سندھ حکومت 10سال میں پیرول پر رہا ہونیوالوں کی رپورٹ دے سینیٹ کمیٹی برائے انسانی حقوق
کراچی میں اجلاس، امن و امان میں حکومت کی ناکامی پر اظہار تشویش، سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز ذمے دار قرار
سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے بھی حکومت سندھ سے گزشتہ دس برسوںکے دوران پیرول پر رہا ہونے والے قیدیوں کی رپورٹ طلب کرلی۔
کمیٹی نے اس بات پر سخت تشویش کا اظہار کیا کہ حکومت کراچی میں امن وامان قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ اسٹینڈنگ کمیٹی کا اجلاس چیئرمین سینیٹر افراسیاب خٹک کی صدارت میں جمعہ کو چیف سیکریٹری سندھ کے دفتر میں منعقد ہوا جس میں کمیٹی کے ارکان سینیٹر میاں رضا ربانی، سینیٹر مشاہد حسین سید، سینیٹر ڈاکٹر فروغ نسیم، سینیٹر نسرین جلیل، سینیٹر حاجی غلام علی، سینیٹر فرحت اللہ بابر، سینیٹر سردار علی خان، سینیٹر مسز ثریا امین الدین، سینیٹر کامران مائیکل اور دیگر نے شرکت کی۔
اجلاس میں ایڈیشنل چیف سیکریٹری محکمہ داخلہ سندھ وسیم احمد، ڈی جی رینجرز سندھ میجر رضوان اختر اور اے آئی جی سندھ پولیس نے کراچی میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ پر بریفنگ دی۔ ذرائع کے مطابق کہ اس بریفنگ میں کراچی بدامنی کا زیادہ ذمہ دار سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز کو قرار دیا گیا جبکہ بھتہ خوروں، لینڈ مافیا، ڈرگ مافیا، فرقہ وارانہ دہشت گردوںِ، طالبان اور دیگر انتہا پسند مذہبی گروپس پر بھی شہر کی صورتحال خراب کرنے کی ذمہ داری عائد کی گئی۔ بریفنگ کے بعد اسٹینڈنگ کمیٹی کے متعدد ارکان نے پوچھا کہ دہشت گردوں اور شرپسند عناصر پر قابو کیوں نہیں پایا جاسکتا ہے، اس پر انھیں بتایا گیا کہ کراچی میں پولیس کی نفری بہت کم ہے اورمزید گاڑیوں اور جدید اسلحہ کی بھی ضرورت ہے۔ ارکان نے ریمارکس دیے کہ اگر عزم ہو تو سب کچھ ہوسکتا ہے۔ اسٹینڈنگ کمیٹی نے حکومت سندھ سے گزشتہ دس سال کے دوران پیرول پر رہا ہونے والے قیدیوں کی تفصیلات طلب کرلی گئیں۔
اجلاس میں سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز کے حوالے سے بھی تفصیلی غور کیا گیا اور یہ فیصلہ ہوا کہ کمیٹی ان عسکری ونگز کے خاتمے کیلیے اپنی تجاویز مرتب کرے گی۔ اجلاس میں صوبوں کے مابین انٹیلی جنس شیئرنگ کے حوالے سے ایک مربوط نظام وضع کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ اسٹینڈنگ کمیٹی کو صوبہ سندھ میں پولیس ٹارچر کو روکنے کیلیے کیے گئے اقدامات اور کراچی میں خواتین اور بچوں کی جیلوں کے حوالے سے بھی بریفنگ دی گئی۔ کمیٹی کے ارکان نے بعد ازاں کراچی میں واقع بچہ جیل کا بھی دورہ کیا۔ اجلاس کے بعد صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے سینیٹر افراسیاب خٹک نے کہا کہ ہم کسی سیاسی جماعت پر تنقید کرنے یا اسے کمزور کرنے نہیں کراچی نہیں آئے بلکہ کمیٹی شہر کے حالات کا جائزہ لینے آئی ہے۔ انھوںنے کہا کہ کراچی میں قیام امن کیلیے سیاسی جماعتیں اپنا کردار اد اکریں۔
انھوں نے کہا کہ کراچی میں غیر قانونی اسلحے کی برآمدگی اور اسلحہ لائسنس کے اجراء کیلیے قانون سازی کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں گواہوں کے تحفظ کی قانون سازی اور غیر قانونی تارکین وطن کو واپس بھیجنے کے حوالے سے بھی تجاویز پیش کی گئیں۔ انھوں نے کہا کہ کراچی کے حالات کے حوالے سے کمیٹی اپنی سفارشات مرتب کرکے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو بھیجے گی۔ کمیٹی کے رکن سینیٹر مشاہد حسین نے کہا کہ ہم عوام اور ریاست کی خاطر کراچی آئے ہیں،کراچی میں قیام امن کے حوالے سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی سے مطمئن نہیں۔ انھوں نے کہا کہ اجلاس میں بتایا گیا ہے کہ پولیس نے ساڑھے 8 ہزار افراد کو غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے الزام میں گرفتار کیا تاہم وہ بعد ازاں عدم ثبوت کی بناء پر بری ہوگئے۔ انھوں نے کہا کہ پراسیکیوشن کے نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔
انھوں نے کہا کہ کراچی میں اگر دو پی یعنی ایک پی پولیٹکل ونگ اور دوسرا پی یعنی پولیس اگر اپنے فرائض دیانتداری سے انجام دے تو کراچی کے حالات بہتر ہوسکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ کراچی کا مسئلہ انتظامی نہیں سیاسی ہے، سیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ وہ اپنی اپنی جماعتوں میں عسکری ونگز کو ختم کردیں۔
کمیٹی نے اس بات پر سخت تشویش کا اظہار کیا کہ حکومت کراچی میں امن وامان قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ اسٹینڈنگ کمیٹی کا اجلاس چیئرمین سینیٹر افراسیاب خٹک کی صدارت میں جمعہ کو چیف سیکریٹری سندھ کے دفتر میں منعقد ہوا جس میں کمیٹی کے ارکان سینیٹر میاں رضا ربانی، سینیٹر مشاہد حسین سید، سینیٹر ڈاکٹر فروغ نسیم، سینیٹر نسرین جلیل، سینیٹر حاجی غلام علی، سینیٹر فرحت اللہ بابر، سینیٹر سردار علی خان، سینیٹر مسز ثریا امین الدین، سینیٹر کامران مائیکل اور دیگر نے شرکت کی۔
اجلاس میں ایڈیشنل چیف سیکریٹری محکمہ داخلہ سندھ وسیم احمد، ڈی جی رینجرز سندھ میجر رضوان اختر اور اے آئی جی سندھ پولیس نے کراچی میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ پر بریفنگ دی۔ ذرائع کے مطابق کہ اس بریفنگ میں کراچی بدامنی کا زیادہ ذمہ دار سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز کو قرار دیا گیا جبکہ بھتہ خوروں، لینڈ مافیا، ڈرگ مافیا، فرقہ وارانہ دہشت گردوںِ، طالبان اور دیگر انتہا پسند مذہبی گروپس پر بھی شہر کی صورتحال خراب کرنے کی ذمہ داری عائد کی گئی۔ بریفنگ کے بعد اسٹینڈنگ کمیٹی کے متعدد ارکان نے پوچھا کہ دہشت گردوں اور شرپسند عناصر پر قابو کیوں نہیں پایا جاسکتا ہے، اس پر انھیں بتایا گیا کہ کراچی میں پولیس کی نفری بہت کم ہے اورمزید گاڑیوں اور جدید اسلحہ کی بھی ضرورت ہے۔ ارکان نے ریمارکس دیے کہ اگر عزم ہو تو سب کچھ ہوسکتا ہے۔ اسٹینڈنگ کمیٹی نے حکومت سندھ سے گزشتہ دس سال کے دوران پیرول پر رہا ہونے والے قیدیوں کی تفصیلات طلب کرلی گئیں۔
اجلاس میں سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز کے حوالے سے بھی تفصیلی غور کیا گیا اور یہ فیصلہ ہوا کہ کمیٹی ان عسکری ونگز کے خاتمے کیلیے اپنی تجاویز مرتب کرے گی۔ اجلاس میں صوبوں کے مابین انٹیلی جنس شیئرنگ کے حوالے سے ایک مربوط نظام وضع کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ اسٹینڈنگ کمیٹی کو صوبہ سندھ میں پولیس ٹارچر کو روکنے کیلیے کیے گئے اقدامات اور کراچی میں خواتین اور بچوں کی جیلوں کے حوالے سے بھی بریفنگ دی گئی۔ کمیٹی کے ارکان نے بعد ازاں کراچی میں واقع بچہ جیل کا بھی دورہ کیا۔ اجلاس کے بعد صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے سینیٹر افراسیاب خٹک نے کہا کہ ہم کسی سیاسی جماعت پر تنقید کرنے یا اسے کمزور کرنے نہیں کراچی نہیں آئے بلکہ کمیٹی شہر کے حالات کا جائزہ لینے آئی ہے۔ انھوںنے کہا کہ کراچی میں قیام امن کیلیے سیاسی جماعتیں اپنا کردار اد اکریں۔
انھوں نے کہا کہ کراچی میں غیر قانونی اسلحے کی برآمدگی اور اسلحہ لائسنس کے اجراء کیلیے قانون سازی کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں گواہوں کے تحفظ کی قانون سازی اور غیر قانونی تارکین وطن کو واپس بھیجنے کے حوالے سے بھی تجاویز پیش کی گئیں۔ انھوں نے کہا کہ کراچی کے حالات کے حوالے سے کمیٹی اپنی سفارشات مرتب کرکے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو بھیجے گی۔ کمیٹی کے رکن سینیٹر مشاہد حسین نے کہا کہ ہم عوام اور ریاست کی خاطر کراچی آئے ہیں،کراچی میں قیام امن کے حوالے سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی سے مطمئن نہیں۔ انھوں نے کہا کہ اجلاس میں بتایا گیا ہے کہ پولیس نے ساڑھے 8 ہزار افراد کو غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے الزام میں گرفتار کیا تاہم وہ بعد ازاں عدم ثبوت کی بناء پر بری ہوگئے۔ انھوں نے کہا کہ پراسیکیوشن کے نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔
انھوں نے کہا کہ کراچی میں اگر دو پی یعنی ایک پی پولیٹکل ونگ اور دوسرا پی یعنی پولیس اگر اپنے فرائض دیانتداری سے انجام دے تو کراچی کے حالات بہتر ہوسکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ کراچی کا مسئلہ انتظامی نہیں سیاسی ہے، سیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ وہ اپنی اپنی جماعتوں میں عسکری ونگز کو ختم کردیں۔