لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

اُمتِ مسلمہ واقعی اس وقت بڑے پر آشوب دور سے گزر رہی ہے اور اسے کڑی آزمائش کا سامنا ہے


Shakeel Farooqi January 26, 2016
[email protected]

اتحاد بین المسلمین کے عظیم داعی علامہ اقبال نے ایک مدت دراز قبل اپنی شدید دلی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ:

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تا بہ خاک کاشغر

آج جب کہ مسلم امہ کو دہشت گردی اور شدت پسندی کی صورت میں دو بڑے چیلنجوں کا مقابلہ درپیش ہے علامہ کی اس شدید خواہش کی تکمیل کی آج پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ مولانا حالی کی روح بھی اس وقت تڑپ تڑپ کر یہی دہائی دے رہی ہوگی کہ:

اے خاصۂ خاصانِ رُسُل وقت دعا ہے
امت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے

اُمتِ مسلمہ واقعی اس وقت بڑے پر آشوب دور سے گزر رہی ہے اور اسے کڑی آزمائش کا سامنا ہے، ریاض اور تہران کی کشمکش ختم یا کم ہونے کے بجائے اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ اسلامی دنیا کے دو انتہائی اہم اور بااثر ممالک کی بڑھتی ہوئی باہمی چپقلش پوری امت اسلامیہ کے لیے شدید تشویش کا باعث ہے، بڑے افسوس کی بات ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے تعلقات اس وقت سے ہی سردمہری کا شکار ہیں جب ایران میں اسلامی انقلاب کے دور کا آغاز ہوا تھا۔ یہ 1979 کی بات ہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان تعلقات میں سدھار آنے کے بجائے مسلسل بگاڑ ہی آتا چلا گیا، بہ قول شاعر:

دلوں کے فاصلے بڑھتے رہیںگے
اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوںگے

افسوس کہ مسلم امہ کو تقسیم کرنے والی لابی نے ان دونوں ممالک کے درمیان غلط فہمی اور بد گمانی کے ایسے بیج بودیے کہ جن کی ایک پوری فصل پک کر تیار ہوچکی ہے جس کے باعث ان کے درمیان مصالحت اور بیچ بچاؤ کرانے کا کام اب پہلے سے کئی گنا زیادہ دشوار اور پیچیدہ ہوگیا ہے۔اس صورتحال میں پاکستان کی پوزیشن بے حد نازک ہے جسے ایک اعتبار سے خیر مستوریا Blessing in Disguise سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔

جہاں تک پاک ایران تعلقات کا معاملہ ہے تو اس کی تاریخ قیام پاکستان سے بھی زیادہ پرانی ہے، برصغیر کی تقسیم سے برسوں قبل سے اس خطے پر مغل حکمرانوں کے دور میں فارسی زبان اور ایرانی کلچر کے بڑے گہرے اثرات مرتب تھے جس کے نقوش آج تک موجود ہیں، پھر جب برصغیر کی تقسیم ہوئی اور اس کے نتیجے میں پاکستان معرض وجود میں آیا تو اسے تسلیم کرنے والے مسلم ممالک میں ایران سب سے پیش پیش تھا۔

وقت گزرنے کے ساتھ دونوں ممالک کے تعلقات وسیع سے وسیع تر ہوتے چلے گئے تا آں کہ بعد میں آر سی ڈی اور پھر ای سی او نامی تنظیموں سے وابستگی کے طفیل ان باہمی تعلقات کو مزید فروغ اور استحکام حاصل ہوا۔ تاریخ، ثقافت اور جغرافیائی بندھنوں کی وجہ سے دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کی نوعیت بھی غیر معمولی ہے۔ 1965 کی پاک بھارت جنگ میں ایران کے کردار اور پاکستان کے ساتھ اس کے اہم تعاون کو بھلا کیونکر فراموش کیا جاسکتا ہے اس حوالے سے ہمیں دوستی سے متعلق فارسی کا یہ ایک خوبصورت شعر یاد آرہاہے۔

دوست آن باشد کہ گیرد دستِ دوست
در پریشاں حالی و در ماندگی

تجارتی اعتبار سے بھی پاک ایران تعلقات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ایران کے خلاف عائد پابندیاں اٹھ جانے کے بعد ایران سے گیس در آمد کرنے کے نتیجے میں ہمیں توانائی کے بحران سے نمٹنے میں بہت زیادہ مدد ملے گی۔

دوسری جانب پاکستان سے اپنی ضرورت کے اشیا و امپورٹ کرکے ایران بھی کافی فائدہ اٹھاسکتا ہے۔ بلاشبہ دونوں ممالک کے درمیان باہمی تجارت کے امکانات بہت روشن اور وسیع ہیں اور باہمی تجارت دونوں ممالک کے تعلقات کے فروغ اور استحکام میں بڑا مثبت کردار ادا کرے گی۔ دفاعی اعتبار سے بھی دونوں ممالک کے تعلقات کا بہتر ہونا دونوں کے مفاد میں ہے کیوں کہ دونوں ہی ممالک ذرا سی بھی کشیدگی کے متحمل نہیں ہوسکتے۔

تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان نے ایران کے ساتھ ہمیشہ دوستانہ کردار ادا کیا ہے اور اسے بعض ایسے فوائد بھی پہنچائے ہیں جن کا تذکرہ نہ کرنا ہی زیادہ مناسب ہوگا۔ بد قسمتی سے بعض مخالف قوتیں جنھیں چند اندرونی عناصر کی در پردہ حمایت بھی حاصل ہے دونوں ممالک کے درمیان غلط فہمیاں او بد گمانیاں پیدا کرنا چاہتی ہیں مگر ان شاء اﷲ وہ اپنی مذموم کوششوں میں کامیابی حاصل نہ کرسکیںگی۔ اس حوالے سے دونوں ممالک کی قیادتوں اور سفارت کاروں پر بڑی بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے۔

دوسری جانب برادر اسلامی ملک سعودی عرب کے ساتھ بھی پاکستان کے تعلقات روز اول سے ہی بڑے قریبی اور مضبوط ہیں اور دونوں ممالک کے عوام دین اسلام کے ناطے سے ایک دوسرے کے ساتھ اٹوٹ بندھنوں میں بندھے ہوئے ہیں، امت مسلمہ کے قبلہ کی حفاظت اور نگہداشت پاسبان حرمین شریفین کے ذمے ہے جس کے لیے پاکستان کی حمایت لازم و ملزوم ہے۔

پاکستان جو کہ اسلام کا قلعہ کہلاتا ہے اپنی اس عظیم ذمے داری کو پوری طرح سے جانتا اور محسوس کرتا ہے اور اس کی ادائیگی میں کبھی دریغ نہیں کرسکتا۔ پاکستان کو اس بات کا بھی احساس ہے کہ مشکل کی ہر گھڑی میں سعودی عرب نے اس کا ہمیشہ بھرپور ساتھ دیا ہے، دوسری جانب پاکستان بھی سعودی عرب کی ایک اہم دفاعی لائن ہے، لہٰذا یہ ممکن ہی نہیں کہ آزمائش کے کسی بھی موقع پر سعودی عرب کے شانہ بہ شانہ کھڑا نہ ہو۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ پاکستان کی موجودہ برسر اقتدار اعلیٰ قیادت بھی سعودی فرماں رواؤں کے ساتھ ذاتی قربت رکھتی ہے۔

قصہ مختصر کہ پاکستان کے ایران اور سعودی عرب دونوں ہی ممالک کے ساتھ خوشگوار تعلقات استوار ہیں اس لیے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ سارا وزن ایک ہی پلڑے میں ڈال دے۔ انصاف اور مصالحت کا تقاضا ہے کہ وہ ترازو کے دونوں پلڑوں کے درمیان حکمت اور دانائی کے ساتھ استعمال کرتے ہوئے ایک مخلص اور انصاف پسند ثالث کا مثبت اور موثر کردار ادا کرے۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے جب پاکستان کو ایسے نازک مرحلے سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ گزشتہ سال مارچ کے مہینے میں یمن کے تنازعہ کے وقت بھی قریب قریب پاکستان اس قسم کی صورت حال سے گزرا تھا جب سعودی عرب کی خواہش تھی کہ پاکستان یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف سعودی عرب کی افواج کی مدد کے لیے اپنی فوجیں بھجوائے، صرف یہی نہیں سعودی عرب کے زیر قیادت تشکیل پانے والے قومی اتحاد میں پاکستان کا نام بھی اسی طرح شامل کردیاگیا تھا جیسے پہلی مرتبہ 34 ممالک پر مشتمل اتحاد میں شامل کردیاگیا ہے تاہم پاکستان نے بڑی حکمت اور دانائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بڑی نرمی کے ساتھ معذرت کرلی تھی۔

جس پر سعودی عرب کی جانب سے ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا تھا یہی نہیں بلکہ اس کی حمایت میں متحدہ عرب امارات کی قیادت نے بھی سعودی قیادت کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے اسی طرح سے اظہار ناپسندیدگی کیا تھا۔ سچی اور کھری بات یہ ہے کہ پاکستان کے مفادات کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے تنازعے میں جانب داری برتنے کے بجائے صلح اور صفائی کرانے کی بھرپور اور مخلصانہ کوششیں کی جائیں پاکستان کے لیے واحد راستہ یہی ہے کہ بالکل شفاف اور قطعی غیر جانبدارانہ رویہ اختیار کیا جائے اور ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھایا جائے، بہ قبول شاعر:

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

خدا نخواستہ معمولی سی بھول چوک بھی فرقہ واریت کے شعلوں کو خواہ مخواہ ہوا دے سکتی ہے اور بُھس میں لگنے والی چنگاری خوفناک آتش فشاں کا روپ دھار سکتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔