کرنے کے احکام جاری کرے، عدالتی عبوری حکم سے مسائل آ رہے ہیں، آئینی بریک ڈائون ہو رہا ہے۔ چیف جسٹس نے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلیے اقدامات اٹھانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان پر عبوری حکم نافذ العمل رہے گا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے مشورہ دیا کہ بلوچستان کے دورے کیلیے کمیشن تشکیل دیا جائے جس میں وکلا اورمیڈیا کے نمائندے بھی شامل ہوں۔ کمر ہ عدالت میں موجود بلوچستان کے ایڈووکیٹ جنرل امان اللہ کنرانی نے بھی عدالت سے استدعا کی کہ وہ 12 اکتوبر کو حکومت بلوچستان کی اہلیت کے بارے میں جاری کیا گیا عبوری حکم واپس لے لے کیوں کہ اس سے آئینی اور انتظامی مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔
تاہم عدالت نے ان کی درخواست ماننے سے انکار کر دیا بعد ازاں بلوچستان حکومت نے عدالت سے وکیل کی تقرری کیلیے 4 ہفتے کی مہلت مانگی تاہم عدالت نے دو ہفتے کا وقت دیتے ہوئے سماعت 20نومبر تک ملتوی کر دی۔ دریں اثنا سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو میں وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے کہا کہ بلوچستان میں کوئی بریک ڈائون نہیں ہوا ،تمام ادارے آئینی طریقے سے کام کررہے ہیں ، صوبے میں ایمرجنسی لگائی جائے گی نہ ہی اسپیکر صوبائی اسمبلی کو ہٹایا جائیگا، غیرملکی طاقتیں بلوچستان میں بغاوت کو ہوا دے رہی ہیں ، آئندہ 4 سے 6 ماہ میں غیرملکی طاقتیں پاکستان کیخلاف کئی خوفناک سازشیں کرنیوالی ہیں، سپریم کورٹ میں موقف سنے جانے پر چیف جسٹس کے شکرگزار ہیں ۔
انھوں نے کہا کہ بلوچستان میں کوئی فوجی آپریشن نہیں ہورہا ، ایف سی اور پولیس کی وردی میں بی ایل اے اور دیگر گروپ لوگوں کو مارتے اور اغوا کرتے ہیں، مقامی لوگوں کی خواہش پر ایف سی کی چیک پوسٹیں ختم کی ہیں،بلوچستان میں لوگ گزشتہ دور حکومت میں لاپتہ ہوئے، پاکستان توڑنے کی باتیں کرنیوالے لاپتہ افراد کے غلط اعداد و شمار پیش کر رہے ، 134عورتوں کے اغوا کی کہانی ازخود ختم ہوگئی ،اس وقت صرف 36 افراد لاپتہ ہیں۔آئی این پی کے مطابق رحمن ملک نے کہا کہ بلوچستان میں گورننس کیساتھ بغاوت کی بات بھی کی جائے، مقبوضہ کشمیر سمیت بھارت کے کئی علاقوں میں آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں مگر بھارتی سپریم کورٹ نے تومقبوضہ کشمیر کی حکومت کو ختم کرنے کا حکم نہیںدیا ، بلوچستان کے حالات دیگر صوبوں سے بہتر ہیں، وہاں جرائم کی شرح پنجاب سے کم ہے، کئی آف دی ریکارڈ چیزیں عدالت کو بتائی ہیں۔
آن لائن کے مطابق رحمن ملک نے کہا کہ آئندہ سماعت تک عدالت میں بہت سارے حقائق پیش کرونگا ،عدالت نے جو فیصلہ دیا اس میں حقائق نہیں تھے اور نہ ہی حقائق سے عدالت کو آگاہ کیا گیا تھا، وزارت قانون سے مشاورت کے بعد بلوچستان کیلیے اعلیٰ کمیشن قائم کیا جائیگا۔ وزیرداخلہ سے بھارتی ہائی کمشنر شرت سبھروال نے ملاقات کی ، اس دوران ممبئی حملوں کی تحقیقات اور باہمی تعلقات پر تبادلہ پر تبادلہ خیال کیا گیا، رحمن ملک نے کہا کہ پاکستان بھارت کیساتھ بہتر تعلقات کاخواہاں ہے ، کھیلوں کے روابط کی بحالی سے تعلقات میں مزید بہتری آئیگی۔