پارلیمنٹ ہی حقیقی اقتدار کا سرچشمہ ہے
قوموں کی سماجی و سیاسی زندگی میں خطرناک خصوصی حالات کسی بھی وقت رونما ہو سکتے ہیں،
قوموں کی سماجی و سیاسی زندگی میں خطرناک خصوصی حالات کسی بھی وقت رونما ہو سکتے ہیں، قوموں کو ان خصوصی خطرناک حالات سے باہر نکل آنے کے لیے چند خصوصی اور ناگزیر اقدامات بھی اٹھانے پڑتے ہیں، ان خصوصی اور ناگزیر اقدامات کے نتائج عموماً قوموں کو مادی ترقی و خوشحالی کے راستے پر گامزن کرنے کا ذریعہ بن جاتے ہیں مگر بعض اوقات ایسے ناگزیر اقدامات قوموں کے لیے کافی حد تک نقصان کا بھی باعث بناتے ہیں۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد وجود میں آنے والی جمہوری دنیا میں قومی ریاست کے فیصلہ سازی کے رتبے کو ''اجتماعی منشا'' کے ماتحت کر دیا گیا ہے یعنی اب دنیا ریاستی ڈھانچے کو چلانے میں اس کی پارلیمانی حیثیت کے حساب سے اس ریاست کی حیثیت کا تعین کرتی ہے۔
ایک خود مختار فوجی، اقتصادی اور مضبوط سیاسی ریاست کے لیے اب لازم ہو چکا ہے کہ وہ اپنے متعلق فیصلہ سازی میں اپنی عوام کی مختلف اجتماعی منشا یعنی پارلیمنٹ کو ہر صورت اعتماد میں لینے کی روایت کو پروان چڑھائے یہی سب سے بہترین اور مہذب جمہوری اصول ہے، اب موجودہ جمہوری دنیا میں پارلیمنٹ کی مرضی اور منشا کے خلاف کوئی حکومتی عمل دنیا میں پذیرائی حاصل کرنے کا مجاز نہیں رہا۔
پچھلی 60 سے 65 سالہ جمہوری ترقی یافتہ ملکوں کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب جب ان حکومتوں کو غیر معمولی حالات سے سابقہ پڑا انھوں نے اپنی قومی سیاسی مرضی کے ایوان سے رابطہ کیا اور پھر اس غیر معمولی اور بحرانی کیفیت سے سرخرو ہو کر نکلے، چونکہ حکومتی فیصلے کو بین الاقوامی طور پر 51% کا فیصلہ سمجھا جاتا ہے جب کہ پارلیمنٹ کے متفقہ فیصلے کو پوری 100% کا فیصلہ سمجھا جاتا ہے۔
جمہوری سسٹم میں پارلیمنٹ کی برتری کی ایک اور بنیادی وجہ ہے کہ اگر خدانخواستہ کیے گئے فیصلے کے نتائج توقعات کے مطابق مثبت نہ نکلیں تو کم از کم کوئی بھی سیاسی گروپ حکومت وقت کو اس فیصلے پر مورد الزام نہیں ٹھہراتا اور پھر اس منفی اور غیر متوقع حالات سے نکلنے کی جد و جہد میں پوری قوم یکجا ہو کر اجتماعی قوت اور جرأت کا مظاہرہ کرتی ہے اور یہی وہ سب سے بہترین سبق ہے جو قوموں نے قوموں کی تاریخ سے آشنا ہو کر نہ صرف حاصل کیا بلکہ اسے آنے والی نسلوں میں منتقل کیا۔
آج بحیثیت قوم ہمیں ہماری تقدیر نے ایک اہم دوراہے پر کھڑا کر دیا ہے، اندرونی طور پر مسائل کا انبار ہے، مشرقی بارڈر غیر یقینی کی کیفیت میں مغربی بارڈرز پر باقاعدہ جنگ میں مشغول بھڑکے ہوئے لسانی اور صوبائی مسائل، دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری سے اغوا برائے تاوان جیسے جرائم سے نبرد آزما ہیں۔
ایک تہائی آبادی شدید بیماری، خوراک، صاف پانی، اچھی آب و ہوا اور صحت کی عدم سہولیات کی وجہ سے ذہنی اور جسمانی طور پر شدید پسماندگی کا شکار، مردہ ہوتی ہوئی امیدیں۔ مگر کیا مجال ہے کہ ان تمام تباہ کن مسائل کے ہوتے ہوئے بھی ہماری سیاسی وفاقی حکومت پارلیمنٹ میں ان تمام مسائل کو اپنے ہی منتخب معزز ممبران کے رو برو لا کر بحث و مباحثہ کروانے پر ہی تیار نہیں قومی اہمیت کے کتنے ہی بڑے فیصلے کرنے ہوں پارلیمنٹ کے باہر کر لیے جاتے ہیں یعنی پارلیمنٹ کی ضرورت نہیں۔ پاکستان اگر جمہوریت ہے تو پارلیمنٹ کہاں ہے کیا پارلیمنٹ صرف ملک کے حکمران کا انتخاب کرنے کے لیے ہی وجود میں لائی جاتی ہے۔
سوچا تھا کہ اس بار شاید میاں صاحبان اور ان کے مخصوص چند دوست اپنے ماضی کی جمہوری طرز حکمرانی میں ہونے والی غلطیوں کو اس بار نہیں دہرائیں گے مگر افسوس کہ اسی ماضی کے نام نہاد جمہوری طرز حکمرانی کی روش آج بھی ان کے اور ان کے پسندیدہ رفقا کے رویے میں باقاعدہ دیکھی جا سکتی ہے۔ یعنی جب حکومت کو خطرات لاحق ہوں تو صرف پارلیمنٹ سابق صدر غلام اسحاق خان کے دور میں جب حکومت کو خطرہ لاحق ہوا تو پارلیمنٹ اس کی حرمت اس کی توقیر اس کا استحقاق سب یاد آیا اور دوڑے دوڑے پارلیمنٹ کی مدد لینے پہنچ گئے۔
اپنے دوسرے دور میں جب سابق صدر فاروق لغاری کے دور میں جب سپریم کورٹ سے اختلاف پیدا ہوا تو فوراً پارلیمنٹ یاد آئی اور پھر اسی کی قوت سے اس سیاسی بحران سے سرخ رو ہو کر نکلے لیکن جب وہ اس بحران سے نکلے تو اسی پارلیمنٹ سے اپنا سیاسی ناتا توڑ بیٹھے اور پھر جو ہوا سب نے دیکھا۔ اپنے موجودہ دور میں بھی پارلیمنٹ سے حق حکمرانی حاصل کیا اور اس کے بعد پارلیمنٹ میں صرف اسی دوران دیکھے گئے جب اسلام آباد کے دھرنے نے موجودہ حکومت کو شدید خطرات میں گھیر لیا اور خوش قسمتی سے وہ ان خطرات سے بھی تندرست و توانا ہو کر نکلے اور اس بار بھی پارلیمنٹ اپنی پوری قوت کے ساتھ ان کے ساتھ کھڑی رہی۔
ثابت ہوا کہ مضبوط جمہوری حکومتیں پارلیمنٹ کی حرمت اور اعزاز کو تقویت پہنچا کر ہی اپنے آپ کو مضبوط رکھتی ہیں۔ ایک کمزور اور غیر اہم بنا دی گئی ہوئی پارلیمنٹ کبھی بھی حکومتوں کا دفاع کرنے کے قابل نہیں ہوتیں کمزور پارلیمنٹ، کمزور حکومت اور کمزور حکومت نا اہل حکمرانی کو جنم دیتی ہے، لہٰذا عصر حاضر کا تقاضا ہے کہ حکومت اور حزب اختلاف کے اہم عہدوں پر فائز لوگ اپنے عمل سے پارلیمنٹ کی اہمیت میں مزید اضافہ کریں تا کہ ہمارے ریجن میں ہونے والی خطرناک تبدیلی کے خطرناک نتائج کے اثرات کو کم سے کم کرنے کے لیے اسی اہم ترین ایوان کو استعمال کیا جا سکے، حکومتیں نہیں صرف قومیں سیاسی، سماجی اور اقتصادی بحران پر ہی قابو پانے میں کامیاب ہوتی ہیں۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد وجود میں آنے والی جمہوری دنیا میں قومی ریاست کے فیصلہ سازی کے رتبے کو ''اجتماعی منشا'' کے ماتحت کر دیا گیا ہے یعنی اب دنیا ریاستی ڈھانچے کو چلانے میں اس کی پارلیمانی حیثیت کے حساب سے اس ریاست کی حیثیت کا تعین کرتی ہے۔
ایک خود مختار فوجی، اقتصادی اور مضبوط سیاسی ریاست کے لیے اب لازم ہو چکا ہے کہ وہ اپنے متعلق فیصلہ سازی میں اپنی عوام کی مختلف اجتماعی منشا یعنی پارلیمنٹ کو ہر صورت اعتماد میں لینے کی روایت کو پروان چڑھائے یہی سب سے بہترین اور مہذب جمہوری اصول ہے، اب موجودہ جمہوری دنیا میں پارلیمنٹ کی مرضی اور منشا کے خلاف کوئی حکومتی عمل دنیا میں پذیرائی حاصل کرنے کا مجاز نہیں رہا۔
پچھلی 60 سے 65 سالہ جمہوری ترقی یافتہ ملکوں کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب جب ان حکومتوں کو غیر معمولی حالات سے سابقہ پڑا انھوں نے اپنی قومی سیاسی مرضی کے ایوان سے رابطہ کیا اور پھر اس غیر معمولی اور بحرانی کیفیت سے سرخرو ہو کر نکلے، چونکہ حکومتی فیصلے کو بین الاقوامی طور پر 51% کا فیصلہ سمجھا جاتا ہے جب کہ پارلیمنٹ کے متفقہ فیصلے کو پوری 100% کا فیصلہ سمجھا جاتا ہے۔
جمہوری سسٹم میں پارلیمنٹ کی برتری کی ایک اور بنیادی وجہ ہے کہ اگر خدانخواستہ کیے گئے فیصلے کے نتائج توقعات کے مطابق مثبت نہ نکلیں تو کم از کم کوئی بھی سیاسی گروپ حکومت وقت کو اس فیصلے پر مورد الزام نہیں ٹھہراتا اور پھر اس منفی اور غیر متوقع حالات سے نکلنے کی جد و جہد میں پوری قوم یکجا ہو کر اجتماعی قوت اور جرأت کا مظاہرہ کرتی ہے اور یہی وہ سب سے بہترین سبق ہے جو قوموں نے قوموں کی تاریخ سے آشنا ہو کر نہ صرف حاصل کیا بلکہ اسے آنے والی نسلوں میں منتقل کیا۔
آج بحیثیت قوم ہمیں ہماری تقدیر نے ایک اہم دوراہے پر کھڑا کر دیا ہے، اندرونی طور پر مسائل کا انبار ہے، مشرقی بارڈر غیر یقینی کی کیفیت میں مغربی بارڈرز پر باقاعدہ جنگ میں مشغول بھڑکے ہوئے لسانی اور صوبائی مسائل، دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری سے اغوا برائے تاوان جیسے جرائم سے نبرد آزما ہیں۔
ایک تہائی آبادی شدید بیماری، خوراک، صاف پانی، اچھی آب و ہوا اور صحت کی عدم سہولیات کی وجہ سے ذہنی اور جسمانی طور پر شدید پسماندگی کا شکار، مردہ ہوتی ہوئی امیدیں۔ مگر کیا مجال ہے کہ ان تمام تباہ کن مسائل کے ہوتے ہوئے بھی ہماری سیاسی وفاقی حکومت پارلیمنٹ میں ان تمام مسائل کو اپنے ہی منتخب معزز ممبران کے رو برو لا کر بحث و مباحثہ کروانے پر ہی تیار نہیں قومی اہمیت کے کتنے ہی بڑے فیصلے کرنے ہوں پارلیمنٹ کے باہر کر لیے جاتے ہیں یعنی پارلیمنٹ کی ضرورت نہیں۔ پاکستان اگر جمہوریت ہے تو پارلیمنٹ کہاں ہے کیا پارلیمنٹ صرف ملک کے حکمران کا انتخاب کرنے کے لیے ہی وجود میں لائی جاتی ہے۔
سوچا تھا کہ اس بار شاید میاں صاحبان اور ان کے مخصوص چند دوست اپنے ماضی کی جمہوری طرز حکمرانی میں ہونے والی غلطیوں کو اس بار نہیں دہرائیں گے مگر افسوس کہ اسی ماضی کے نام نہاد جمہوری طرز حکمرانی کی روش آج بھی ان کے اور ان کے پسندیدہ رفقا کے رویے میں باقاعدہ دیکھی جا سکتی ہے۔ یعنی جب حکومت کو خطرات لاحق ہوں تو صرف پارلیمنٹ سابق صدر غلام اسحاق خان کے دور میں جب حکومت کو خطرہ لاحق ہوا تو پارلیمنٹ اس کی حرمت اس کی توقیر اس کا استحقاق سب یاد آیا اور دوڑے دوڑے پارلیمنٹ کی مدد لینے پہنچ گئے۔
اپنے دوسرے دور میں جب سابق صدر فاروق لغاری کے دور میں جب سپریم کورٹ سے اختلاف پیدا ہوا تو فوراً پارلیمنٹ یاد آئی اور پھر اسی کی قوت سے اس سیاسی بحران سے سرخ رو ہو کر نکلے لیکن جب وہ اس بحران سے نکلے تو اسی پارلیمنٹ سے اپنا سیاسی ناتا توڑ بیٹھے اور پھر جو ہوا سب نے دیکھا۔ اپنے موجودہ دور میں بھی پارلیمنٹ سے حق حکمرانی حاصل کیا اور اس کے بعد پارلیمنٹ میں صرف اسی دوران دیکھے گئے جب اسلام آباد کے دھرنے نے موجودہ حکومت کو شدید خطرات میں گھیر لیا اور خوش قسمتی سے وہ ان خطرات سے بھی تندرست و توانا ہو کر نکلے اور اس بار بھی پارلیمنٹ اپنی پوری قوت کے ساتھ ان کے ساتھ کھڑی رہی۔
ثابت ہوا کہ مضبوط جمہوری حکومتیں پارلیمنٹ کی حرمت اور اعزاز کو تقویت پہنچا کر ہی اپنے آپ کو مضبوط رکھتی ہیں۔ ایک کمزور اور غیر اہم بنا دی گئی ہوئی پارلیمنٹ کبھی بھی حکومتوں کا دفاع کرنے کے قابل نہیں ہوتیں کمزور پارلیمنٹ، کمزور حکومت اور کمزور حکومت نا اہل حکمرانی کو جنم دیتی ہے، لہٰذا عصر حاضر کا تقاضا ہے کہ حکومت اور حزب اختلاف کے اہم عہدوں پر فائز لوگ اپنے عمل سے پارلیمنٹ کی اہمیت میں مزید اضافہ کریں تا کہ ہمارے ریجن میں ہونے والی خطرناک تبدیلی کے خطرناک نتائج کے اثرات کو کم سے کم کرنے کے لیے اسی اہم ترین ایوان کو استعمال کیا جا سکے، حکومتیں نہیں صرف قومیں سیاسی، سماجی اور اقتصادی بحران پر ہی قابو پانے میں کامیاب ہوتی ہیں۔