ہماری اوقات

سانحہ چار سدہ یونیورسٹی کے بعد افغانستان کے ساتھ تعلقات اور سرحدی معاملات پر ایک بار پھر بحث کا آغاز ہوچکا ہے

latifch910@yahoo.com

سانحہ چار سدہ یونیورسٹی کے بعد افغانستان کے ساتھ تعلقات اور سرحدی معاملات پر ایک بار پھر بحث کا آغاز ہوچکا ہے' یہ بحث نئی نہیں ماضی کا ہی تسلسل ہے تاہم اب اس میں تھوڑی سنجیدگی اور جھنجھلاہٹ بھی نظر آ رہی ہے۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے تو کہہ دیا کہ افغان مہاجرین کو واپس بھیجا جائے اور پاک افغان سرحد کو محفوظ بنایا جائے۔ یہ افغانستان کے بارے میں روایتی مائنڈ سیٹ میں تبدیلی کا اشارہ ہے۔

یوں تو پورا ملک ہی دہشت گردی سے متاثر ہوا ہے لیکن خیبرپختونخوا اور فاٹا کے پرامن لوگ سب سے زیادہ اس کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔ شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان اور سوات پر تو طالبان کا اقتدار قائم ہو گیا تھا۔ فاٹا کی تقریباً تمام ایجنسیوں میں آپریشن ہوا ہے جب کہ خیبر پختونخوا کے شہر اور قصبے دہشت گردوں کے حملوں کا نشانہ بنے ہیں۔اس کے باوجود دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے ریاست ، اس کے ادارے اورسیاسی ومذہبی جماعتیں ابہام کا شکار چلی آرہی ہیں۔

خیبرپختونخوا' فاٹا اور ملک بھر میں خود کش حملوں اور بم دھماکوں کی جتنی بھی وارداتیں ہوئیں' ان کے ڈانڈے کسی نہ کسی حوالے سے افغانستان سے ملے ہیں۔ ہمیں یہی بتایا جاتا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کی مرکزی قیادت افغانستان میں روپوش ہے۔ حکومت اور دائیں بازو کے تجزیہ نگار پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں بھارت کا ہاتھ بھی تلاش کرتے ہیں' ان کی باتیں سچ ہو سکتی ہیں لیکن زمینی حقیقت یہی ہے کہ اگر بھارت نے کوئی وار کیا ہے تو افغانستان کے علاقوں' وہاں کے اور فاٹا کے باشندوں کو استعمال کر کے کیا ہے۔ اگر یہ سہولت میسر نہ ہو تو بھارت پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتیں نہیں کر اسکتا۔

سانحہ چار سدہ کے ذمے دار دہشت گردوںکے جو سہولت کار گرفتار ہوئے ہیں' وہ بھی مقامی باشندے ہی ہیں' یہ لوگ اتنے بڑے سانحے کے کردار کیوں بنے' کیا وہ دولت کے لالچ میں اندھے ہو گئے یا پھر ان کی ایسی برین واشنگ ہوئی کہ اپنے ہی بچوں کی زندگی لینے کے لیے دہشت گردوں کا وسیلہ بن گئے۔ ان عوامل پر بھی غور کیا جانا چاہیے۔

اس پہلو پر بھی خود احتسابی کا عمل شروع کرنا چاہیے کہ ہماری بعض سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے قائدین اور دائیں بازو کے دانشور ایک مخصوص طرز فکر کی تواتر سے وکالت کیوں کرتے آ رہے ہیں؟ کیا ان لوگوں کے خلاف ایکشن نہیں ہونا چاہیے' کیا یہ لوگ بھی دہشت گردوں کے سہولت کاروں کے زمرے میں نہیں آتے؟کیونکہ ان کی تقریریں اور تحریریں لاکھوں معصوم پاکستانیوں کے ذہن تبدیل کرنے کا موجب بن رہی ہیں۔

کیا ہمارے سرکاری اسکولوں میں بچوں کو ایسا نصاب نہیں پڑھایا جا رہا جس کا حقائق سے تعلق نہیں ہے؟ ان سوالوں کا جواب اس ملک کے طاقتور اداروں اور حکمرانوں کو تلاش کرنا چاہیے کیونکہ پالیسی سازی کا اختیار ان کے پاس ہے۔ مجھ جیسے قلم مزدورتو رعایا ہیں جن کے پلے سوائے باتوں کے کچھ نہیں ہوتا۔


افغانستان کے بارے میں ہماری خارجہ پالیسی قیام پاکستان سے ہی ابہام کا شکار رہی ہے۔ ہمارے پالیسی سازوں نے خارجہ پالیسی میں اس ملک کادرجہ یا پوزیشن متعین نہیں کی ' کم از کم مجھے تو اس بارے میں کچھ پتہ نہیں ہے' بس اتنا پتہ ہے کہ خارجہ پالیسی میں بھارت کو دشمن ملک کا درجہ حاصل ہے، افغانستان پر خاموشی ہے۔

ہو سکتا ہے کہ ہمارے وزیر اعظم کو کچھ پتہ ہو کیونکہ وزیر خارجہ کا منصب بھی ان کے پاس ہی ہے۔انھیں جب کبھی موقع ملے تو قوم کو اس سے ضرور آگاہ کرنا چاہیے۔ طالب علمی کے زمانے سے لے کر اب تک یہی سنتے آئے ہیں کہ افغانستان ہمارا محض ہمسایہ نہیں بلکہ بھائی ہے' بعض دانشور تو یہاں تک بھی فرماتے رہے اور اب تک گردان کر رہے ہیں کہ افغانستان دراصل پاکستان ہی کی ایکسٹینشن ہے یا یوں کہہ لیں کہ پاکستان افغانستان کی ایکسٹینشن ہے۔

لیکن عملاً صورت حال ہمیشہ مختلف نظر آئی۔ قیام پاکستان کے بعد جب اقوام متحدہ کی رکنیت کا مرحلہ آیا تو افغانستان وہ واحد ملک تھاجس نے پاکستان کی رکنیت کی مخالفت کی۔ افغانستان نے ایسا کیوں کیا' اس کا پتہ پنڈت نہرو، قائد اعظم یا پھر باچا خان کو ہو گا لیکن اس ملک کے طالب علموں کو محض یہی بتایا گیا کہ افغانستان نے پاکستان کی اقوام متحدہ کی رکنیت کی مخالفت کی تھی۔ بہر حال یہ ہمارے تعلقات کی ابتدا تھی' اس وقت افغانستان پر ظاہر شاہ نامی حکمران بطور بادشاہ کام کر رہا تھا۔آگے چلتے ہیں، پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان راولپنڈی میں قتل ہوئے' ان کا قاتل افغان باشندہ نکلا' اس نے اتنا بڑا اقدام کیوں کیا؟

اس کے سہولت کار کون تھے؟ اس کے بارے میں کسی کو کچھ پتہ نہیں ہے' اگر اعلیٰ سطح پر کسی کو کچھ معلوم بھی ہو گا تو اس نے زبان نہیں کھولی۔ باقی خیال کے گھوڑے جس میدان میں چاہیں دوڑاتے رہیں۔ پھر پختونستان کا ایشو سامنے آیا' یہاں بھی پس پردہ افغانستان ہی نظر آیا' اسے افغانستان اور بھارت کا گٹھ جوڑ بھی کہہ سکتے ہیں لیکن افغانستان اور اس کی اشرافیہ کو پھر بھی گریس مارکس نہیں دیے جاسکتے۔

ظاہر شاہ کا تختہ الٹنے کے بعد سردار داؤد برسر اقتدار آیا تو صورت حال میں کوئی خاص فرق نہیں پڑا' 1979ء میں سردار داؤد کا تختہ الٹ کر وہاں خلقی و پرچمی برسراقتدار آئے تو پاک افغان تعلقات نے نیا موڑ لیا' اب وہاں برسراقتدار کمیونسٹ حکومت ہماری دشمن قرار پائی اور اس کے خلاف لڑنے والے مجاہدین بھائی' افغانستان سے لاکھوں کی تعداد میں ترک وطن کر کے پاکستان آنے والے بھی ہمارے بھائی اور عربستان و شمالی افریقہ سے بطور مجاہد تشریف لانے والے بھی ہمارے بھائی' ان کے لیے سرحدیں کھول دی گئیں' اب یہی وہ مہاجرین ہیں جن کے بارے میں جناب پرویز خٹک نے بڑے دکھ اور غصے بھرے لہجے میں فرمایا ہے کہ انھیں واپس بھیجا جائے۔

اصولی طور پر ان کی بات درست ہے۔ افغان مہاجرین کو لازماً وطن واپس جانا چاہیے لیکن یہ بھاری پتھر اٹھائے گا کون؟ کیا وہ لوگ جن کا مفاد افغان مہاجرین کو ملنے والے فنڈز سے وابستہ ہے' وہ انھیں واپس بھجوانے پر تیار ہوں گے؟ جن لوگوں نے افغانوں سے رشتہ داریاں اور کاروباری شراکتیں کر لی ہیں کیا وہ انھیں واپس بھجوانے پر رضا مند ہوں گے؟ کیا خیبر پختونخوا اور وفاقی حکومت میں اتنی ہمت و جرات ہے کہ وہ اس طبقے کو اس کی اوقات میں رکھنے کے لیے طاقت استعمال کریں جو دن رات ''افغان باقی کہسار'' باقی کا ترانا گاتے رہتے ہیں' جو قوم کو'' بلاد خراسان ''کا خواب دکھاتے ہیں' جو سرد جنگ کے ثمرات سمیٹ کر اشراف بنے اور پھر پالیسی ساز بن گئے ہیں۔

معاف کیجیے' مجھے یہ ہمت اور جرات نظر نہیں آئی' جب ہم مہاجرین واپس بھجوانے والا بظاہر آسان سا کارنامہ سر انجام نہیں دے سکتے تو ڈیورنڈ لائن پر باڑھ یا اسے سیل کرنے کا کٹھن کا کیسے کر سکتے ہیں۔ جس ملک کا حکمران طبقہ متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ کی دھمکی بغیر ماتھے پر پسینہ آئے' ہضم کر سکتا ہے' وہ افغانستان کے ساتھ بھی با رعب و سخت لہجے میں بات کرنے کی جرات نہیں کر سکتا۔سچ یہ ہے کہ ہماری اوقات کیا ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ نے اسے عیاں کردیا ہے۔
Load Next Story