سیاسی کارکن اپنی حیثیت پہچانیں
جمہوری سیاست میں سیاسی کارکن سیاست کی ریڑھ کی ہڈی ہوتا ہے اور قابل تکریم مانا جاتا ہے،
جمہوری سیاست میں سیاسی کارکن سیاست کی ریڑھ کی ہڈی ہوتا ہے اور قابل تکریم مانا جاتا ہے، مغربی ملکوں کی سیاسی جماعتوں میں بھی سیاسی کارکنوں کا طبقاتی استحصال ہوتا ہے لیکن اسے ہاری اس لیے نہیں سمجھا جاتا کہ ان ملکوں میں وڈیرہ شاہی نظام موجود نہیں، جن ملکوں میں وڈیرہ شاہی نظام موجود ہے وہاں کے سیاسی کارکنوں کی حیثیت سیاسی وڈیروں کے نزدیک ہاریوں سے زیادہ نہیں ہوتی۔
ان سیاسی ہاریوں کا کام جلسے جلوسوں کے لیے سادہ لوح عوام کو ہنکا کر لانا، سیاسی جلسوں میں زندہ باد، مردہ باد کے نعرے لگانا، مخالف جماعتوں کے خلاف کیے جانے والے پروپیگنڈوں کا حصہ بننا، جلسوں میں کرسیاں لگانایا، دریاں بچھانا، سیاسی وڈیروں کی آل اولاد پر جان نثاری کا مظاہرہ کرنا، ان کی ہدایت پر سیاسی مخالفین کے جلسوں، جلوسوں میں گڑ بڑ پھیلانا، مخالف جماعتوں کے کارکنوں سے لڑ جانا اور لڑتے ہوئے جاں بحق اور زخمی ہونا، یہ وہ کام ہیں جو وڈیرہ شاہی جمہوریت کے سیاسی کارکن عشروں سے پاکستانی سیاست میں انجام دیتے آرہے ہیں۔
ہماری رائج الوقت سیاست میں سیاسی کارکنوں کی ایک اہم اور بڑی ذمے داری یہ ہے کہ الیکشن کے موقع پر اپنے لیڈروں کے لیے کارنر میٹنگوں کا اہتمام کریں، الیکشن مہم کے دوران گھر گھر جاکر اپنے لیڈروں، اپنی پارٹی کی عوام دوستی کا پروپیگنڈہ کریں اور ان کی سابقہ قومی خدمات سے غریب شہریوں کو آگاہ کریں۔
اس حوالے سے سیاسی کارکنوں کی ایک بڑی ذمے داری یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ پولنگ اسٹیشنوں تک عوام کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں لائیں، عوام کو ذات برادری، رنگ و نسل، زبان اور قومیت کی بنیاد پر استحصال اور جعلی ووٹروں اور جعلی ووٹوں کے استعمال کا کام مہارت سے کریں۔ سیاسی ہنگاموں کے دوران سیاسی کارکن ہی پکڑے جاتے ہیں اور جانی نقصان کے علاوہ جیلوں میں بند ہوجاتے ہیں، ان کی ان قربانیوں کے نتیجے میں ان کے گھروں میں فاقے ہوتے ہیں، ان کے بچے اسکولوں سے باہر کردیے جاتے ہیں اور جیل جانے کا اعزاز بدنامی کی شکل میں بدل جاتا ہے، ہمارے سیاسی کارکن عشروں سے یہی خدمات انجام دیتے آرہے ہیں اور سیاسی رہنماؤں کے ہاری بنے ہوئے ہیں۔
چونکہ ہمارا ملک ابھی تک خوش قسمتی یا بدقسمتی سے وڈیرہ شاہی نظام میں جکڑا ہوا ہے اس لیے ہماری سیاست پر بھی وڈیرہ شاہی پوری طرح حاوی ہے، جاگیردارانہ نظام کی ایک خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اس نظام میں شخصیت پرستی عام ہوتی ہے، جس کا اثر سیاسی جماعتوں میں بھی دیکھا جاتا ہے۔ جمہوری سیاست میں پارٹیوں کا منشور ہی سب سے زیادہ اہم اور سیاسی کارکنوں کا مرکز نگاہ ہوتا ہے لیکن ہماری سیاست میں سیاسی رہنما سیاسی منشور سے زیادہ اہم اور زمین پر خدا بنا ہوتا ہے جس کے ہر حکم پر سیاسی کارکن اپنی جان نثار کرنے کو اپنا دھرم، اپنا ایمان سمجھتا ہے۔
وہ سیاسی کارکن جن کی جد وجہد، جن کی قربانیوں سے سیاسی رہنما وزارت عظمیٰ وزارتوں سفارتوں اور اعلیٰ ترین عہدوں تک پہنچتے ہیں ان سیاسی کارکنوں پر ان محترمین کے سرکاری محلوں اور کوٹھیوں بنگلوں کے دروازے بند ہوتے ہیں اور وہ اپنے مسائل کے حل کے لیے عام شہریوں کی طرح ان کوٹھیوں اور کوٹھوں کے بلا نتیجہ طواف کرتے نظر آتے ہیں۔ ان وڈیرہ شاہی جماعتوں میں بھی مختلف ونگز ہوتے ہیں جن کا مقصد جلسوں جلوسوں کی رونق بڑھانا اور مخالفین سے لڑنا بھڑنا ہوتا ہے ان ونگز کا استعمال خون خرابے میں بھی ہوتا ہے اور عوام کے مختلف طبقات میں انتشار پیدا کرکے ان کی اجتماعی طاقت کو کمزور کرنا ہوتا ہے۔
ہمارے ملک میں چار کروڑ سے زیادہ مزدور فارمل اور نان فارمل سیکٹروں میں کام کرتے ہیں جنھیں انقلاب فرانس کے دور سے زیادہ بدتر حالات کا سامنا ہے، مالکان بادشاہ بنے ہوئے ہیں اور ان کے جائز اور قانونی حق انھیں دینے کے لیے تیار نہیں، ان حقوق کے حصول کے لیے مزدوروں کا متحد ہونا ضروری ہے، لیکن سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے یہ ونگز ان کے اتحاد میں حائل ہیں، انھیں تقسیم کرکے انھیں آپس میں لڑائی اور ان کی اجتماعی طاقت کو بڑی ہوشیاری سے کمزور کررہے ہیں۔ یہی صورتحال طلبا، کسانوں اور زندگی کے دوسر ے شعبوں کی ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ عوام کو تقسیم کرنے، انھیں آپس میں لڑانے کا نیک کام ہر جگہ چالاکی اور مکار سیاسی وڈیرے سیاسی کارکنوں ہی سے لے رہے ہیں۔
وڈیرہ شاہی کلچر میں وڈیروں کے سامنے سر اٹھانے، ان کے حکم کے بے چوں و چرا تعمیل نہ کرنے والوں، ان سے نظریں ملاکر بات کرنے والوں کو غدار کہا جاتا ہے اور ایسے غداروں کی سزا موت ہوتی ہے، جس پر عمل در آمد کے لیے ان پارٹیوں میں ایک عسکری ونگ ہوتا ہے، جس کے کارکن مخالفین اور گستاخوں کو راستے سے ہٹانے کا کام انجام دیتے ہیں۔ سیاسی کارکنوں کا تعلق چوں کہ غریب طبقات ہے سے ہوتا ہے جس کی وجہ ان کے بھی مسائل ہوتے ہیں، ملک و قوم کے مسائل حل کرنے کے دعویدار سیاسی وڈیرے اپنے ان کارکنوں کے مسائل پر توجہ نہیں دیتے جو رات دن ان کی لیڈری کو مضبوط بنانے کے لیے کام کرتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اپنی قیادت سے مایوس سیاسی کارکن جرائم کی دنیا کا حصہ بن جاتے ہیں۔
ہماری سیاسی جماعتوں میں ایسے کارکن بڑی تعداد میں موجود ہیں جو ساری زندگی پارٹی کی خدمت اور پارٹی رہنماؤں کی وفاداری میں گزار چکے ہیں، ان کے بال سفید ہوچکے ہیں، ان کی کمریں جھک گئی ہیں، جو سیاست کو سمجھتے ہیں، جو عوامی اور قومی مسائل جو ملکی اور بین الاقوامی سیاست اور اس کے اسرار و رموز سے آگہی رکھتے ہیں، جو مخلص اور ایماندار ہیں، جو عوام کے مسائل حل کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں، لیکن انھیں ہمیشہ نظر انداز کرکے پچھلی صفوں میں رکھا جاتا ہے۔
اس کے برخلاف سیاست سے ناواقف عوامی مسائل سے بے بہرہ قومی اور بین الاقوامی مسائل سے بے گانہ اپنی آل اولاد کو سیاسی میدان میں آگے لاکر سینئر اور تجربہ کار سیاسی کارکنوں کے سروں پر اس لیے مسلط کیا جاتا ہے کہ وہ ان کے بیٹے ہیں، بھانجے، بھتیجے، داماد اور بیٹیاں ہیں، اور بے چارے سیاسی کارکن اپنے مستقبل کے ان دشمنوں کو اپنے سروں پر بٹھاکر عوام میں ان عوام دشمنوں، عوام کے اور سیاست و جمہوریت کے مستقبل کے ان قاتلوں کو عوام میں مقبول بنانے کے لیے دن رات ایک کردیتے ہیں۔ یہ ہے ہماری سیاست کے وہ کارکن جو باعزت، باوقار سیاسی کارکن کے بجائے سیاسی اور جمہوری ہاری بنے ہوئے ہیں، جن کی محنت، جن کی صلاحیت، جن کی قربانیوں پر ہماری وڈیرہ شاہی جمہوریت مارکہ عمارت کھڑی ہوئی ہے۔ کیا ہمارے کارکن ہمیشہ ہاری ہی بنے رہیں گے؟