’’کھا کراچی فیسٹیول‘‘

فیسٹیول شاندار تھا، اینٹری ٹکٹ اور پارکنگ کے معاملات کو نکال دیں تو اندر عوام کی تفریح کا خاصا سامان موجود تھا۔


سب نے مزے مزے کے کھانے کھائے، موسیقی سے لطف اندوز ہوئے، مگر کچھ غریب بغیر چادر کے فٹ پاتھ پر سوتے رہے۔ فوٹو: فائل

بھائی کیا میڈ کی بھی 250 روپے اینٹری فیس لیں گے؟ وہ تو صرف بچہ سنبھالنے آئی ہے ساتھ میں۔

یہ الفاظ سوشل میڈیا کی ایک پوسٹ میں پڑھے تو اندازہ ہوا کہ عوام کی جانب سے ٹھونس کراچی، یعنی ''کراچی ایٹ فیسٹیول'' کے حوالے سے عوام کا ردِعمل کیسا ہے۔

فیسٹیول کی انتظامیہ نے ایونٹ پیج پر اپنا موقف بھی جاری کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کچھ لوگ منفی پراپیگنڈا کرکے ہمارے کامیاب ایونٹ کو توڑ مروڑ کر پیش کررہے ہیں۔

جی ہاں یقیناً فریئر ہال کراچی میں 3 روز تک جاری رہنے والا یہ ایونٹ شاندار تھا۔ مگر کچھ خامیوں نے اس کی خوبیوں کو پسِ پشت ڈال دیا۔

سب سے اہم مسئلہ فیسٹیول کے منعقد کرنے کے لئے جگہ کا انتخاب تھا۔ کراچی کے دل صدر کے بیچوں بیچ جہاں روزانہ اور خصوصاً ہفتہ کے روز ہزاروں گاڑیوں کا گزر ہوتا ہے، ''کھا کراچی 2016'' کا انعقاد ایک بھونڈا آئیڈیا تھا۔ اندر کا ماحول چاہے کتنا ہی شاندار کیوں نا ہو، منتظمین اس سے کتنے ہی مطمئن ہوں لیکن باہر پارکنگ کے غیر مناسب انتظامات نےسب ملیا میٹ کردیا۔ کئی افراد تو رش دیکھ کر اپنی گاڑیاں واپس موڑ کر گھر روانہ ہوگئے، اور اکثر نے راستہ بدل کر سی ویو جانے میں ہی عافیت جانی.

https://twitter.com/ImranBaloch123/status/690852545342918656

بہرحال پھر بھی ایونٹ تھا بہت شاندار۔۔۔۔۔ بس ایک مسئلہ اور ہوا اور وہ تھا اینٹری ٹکٹ کا، گیٹ پر 250 روپے کی اینٹری کے بعد اندر جا کر بھی کھانے کے پیسوں کی ادائیگی دیگر تھی۔ گویا وہ اینٹری ٹکٹ صرف اینٹری ٹکٹ ہی تھا۔ متوسط طبقہ تو ان پوش علاقوں کی بھول بھلیوں میں اپنا مطلوبہ مقام تلاش کرتا رہتا ہے، جہاں کم از کم اینڑی فیس اندر جا کر ایڈجسٹ ہوجائے اور غریب؟

غریب کا تو پورا گھر اس اینٹری فیس میں لنچ یا پھر ڈنر کرسکتا ہے۔

کس نے کہا ہے کہ متوسط اور غریب طبقے کے لوگ بھی ''کھا کراچی'' فیسٹیول میں شرکت کرکے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ جس کے پاس پیسہ ہے وہ آجائے۔ نہیں ہے تو اسی اینٹری فیس سے پٹھان کے ہوٹل کی چائے اور پراٹھا کھاکر خوشی منائے اور غریب باہر سے ہی فرئیر ہال کی رنگینیاں دیکھ کر دل بہلا لے۔

اگر واقعی ایسا ہے تو اس کا نام کم از کم کراچی ایٹ فیسٹیول نہیں ہونا چاہیئے کیونکہ اس شہر کی آبادی کا بڑا حصہ متوسط طبقے پر مشتمل ہے۔ ہر قومیت، نسل و رنگ اور طبقے کا شخص بستا ہے اور ان سب کے مشترکہ ناموں سے ہی کراچی بنتا ہے۔



بہرحال واقعی فیسٹیول شاندار تھا۔ اینٹری ٹکٹ اور پارکنگ کے معاملات کو نکال دیں تو اندر عوام کی تفریح کا خاصا سامان موجود تھا۔ خاص کر سیلفی بوتھس، چینلز اور برانڈز نے اپنی تشہیر کے منفرد انداز اپنائے تھے۔ کہیں چائے والوں نے فوارے کو سبز رنگ سے رنگ دیا تھا تو کہیں ایک اور چائے بیچنے والے نے گارڈن کے بیچوں بیچ اپنا رکشہ لگا دیا تھا۔

فرئیر ہال کے احاطے میں کراچی کی تقریباً ہر بڑے اور چھوٹے فوڈ آؤٹ لیٹ موجود تھے۔ عوام کی تفریح کے لیے برقی قمقموں سے سجا اسٹیج بھی موجود تھا، جہاں لوگ کھانے کے ساتھ ساتھ گانوں سے بھی محظوظ ہورہے تھے۔ فیسٹیول میں وقتاً فوقتاً معروف فنکاروں کی آمد بھی جاری رہی جو لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی۔

فیسٹیول میں کہیں سیلفی بوتھ پر رش رہا تو کہیں لوگ برنس روڈ کے چٹخاروں کے مزے لیتے رہے۔ 2 برانڈز نے تو واقعی کراچی والوں کو بخوبی سمجھا اور مفت کیکس اور شیکس بھی فراہم کئے۔ کاش کہ یہ طریقہ تشہیر روز کسی غریب آبادی تک آن پہنچے اور غریب کا بچہ بھی 2 گھڑی خوش ہو لے۔

کراچی ایٹ 2016 مجموعی طور پر کامیاب رہا، جو عوام بھی فیسٹیول سے واپس آئے انہوں نے کھانے کی قیمتوں کو تسلی بخش قرار دیا۔ البتہ پارکنگ کے حوالے سے شکایت ضرور کی گئی اور منتظمین کو مشورہ بھی دیا گیا کہ آئندہ یہ فیسٹیول سی ویو یا کسی بڑے وینیو پر منعقد کیا جائے تا کہ عوام ٹریفک کی اذیت سے بچ سکیں۔

رہی بات ہماری تو کراچی کی رونقوں کو بحال کرنے کے لئے منعقد کیا جانے والا کوئی بھی ایونٹ یقیناََ خوش آئند عمل ہے، لیکن ان سب کے ساتھ ہماری کچھ معاشرتی ذمہ داریاں بھی ہیں۔ کراچی میں 3 روز تک ایٹ فیسٹیول اپنی رنگینوں کے ساتھ اختتام پزیر ہوچکا ہے جس میں سب نے مزے مزے کے کھانے کھائے، موسیقی سے لطف اندوز ہوئے، مگر کچھ غریب بغیر چادر کے فٹ پاتھ پر سوتے رہے۔
[poll id="915"]


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔


اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں