کرپشن میں کمی خوش آیند نوید

2015 ء میں پاکستان کے سی پی آئی (کرپشن پرسیپشن انڈکس) اسکور میں رواں سال پھر ایک درجہ بہتری آئی ہے


Editorial January 28, 2016
اگر موجودہ حکومت نے سیاسی، اقتصادی اور انتظامی شعبوں سے بدعنوانی کا خاتمہ کیا تو یہ قوم و ملک کے لیے نیک فال ہوگا۔ فوٹو : فائل

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ2015 ء میں پاکستان کے سی پی آئی (کرپشن پرسیپشن انڈکس) اسکور میں رواں سال پھر ایک درجہ بہتری آئی ہے اور یہ29 سے بڑھ کر30 درجے تک پہنچ گیا، سی پی آئی میں اس بہتری سے ملک کرپٹ ممالک کے رینک میں بھی3درجے نیچے آگیا۔ چیئرمین ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان سہیل مظفر نے کہا ہے کہ پاکستان کو اس حوالے مزید بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا۔ یہ مقصد کرپشن کے خلاف عدم برداشت کی پالیسی اپناتے ہوئے عملی اقدامات اٹھا کر حاصل کیا جا سکتا تھا ۔

کرپشن کے عالمی اور علاقائی نشیب وفراز پر نظر رکھنے والے ایک عالمی ادارہ کا پاکستان میں کرپشن میں کمی کی اطلاع ایک خوش آیند انکشاف سے زیادہ حکومتی حلقوں کے لیے تالیف قلب کا سامان ہے۔

اس نوید سے حکومت کے ٹھوس اور مستحسن کرپشن فری اقدامات کی جھلک ملتی ہے۔ سیاسی و اقتصادی سطح پر قوم اسے اچھی خبر سمجھتی ہے جس سے بلاشبہ غیر ملکی سرمایہ کاروں تک مثبت پیغام جائے گا، مشترکہ سرمایہ کاری کے نئے در کھلیں گے، پاکستان میں کاروبار اور تجارتی سہولتوں کی فراہمی سے متعلق اعتبار میں مزید اضافہ ہوگا، البتہ قرضوں کے حصول میں آسانی تو ہوگی مگر قرضوں کے بوجھ تلے دبی قوم کا بال بال قرضوں میں جکڑا جائے تو ایسی معاشی ترقی اور بدعنوانی میں کمی کی خوشخبری عارضی ثابت نہ ہوجائے جیسا کہ ایک اخباری اطلاع کے مطابق پاکستان کا حالیہ بیرونی قرضہ 70 ارب ڈالر سے بھی بڑھنے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے جو ہولناک مضمرات لیے ہوئے ہے، یہ اس عزم اور قوم سے وعدہ اور نعرہ کے بھی برخلاف ہے جس میں کشکول توڑنے اور قرض اتارو ملک سنوارو کی گونج شامل تھی۔

گزشتہ چند عشروں سے پاکستان کی کئی حکومتوں کو بدعنوانی ، مالیاتی بے قاعدگی، رشوت، کمیشن، کک بیکس، چمک اور بھتہ خوری کے ہمہ جہتی الزامات کا سامنا رہا ہے ، میگا سکینڈلز کے کیسز عدالتوں میں زیر سماعت ہیں، کرپشن بظاہر نظر نہیں آتی ، مگر سرخ فیتہ کا آج بھی راج ہے، کوئی جائز کام بھی مٹھی گرم کیے بغیر نہیں ہوتا، افسر شاہی نے کرپشن کو لائف اسٹائل کا لازمی حصہ بنا لیا ہے جب کہ مسائل کا شکار عوام بدستور خوش حالی اور ریلیف کے وعدوں پر جی رہے ہیں، زمینی حقائق تو یہی ہیں جنہیں بدلنا ناگزیر ہے کیونکہ کرپشن کلچر کا تسلسل گڈ گورننس کے خواب کو کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہونے دیگا، کرپشن جمہوریت کو بھی چاٹ لیتی ہے۔

اس کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچ پاتے ، چنانچہ بار بار ملک انسانی وسائل کے ناکافی استعمال، غربت انڈیکس، مالیاتی عدم شفافیت، اور سیاسی و معاشی مسائل کا ورثہ ایک حکومت سے دوسری کو منتقل ہوتا رہا۔ تاہم ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے امید ظاہر کی ہے کہ حکومت اس حوالے سے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی تجاویز پر سنجیدہ اقدامات کریگی جس سے کرپشن میں نمایاں کمی آئیگی اور اس کے نتیجے میں آنیوالے برسوں کے دوران سی پی آئی انڈکس میں مزید بہتری ہو گی۔ چیئرمین سہیل نے کہا کہ پاکستان پانچ سارک ممالک میں واحد ملک ہے جس کے سی پی آئی انڈکس میں بہتری ہوئی جب کہ باقی ممالک نے یا تو گذشتہ برس والی کارکردگی دکھائی یا پہلے سے بھی زیادہ کرپشن دکھائی ہے ۔

2015ء میں بہتری کے باوجود کرپشن عالمی سطح پر اب بھی بدستور موجود ہے تاہم اگر لوگ اس کے خلاف مشترکہ جدوجہد کریں تو اسے کم بھی کیا جا سکتا ہے ۔ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے2015ء کے سی پی آئی کے مطابق168ملکوں میں سے دو تہائی نے50سے نیچے اسکور کیا یعنی ان ملکوں میں کرپشن بڑے پیمانے پر پائی جاتی ہے ۔

تاہم گوئٹے مالا، سری لنکا اور گھانا جیسے ملکوں میں شہری گروپوں کی صورت میں کرپشن کے خلاف کوششیں کر رہے ہیں جو دیگر ملکوں کے لیے بڑا سبق ہے۔برازیل کے کرپشن پرسیپشن انڈکس(سی پی آئی) میں سب سے زیادہ5پوائنٹس کمی ہوئی اور یہ 76ویں رینک سے7درجے کم پر چلا گیا۔ ڈنمارک کی کرپشن کے خلاف کارکردگی سب سے شاندار رہی اور وہ مسلسل دوسرے سال بھی پہلی پوزیشن پر ہے۔ صومالیہ اور شمالی کوریا سب سے بدترین پوزیشن پر رہے جنہوں نے صرف 8پوائنٹس اسکور کیے۔ گزشتہ چار سال میں کرپشن کے حوالے سے کم شرح والے ممالک میں لیبیا،آسٹریلیا، برازیل، اسپین اور ترکی جب کہ یونان، سینیگال اور برطانیہ میں کرپشن میں اضافہ دیکھا گیا ہے ۔

مشہور مقولہ ہے کہ '' طرز حکمرانی اچھی نہیں ہوگی تو ریاستی و حکومتی ادارے تباہی سے دوچار ہوں گے،'' اس تناطر میں دیکھا جائے تو عہد حاضر میں کرپشن حکومتوں کے لیے سب سے بڑا چیلنج بنا ہوا ہے ، حکمران مہنگائی کم کریں، غربت کو ٹارگٹ کریں، ملک کرپشن کی بدنامی سے نجات حاصل کرکے عالمی برادری میں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرسکتا ہے۔

ماضی کی صورتحال عجیب تھی جب وطن عزیز کو عالمی اداروں کی ریٹنگ میں کرپشن کے علمبرداروں میں ہی شمار کیا جاتا رہا جب کہ عوام ہمیشہ اس انتظار میں رہے کہ پاکستان کب کرپشن سے آزاد ہوگا، ہماری سیاست و معیشت اور جمہوری نظام حکومت سے بدعنوانی ، اقربا پروری اور ناجائز ذرایع سے دولت حاصل کرنے کی ہوس کا سلسلہ کب رکے گا۔ یہ سارے کام ممکن ہیں ، اگر موجودہ حکومت نے سیاسی، اقتصادی اور انتظامی شعبوں سے بدعنوانی کا خاتمہ کیا تو یہ قوم و ملک کے لیے نیک فال ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں