ہر لمحہ ایک نیا تجربہ

جب کہ ان کے پلے اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ وہ کسی اچھے معالج سے علاج معالجہ کرا سکیں۔


Muqtida Mansoor January 28, 2016
[email protected]

ریڑھ کی ہڈی کے گروں کے اپنی جگہ سے ہٹ جانے کے باعث ڈیڑھ ہفتہ قبل میرا فشار خون 201/110 تک جا پہنچا۔ شدید چکر، ابکائیوں اور نیم بے ہوشی کے باعث اہل خانہ نے ایک نجی اسپتال میں داخل کرا دیا۔ جہاں داخل ہوتے ہی ٹیکسی کے میٹر سے کہیں زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ اسپتال کا میٹر چلنے لگا۔ دو روز ایک اسپتال اور ڈیڑھ دن دوسرے اسپتال میں داخل رہنے اور مختلف ٹیسٹ اور ادویات پر ہونے والے اخراجات کا جب تخمینہ لگایا تو رقم نصف لاکھ سے تجاوز کرچکی تھی۔ وہ تو شکر ہے کہ بچے برسر روزگار ہیں، اس لیے کوئی بڑی مالی پریشانی نہیں ہوئی، وگرنہ میں بھی کسی سرکاری اسپتال کے برآمدے میں پڑا ایڑیاں رگڑ رہا ہوتا۔

گھر پر فارغ پڑا، جب ان بلوں پر نظر دوڑاتا ہوں جو میری بیماری کے اخراجات کو ظاہر کررہے ہیں، تو میری آنکھوں کے سامنے وہ لاکھوں، کروڑوں افراد گھوم جاتے ہیں، جو مختلف بیماریوں میں مبتلا سرکاری اسپتالوں اور ان کے باہر فٹ پاتھوں پر پڑے اپنے مقدر کو کوس رہے ہوتے ہیں۔ کیونکہ سرکاری اسپتال حکومتی نااہلی اور عدم توجہی کے باعث کرپشن، بدعنوانی اور اقرباپروری کا شکار ہیں۔ جس کی وجہ سے مسیحائی کے بجائے مذبح خانے بن چکے ہیں۔

جب کہ ان کے پلے اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ وہ کسی اچھے معالج سے علاج معالجہ کرا سکیں۔ یہی سبب ہے کہ پاکستان میں تعلیم کی طرح صحت کی سہولیات تک رسائی بھی امرا کے چونچلے بن چکے ہیں۔ غریب، جسے دو وقت کی روٹی بڑی تگ ودو کے بعد ملتی ہے، اس کے لیے بیمار ہوجانا کسی عذاب الٰہی سے کم نہیں۔

انگریزنے اپنے دور اقتدار میں پورے برصغیر میں اسپتالوں اور شفاخانوں کا جال پھیلادیا تھا۔ ہر ضلع اور تحصیل میں سول اسپتال، جب کہ گاؤں اور دیہات کی سطح پر شفاخانے اور ڈسپنسریاں قائم کرکے عام آدمی کے لیے صحت کی سہولیات تک رسائی آسان بنادی تھی۔ ان اسپتالوں اور شفا خانوں کے لیے طبیبوں کا میرٹ پر انتخاب کیا جاتا تھا۔ انگریزوں نے طب کی تعلیم کے لیے دو طریقے وضع کیے تھے۔

ایک پانچ سالہ ڈگری کورس MBBS اور دانتوں کے لیے BDS۔ دوسرا سرٹیفیکٹ کورس LSMF کے نام سے متعارف کرایا گیا۔ دانتوں کے لیے LDS کا سرٹیفیکٹ ہوا کرتا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ دور دراز علاقوں میں موسمی بیماریوں کا علاج کرنے کے علاوہ مریضوں کو فوری طبی امداد مہیا کی جاسکے۔ اسی لیے LSMF/LDS طبیبوں کو عام طور پر گاؤں اور دیہاتوں میں قائم ڈسپنسریوں اور شفاخانوں میں تعینات کیا جاتا تھا۔ MBBS/BDS ڈاکٹروں کی تقرری سول اسپتالوں میں کی جاتی تھی۔ ساتھ ہی بڑے شہروں کے سول اسپتالوں میں انگلستان سے مختلف کورسز میں فارغ التحصیل اسپیشلسٹس کی خدمات بھی مہیا کی جاتی تھیں۔

دوسری طرف مقامی طریقہ علاج کا بھی راستہ نہیں روکا گیا۔ ہندو وید آرویدک اور مسلمان حکما یونانی طریقہ علاج کے ذریعے مریضوں کا علاج بھی کرتے رہے۔ تقسیم ہند کے کچھ عرصہ بعد پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل نے LSMF/LDS کو ختم کرنے اور اسے MBBS/BDS میں ضم کرنے کی تجویز دی، جسے ایوب خان کے دور میں تسلیم کرلیا گیا۔ یوں پورے ملک سے LSMF/LDS طبیبوں کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ بھارت میں شاید یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

LSMF/LDS کو ختم کرنے کے پس پشت کیا حکمت عملی تھی، اس بارے میں تو میڈیکل کونسل ہی زیادہ بہتر وضاحت پیش کرسکتی ہے، البتہ اس سرٹیفیکٹ کورس کے ختم کردیے جانے کی وجہ سے دیہی علاقوں میں فوری طبی امداد اور چھوٹی موٹی بیماریوں کا علاج دشوار ہوگیا ہے۔ دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے MBBS/BDS نوجوان ڈاکٹروں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ شہروں کا رخ کریں جہاں انھیں بہتر کیرئیر اور آمدنی کی توقع ہوتی ہے۔

بری حکمرانی کے اثرات جہاں دیگر شعبہ جات پر انتہائی منفی انداز میں مرتب ہوئے ہیں، وہیں صحت کا شعبہ بھی بری طرح متاثر ہوا ہے۔ مالیاتی خوردبرد، ادویات کی خریداری میں بڑے پیمانے پر بے قاعدگیاں اور میرٹ سے صرف نظر کرتے ہوئے سفارش اور رشوت کی بنیاد پر کم اہلیت کے حامل ڈاکٹروں اور دیگر عملے کی تقرریوں نے سرکاری اسپتالوں کو تباہی کے دہانے تک پہنچادیا ہے۔ احتساب کا کوئی واضح مکینزم نہ ہونے اور صوبائی محکمہ صحت کے خود بدعنوانیوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے سرکاری اسپتال مذبح خانوں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔

ڈاکٹرز سرکاری اسپتالوں کو اپنے نجی کلینکوں کے لیے تعارف گاہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں، تاکہ مریضوں کو اپنے نجی کلینکوں کی جانب راغب کرسکیں۔ بیشتر ڈاکٹر نجی اسپتالوں میں بھی جز وقتی بنیادوں پر کام کرتے ہیں۔ اس صورتحال نے عام آدمی کے لیے جو آبادی کا تقریباً 80 فیصد ہے، علاج معالجہ کو بدترین مالیاتی بوجھ میں تبدیل کردیا ہے۔

افسوسناک پہلو یہ ہے کہ کرپشن اور بدعنوانیوں میں گھٹنوں گھٹنوں دھنسا محکمہ صحت کو نجی اسپتالوں کی مانیٹرنگ اور ذاتی کلینک چلانے والے ڈاکٹروں کے لیے فیس کا تعین کرنے کی توفیق تک نہیں ہے۔ ہر ڈاکٹر نے اپنی دکان سجالی ہے، جس کی دکان جس قدر سجی ہے، اس کی اتنی ہی زیادہ فیس ہے۔ بہت سے ڈاکٹر اسپیشلسٹ نہ ہونے کے باوجود کنسلٹنٹ بنے ہوئے ہیں اور انھیں پوچھنے والا کوئی نہیں۔ البتہ شعبہ طب کو مسیحائی سمجھنے کی چند ایک مثالیں ضرور موجود ہیں، جیسے ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کا ادارہ SIUT یا پھر ملک کے مختلف حصوں میں رفاعی اداروں کے قائم کردہ اسپتال جن میں انتہائی واجبی فیس پر عمدہ طبی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ لیکن یہ ادارے آٹے میں نمک سے بھی کم ہیں۔

لیکن بات پھر وہی ہے کہ صحت کی سہولیات فراہم کرنا خیراتی اداروں کی نہیں ریاست کی ذمے داری ہے۔ مگر پاکستانی ریاست اپنی ذمے داریوں سے بے خبر مختلف نوعیت کی فروعیات میں الجھی ہوئی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وطن عزیز بدترین حکمرانی اور جہل آمادگی کے عذاب میں گھرا ہوا ہے۔ جس نے اشرافیائی کلچر، بے حسی اور ہر قسم کی کرپشن جیسی برائیوں کو جنم دیا ہے۔ چنانچہ 68 برس گزر جانے کے باوجود عوام بنیادی حقوق اور مختلف سہولیات تک رسائی کو ترس رہے ہیں۔

دنیا کے بیشتر ممالک میں تعلیم کی طرح صحت ریاست کی ذمے داری ہوتی ہے۔ برطانیہ جو ہم پر دو صدیوں تک مسلط رہا، وہاں آج بھی 95 فیصد تعلیمی ادارے اور اسپتال سرکار چلاتی ہے۔ نجی شعبہ میں جو ادارے چلتے ہیں، حکومت ان کی کڑی نگرانی کرتی ہے۔ اسی طرح امریکا سمیت دیگر مغربی ممالک میں بھی صحت حکومت کی ذمے داری ہے۔ دوسرا اہم معاملہ سماجی تحفظ (Social Security) کا ہے۔ دنیا کے ہر ترقی یافتہ ملک میں سماجی تحفظ کا ایک واضح نظام موجود ہے، جب کہ ہمارے یہاں یہ انتہائی محدود پیمانے پر صرف رجسٹرڈ محنت کشوں کے لیے ہے۔

مگر انھیں بھی صحیح طور پر سہولیات نہیں ملتیں۔ اگر سوشل سیکیورٹی کے نظام کو پورے ملک میں ہر شہری کے لیے لازمی کردیا جائے اور یونین کونسل کی سطح پر ڈسپنسریاں اور تحصیل (ٹاؤن) کی سطح پر سوشل سیکیورٹی اسپتال قائم کیے جائیں تو عام آدمی کے صحت کے مسائل خاصی حد تک حل ہوسکتے ہیں۔ ایک دوسری المناک صورتحال یہ ہے کہ کراچی اور لاہور سمیت تقریباً سبھی بڑے شہروں میں انگریز کا قائم کردہ ایک ایک سول اسپتال ہے، جو خود ابتری کی منہ بولتی تصویر بنا ہوا ہے۔ اگر ہر دو لاکھ آبادی کے لیے مکمل طبی سہولیات سے آراستہ ایک جدید سول اسپتال قائم کردیا جائے، تو عوام کے صحت کے مسائل پر خاصی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔ بشرطیکہ ان کی تواتر کے ساتھ مانیٹرنگ اور کرپشن کو کنٹرول کیا جائے۔

لیکن وطن عزیز کے جو حالات ہیں، انھیں دیکھتے ہوئے کسی بھی حکومت سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ عوام کے بنیادی مسائل کو حل کرنے میں کسی قسم کی کوئی پیش قدمی کرسکے گی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ملک بدترین طرزحکمرانی اور چہار سو پھیلے جہل میں گھرا ہوا ہے۔

جہل کے بارے میں سقراط کا قول ہے کہ جاہل ان پڑھ شخص نہیں ہوتا، بلکہ وہ جو نظر آنے والی حقیقتوں کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے اپنے فرسودہ تصورات پر اصرار کرے اور حقیقت پسندی کا راستہ روکے۔ پاکستان میں علم کی کمی اپنی جگہ، مگر جس انداز میں بااثر و بااختیار حلقے حقائق کو جھٹلاتے ہیں، وہ جہل آمادگی کی بدترین مثال ہے۔ یہ حلقے اول تو خود جہل کی گہری کھائی میں غرقاب ہیں، دوسرے عام آدمی کو اس لیے بے علم رکھنا چاہتے ہیں، تاکہ ان کی غلطیوں، کمزوریوں اور کوتاہیوں پر سوال نہ اٹھایا جاسکے۔

یہ خود کو ہر قسم کے احتساب سے ماورا تصور کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کی ہر بات کو آمنا صدقنا تسلیم کرلیا جائے۔ کم علمی اور جہل آمادگی کی وجہ سے عام آدمی ایک طرف حقوق اور فرائض میں تمیز کرنے کی صلاحیت سے محروم کردیا گیا ہے، جب کہ دوسری طرف وہ حکمران اشرافیہ کی چالاکیوں اور عیاریوں کو سمجھنے اور ان کے عاقبت نااندیشانہ اقدامات پر بروقت احتجاج کرنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔ اس صورتحال نے حکمران اشرافیہ کو حوصلہ دیا ہے کہ وہ جو چاہیں کرتے رہیں، انھیں پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں