بیانیہ کی تبدیلی
چارسدہ یونیورسٹی نہ صرف خیبر پختونخوا بلکہ افغانستان سے آنے والے طلبا کی تعلیمی ضروریات کو بھی پورا کرتی ہے
خان عبدالغفار خان باچا خان کے نام سے مشہور ہوئے۔ انھوں نے اپنی زندگی پختونوں میں تعلیم کا شعور حاصل کرنے اور عدم تشدد کے ذریعے اپنے حقوق حاصل کرنے کی جدوجہد میں وقف کی۔ برطانوی ہند حکومت نے عدم تشدد کے ذریعے ہندوستان کی آزادی کا نعرہ بلند کرنے پر انھیں برسوں پابند سلاسل رکھا۔ آزادی کے بعد وجود میں آنے والی نئی ریاست کے حکمرانوں نے باچا خان کی آزادی کی جدوجہد کا احترام کرنے کے بجائے پختونوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے پر انھیں قید و بند کی صعوبتوں میں مبتلا کیا۔
2008 میں خیبر پختونخوا میں عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو ان کے آبائی شہر چارسدہ میں عوامی نیشنل پارٹی کے بانی اور ان کے صاحبزادے عبدالولی خان کے نام سے ایک یونیورسٹی قائم کی گئی۔ 2012 میں اس یونیورسٹی کا نام باچاخان یونیورسٹی رکھا گیا اور مردان میں قائم ہونے والی یونیورسٹی کو ولی خان کے نام سے منسوب کردیا گیا۔ باچا خان یونیورسٹی 200 کنال اراضی پر محیط ہے اور اس میں 16 سے زائد تعلیمی شعبے قائم ہوچکے ہیں اور 3 ہزار طلبا و طالبات باچاخان یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم ہیں۔ باچاخان یونیورسٹی کی لائبریری میں 10 ہزار کے قریب کتابیں ہیں۔
چارسدہ یونیورسٹی نہ صرف خیبر پختونخوا بلکہ افغانستان سے آنے والے طلبا کی تعلیمی ضروریات کو بھی پورا کرتی ہے۔ اس یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلبا کی اکثریت کا تعلق متوسط اور کچھ کا نچلے متوسط طبقے سے ہے۔ 20 جنوری 2016 کو باچاخان کی برسی تھی اور یونیورسٹی میں اس موقع پر مشاعرہ ہورہا تھا کہ دہشت گردوں نے حملہ کردیا۔ اساتذہ، طلبا اور عملے کے 22 افراد شہید ہوئے۔ حملہ آوروں کی عمریں 15 سے 25 سال کے قریب تھیں۔ اخباری اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حملہ آوروں نے اس دفعہ خودکش جیکٹیں نہیں پہنی ہوئی تھیں اور وہ فائرنگ کے ساتھ اﷲ اکبر کے نعرے لگارہے تھے۔
باچاخان یونیورسٹی پر حملے سے گزشتہ سال آرمی پبلک اسکول پشاور کے بچوں پر حملے کی یاد تازہ ہوگئی۔ جب آرمی پبلک اسکول پر حملہ ہوا تھا تو تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کی آل پارٹیز کانفرنس منعقد ہوئی تھی۔ اس کانفرنس کے فیصلے کے تحت نیشنل ایکشن پلان تیار ہوا تھا اور آپریشن ضربِ عضب شروع ہوا تھا۔ اس آپریشن کے تحت شمالی وزیرستان اور کراچی میں مذہبی انتہاپسندوں کے خلاف آپریشن ہوا تھا اور کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی کی گئی تھی اور کئی افراد کو ان تنظیموں سے منسلک ہونے کی بناء پر گرفتار بھی کیا گیا تھا۔
نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے خاصے مفید نتائج برآمد ہوئے، دہشت گردی کی وارداتوں میں کمی آئی اور کئی معروف دہشت گرد مارے گئے، مگر دہشت گردی کا سلسلہ رک نہ سکا۔ باچا خان یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلبا اس دہشت گردی کا شکار ہوگئے۔باچاخان یونیورسٹی اور آرمی پبلک اسکول پشاور پر ہونے والی دہشت گردی کا تعلق مذہبی انتہاپسندی سے ہے۔ مذہبی انتہاپسندی کی جڑیں طالبان کے مکتبہ فکر سے جا کر جڑتی ہیں۔ طالبان طرز فکر کے بانی ملا عمر تھے جن کی قیادت میں 90 کی دہائی میں افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوئی ۔ طالبان حکومت نے خواتین کے تعلیمی ادارے بند کردیے، اقلیتوں کو مخصوص لباس پہننے اور جزیہ دینے، موسیقی، فلم اور ہر قسم کی فنون لطیفہ کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی گئی۔
انتہاپسندوں کو افغانستان میں پناہ ملی۔ اسامہ بن لادن ملا عمر حکومت کے رہبر بن گئے۔ اسامہ کے جانبازوں نے نیویارک میں ٹوئن ٹاور کو مسافر طیاروں سے اڑا دیا اور کئی اہم فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔ اس طرح نائن الیون کی دہشت گردی سے دنیا تبدیل ہوگئی۔ اس وقت کے امریکی صدر جارج بش نے مذہبی دہشت گردی کا جواب مذہبی انتہاپسندی کے ذریعے دیا اور اس جنگ کو کروسیڈ قرار دیا۔ امریکا اور اتحادی افواج کے افغانستان پر حملے میں ملا عمر کی حکومت ختم ہوئی مگر افغانستان ایک نئی جنگ کا شکار ہوا۔ جنرل پرویز مشرف کی دہری پالیسی کی بنا پر یہ جنگ پشاور اور کوئٹہ کے راستے کراچی تک پہنچ گئی۔
مذہبی انتہاپسندوں نے مختلف طریقوں سے دہشت گردی کی کارروائیاں کیں۔ انتہاپسندوں نے جدید تعلیمی اداروں پر حملوں اور اساتذہ کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا۔ ان کی دوسری حکمت عملی مذہبی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر مذہبی و سیاسی رہنماؤں، وکلاء، اساتذہ، صحافیوں، خواتین، ڈاکٹروں، پولیس اور فوجی افسروں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنانا تھا۔ اقلیتی فرقوں کی عبادت گاہوں پر خودکش حملے کیے گئے اور پھر فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔ پہلی دفعہ کسی جنگ میں اساتذہ، طلبا اور اسکولوں و کالجوں کی عمارتوں کو تباہ کیا گیا۔ خیبر پختونخوا کے نوجوان اعتزاز احسن نے اپنے اسکول پر حملہ کرنے والے خودکش حملہ آوروں کو دبوچ لیا۔ بم پھٹنے سے اعتزاز احسن شہید ہوگیا اور حملہ آور ہلاک ہوگئے۔ اسی طرح پشاور میں انگریزی میڈیم اسکولوں پر حملے ہوئے۔ پھر پشاور پبلک اسکول دہشت گردی کا نشانہ بن گیا۔
ان انتہاپسندوں سے منسلک ملک بھر میں مذہبی دہشت گردوں کے مختلف گروہ پیدا ہوئے۔ ان گروہوں میں مدرسے کے طلبا کے علاوہ اعلیٰ تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبا بھی شامل تھے۔ یہ سب لوگ اس نکتہ پر متفق تھے کہ ایک مخصوص فکر کی آمریت قائم ہونی چاہیے اور جو لوگ اس آمریت کو تسلیم نہ کریں انھیں طاقت کے ذریعے کچل دیا جائے۔
ملک میں ایک مخصوص انداز میں افراتفری پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ خیبرپختونخوا سمیت مختلف علاقوں میں فوجی آپریشن کی مختلف مذہبی تنظیموں اور تحریک انصاف نے مخالفت کی۔ ایک مخصوص نوعیت کے پروپیگنڈے کے ذریعے عوام کو کنفیوژن کا شکار کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ ان دہشت گرد تنظیموں کی سپلائی لائن برقرار رکھنے کے لیے طالبان کا سوفٹ امیج بنایا گیا۔ کئی نامور صحافیوں نے اپنی تحریروں اور ٹاک شوز میں ان عناصر کو مظلوم قرار دیا۔ سوات کی ملالہ یوسفزئی نے خواتین کی تعلیم کے لیے آواز اٹھائی تو اس کو مطعون کیا گیا۔
ملک میں ایک ایسی فضا قائم کی گئی کہ عام آدمی کو دشمن کو دشمن سمجھنے میں دشواری ہونے لگی۔ گزشتہ ایک سال میں یونیورسٹیوں سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ دہشت گردوں کی گرفتاریوں سے مذہبی انتہاپسندی کی جڑوں کی گہرائی کا اندازہ ہوتا ہے۔
وزیراعظم میاں نواز شریف نے مذہبی انتہاپسندی کے انسداد کے لیے ترقی پسند اور لبرل پاکستان بنانے کا نعرہ بلند کیا تو ان کی جماعت کے ارکان نے بلند آواز میں اپنے قائد کے موقف کی تائید نہیں کی، حتیٰ کہ صدر ممنون حسین نے بھی علما کی ایک مجلس میں وزیراعظم کے موقف کی رجعت پسندانہ تشریح کی۔ طالبان کے ایک رہنما نے اعلان کیا ہے کہ اب سندھ اور پنجاب میں یونیورسٹیوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔ مذہبی انتہاپسندی کے مسئلے کا حل محض عسکری آپریشن اور انتظامی اقدامات نہیں بلکہ ریاست کا بیانیہ تبدیل کرنے میں ہے، ورنہ آرمی پبلک اسکول اور باچا خان یونیورسٹی کے بعد کوئی اور تعلیمی ادارہ نشانہ بنے گا اور ادارے محض مرنے والوں کے درجات کی بلندی کے لیے دعائیں کرتے رہیں گے۔