بیانیہ کی تلاش کا سفر۔۔۔

بیانیہ کی تلاش کا یہ سفر اس سے پہلے کہ آپ کے لئے جاں لیوا ثابت ہو، درست پہچان کو سمجھنے اور اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔


محمد عاصم January 27, 2016
اگر آپ عام آدمی ہیں تو اپنے رویے میں برداشت، دوسرے کو سننے کی صلاحیت پیدا کریں۔ جھوٹ اور فریب کو اپنی زندگی سے دور پھینک دیں، درحقیقت یہی آپکا بیانیہ ہونا چاہیے۔

حضور یہ لچھن ٹھیک نہیں آپ کے، بھائی کون سے لچھن؟ یہی جو تمہارے ہیں۔ ارے مجھے تو معلوم نہیں آپ کس کی بات کر رہے ہیں ذرا تفصیل سے بتاؤ۔ حضور آپ کو صاف معلوم ہے کہ میں کن لچھنوں کی بات کر رہا ہوں، بھلا آپ کو کیسے معلوم نہیں ہوگا۔ تم مجھے پاگل بنا دو گے۔ بند کرو یہ لچھن لچھن کی تکرار۔

آج ہر طرف سے ایسی ہی گفتگو ہوتی ہوئی سنائی دے رہی ہے۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ آج یہ محاورہ سچ میں سمجھ آنے لگا ہے۔ بلکہ کان پکنے لگے ہیں۔ بات یہ نہیں ہے کہ بات کی ہی نا جائے یا پھر تنقید کا حق ہی چھین لیا جائے۔ بلکہ سچائی یہ ہے کہ لفظ بیانیہ، اتنی بے دردی سے اور اتنے مختلف حوالوں سے بار بار بیان ہونے لگا ہے کہ اپنی وقعت کھو بیٹھے گا۔ ایک گروہ کسی دوسرے گروہ کی مخالفت میں بیانیہ سنا رہا ہے تو کوئی تیسرا کسی چوتھے کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی انتھک کوشش میں لگا نظر آتا ہے۔

ایسے میں آپ کسی بیانیہ کو بیان کرنے والے سے سوال کرلیں ''بھائی آپ کا ہی بیانیہ کیوں ٹھیک ہے؟ فلاں کا کیوں درست نہیں؟'' جواب ملتا ہے ''تم تو ہو ہی فلاں کے ماننے والے، تمہیں بھلا کیسے میری بات سمجھ آئے گی''۔ یوں بیانیہ اور جواب ِ بیانیہ کا ایک ایسا سلسلہ چل نکلا ہے کہ الامان الحفیظ ۔ بیانیہ کی تلاش کا یہ سفر اس سے پہلے کہ آپ کے لئے جاں لیوا ثابت ہو، آئیے کچھ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

خود آگاہی ہی وہ راستہ ہے جس کی پوری قوم کو اس وقت اشد ضرورت ہے۔ آپ سنی ہیں یا شیعہ۔ آپ مقلد ہیں یا غیر مقلد۔ سیکولر ہیں یا لبرل، ایک بات صفت باہمی ہے اور وہ ہے آپ کا انسان ہونا۔ آپ پہلے انسان ہیں پھر اس کے بعد آپ کی کوئی بھی پہچان ہوسکتی ہے۔ اس پہچان کا اختیار خود خالقِ کائنات نے آپ کو دیا ہے۔ اب یہ آپ کو سوچنا چاہیئے کہ انسان ہونے کے بعد جو پہچان آپ نے اپنی مرضی سے اختیار کی ہے وہ ٹھیک ہے یا غلط۔ اگر آپ اپنی پہچان سے مطمئن نہیں ہیں تو اس میں پریشان ہونے کی نہیں بلکہ درست پہچان کو سمجھنے اور اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔

آج ملک میں دہشت گردی کا چلن عام ہے۔ سیاسی، معاشی اور غنڈہ گردی کی ہر شکل میں۔ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ مرض کی تشخیص ہر فرد ان اندھوں کی طرح کرنا چاہتا ہے جنہیں کہیں ہاتھی مل گیا تھا۔ پھر لگے سبھی ہاتھی کی صورت کو بیان کرنے۔ بن دیکھے آدھی سچائی کا نتیجہ پھر یہی ہوتا ہے۔

دین و سیاست کو الگ الگ سمجھنے والے ہر دہشت گردی کا الزام کسی ان دیکھے بیانیہ پر لگا رہے ہیں۔ کشمیر آزاد ہوا تو قبائل کے رضا کاروں نے بھرپور حصہ لیا۔ اس سے پہلے پاکستان ہجرت کرکے آنے والوں کے قافلوں کی حفاظت میں بھی عام مسلمان رضا کاروں نے حصہ لیا تھا۔ دنیا کے ہر ملک میں جب کوئی مشکل آتی ہے تو ہر شہری اپنی خدمات کو رضا کارانہ طور پر پیش کرتا ہے۔ یہی سبق اسلام اپنے ماننے والوں کو دیتا ہے۔ لیکن یہ سارا عمل کسی وقتی طلب اور آس کی بنیاد پر نہیں کیا جاتا۔ اس کی جزا، اللہ سے مانگی جاتی ہے۔ ہاں وقت کے پجاری، مال و دولت کی خاطر جب ایسا کرتے ہیں تو اس کا بھیانک نتیجہ نکلتا ہے۔

کیا اسلام نے سیاست دانوں کو لوٹ مار کی اجازت دی ہے؟ کیا قتلِ ناحق کا لائسنس کسی آیت سے کشید کردہ ہے؟ کیا ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھتےعوامی وسائل کسی دینی کتاب کے مرہون منت ہیں؟ کیا غریب کی محنت کی کمائی پر جبر کے ٹیکس اور پھر ان پر حکمرانوں کی عیاشیاں، بے دریغ بیرونی قرضوں کی وصولیاں اور ان پر لگا سود، ہر ٹھیکے پر کمیشن اور ہر کام میں دو نمبری، کیا یہ سب اسلام نے سیکھایا ہے؟ کیا یہ کسی بیانیہ کا سیکھایا ہوا سبق ہے؟

اب اگر آپ کا سوال یہ ہے کہ ''پھر میرا بیانیہ کیا ہو؟ میں کس راہ پر چلوں؟'' یہ درست سوال ہے۔ آپ اگر ریاست ہیں تو اپنے ان قوانین کو بدل ڈالیں جو آپ کی معاشرت میں بے اعتدالی اور نا انصافی کو پروان چڑھا رہے ہیں۔ اگر آپ حاکم ہیں تو اپنی ذات کے تضاد کو مٹا دیں۔ یہ تضاد آپ کو منافق بنا رہا ہے۔ آپ اس تضاد کی وجہ سے ذاتی اور عوامی مفادات کو دو مختلف عینکوں سے دیکھتے ہیں اور اگر آپ عام آدمی ہیں تو اپنے رویے میں برداشت، دوسرے کو سننے کی صلاحیت پیدا کریں۔ جھوٹ اور فریب کو اپنی زندگی سے دور پھینک دیں۔

یہ ذمہ داری استاد، شاگرد، آفیسر، مالک، خادم، ماں، باپ یا کسی بھی شکل میں ہوسکتی ہے۔ تو آپ کو اپنے اندر متعلقہ ذمہ داری کا احساس پیدا کرنا ہوگا۔ پھر اس ذمہ داری کو سمجھنے کی خوبی اور تربیت حاصل کرنا ہوگی، پھر اس کی ادائیگی میں اپنی ساری صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ہوگا۔ بس یہ آپ کا بیانیہ ہے۔ اعتدال کی صفت سے متصف بیانیہ۔ جب ہر فرد اور ہر ادارہ اپنی ذات کی عدالت میں کھڑا ہوکر اپنے گریبان میں جھانکے گا، تو خود مائیگی اور خود نمائی کی کلف خود ہی اترنے لگے گی۔ پھر کسی دوسری اور تیسری قوت کی بات کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی۔
[poll id="917"]


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔


اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں