سانحہء چارسدّہ پر پولیس کا کردار اور کچھ ادھراُدھر سے

محترمہ شرمین عبید چنائے نے پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کے موضوع پر فلم بنائی اور اسے امریکا سے آسکر ایوارڈ مل گیا۔



خیبر پختونخوا کے پولیس افسروں اوربہت سے دوسرے باخبر لوگوں نے بھی رابطہ کرکے حیرانی اور دکھ کا اظہار کیا کہ چارسدہ یونیورسٹی کے سانحے پر آئی ایس پی آر کے سربراہ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے اپنی پریس کانفرنس میں پولیس کا ذکر تک نہیں کیا۔ چارسدّہ پولیس کے اُن بہادر افسروں کا بھی نہیں جو سب سے پہلے موقع پر پہنچے، دھشت گردوں کو للکارا، انھیں engageکیا ان سے سینہ سپر ہوکر لڑے اور چار میں سے دو کو ہلاک کردیا ۔

نہ جانے باجوہ صاحب نے اس اہم پہلو کو نظر انداز کیوں کردیا۔ باجوہ صاحب!۔ آپ کو ڈی آئی جی مردان کو ساتھ بٹھانا چاہیے تھا ۔ آپ نے سوشل میڈیا پر تصویر دیکھی ہوگی جس میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف پولیس کے ایک سب انسپکٹر سے مل رہے ہیں جس طرح انھوں نے اس کی بہادری کو سراہا، آپ کو بھی میڈیا کے سامنے ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے تھی۔

ذہن میں اُس دور کی یادیں تازہ ہوگئیں جب راقم ڈیرہ اسمعیل خان ڈویژن کا ڈی آئی جی تھا۔ میں اور بریگیڈئیر خادم حسین ایک ہی گاڑی میں ٹانک جایا کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے جب دھشت گردوں نے ٹانک پر حملہ کیاتوفوج ، پولیس اور ایف سی نے مل کر دفاع کیا۔ اُن کے سینئرز کے سامنے میں بہادر فوجی افسروں کی دلیری کو داد و تحسین پیش کیا کرتا تھا اور کرنل صاحبان میرے سامنے پولیس ملازموں کی جرأت کی تعریف کیا کرتے تھے۔ ہم سب ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر لڑے تودھشت گردوں کا سپریم کمانڈر گھٹنوں کو ہاتھ لگانے پر آگیا، جنوبی وزیرستان کا پولیٹیکل ایجنٹ یہ کہنے پر مجبور ہوگیا کہ ''وزیرستان کو ایسے موثر طریقے سے ہینڈل کیا جاتا تو حالات اتنے خراب نہ ہوتے''۔

راقم کو یہ بھی یاد ہے کہ 2009؁ میں جب میں اپنے ہم مکتب اور پشاور کے کور کمانڈر جنرل مسعوداسلم کے اکلوتے بیٹے کی شہادت پر افسوس کے لیے پریڈلین راولپنڈی گیا تو صدمے کی حالت میں بھی باہمّت جرنیل نے کئی بار کہا''I salute Peshawar Police پولیس کے بہادر جوان موت کو دیکھ کر بھی جپھّا ضرور ڈالتے ہیں''۔ بلاشبہ اس خطّے میںبہادری اور جرأت میں پختونوں کا کوئی ثانی نہیں اور اس صوبے کی پولیس نے پچھلے گیارہ سالوں میں بہادری کی حیرت انگیز داستانیں رقم کی ہیں۔یونیورسٹی کے طلباء اور اساتذہ دونوں بتاتے ہیں کہ دھشت گردوں کے یونیورسٹی میں داخل ہونے کی اطلاع ملتے ہی دس منٹ میں ایس ایچ او شبقدر حمید،ایس ایچ او پرانگ مرتضٰے اور ایس ایچ او عرفان موقعہ پر پہنچ گئے ۔

ان کے ساتھ کانسٹیبل خضر،کبیر اور یاسر بھی ۔ انھوں نے دھشت گردوں کو للکارا اور بڑی جرأت اور مردانگی سے ان کا مقابلہ کیا، دھشت گرد امتحانی ہال کی طرف جانا چاہتے تھے جہاں پانچ سو کے قریب طلباء امتحان دے رہے تھے، پولیس نے چونکہ انھیں ہوسٹل کی طرف دھکیل دیا تھا، اس لیے وہ امتحانی ہال کی طرف نہ جاسکے قریباً نو بجکر چالیس منٹ پر ڈی پی او چارسّدہ سہیل خالد پہنچ گئے اور اس کے پانچ سات منٹ بعد ڈی آئی جی مردان سعید وزیر بھی موقعہ پرپہنچ گئے ، یہ تمام پولیس افسران دھشت گردوں کے خلاف خود فائرنگ کرتے رہے۔ پولیس کا دھشت گردوں کے ساتھ نو بجکر بیس منٹ پر مقابلہ شروع ہوچکا تھا۔

آرمی (چارسّدہ میں نہ ہونے کی وجہ سے جس نے پشاور سے آنا تھا) بھی برق رفتاری سے دس بجے تک یونیورسٹی پہنچ گئی اور پھر کمانڈ سنبھال کر انھوں نے پیشہ ورانہ طریقے سے آپریشن مکمل کیا اور باقیماندہ دھشت گردوں کا خاتمہ کیا۔ چونکہ فوجی افسران پولیس افسروں کی بہادری اور شجاعت کے عینی شاہدتھے اس لیے انھوں نے خودان نوجوان پولیس افسروں کو آرمی چیف سے ملوایاجنہوں نے نوجوان پولیس افسروں کی جرأتمندی کو سراہا۔ باجوہ صاحب! اکیلی فوج کوئی جنگ نہ لڑ سکتی ہے نہ جیت سکتی ہے۔ ریاست کے دشمنوں کے خلاف یہ جنگ مرکزی اور صوبائی حکومتوں ، پولیس اور عوام کی مدد سے ہی جیتی جاسکتی ہے اگر آپ فوج کے علاوہ باقی کسی کا ذکر تک نہیں کریں گے تو خدا نہ کرے کامیابی مشکوک اور منزل دور ہوجائے گی۔

٭٭٭٭٭٭

ملک کے سب سے بڑے عہدے پر رہنے والے ایک متموّل سیاستدان پچھلے دنوں سعودی عرب کے دورے پر گئے تو مختلف چہ میگوئیاں ہوئیں، کچھ نے کہا سعودی حکمرانوں سے مدد مانگنے گئے ہیں مگر وہ قیاس درست نہ تھا کہ سعودی حکمران تو خودآجکل پاکستانی حکومت کے محتاج ہیں اور انھیں پاکستان کی مدد کی ضرورت ہے۔ لہٰذا وہ اسوقت کسی فرد کے لیے فوج پر دباؤ ڈالنے کی پوزیشن میں نہیں۔ موصوف کئی روز نک مدینہ منورّہ کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں قیام پذیر رہے، روضہء رسولؐ پر حاضری کے لیے بھی ایک دو مرتبہ گئے۔ ریاض الجنّہ میں بیٹھ کر انگریزی میں چھپے ہوئے قرآن کی تلاوت کرنے کی بھی کوشش کی۔

موصوف نے حرم شریف میں بھی پروٹوکول کے بغیر جانا گوارا نہ کیا۔ کھوجی نے ان کے ارضِ مقّدس جانے کی وجہ معلوم کی تو پتہ چلا کہ وہاں وہ نورالّدین صاحب سے ملنے گئے تھے۔ یہ نورالّدین کون ہیں؟ یہ بھی سن لیں۔ یہ روضہء رسولؐ کے جھاڑو کش ہیں۔ یہ افریقی النسّل درویش روضہء رسالتمآبؐ کے اندر جاکر مرقد مبارک کی صفائی وغیرہ کرتے ہیں۔ تو کیا ملنے کا مقصد حضورؐ کے غلاموں سے عقیدت ہے۔

ارے نہیں بھائی نورالّدین صاحب کو دبئی بلا کر بھی تحفے تحائف دیے گئے تھے اور مدینہ منورّہ جاکر بھی ان کی خدمت کی گئی اور پھران کے ذمّے یہ ٹاسک لگایا گیا کہ چونکہ کچھ بااثر جرنیل بھی ان سے عقیدت رکھتے ہیں اس لیے وہ انھیں نرم کریں تاکہ فوج ہاتھ ہولا کرے۔ جب سوچ اوراَطوار بدلنے کا کوئی ارادہ نہ ہو لُوٹنے کے لیے اب بھی دونوں ہاتھوں کا استعمال جاری ہو، جب ندامت اور توبہ کے دروازے پر دستک نہ دی جائے تو بابا نورالّدین کیا کریں گے؟۔

٭٭٭٭٭٭

عینی شاہد راوی ہے کہ نذرانے کی ادائیگی میں تاخیر ہونے پر ایک صوبے کے آئی جی نے ایک تھانیدار کو بڑے غصّے سے طلب کیااسے ملنے والے تحریری حکمنامے میں درج تھا" طلبی برائے اسپیشل ٹاسک"۔ تھانیدارنے راتوںرات نذرانے کی رقم اکٹھّی کی اور لفافے میں ڈالکر حاضر ہوگیا، دفتر میں آئی جی صاحب کو ملنے والے کچھ لوگ موجود تھے اس لیے مطلوب تھانیدار کو دیکھ کر آئی جی نے اسے واپس نہیں بھیجا (کیونکہ اس سے نذرانے کی ادائیگی میں مزید تاخیرکا خطرہ تھا) بلکہ باتھ روم کی طرف اشارہ کیا۔ تھانیدار سمجھدار تھا لہٰذا آئی جی آفس کے اٹیچڈ باتھ روم کے ساتھ ریٹائرنگ روم میں لفافہ رکھ آیا۔

اب وہیں بیٹھے مہمانوں میں سے ایک سابق پولیس افسربھی تھا وہ سمجھ گیا کہ تھانیدار کی آئی جی کا باتھ روم استعمال کرنے کی ہمّت نہیں ہوسکتی ضرورکوئی گڑبڑ ہے۔ لہٰذاتھانیدار کے باتھ روم سے نکلنے کے بعد ریٹائرڈ پولیس افسر (جو آئی جی کے ساتھ بے تکلف بھی تھا) بھی باتھ روم میں چلا گیا۔ ادھر اُدھر دیکھا تو کچھ نہ ملا، ملحقہ ریٹائرنگ روم میں تلاش کیا تو خوبصورت کڑھائی سے لکھی ہوئی سورۃ یاسین اورحضرت قائدِ اعظم ؒکے سرکاری افسروں کے نام خوبصورت فریم شدہ خطاب کے درمیان پیسوں سے بھرا ہواسفید لفافہ پڑا تھا۔

اس نے لفافہ اٹھا کر جیب میں ڈال لیا اور تیزی سے باہر نکلنے لگا تو آئی جی کی چھٹی حِس ایک دم بیدار ہوئی وہ پہلی بار چیتے کی سی پھرتی کے ساتھ اٹھا اور گن مینوں کو آواز دی "پکڑو اسے" مہمان کو حراست میں لے لیا گیا اور پوری رقم صحیح و سالم برآمد کرلی گئی۔ اس روز آئی جی نے پریس کانفرنس میں ماہانہ برآمدگی کے جواعداد و شمار بتائے اُن میں برآمد گی کی یہ رقم بھی شامل تھی۔

٭٭٭٭٭٭

محترمہ شرمین عبید چنائے نے پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کے موضوع پر فلم بنائی اور اسے امریکا سے آسکر ایوارڈ مل گیا۔ فلم پاکستان کے خلاف بنی اس لیے ایوارڈ ملنا ہی تھا۔ کاش کوئی محترمہ سے یہ پوچھے کہ بی بی آپ نے دونوں فلموں میں اپنے ملک کے بدنما داغوں کو اجاگر کرکے پوری دنیا کو دکھایا ہے ۔

کیا ملک کی بدصورتیاں ڈھونڈ کر پوری دنیا میں ڈھنڈورا پیٹنا ملک کی خدمت ہے؟ایسا کرنے پر یورپ اور امریکا پیسہ بھی دیتا ہے اور ایوارڈ بھی، مگر یہ لعنتیں تو یورپ اور امریکا میں بھی موجود ہیںوہاں بے وفائی کی مرتکب عورتوں کو والدین نہیں ان کے سابق عاشقوں نے بارہا قتل کیا ہے، وہاں بچّوں اور بچّیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات ہمارے ملک سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ صرف برطانیہ میں ایک سال میں بارہ سال کی کم عمری میں بننے والی ماؤں کی تعدار پچھتّر ہزار سے تجاوز کرگئی ہے۔ اسی موضوع پر فلم بناکر دکھائیں مگر نہ اسمیں پیسہ ملیگا نہ ایوارڈ ا۔اس لیے آپ اس پر کیوں فلم بنائیں گی۔

موصوفہ وزیرِ اعظم سے بھی ملی ہیں کیا ہی اچھا ہو کہ وزیرِ اعظم موصوفہ سے یہ کہیںکہ" آپ نے ملک کی بدصورتیوں پر دو فلمیں بنالیں اب ایک دو فلمیں ایسی بنائیں جن میں اپنے پیارے ملک (جو گھر کی طرح ہوتا ہے) کی خوبصورتیاں اجاگر ہوںاور وہ بھی دنیا کو دکھائیں"۔اگر پاکستان کی خوبصورتیاں محترمہ کو نظر نہ آئیں میں اشارہ کیے دیتا ہوں۔

٭فلم میں ملک کے شمالی علاقوں کے بے مثال قدرتی حسن کے ہوشربا نظارے دکھائے جانے چاہئیں۔

٭عیدکے تہواروں پر غریبوں کے گھروں میں بھی جسطرح خوشیاں منائی جاتی ہیں اور ان کے بچّے بھی جس طرح نئے کپڑے اور نئے کھلونے (سستے ہی سہی) لیتے ہیں اور خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں وہ بڑا روح پرور نظارہ ہوتا ہے اسپر کئی فلمیں بن سکتی ہیں۔

٭فصل کی کٹائی کوکھیت مزدور جسطرحCelebrate کرتے ہیں۔ وہ بھی ایک دلفریب نظارہ ہوتا ہے اس پر فلم بننی چاہیے۔

٭پاکستان میں لاکھوں کی تعداد میں ایسے خوش قسمت اور خدمت گزار بیٹے اوربیٹیاں ہیں جو اپنے بوڑھے اور بیمار والدین کی اسطرح خدمت کرتی ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے ، یہ چیز یورپ میںانہونی ہے اس پر فلم بنائی جا نی چاہیے۔ پورا یورپ اس سے inspireہوگا۔ مگر اس سے پاکستان کا مثبت پہلو اورہمارے معاشرے کا حسن نمایاں ہوگا اس لیے اس پر آسکر ایوارڈ تو نہیں مل سکے گا، لہٰذا محترمہ اگلی فلم کے لیے اپنے ملک کی کوئی اور بدصورتی تلاش کرینگی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں