سعدی کی عشق و عاشقی اور ہمارے تلور
بیجنگ کی ینجوئی مسجد میں بہت سے قدیمی نوادرات موجود ہیں جن میں ایک کتاب گلستان بھی ہے جو سات صدی پرانی ہے
فارسی زبان کے خطے میں پرورش پانے والی تہذیب کے ایک شاہکار کو ایک دوسری قدیم زبان کے خطے چین کے نمائندے نے یاد کیا ہے اور فارسی زبان کے اس خوشہ چین کالم نویس کو اسے فارسی کی تعلیم کا ایک پرانا زمانہ یاد دلا دیا ہے۔
میں پڑوسی گاؤں میں ایک عالم کے حلقہ درس میں شامل تھا اور تعلیم کے ابتدائی مرحلے میں فارسی زبان کے یاد گار زمانہ دانش ور اور شاعر حضرت شیخ سعدی کی کتابیں نصاب میں شامل تھیں ان میں ان کی مشہور زمانہ کتاب 'گلستان' بھی تھی جو سعدی کی نثر و نظم کے انتخاب پر مشتمل تھی۔ اس کتاب کے ایک مشہور حصے کی یاد چین کے صدر کے دورہ ایران کے موقع پر دلائی گئی ہے اور خبر میں رپورٹر نے لکھا ہے کہ یہ کتاب چین اور ایران کے درمیان پر جوش تعلقات کا ایک سبب بن گئی۔
بیجنگ کی ینجوئی مسجد میں بہت سے قدیمی نوادرات موجود ہیں جن میں ایک کتاب گلستان بھی ہے جو سات صدی پرانی ہے۔ چینی صدر نے دورہ ایران سے قبل ایک مضمون میں شیخ سعدی شیرازی اور ان کے کاشغر کے ایک لڑکے سے شناسائی کا ذکر کیا ہے۔ کاشغر چینی مسلم اکثریتی علاقے سنکیانگ میں واقع ہے۔ گلستان سعدی کے پانچویں باب میں انھوں نے کاشغر کی ایک مسجد میں یہاں کے ایک طرح دار نوجوان سے جذباتی ملاقات کا ذکر کیا ہے اور یہ پہلی ملاقات ہی ان کی آخری ملاقات تھی، اس کا ذکر کرتے ہوئے شیخ سعدی نے کہا ہے کہ ہماری یہ سرسری سی مختصر ملاقات ہم دونوں کے ایک دوسرے کے رخسار کے الوداعی بوسے پر ختم ہو گئی۔ یاد گار زمانہ اس کتاب کے باب پنجم میں اس ملاقات کا ذکر ہے اور شیخ نے اس باب کا عنوان ''باب در عشق و جوانی'' دیا ہے۔
یہ اس مجموعہ کا پانچواں باب ہے جس میں شیخ نے فارسی زبان کو ایک نیا حسن دیا ہے اور ایک شاعر کی زندگی کے ایک پہلو کو قلمبند کیا ہے۔ گلستان کے باب پنجم کے سبق میں ہمارے بزرگ استاد نے کہا تھا کہ اس کی زبان کا لطف لیں اس کی تفصیلات میں نہ جائیں۔ یہ بزرگ استاد اس کتاب کے بدنام پانچویں باب سے سرسری طور پر گزر جانا چاہتے تھے اور شیخ کے بوس و کنار کے ذکر کو ہم طلباء پر چھوڑ دینا چاہتے تھے کہ وہ نوجوان طلبہ کے سامنے شیخ کی زندگی کے اس خوبصورت حصے کو کیسے بیان کریں جس کی وجہ سے انھوں نے اپنی کتاب کے اس باب کو ''عشق و جوانی'' کا باب کہا تھا جس میں وہ فارسی زبان کے نظم و نثر کو عروج پر لے گئے تھے۔ میں جب گلستان سعدی کا ذکر کر رہا ہوں تو اپنی قومی محرومی پر رنج بھی کر رہا ہوں کہ ہمارے نوجوان طلبہ ان شاہکاروں کے فہم سے محروم ہیں۔
ہم جس زمانے میں زندگی بسر کررہے ہیں اس کی معاشی زندگی میں فارسی زبان شامل نہیں ہے۔ انگریزی ہے اور ہم انگریزی کو ہی اپنی محنت کے لائق سمجھتے ہیں اور درست طور پر ایسا کرتے ہیں لیکن معاشی ضرورت یہاں ختم ہو جاتی ہے اور ایک طالب جب اپنے ذہن میں کچھ وسعت چاہتا ہے تو وہ فارسی عربی وغیرہ سے اپنے آپ کو محروم پاتا ہے اور اب تو اردو سے بھی اس کا واجبی سا تعلق باقی رہ گیا ہے۔
ٹی وی پر جب اردو کا کوئی جملہ دیکھنا پڑ جاتا ہے تو اسے پڑھتے ہوئے سر پیٹنے کو جی چاہتا ہے کہ اکثر عبارتیں غلط اور ان کی املاء بھی غلط ہوتی ہے اس کا مطلب ہے کہ ٹی وی عملے میں بھی واجبی سے پڑھے لکھے لوگ موجود ہیں جو زیادہ تر سفارشی لگتے ہیں اگر ہم اپنی اردو زبان بھی پڑھ لکھ نہیں سکتے تو ہم کیا ہیں۔
یوں تو ہم گھر میں بچوں سے بھی اردو زبان میں بات کرتے ہیں مگر یہی اردو لکھ نہیں سکتے ویسے یونیورسٹیوں اور اعلیٰ کالجوں میں فارسی اور عربی کے شعبے موجود ہیں مگر طلبہ ان بے کار اور غیر نفع بخش زبانوں پر توجہ نہیں دیتے اور وہ ٹھیک کرتے ہیں کہ ان کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ ان زبانوں کو اپنا شوقیہ وقت بھی دے دیں۔
یہ زبان و بیان کا ذکر چھوڑئیے اور اپنے صحراؤں کے خوبصورت پرندے تلور کا ماتم کیجیے جس کے شکار پر کسی حد تک پابندی تھی مگر اب سپریم کورٹ نے وہ بھی اٹھا دی ہے اس لیے اس پر کچھ عرض کرنے کی ہمت نہیں پڑ سکتی۔ ہم تو ایک عدالتی پیشی کی مار بھی نہیں ہیں کجا کہ معصوم اور خوبصورت پرامن تلور کے شکار کے اذن عام پرکچھ عرض کر سکیں رو پیٹ سکیں۔ ہمارے عرب بھائی ہمارے تلور کے شکار کے بہت شوقین ہیں اور وہ پاکستان میں اکثر آتے جاتے رہتے ہیں کہ تلور کا شکار کر سکیں۔
اس پر پاکستانیوں نے ذرا کمزور سا احتجاج کیا کہ وہ اس قدرتی دولت سے محروم ہو رہے ہیں اور ان کے غیر ملکی شکاری بڑی لاپروائی سے ان کو شکار کرتے ہیں۔ معلوم نہیں ہمیں تلور سے کیا بیر ہے اور اس معصوم کی زندگی سے بیزار کیوں ہیں۔ مجھ میں اتنی توفیق ہوتی تو میں زندہ تلور کی تصویر فریم کرا کے سپریم کورٹ کے کسی کمرے یا گیلری میں آویزاں کر دیتا تاکہ اسے دیکھنے والوں کو تلور کی یاد آتی رہے اور وہ یہ پرانا شعر دہراتے رہیں ؎
بال و پر دو چار دکھلا کر کہا صیاد نے
یہ نشانی رہ گئی ہے اب بجائے عندلیب
عندلیب یعنی بلبل کی نشانی تو باقی رہ جائے گی کہ شاعروں نے اس کا ذکر بکثرت کیا ہے اور یہ پاکستان کے باغیچوں میں بھی پایا جاتا ہے لیکن تلور تو ایک موٹا سا پرندہ نما جانور ہے جو ہمارے عرب دوستوں کے طفیل مشہور ہوا ہے ورنہ اسے کون جانتا تھا۔ عرب اس کا شکار کرتے ہیں اور پاکستان میں جہاں یہ موجود ہے وہاں کے صاحبان اختیار سے تیل کے یہ دولت مند تلور کے شکار کی اجازت چاہتے ہیں اور سنا ہے کہ وہ اپنا شوق مفت میں پورا نہیں کرنا چاہتے انھیں ہم پاکستانیوں اور ہمارے تلوروں کی قیمت معلوم ہے۔ اب ہم پاکستانیوں پر منحصر ہے کہ ہم اپنے تلوروں کا کیا بھاؤ لگاتے ہیں اور اس سودا بازی میں کیا کمال دکھاتے ہیں لیکن اب تو سب کچھ ختم ہو گیا کہ ہمارے سپریم کورٹ نے تلوروں کو اپنی قانونی حفاظت میں لے لیا ہے اور وہ بھی اعلیٰ ترین۔