پاکستان ترقی کر رہا ہے
روزانہ الیکٹرونک میڈیا اور پرنٹنگ میڈیا پر یہ سنتے ہیں کہ پاکستان ترقی کر رہا ہے۔
روزانہ الیکٹرونک میڈیا اور پرنٹنگ میڈیا پر یہ سنتے ہیں کہ پاکستان ترقی کر رہا ہے۔ جی ہاں ترقی تو کر رہا ہے۔ پاکستان میں باسٹھ منزلہ عمارت بن رہی ہے، ڈیفنس سوسائٹیاں بھی قائم ہو چکی ہیں اور ہو رہی ہیں۔ عالیشان موٹر وے بن چکے ہیں اور بننے کو ہیں، ہم ٹینک، میزائل اور جیٹ فائٹر بھی بنا چکے ہیں، اورنج ٹرین چلانے کا بھی فیصلہ ہو چکا ہے، طویل سڑکیں بھی تعمیر ہوئی ہیں اور ہو رہی ہیں، پاکستان کو وسطی ایشیا، چین، ہندوستان اور افغانستان سے سڑکوں کے ذریعے جوڑا جا رہا ہے، کھربوں روپے خرچ ہو چکے ہیں اور ہو رہے ہیں۔
ایشیا کا پہلا نوبل انعام یافتہ دانشور، شاعر، ڈرامہ نگار اور فلسفی رابندر ناتھ ٹھاکر عرف ٹیگور نے کہا تھا کہ 'اگر کوئی انسان ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہو اور اس کی شکل بہت خوبصورت ہو تو اسے ایک صحت مند انسان نہیں کہا جا سکتا ہے، اسی طرح عمارتوں اور شہروں کی ترقی کو ترقی نہیں کہا جا سکتا۔ پاکستان میں 80 فیصد لوگ پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں، ہماری اکثریتی آبادی دیہات میں رہتی ہے، جہاں بیشتر بے زمین اور کم زمین رکھنے والے کسان ہوتے ہیں، جن کی روز کی دیہاڑی ڈھائی سو سے تین سو روپے سے زیادہ نہیں، گاؤں میں شرح تعلیم پانچ فیصد سے بھی کم ہے، صحت عامہ کا کوئی معقول اور بروقت انتظام نہیں ہے۔
اس ناہموار اور غیر مساویانہ ترقی کو ترقی نہیں کہا جا ستا۔ اس لیے کہ ایک جانب ارب پتی کھرب پتی بنتے جا رہے ہیں تو دوسری طرف تھرپارکر، چولستان وغیرہ میں قحط اور بھوک سے لوگ مر رہے ہیں۔ عجیب و غریب ہماری پیداواری حکمت عملی ہے۔ ہم چاول سو روپے کلو خریدتے ہیں اور چاول برآمد بھی کرتے ہیں۔ پہلے عوام کو سستا چاول فراہم کرنا چاہیے پھر برآمد کی باری آتی ہے۔ ایک مزدور کی تنخواہ آٹھ ہزار ہو تو وہ سو روپے کلو چاول کیسے خریدے گا۔
اسی طرح ہم سبزی، پھل، گوشت وغیرہ بھی برآمد کرتے ہیں جب کہ یہ چیزیں ہمیں انتہائی مہنگے داموں میں ملتی ہیں۔ پھلوں کی قیمت اوسطاً سو روپے کلو، سبزی بھی پچاس سے سو روپے کلو، مرغی کا گوشت تین سو روپے کلو، انڈا سو روپے درجن اور گائے یا بھینس کا گوشت چار سو روپے اور بکرے کا سات سو روپے کلو فروخت ہو رہا ہے۔ اور مزے کی بات ہے کہ ہم انھیں برآمد بھی کرتے ہیں۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور ہم ہلدی پسی ہوئی دو سو چالیس روپے کلو، دھنیہ پسا ہوا دو سو چالیس روپے کلو اور سرخ مرچ پسی ہوئی دو سو اسی روپے کلو خریدتے ہیں۔ یہ ایسی چیزیں ہیں کہ کم پانی میں بھی باآسانی پیداوار ہوتی ہے۔ پنجاب کے ان علاقوں میں جہاں مونگ پھلی پیدا ہوتی ہے، وہاں مونگ کی دال، مسور کی دال، چنا اور ماش کی دال بھی پیدا ہو سکتی ہے۔ مگر ہماری توجہ اس طرف ہے ہی نہیں، ہم تو عوام کی ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے پیداوار نہیں کرتے بلکہ منافعوں کے تقاضے کے تحت پیداوار کرتے ہیں۔ ارہر کی دال ہم ہندوستان سے درآمد کرتے ہیں جب کہ اس دال کا درخت شریفا کے پیڑ سے بھی چھوٹا ہوتا ہے اور اس میں زیادہ دیکھ بھال کی ضرورت بھی نہیں ہوتی ہے۔
اس وقت ہم ادرک، لہسن، پیاز اور گزشتہ برس آلو درآمد کرتے تھے۔ آلو تو ہم چین، ہندوستان اور بنگلہ دیش سے درآمد کرتے رہے، اور اس سال اب بھی چین سے ادرک اور لہسن درآمد کر رہے ہیں۔ جب کہ ادرک، لہسن اور پیاز ایسی پیداوار ہیں جو ہر جگہ اور باآسانی پیدا کی جا سکتی ہے۔ یہ جنگل جھاڑیوں میں بھی پیدا ہوتی ہیں۔
دنیا بھر میں زیادہ تر گائے کے دودھ کی پیداوار ہوتی ہے جب کہ پاکستان میں بھینس کا دودھ پیدا ہوتا ہے اور بھینس زیادہ دودھ دیتی ہے، اس لحاظ سے دودھ کی پیداوار زیادہ ہونی چاہیے۔ ہم بیرون ملک سے دودھ درآمد کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ بڑے پیمانے پر دودھ میں پانی کی ملاوٹ کی جاتی ہے اور اس کی چیکنگ نہیں کی جاتی۔ مزید برآں دودھ سے پہلے ہی بالائی (کریم) نکال لی جاتی ہے۔ یہاں تو اصلی گھی، بغیر ٹماٹر کے ٹماٹو کیچپ بنائے جاتے ہیں اور جانوروں کی انتڑیوں اور ہڈیوں سے تیل اور گھی بنایا جاتا ہے جس کی وجہ سے یہاں دل کے امراض میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
ہمارے روز مرہ کی استعمال ہونے والی اشیاء میں دال، چاول، آٹا، تیل، چینی اور چائے ہے۔ چائے پاکستان میں تقریباً سات سال سے پیداوار ہو رہی ہے، اسے مزید بڑے پیمانے پر بڑھایا جا سکتا ہے۔ چینی تو ہم برآمد بھی کرتے ہیں۔ چینی پاکستان کے عوام کو بیس روپے کلو بیچی جا سکتی ہے مگر اس کا کیا کیا جائے کہ چینی کی بیشتر ملیں سیاسی رہنماؤں کی ہیں، جو اپنی من مانی قیمتوں میں عوام کو بیچتے ہیں بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ عوام کو لوٹتے ہیں۔
آج سے چند سال قبل پٹرولیم مصنوعات کی عالمی قیمت ستر یا اسی ڈالر فی بیرل تھی جو چند ماہ قبل پچاس ڈالر فی بیرل ہو گئی تھی، اب تیزی سے چند دنوں میں اٹھائیس ڈالر فی بیرل ہو گئی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان عالمی قیمت کے لحاظ سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمت فی لیٹر اٹھائیس روپے کرتا جب کہ پاکستان کی حکومت نے فی لیٹر پندرہ روپے کم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
جب ایندھن کی قیمت بڑھتی ہے تو ہر چیز کی قیمت بڑھا دی جاتی ہے اور جب گھٹتی ہے تو روزمرہ کی اشیائے خوردنی کی قیمتوں میں کمی نہیں کی جاتی ہے۔ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت اس لیے کم ہوئی ہے کہ سعودی عرب، قطر، عرب امارات، کویت اور ایران نے زیادہ تیل نکالنا شروع کر دیا ہے، اس لیے کہ انھیں اسلحہ خریدنے کے لیے پیسے چاہئیں اور اس اسلحے سے مشرق وسطیٰ میں پروکسی وار کو جا ری رکھنا ہے۔ یہ ممالک اسلحہ امریکا، برطانیہ، فرانس اور مغربی ممالک سے ہی خریدتے ہیں۔ چونکہ مغربی سامراج کا اسلحہ بکتا ہے، اس لیے انھیں کسی نہ کسی خطے میں جنگ جاری رکھنا ہے۔
اس وقت دنیا کی دس بڑی اسلحہ پیدا کرنے والی فیکٹریوں میں سات کا تعلق امریکا سے ہے۔ اور ان سات میں سے سب سے بڑی فیکٹری 'لکی' ہے، اس کے مالک نے اعلان کیا ہے کہ ہم نے سب سے زیادہ منافع کمایا جب کہ عالمی سرمایہ داری کا موجودہ بحران زائد پیداوار کا بحران ہے، ساری صنعتیں گھاٹے میں جا رہی ہیں اور دوسری طرف اسلحہ ساز کمپنیاں سب سے زیادہ منافع کما رہی ہیں۔ یہ آدم خور ملٹی نیشنل کمپنیاں بالواسطہ طور پر انسانوں کا قتل عام کر کے پیسے بٹور رہی ہیں اور دوسری جانب اس کرۂ ارض پر روزانہ صرف بھوک سے پچھتر ہزار انسان جان سے جا رہے ہیں۔
سچے جذبوں کی قسم وہ دن جلد آنے والا ہے جب ملکوں کی سرحدیں ختم ہو کر دنیا ایک ہو جائے گی، کوئی طبقہ ہو گا اور نہ کوئی ریاست، سب مل کر کام کریں گے اور مل کر کھائیں گے۔
ایشیا کا پہلا نوبل انعام یافتہ دانشور، شاعر، ڈرامہ نگار اور فلسفی رابندر ناتھ ٹھاکر عرف ٹیگور نے کہا تھا کہ 'اگر کوئی انسان ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہو اور اس کی شکل بہت خوبصورت ہو تو اسے ایک صحت مند انسان نہیں کہا جا سکتا ہے، اسی طرح عمارتوں اور شہروں کی ترقی کو ترقی نہیں کہا جا سکتا۔ پاکستان میں 80 فیصد لوگ پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں، ہماری اکثریتی آبادی دیہات میں رہتی ہے، جہاں بیشتر بے زمین اور کم زمین رکھنے والے کسان ہوتے ہیں، جن کی روز کی دیہاڑی ڈھائی سو سے تین سو روپے سے زیادہ نہیں، گاؤں میں شرح تعلیم پانچ فیصد سے بھی کم ہے، صحت عامہ کا کوئی معقول اور بروقت انتظام نہیں ہے۔
اس ناہموار اور غیر مساویانہ ترقی کو ترقی نہیں کہا جا ستا۔ اس لیے کہ ایک جانب ارب پتی کھرب پتی بنتے جا رہے ہیں تو دوسری طرف تھرپارکر، چولستان وغیرہ میں قحط اور بھوک سے لوگ مر رہے ہیں۔ عجیب و غریب ہماری پیداواری حکمت عملی ہے۔ ہم چاول سو روپے کلو خریدتے ہیں اور چاول برآمد بھی کرتے ہیں۔ پہلے عوام کو سستا چاول فراہم کرنا چاہیے پھر برآمد کی باری آتی ہے۔ ایک مزدور کی تنخواہ آٹھ ہزار ہو تو وہ سو روپے کلو چاول کیسے خریدے گا۔
اسی طرح ہم سبزی، پھل، گوشت وغیرہ بھی برآمد کرتے ہیں جب کہ یہ چیزیں ہمیں انتہائی مہنگے داموں میں ملتی ہیں۔ پھلوں کی قیمت اوسطاً سو روپے کلو، سبزی بھی پچاس سے سو روپے کلو، مرغی کا گوشت تین سو روپے کلو، انڈا سو روپے درجن اور گائے یا بھینس کا گوشت چار سو روپے اور بکرے کا سات سو روپے کلو فروخت ہو رہا ہے۔ اور مزے کی بات ہے کہ ہم انھیں برآمد بھی کرتے ہیں۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور ہم ہلدی پسی ہوئی دو سو چالیس روپے کلو، دھنیہ پسا ہوا دو سو چالیس روپے کلو اور سرخ مرچ پسی ہوئی دو سو اسی روپے کلو خریدتے ہیں۔ یہ ایسی چیزیں ہیں کہ کم پانی میں بھی باآسانی پیداوار ہوتی ہے۔ پنجاب کے ان علاقوں میں جہاں مونگ پھلی پیدا ہوتی ہے، وہاں مونگ کی دال، مسور کی دال، چنا اور ماش کی دال بھی پیدا ہو سکتی ہے۔ مگر ہماری توجہ اس طرف ہے ہی نہیں، ہم تو عوام کی ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے پیداوار نہیں کرتے بلکہ منافعوں کے تقاضے کے تحت پیداوار کرتے ہیں۔ ارہر کی دال ہم ہندوستان سے درآمد کرتے ہیں جب کہ اس دال کا درخت شریفا کے پیڑ سے بھی چھوٹا ہوتا ہے اور اس میں زیادہ دیکھ بھال کی ضرورت بھی نہیں ہوتی ہے۔
اس وقت ہم ادرک، لہسن، پیاز اور گزشتہ برس آلو درآمد کرتے تھے۔ آلو تو ہم چین، ہندوستان اور بنگلہ دیش سے درآمد کرتے رہے، اور اس سال اب بھی چین سے ادرک اور لہسن درآمد کر رہے ہیں۔ جب کہ ادرک، لہسن اور پیاز ایسی پیداوار ہیں جو ہر جگہ اور باآسانی پیدا کی جا سکتی ہے۔ یہ جنگل جھاڑیوں میں بھی پیدا ہوتی ہیں۔
دنیا بھر میں زیادہ تر گائے کے دودھ کی پیداوار ہوتی ہے جب کہ پاکستان میں بھینس کا دودھ پیدا ہوتا ہے اور بھینس زیادہ دودھ دیتی ہے، اس لحاظ سے دودھ کی پیداوار زیادہ ہونی چاہیے۔ ہم بیرون ملک سے دودھ درآمد کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ بڑے پیمانے پر دودھ میں پانی کی ملاوٹ کی جاتی ہے اور اس کی چیکنگ نہیں کی جاتی۔ مزید برآں دودھ سے پہلے ہی بالائی (کریم) نکال لی جاتی ہے۔ یہاں تو اصلی گھی، بغیر ٹماٹر کے ٹماٹو کیچپ بنائے جاتے ہیں اور جانوروں کی انتڑیوں اور ہڈیوں سے تیل اور گھی بنایا جاتا ہے جس کی وجہ سے یہاں دل کے امراض میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
ہمارے روز مرہ کی استعمال ہونے والی اشیاء میں دال، چاول، آٹا، تیل، چینی اور چائے ہے۔ چائے پاکستان میں تقریباً سات سال سے پیداوار ہو رہی ہے، اسے مزید بڑے پیمانے پر بڑھایا جا سکتا ہے۔ چینی تو ہم برآمد بھی کرتے ہیں۔ چینی پاکستان کے عوام کو بیس روپے کلو بیچی جا سکتی ہے مگر اس کا کیا کیا جائے کہ چینی کی بیشتر ملیں سیاسی رہنماؤں کی ہیں، جو اپنی من مانی قیمتوں میں عوام کو بیچتے ہیں بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ عوام کو لوٹتے ہیں۔
آج سے چند سال قبل پٹرولیم مصنوعات کی عالمی قیمت ستر یا اسی ڈالر فی بیرل تھی جو چند ماہ قبل پچاس ڈالر فی بیرل ہو گئی تھی، اب تیزی سے چند دنوں میں اٹھائیس ڈالر فی بیرل ہو گئی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان عالمی قیمت کے لحاظ سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمت فی لیٹر اٹھائیس روپے کرتا جب کہ پاکستان کی حکومت نے فی لیٹر پندرہ روپے کم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
جب ایندھن کی قیمت بڑھتی ہے تو ہر چیز کی قیمت بڑھا دی جاتی ہے اور جب گھٹتی ہے تو روزمرہ کی اشیائے خوردنی کی قیمتوں میں کمی نہیں کی جاتی ہے۔ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت اس لیے کم ہوئی ہے کہ سعودی عرب، قطر، عرب امارات، کویت اور ایران نے زیادہ تیل نکالنا شروع کر دیا ہے، اس لیے کہ انھیں اسلحہ خریدنے کے لیے پیسے چاہئیں اور اس اسلحے سے مشرق وسطیٰ میں پروکسی وار کو جا ری رکھنا ہے۔ یہ ممالک اسلحہ امریکا، برطانیہ، فرانس اور مغربی ممالک سے ہی خریدتے ہیں۔ چونکہ مغربی سامراج کا اسلحہ بکتا ہے، اس لیے انھیں کسی نہ کسی خطے میں جنگ جاری رکھنا ہے۔
اس وقت دنیا کی دس بڑی اسلحہ پیدا کرنے والی فیکٹریوں میں سات کا تعلق امریکا سے ہے۔ اور ان سات میں سے سب سے بڑی فیکٹری 'لکی' ہے، اس کے مالک نے اعلان کیا ہے کہ ہم نے سب سے زیادہ منافع کمایا جب کہ عالمی سرمایہ داری کا موجودہ بحران زائد پیداوار کا بحران ہے، ساری صنعتیں گھاٹے میں جا رہی ہیں اور دوسری طرف اسلحہ ساز کمپنیاں سب سے زیادہ منافع کما رہی ہیں۔ یہ آدم خور ملٹی نیشنل کمپنیاں بالواسطہ طور پر انسانوں کا قتل عام کر کے پیسے بٹور رہی ہیں اور دوسری جانب اس کرۂ ارض پر روزانہ صرف بھوک سے پچھتر ہزار انسان جان سے جا رہے ہیں۔
سچے جذبوں کی قسم وہ دن جلد آنے والا ہے جب ملکوں کی سرحدیں ختم ہو کر دنیا ایک ہو جائے گی، کوئی طبقہ ہو گا اور نہ کوئی ریاست، سب مل کر کام کریں گے اور مل کر کھائیں گے۔