پاکستان میں بیماریوں کا پھیلاؤتشویشناک امر

بیماریاں پھیلنے کی بہت سی وجوہات میں ماحولیاتی آلودگی‘ ناقص خوراک اور آلودہ پانی بھی شامل ہے


Editorial January 26, 2016
حکومتی ادارے بڑھتی ہوئی بیماریوں پر قابو پانے کے لیے جہاں اپنے فرائض ایمانداری سے ادا کریں وہاں شہریوں میں بھی ان بیماریوں سے بچاؤ کے لیے آگاہی مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ فوٹو فائل

پاکستان میں مختلف قسم کی بیماریوں کا جہاں تیزی سے پھیلنا تشویشناک امر ہے وہاں سرکاری اداروں کی اپنے فرائض سے پہلوتہی کی بھی نشاندہی ہوتی ہے۔ ایک خبر کے مطابق وزارت قومی صحت کی دستاویزات میں انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان میں ہیپاٹائٹس کے مریضوں کی تعداد ایک کروڑ پندرہ لاکھ تک جا پہنچی ہے جب کہ ہر سال اس میں پانچ لاکھ نئے کیسز کا اضافہ ہو رہا ہے' 2008 کے سروے کے مطابق پاکستان میں ان مریضوں کی تعداد 80 لاکھ تھی۔

اس چشم کشا رپورٹ سے تشویش کا پھیلنا قدرتی امر ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اور اس کے ادارے عوام کی صحت کے سلسلے میں کیا کردار ادا کرتے ہیں۔دوسری جانب خدا خدا کر کے ڈینگی کا زور ٹوٹا تھا کہ اب پاکستان میں سوائن فلو کا قاتل وائرس بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے' خبروں کے مطابق اتوار کو سوائن فلو نے راولپنڈی اور ملتان میں مزید دو افراد کی جان لے لی اس طرح پنجاب میں اس مرض سے جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد 19 ہو گئی ہے' محکمہ صحت پنجاب کے حکام کا کہنا ہے کہ صوبے بھر کے مختلف اسپتالوں میں اس وقت سوائن فلو کے 64 تصدیق شدہ مریض موجود ہیں۔

سوائن فلو ان دنوں بھارت میں وبائی شکل اختیار کر چکا ہے۔ یہ وائرس جانوروں سے انسان میں منتقل ہو کر اس کے دفاعی نظام کو کمزور کر دیتا جس سے زندگی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ سوائن فلو میں مبتلا فرد کو بخار' کھانسی' گلے میں خراش' ناک بہنے کے علاوہ جسم میں درد' تھکاوٹ' سردی لگنے' قے اور چھینکنے کی شکایات ہوتی ہیں' سوائن فلو کے شدید ہو جانے پر جلد کا رنگ نیلا یا سرمئی ہو سکتا ہے۔

سوائن فلو میں مبتلا مریض کو ورزش اور گہرے سانس لینے کے ساتھ ساتھ ذہنی پریشانی سے بچنا چاہیے کیونکہ ذہنی تناؤ جسم میں موجود قوت مدافعت کو کمزور کرتا ہے' ایسے مریض کو زیادہ نیند لینا چاہیے جس سے قوت مدافعت بڑھنے میں مدد ملتی ہے۔ جن ممالک میں متاثرہ سوروں کی تعداد زیادہ ہے وہاں یہ مرض انسانوں کو لاحق ہو رہا ہے' متاثرہ جانور سے جراثیم فضا میں شامل ہو کر انسانوں کو متاثر کر رہے ہیں۔

بیماریاں پھیلنے کی بہت سی وجوہات میں ماحولیاتی آلودگی' ناقص خوراک اور آلودہ پانی بھی شامل ہے۔ دیکھنے میں یہ آ رہا ہے کہ ملک بھر میں ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لیے حکومتوں کی جانب سے روایتی تساہل پسندی کا مظاہرہ کیا جا رہا اور عوامی خدمت کا زیادہ تر انحصار زبانی جمع خرچ پر ہے۔ حکومتی ادارے بڑھتی ہوئی بیماریوں پر قابو پانے کے لیے جہاں اپنے فرائض ایمانداری سے ادا کریں وہاں شہریوں میں بھی ان بیماریوں سے بچاؤ کے لیے آگاہی مہم چلانے کی ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں