سپریم کورٹ مفت تعلیم کیلیے اقدامات سے متعلق رپورٹ مسترد
آئین کے تحت ہرحکومت 5 تا 16سال کے طلبا کوتعلیم دینے کی پابند ہے،چیف جسٹس
لاہور:
سپریم کورٹ نے وفاقی اور چاروں صوبائی حکومتوں سے آئین کے مطابق5سے 16سال کے طلباء و طالبات کو مفت اور لازمی تعلیم کی سہولتوں کی فراہمی کیلیے کی جانے والی پیشرفت اور بااثر افرادکی جانب سے اسکولوں پر قبضے اورگھوسٹ اسکولوں سے متعلق تمام تر تفصیلات طلب کر تے ہوئے سماعت 3 ہفتوںکیلیے ملتوی کردی۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور جسٹس جواد ایس خواجہ پر مشتمل ڈویژن بینچ نے تعلیمی اداروںکی حالت زار سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ وفاقی اور چاروں صوبائی حکومتوںکی جانب سے اس حوالے سے کیے جانے والے اقدامات سے آگاہ کیا گیا تاہم عدالت نے اسے ''سب اچھا ہے کی کارروائی'' قرار دیتے ہوئے مستردکردیا۔ چیف جسٹس نے گوجرانوالہ میں ایک قبرستان کے ساتھ ملحقہ گرلز اسکول کے حوالے سے شدید برہمی کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ گوجرانوالہ تو لاہور سے40میل دور ہے اور وہاں یہ حال ہے ،اگر ڈیرہ غازی خان ، بہاولپور یاا ندرون پنجاب کے تعلیمی اداروںکو چیک کیا جائے توان کی حالت اس سے بھی بدتر ہوگی ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اسلام آباد میں ایئر کنڈیشنڈکمروں میں بیٹھ کر تعلیم کی باتیںکرنا آسان ہے آپ صرف چکری میں جاکر ہی تعلیمی اداروںکی حالت دیکھ لیں۔چیف جسٹس نے صوبائی سیکریٹر ی تعلیم کوکہا کہ آئین کے آرٹیکل 25(a) کے تحت ہر حکومت5 سے 16سال کے طلباء و طالبات کو مفت اور لازمی تعلیم دینے کی پابند ہے اوراسے یقینی بنانا آپ کی ذمہ داری ہے، پارلیمنٹ نے اپریل2010میں یہ آرٹیکل آئین میں شامل کیا تھا اور شاید ابھی صوبوں نے اس حوالے سے قواعد ہی نہیں بنائے ۔
اس موقع پرعدالت نے آدم جی روڈ راولپنڈی کے گورنمٹ ماڈل اسکول کو ختم کر دینے سے متعلق اخباری خبرکے حوالے سے سیکریٹری تعلیم پنجاب سے استفسارکیا تو انھوں نے کہا ہماری ایسی کوئی پالیسی نہیں تاہم وہ اس خبرکے حوالے سے آئندہ سماعت پر رپورٹ پیش کریںگے۔ حکومت سندھ کی جانب سے بتایا گیا کہ مختلف بااثر افراد اورسیاسی پارٹیوں کے ورکرزکے قبضے میں 165اسکولوں میں سے42اسکو ل واگزار کرائے جا چکے ہیں ۔
سپریم کورٹ نے وفاقی اور چاروں صوبائی حکومتوں سے آئین کے مطابق5سے 16سال کے طلباء و طالبات کو مفت اور لازمی تعلیم کی سہولتوں کی فراہمی کیلیے کی جانے والی پیشرفت اور بااثر افرادکی جانب سے اسکولوں پر قبضے اورگھوسٹ اسکولوں سے متعلق تمام تر تفصیلات طلب کر تے ہوئے سماعت 3 ہفتوںکیلیے ملتوی کردی۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور جسٹس جواد ایس خواجہ پر مشتمل ڈویژن بینچ نے تعلیمی اداروںکی حالت زار سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ وفاقی اور چاروں صوبائی حکومتوںکی جانب سے اس حوالے سے کیے جانے والے اقدامات سے آگاہ کیا گیا تاہم عدالت نے اسے ''سب اچھا ہے کی کارروائی'' قرار دیتے ہوئے مستردکردیا۔ چیف جسٹس نے گوجرانوالہ میں ایک قبرستان کے ساتھ ملحقہ گرلز اسکول کے حوالے سے شدید برہمی کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ گوجرانوالہ تو لاہور سے40میل دور ہے اور وہاں یہ حال ہے ،اگر ڈیرہ غازی خان ، بہاولپور یاا ندرون پنجاب کے تعلیمی اداروںکو چیک کیا جائے توان کی حالت اس سے بھی بدتر ہوگی ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اسلام آباد میں ایئر کنڈیشنڈکمروں میں بیٹھ کر تعلیم کی باتیںکرنا آسان ہے آپ صرف چکری میں جاکر ہی تعلیمی اداروںکی حالت دیکھ لیں۔چیف جسٹس نے صوبائی سیکریٹر ی تعلیم کوکہا کہ آئین کے آرٹیکل 25(a) کے تحت ہر حکومت5 سے 16سال کے طلباء و طالبات کو مفت اور لازمی تعلیم دینے کی پابند ہے اوراسے یقینی بنانا آپ کی ذمہ داری ہے، پارلیمنٹ نے اپریل2010میں یہ آرٹیکل آئین میں شامل کیا تھا اور شاید ابھی صوبوں نے اس حوالے سے قواعد ہی نہیں بنائے ۔
اس موقع پرعدالت نے آدم جی روڈ راولپنڈی کے گورنمٹ ماڈل اسکول کو ختم کر دینے سے متعلق اخباری خبرکے حوالے سے سیکریٹری تعلیم پنجاب سے استفسارکیا تو انھوں نے کہا ہماری ایسی کوئی پالیسی نہیں تاہم وہ اس خبرکے حوالے سے آئندہ سماعت پر رپورٹ پیش کریںگے۔ حکومت سندھ کی جانب سے بتایا گیا کہ مختلف بااثر افراد اورسیاسی پارٹیوں کے ورکرزکے قبضے میں 165اسکولوں میں سے42اسکو ل واگزار کرائے جا چکے ہیں ۔