پھر گھر نہ در
دنیا بہت تیز رفتار ہوگئی ہے۔ کہیں بھی کوئی واقعہ، حادثہ رونما ہو تو چند منٹ میں کیمرے وہاں پہنچ جاتے ہیں
دنیا بہت تیز رفتار ہوگئی ہے۔ کہیں بھی کوئی واقعہ، حادثہ رونما ہو تو چند منٹ میں کیمرے وہاں پہنچ جاتے ہیں اور آپ کو سارے معاملے سے آگاہ کردیتے ہیں، سوائے ان معاملوں کے جو حکومت نہیں چاہتی کہ عوام کے علم میں لائے جائیں۔ اس میں کیا ''عوامل'' کارفرما ہوتے ہیں اب یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہ گئی ہے اور ''عوام سب جانتے ہیں'' نام کا بھی ایک پروگرام کرکے عوام کی بے حسی اور بے بسی یا ان میں صرف بے بسی کو بھی دکھایا جاسکتا ہے۔
دکھایا جاتا ہے۔ لوٹ مار، چور بازاری، ملاوٹ، اغوا برائے تاوان، آبرو ریزی کے اتنے واقعات ان کیمروں نے دکھا دیے ہیں کہ اب یہ ''عیب'' ، ''ہنر'' بن گیا ہے۔ تعلیم سے عدم دلچسپی اور بے پڑھا لکھا ہونا سونے پر سہاگے کا کام کررہا ہے اور لوگ بیروزگاری کو ''روزگار'' بنانے کے سلسلے میں قانون کی خلاف ورزی کو بھی اب درست جاننے لگے ہیں۔
اتنے سال ہوگئے، ہزاروں پروگرام اور خبریں نشر اور شایع ہوچکیں، کیا ملک سے ''غیر قانونی طریقے'' سے روزگار کے لیے باہر جانے کا سلسلہ ختم ہوا؟ دنیا کے بڑے حادثات اور واقعات میں ''چند پاکستانی'' ضرور پائے جاتے ہیں اور کہیں کہیں تو ''صرف پاکستانی'' پائے جاتے ہیں۔ انٹرنیٹ، فیس بک نے اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگوں کو بے وقوف یا مجرم بنادیا ہے اور دیار غیر سے بیٹھ کر ''لڑکیاں'' پاکستان کے نوجوانوں کو بے وقوف بناکر رقم مسلسل اینٹھ رہی ہیں جس میں میرے قریب ترین لوگ بھی شامل ہیں جو اس کا شکار ہیں مگر کیا کیا جائے یہ وہ ''نشہ'' ہے کہ اس میں آنکھوں پر پٹی خود ''اندھا'' ہونے والا باندھتا ہے اور آپ کچھ بھی کرلیں وہ ''خواب خرگوش'' سے بیدار نہیں ہوتا اور اپنی محنت کی کمائی کو ان جھوٹے ''فراڈیوں'' پر لٹاتا رہتا ہے۔
اس میں دراصل ایک ''جذبہ تسکین'' ہے کہ میں نے یہ کیا، میری وجہ سے یہ ہوا۔ یہ ایک احمقانہ سوچ اور رقم، وقت اور جان کا زیاں ہے اور جان تو آخر میں جانی ہی ہے۔ ''سیلفی'' کا مطلب ہے ''خودی''۔ اقبال کی خودی سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ واضح رہے یہ بالکل اس کے برعکس ہے اور یہ خودی نہیں ہے بلکہ ''بے خودی'' ہے۔
ہمارے ایک قریبی صاحبزادے جو نہایت مشکل سے نوکری کرتے ہیں اور جسمانی طور پر اس قدر مضبوط نہیں تو آپ سوچ سکتے ہیں کہ وہ کس قدر محنت سے نوکری کرکے رقم کماتے ہوں گے اور ان کا پیسہ کس قدر ''رزق حلال'' ہے۔ مگر وہ کس طرح اس رزق کو ''حرام'' کر رہے ہیں اس کی تفصیل لکھتے ہوئے بھی دکھ ہوتا ہے مگر لکھ اس لیے رہا ہوں کہ شاید اسے پڑھ کر کوئی اور ''صاحبزادے'' برباد اور تباہ ہونے سے بچ جائیں۔ یہ لوگ تھائی لینڈ، فلپائن وغیرہ سے بیٹھ کر ایک Racket چلاتے ہیں اور اس میں لڑکے لڑکیاں شامل ہیں، فیس بک پر یہ گروپ کی شکل میں ہوتے ہیں اور انسانی نفسیات کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں اور کیونکہ یہ ملک بہت غریب ملک ہے، لہٰذا وہاں لاکھ روپیہ بھی بہت ہوتا ہے۔
یوں سمجھیے کہ پاکستان میں آج سے بیس پچیس سال پہلے جو بھاؤ تھا وہی وہاں اس وقت ہے۔ تو پاکستان میں تو اب تنخواہیں بھی ہزاروں کی آخری حدوں کو چھو رہی ہیں اور عام لوگوں یعنی کلرک بادشاہ کو بھی پندرہ سے بیس ہزار روپے تنخواہ مل رہی ہے، سب کچھ کٹنے کے بعد یعنی سرکاری کٹوتیاں ہوجانے کے بعد تو یہ رقم اگر وہ گھر کے لوگوں پر خرچ نہیں کر رہے تو ایک فرد اور ان لوگوں کے لیے جو تھائی لینڈ، فلپائن میں بیٹھے ہیں بہت ہے۔
تو ان صاحبزادے نے ''مراسم تصویری'' قائم ہونے کے بعد ظاہر ہے کہ خود کو ان لوگوں میں شمار کیا جن کے ''محبوب چل کر آجاتے ہیں'' مگر یہ محبوب دوسری قسم کا تھا، اس نے آنے کا کرایہ مانگا۔ کرایہ مل گیا تو آئے نہیں، بہانہ یہ کیا کہ پاسپورٹ گم ہوگیا۔ اب پاکستانی صاحبزادے اس قدر معصوم ہیں کہ اس عذر کو بسر و چشم تسلیم کرلیا۔ حالانکہ پاسپورٹ دوسرا بن سکتا تھا، کرایہ موجود تھا آیا جاسکتا تھا، مگر ان سے آیا نہ گیا۔ ہر چند کہ انھوں نے بہت بلایا۔ اور پھر یہ سلسلہ جاری ہے۔
ان کے اخراجات یہ اٹھا رہے ہیں۔ اب ایک نئی کہانی انھوں نے ترتیب دی کہ آپ ایک دو روز کے لیے آجاؤ۔ یہ صاحب تیار! لاکھوں کا خرچہ کرنے کو۔ جب ادھر سے دیکھا گیا کہ بندہ ہاتھ نہیں آرہا تو کہا گیا کہ اگر آپ کو ویزہ نہیں مل رہا تو آپ رقم ہمیں بھیج دیں ہم آپ کو ویزہ بھیج دیں گے۔ یہ پاکستانی احمق نوجوان کیا بلکہ پچاس سے زیادہ کے انسان اس پر بھی تیار! کہ رقم ان کو بھیج دیں وہ ویزہ بھیج دیں اور یہ چلے جائیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پہلے یہ جھانسہ دیا گیا کہ آپ آجائیں ہم آپ کو گاؤں میں اپنی بہن کے بچوں کا ٹیوٹر رکھ لیں گے اور یوں آپ کا گزارا ہوجائے گا۔
عقل خدا دیتا ہے مگر استعمال خود کرنی پڑتی ہے۔ جس ملک میں غربت کا یہ حال ہے کہ سمندر کے کنارے کشتیوں میں لوگ رہتے ہیں اور ان کشتیوں میں مرغی سے سبزی تک مہیا ہے اور یوں زندگی گزر رہی ہے، جس کے معاشی حالات بدتر سے بدتر ہیں اور زندگی گزارنا وہاں کے لوگوں کے لیے عذاب ہے۔ وہاں وہ یہاں سے آئے ہوئے ایک آدمی کو ایڈجسٹ کریں گے بحیثیت ''ٹیوٹر'' اور وہ کب تک؟؟ بچے تو چند سال میں بڑے ہوجائیں گے۔
اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ یہ بات درست ہے جب کہ یہ مکمل جھوٹ ہے تو پھر یہ صاحبزادے کیا کریں گے۔ یہ ان نوجوانوں کی طرح جو اس ملک میں چھپتے پھرتے ہیں پولیس سے ایک اضافہ ہوں گے کیونکہ جسمانی طور پر ''خاصے معذور'' ہیں، لہٰذا بھیک مانگیں گے۔ اور ہوسکتا ہے کہ بھکاریوں کے کسی گروہ کے ہاتھ لگ جائیں تو زندگی بھر کے لیے بھکاری بن کر جئیں گے، وہیں مریں گے اور آخر میں کہیں ایک گمنام قبر ان کی بھی ہوگی۔ اگر ہوئی تو۔ ورنہ ان کو سمندر کے سپرد کردیں گے جہاں یہ مچھلیوں کے ''کام'' آجائیں گے۔ ہمارے پاکستان کے لوگ کس قدر خوابوں کی دنیا کے مسافر ہیں۔
سب کچھ لٹا دیتے ہیں دوسروں کے لیے۔ یہ جو کچھ ان کے ساتھ ہو رہا ہے یہ بھی ایک دہشت گردی ہے، انسانی اسمگلنگ کا ایک بالواسطہ طریقہ۔ پاکستان کے بہت سے نوجوان جو ''منیلا'' میں دھکے کھا رہے ہیں، وہ ایسے ہی نوجوان ہیں جو اس قسم کے لوگوں کے ''ہتھے'' چڑھ گئے اور لڑکیوں کے تصوراتی عشق میں دین دنیا سب خراب کر بیٹھے۔ نہ گھر کے رہے نہ کہیں اور کے ''دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا''۔
ان نوجوانوں کے گھر والوں نے کس آرزو اور تمنا سے ان کو رخصت کیا ہوگا، اور جعلی لوگوں نے کس اہتمام سے ان کو بے وقوف بناکر لاکھوں بٹورے ہوں گے، یہاں بھی اور فلپائن میں بھی اور ان کو تصویریں بھیج کر کس قدر رنگین راتوں کے خواب دکھائے گئے ہوں گے، مگر ان کی قسمت کہ ان کے حصے میں صرف وہاں کے فٹ پاتھ اور مچھر آئے ہیں۔ یہ وہاں کے غلیظ علاقوں میں رہنے پر مجبور ہیں کہ وہ سستے ہیں۔ ایڈز اور دوسری بیماریوں کا شکار ہیں۔ ان کا انجام آپ سمجھ سکتے ہیں ان میں روز اضافہ ہو رہا ہے۔ سچ ہے جو اپنے گھر کی قدر نہیں کرتا اسے کہیں گھر نہیں ملتا۔
دکھایا جاتا ہے۔ لوٹ مار، چور بازاری، ملاوٹ، اغوا برائے تاوان، آبرو ریزی کے اتنے واقعات ان کیمروں نے دکھا دیے ہیں کہ اب یہ ''عیب'' ، ''ہنر'' بن گیا ہے۔ تعلیم سے عدم دلچسپی اور بے پڑھا لکھا ہونا سونے پر سہاگے کا کام کررہا ہے اور لوگ بیروزگاری کو ''روزگار'' بنانے کے سلسلے میں قانون کی خلاف ورزی کو بھی اب درست جاننے لگے ہیں۔
اتنے سال ہوگئے، ہزاروں پروگرام اور خبریں نشر اور شایع ہوچکیں، کیا ملک سے ''غیر قانونی طریقے'' سے روزگار کے لیے باہر جانے کا سلسلہ ختم ہوا؟ دنیا کے بڑے حادثات اور واقعات میں ''چند پاکستانی'' ضرور پائے جاتے ہیں اور کہیں کہیں تو ''صرف پاکستانی'' پائے جاتے ہیں۔ انٹرنیٹ، فیس بک نے اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگوں کو بے وقوف یا مجرم بنادیا ہے اور دیار غیر سے بیٹھ کر ''لڑکیاں'' پاکستان کے نوجوانوں کو بے وقوف بناکر رقم مسلسل اینٹھ رہی ہیں جس میں میرے قریب ترین لوگ بھی شامل ہیں جو اس کا شکار ہیں مگر کیا کیا جائے یہ وہ ''نشہ'' ہے کہ اس میں آنکھوں پر پٹی خود ''اندھا'' ہونے والا باندھتا ہے اور آپ کچھ بھی کرلیں وہ ''خواب خرگوش'' سے بیدار نہیں ہوتا اور اپنی محنت کی کمائی کو ان جھوٹے ''فراڈیوں'' پر لٹاتا رہتا ہے۔
اس میں دراصل ایک ''جذبہ تسکین'' ہے کہ میں نے یہ کیا، میری وجہ سے یہ ہوا۔ یہ ایک احمقانہ سوچ اور رقم، وقت اور جان کا زیاں ہے اور جان تو آخر میں جانی ہی ہے۔ ''سیلفی'' کا مطلب ہے ''خودی''۔ اقبال کی خودی سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ واضح رہے یہ بالکل اس کے برعکس ہے اور یہ خودی نہیں ہے بلکہ ''بے خودی'' ہے۔
ہمارے ایک قریبی صاحبزادے جو نہایت مشکل سے نوکری کرتے ہیں اور جسمانی طور پر اس قدر مضبوط نہیں تو آپ سوچ سکتے ہیں کہ وہ کس قدر محنت سے نوکری کرکے رقم کماتے ہوں گے اور ان کا پیسہ کس قدر ''رزق حلال'' ہے۔ مگر وہ کس طرح اس رزق کو ''حرام'' کر رہے ہیں اس کی تفصیل لکھتے ہوئے بھی دکھ ہوتا ہے مگر لکھ اس لیے رہا ہوں کہ شاید اسے پڑھ کر کوئی اور ''صاحبزادے'' برباد اور تباہ ہونے سے بچ جائیں۔ یہ لوگ تھائی لینڈ، فلپائن وغیرہ سے بیٹھ کر ایک Racket چلاتے ہیں اور اس میں لڑکے لڑکیاں شامل ہیں، فیس بک پر یہ گروپ کی شکل میں ہوتے ہیں اور انسانی نفسیات کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں اور کیونکہ یہ ملک بہت غریب ملک ہے، لہٰذا وہاں لاکھ روپیہ بھی بہت ہوتا ہے۔
یوں سمجھیے کہ پاکستان میں آج سے بیس پچیس سال پہلے جو بھاؤ تھا وہی وہاں اس وقت ہے۔ تو پاکستان میں تو اب تنخواہیں بھی ہزاروں کی آخری حدوں کو چھو رہی ہیں اور عام لوگوں یعنی کلرک بادشاہ کو بھی پندرہ سے بیس ہزار روپے تنخواہ مل رہی ہے، سب کچھ کٹنے کے بعد یعنی سرکاری کٹوتیاں ہوجانے کے بعد تو یہ رقم اگر وہ گھر کے لوگوں پر خرچ نہیں کر رہے تو ایک فرد اور ان لوگوں کے لیے جو تھائی لینڈ، فلپائن میں بیٹھے ہیں بہت ہے۔
تو ان صاحبزادے نے ''مراسم تصویری'' قائم ہونے کے بعد ظاہر ہے کہ خود کو ان لوگوں میں شمار کیا جن کے ''محبوب چل کر آجاتے ہیں'' مگر یہ محبوب دوسری قسم کا تھا، اس نے آنے کا کرایہ مانگا۔ کرایہ مل گیا تو آئے نہیں، بہانہ یہ کیا کہ پاسپورٹ گم ہوگیا۔ اب پاکستانی صاحبزادے اس قدر معصوم ہیں کہ اس عذر کو بسر و چشم تسلیم کرلیا۔ حالانکہ پاسپورٹ دوسرا بن سکتا تھا، کرایہ موجود تھا آیا جاسکتا تھا، مگر ان سے آیا نہ گیا۔ ہر چند کہ انھوں نے بہت بلایا۔ اور پھر یہ سلسلہ جاری ہے۔
ان کے اخراجات یہ اٹھا رہے ہیں۔ اب ایک نئی کہانی انھوں نے ترتیب دی کہ آپ ایک دو روز کے لیے آجاؤ۔ یہ صاحب تیار! لاکھوں کا خرچہ کرنے کو۔ جب ادھر سے دیکھا گیا کہ بندہ ہاتھ نہیں آرہا تو کہا گیا کہ اگر آپ کو ویزہ نہیں مل رہا تو آپ رقم ہمیں بھیج دیں ہم آپ کو ویزہ بھیج دیں گے۔ یہ پاکستانی احمق نوجوان کیا بلکہ پچاس سے زیادہ کے انسان اس پر بھی تیار! کہ رقم ان کو بھیج دیں وہ ویزہ بھیج دیں اور یہ چلے جائیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پہلے یہ جھانسہ دیا گیا کہ آپ آجائیں ہم آپ کو گاؤں میں اپنی بہن کے بچوں کا ٹیوٹر رکھ لیں گے اور یوں آپ کا گزارا ہوجائے گا۔
عقل خدا دیتا ہے مگر استعمال خود کرنی پڑتی ہے۔ جس ملک میں غربت کا یہ حال ہے کہ سمندر کے کنارے کشتیوں میں لوگ رہتے ہیں اور ان کشتیوں میں مرغی سے سبزی تک مہیا ہے اور یوں زندگی گزر رہی ہے، جس کے معاشی حالات بدتر سے بدتر ہیں اور زندگی گزارنا وہاں کے لوگوں کے لیے عذاب ہے۔ وہاں وہ یہاں سے آئے ہوئے ایک آدمی کو ایڈجسٹ کریں گے بحیثیت ''ٹیوٹر'' اور وہ کب تک؟؟ بچے تو چند سال میں بڑے ہوجائیں گے۔
اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ یہ بات درست ہے جب کہ یہ مکمل جھوٹ ہے تو پھر یہ صاحبزادے کیا کریں گے۔ یہ ان نوجوانوں کی طرح جو اس ملک میں چھپتے پھرتے ہیں پولیس سے ایک اضافہ ہوں گے کیونکہ جسمانی طور پر ''خاصے معذور'' ہیں، لہٰذا بھیک مانگیں گے۔ اور ہوسکتا ہے کہ بھکاریوں کے کسی گروہ کے ہاتھ لگ جائیں تو زندگی بھر کے لیے بھکاری بن کر جئیں گے، وہیں مریں گے اور آخر میں کہیں ایک گمنام قبر ان کی بھی ہوگی۔ اگر ہوئی تو۔ ورنہ ان کو سمندر کے سپرد کردیں گے جہاں یہ مچھلیوں کے ''کام'' آجائیں گے۔ ہمارے پاکستان کے لوگ کس قدر خوابوں کی دنیا کے مسافر ہیں۔
سب کچھ لٹا دیتے ہیں دوسروں کے لیے۔ یہ جو کچھ ان کے ساتھ ہو رہا ہے یہ بھی ایک دہشت گردی ہے، انسانی اسمگلنگ کا ایک بالواسطہ طریقہ۔ پاکستان کے بہت سے نوجوان جو ''منیلا'' میں دھکے کھا رہے ہیں، وہ ایسے ہی نوجوان ہیں جو اس قسم کے لوگوں کے ''ہتھے'' چڑھ گئے اور لڑکیوں کے تصوراتی عشق میں دین دنیا سب خراب کر بیٹھے۔ نہ گھر کے رہے نہ کہیں اور کے ''دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا''۔
ان نوجوانوں کے گھر والوں نے کس آرزو اور تمنا سے ان کو رخصت کیا ہوگا، اور جعلی لوگوں نے کس اہتمام سے ان کو بے وقوف بناکر لاکھوں بٹورے ہوں گے، یہاں بھی اور فلپائن میں بھی اور ان کو تصویریں بھیج کر کس قدر رنگین راتوں کے خواب دکھائے گئے ہوں گے، مگر ان کی قسمت کہ ان کے حصے میں صرف وہاں کے فٹ پاتھ اور مچھر آئے ہیں۔ یہ وہاں کے غلیظ علاقوں میں رہنے پر مجبور ہیں کہ وہ سستے ہیں۔ ایڈز اور دوسری بیماریوں کا شکار ہیں۔ ان کا انجام آپ سمجھ سکتے ہیں ان میں روز اضافہ ہو رہا ہے۔ سچ ہے جو اپنے گھر کی قدر نہیں کرتا اسے کہیں گھر نہیں ملتا۔