دہشت گردی کے خلاف اقدامات
20 جنوری کو ہونے والے سانحہ چارسدہ نے پوری قوم کو افسردہ کر دیا ہے
20 جنوری کو ہونے والے سانحہ چارسدہ نے پوری قوم کو افسردہ کر دیا ہے اور اس سانحہ کے بعد سے لے کر اب تک پوری قوم پر سوگ کی کیفیت طاری ہے۔ باچا خان یونیورسٹی میں ایک پروفیسر اور متعدد طلبا سمیت 22 افراد کی شہادت بلاشبہ انتہائی تکلیف دہ واقعہ ہے مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس سے پہلے سقوط ڈھاکہ، آرمی پبلک اسکول سمیت ان گنت قومی سانحات سے پاکستانی گہرے سوگ میں مبتلا ہوئے، قومی پرچم کو سرنگوں کیا گیا لیکن پاکستان کے دشمنوں کی روش تبدیل نہیں ہوئی۔ ہمارے یہ دشمن جب موقع ملتا ہے کاری وار سے گریز نہیں کرتے۔ دہشت گردی کی ہر واردات اور انسان دشمنی کے ہر واقعے پر دکھ اور افسوس کا اظہار انسانیت دشمنوں کی سوچ میں تبدیلی پیدا نہیں کرتا۔
پاکستان عالمی امن، علاقائی استحکام کے لیے عشروں سے قربانی دیتا آ رہا ہے۔ افغانستان پر سوویت یونین کا حملہ ہو یا پھر یہاں سے اتحادی افواج کا انخلا، پاکستان نے ہر موقع پر خطے کی سلامتی کے لیے وسیع تر مفاد میں کلیدی کردار ادا کیا۔ بھارت سے بہتر تعلقات کے لیے ہمیشہ پیش قدمی بھی پاکستان ہی نے کی اور خطے میں دیرپا امن کی خاطر اس دیرینہ دشمن کو کشمیر سمیت تمام تنازعات پر غیر مشروط جامع مذاکرات کی پیشکش کی جاتی رہی ہے۔
اسی طرح امریکا میں نائن الیون سانحہ کے بعد موقف کے ردعمل میں دہشت گرد عناصر نے پاکستان پر براہ راست حملے کیے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق گزشتہ 15 برس میں بم دھماکوں اور خودکش حملوں میں 70 ہزار بے گناہ پاکستانی شہری اور سیکیورٹی اہلکار جاں بحق ہوئے۔ دہشت گردی کی بدترین لہر نے ہمارے سیاحتی مقامات، کاروباری مراکز اور کھیل کے میدان ویران کر ڈالے۔ ملک کو معاشی میدان میں 100 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا اور پوری قوم ان دیکھے خوف کا شکار ہو کر رہ گئی ہے۔
امریکا و برطانیہ سمیت عالمی برادری اور مہذب دنیا اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی اور عدم برداشت کے سنگین خطرات سے کبھی سمجھوتا نہیں کیا، اپنی سلامتی تک کو داؤ پر لگا دیا لیکن امن دشمن قوتوں کے خلاف جرأت مندانہ سوچ سے دستبردار نہیں ہوا۔ دہشت گردی کے خلاف بہادرانہ جدوجہد کے معترف ہونے کے باوجود دنیا کے سرکردہ ممالک پاکستان سے دہشت گردی کے خاتمے کی کوششوں میں وہ کردار ادا نہیں کر رہے جس کی دراصل ضرورت ہے۔
کون نہیں جانتا کہ بھارت نے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ جما رکھا ہے، اس تنازعے کی وجہ سے خطے میں عدم استحکام اور بے یقینی کی مستقل کیفیت موجود رہتی ہے، استعماری تسلط کو برقرار رکھنے کے لیے بھارت روز اول سے پاکستان کو پریشان کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ اسی مسئلے کے نتیجے میں دونوں ملک ایک سے زیادہ مرتبہ جنگ کے میدان میں آمنے سامنے آ چکے ہیں۔ خطے میں ہتھیاروں اور میزائل ٹیکنالوجی کے حصول کی دوڑ جاری ہے اور یہاں کے عوام کی بھاری اکثریت ہر گزرتے دن غریب سے غریب تر ہوتی جا رہی ہے۔
یہ حقیقت بھی کسی سے پوشیدہ نہیں رہی کہ پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے لیے بھارت نے کسی حربے سے کبھی گریز نہیں کیا، بلکہ پاکستان میں عدم برداشت، شدت پسندی کی سوچ کو پھیلانے میں کردار ادا کیا۔
افغانستان کی سرزمین کو استعمال کر کے بلوچستان، کراچی، قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کی وارداتوں کی منصوبہ بندی اور پشت پناہی میں ملوث رہا، جس کے دستاویزی ثبوت بھی اقوام متحدہ اور عالمی برادری کو فراہم کیے جا چکے ہیں۔ چارسدہ یونیورسٹی میں دہشت گردی کی گھناؤنی واردات میں بھی بھارت اور افغانستان کے ملوث ہونے کے شواہد سامنے آ رہے ہیں۔
سیکیورٹی ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس حملے میں ملوث بعض عناصر کو گرفتار بھی کیا ہے، ان سے کی جانے والی تفتیش سے بھی حقائق سامنے آ جائیں گے۔ اس لیے دہشت گردی کی وجہ سے ہونے والے نقصانات پر دکھ اور مذمت کا اظہار اپنی جگہ، تکلیف پہنچانے والے عناصر، ان کے پشت پناہوں، معاونین اور سہولت کاروں کو کیفر کردار تک پہنچانا بھی ناگزیر ہے۔ اس تناظر میں افواج پاکستان کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے اپنی پریس بریفنگ میں جو تفصیلات دی ہیں وہ صاحبان اقتدار و اختیار کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونی چاہئیں۔
ملک کی سیاسی و فوجی قیادت نے تاریخی ہم آہنگی کی بنیاد پر دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب کی شکل میں جو فیصلہ کن جنگ شروع کر رکھی ہے اس کے اگلے مرحلے میں امن دشمن عناصر کی صفائی کے ساتھ ان کے اندرونی اور بیرونی رابطوں کا قلع قمع کرنا بھی ضروری ہے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے سانحہ چارسدہ کے بعد افغان صدر اشرف غنی، چیف ایگزیکٹو عبداﷲ عبداﷲ اور افغانستان میں امریکی فوج کے سربراہ جنرل جان کیمبل سے رابطہ کر کے سانحہ چارسدہ میں ملوث عناصر کی نشاندہی میں مدد کا مطالبہ کیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا ہی رابطہ اور مطالبہ بھارت سے بھی کیا جانا چاہیے اور نا صرف چارسدہ یونیورسٹی بلکہ ماضی میں دہشت گردی کی ہر واردات میں ملوث شرپسندوں تک پہنچنے کے لیے تعاون طلب کیا جائے۔
اندرون ملک آپریشن کے ساتھ علاقائی اور عالمی سطح پر پاکستان دشمن عناصر اور قوت کی کمر توڑے بغیر دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑنا ممکن نہیں ہو گا اور اس سلسلے میں انتہائی اہم منصوبہ بندی کر کے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔ اس سلسلے میں عوام کو بھی اپنا مثبت اور فعال کردار ہر سطح پر ادا کرنا چاہیے۔ ہمیں سارے کام حکومت پر چھوڑ کر خود بری الذمہ نہیں ہو جانا چاہیے۔ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کی نشاندہی کرنا عوام کا بھی فرض ہے۔
پاکستان عالمی امن، علاقائی استحکام کے لیے عشروں سے قربانی دیتا آ رہا ہے۔ افغانستان پر سوویت یونین کا حملہ ہو یا پھر یہاں سے اتحادی افواج کا انخلا، پاکستان نے ہر موقع پر خطے کی سلامتی کے لیے وسیع تر مفاد میں کلیدی کردار ادا کیا۔ بھارت سے بہتر تعلقات کے لیے ہمیشہ پیش قدمی بھی پاکستان ہی نے کی اور خطے میں دیرپا امن کی خاطر اس دیرینہ دشمن کو کشمیر سمیت تمام تنازعات پر غیر مشروط جامع مذاکرات کی پیشکش کی جاتی رہی ہے۔
اسی طرح امریکا میں نائن الیون سانحہ کے بعد موقف کے ردعمل میں دہشت گرد عناصر نے پاکستان پر براہ راست حملے کیے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق گزشتہ 15 برس میں بم دھماکوں اور خودکش حملوں میں 70 ہزار بے گناہ پاکستانی شہری اور سیکیورٹی اہلکار جاں بحق ہوئے۔ دہشت گردی کی بدترین لہر نے ہمارے سیاحتی مقامات، کاروباری مراکز اور کھیل کے میدان ویران کر ڈالے۔ ملک کو معاشی میدان میں 100 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا اور پوری قوم ان دیکھے خوف کا شکار ہو کر رہ گئی ہے۔
امریکا و برطانیہ سمیت عالمی برادری اور مہذب دنیا اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی اور عدم برداشت کے سنگین خطرات سے کبھی سمجھوتا نہیں کیا، اپنی سلامتی تک کو داؤ پر لگا دیا لیکن امن دشمن قوتوں کے خلاف جرأت مندانہ سوچ سے دستبردار نہیں ہوا۔ دہشت گردی کے خلاف بہادرانہ جدوجہد کے معترف ہونے کے باوجود دنیا کے سرکردہ ممالک پاکستان سے دہشت گردی کے خاتمے کی کوششوں میں وہ کردار ادا نہیں کر رہے جس کی دراصل ضرورت ہے۔
کون نہیں جانتا کہ بھارت نے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ جما رکھا ہے، اس تنازعے کی وجہ سے خطے میں عدم استحکام اور بے یقینی کی مستقل کیفیت موجود رہتی ہے، استعماری تسلط کو برقرار رکھنے کے لیے بھارت روز اول سے پاکستان کو پریشان کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ اسی مسئلے کے نتیجے میں دونوں ملک ایک سے زیادہ مرتبہ جنگ کے میدان میں آمنے سامنے آ چکے ہیں۔ خطے میں ہتھیاروں اور میزائل ٹیکنالوجی کے حصول کی دوڑ جاری ہے اور یہاں کے عوام کی بھاری اکثریت ہر گزرتے دن غریب سے غریب تر ہوتی جا رہی ہے۔
یہ حقیقت بھی کسی سے پوشیدہ نہیں رہی کہ پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے لیے بھارت نے کسی حربے سے کبھی گریز نہیں کیا، بلکہ پاکستان میں عدم برداشت، شدت پسندی کی سوچ کو پھیلانے میں کردار ادا کیا۔
افغانستان کی سرزمین کو استعمال کر کے بلوچستان، کراچی، قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کی وارداتوں کی منصوبہ بندی اور پشت پناہی میں ملوث رہا، جس کے دستاویزی ثبوت بھی اقوام متحدہ اور عالمی برادری کو فراہم کیے جا چکے ہیں۔ چارسدہ یونیورسٹی میں دہشت گردی کی گھناؤنی واردات میں بھی بھارت اور افغانستان کے ملوث ہونے کے شواہد سامنے آ رہے ہیں۔
سیکیورٹی ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس حملے میں ملوث بعض عناصر کو گرفتار بھی کیا ہے، ان سے کی جانے والی تفتیش سے بھی حقائق سامنے آ جائیں گے۔ اس لیے دہشت گردی کی وجہ سے ہونے والے نقصانات پر دکھ اور مذمت کا اظہار اپنی جگہ، تکلیف پہنچانے والے عناصر، ان کے پشت پناہوں، معاونین اور سہولت کاروں کو کیفر کردار تک پہنچانا بھی ناگزیر ہے۔ اس تناظر میں افواج پاکستان کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے اپنی پریس بریفنگ میں جو تفصیلات دی ہیں وہ صاحبان اقتدار و اختیار کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونی چاہئیں۔
ملک کی سیاسی و فوجی قیادت نے تاریخی ہم آہنگی کی بنیاد پر دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب کی شکل میں جو فیصلہ کن جنگ شروع کر رکھی ہے اس کے اگلے مرحلے میں امن دشمن عناصر کی صفائی کے ساتھ ان کے اندرونی اور بیرونی رابطوں کا قلع قمع کرنا بھی ضروری ہے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے سانحہ چارسدہ کے بعد افغان صدر اشرف غنی، چیف ایگزیکٹو عبداﷲ عبداﷲ اور افغانستان میں امریکی فوج کے سربراہ جنرل جان کیمبل سے رابطہ کر کے سانحہ چارسدہ میں ملوث عناصر کی نشاندہی میں مدد کا مطالبہ کیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا ہی رابطہ اور مطالبہ بھارت سے بھی کیا جانا چاہیے اور نا صرف چارسدہ یونیورسٹی بلکہ ماضی میں دہشت گردی کی ہر واردات میں ملوث شرپسندوں تک پہنچنے کے لیے تعاون طلب کیا جائے۔
اندرون ملک آپریشن کے ساتھ علاقائی اور عالمی سطح پر پاکستان دشمن عناصر اور قوت کی کمر توڑے بغیر دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑنا ممکن نہیں ہو گا اور اس سلسلے میں انتہائی اہم منصوبہ بندی کر کے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔ اس سلسلے میں عوام کو بھی اپنا مثبت اور فعال کردار ہر سطح پر ادا کرنا چاہیے۔ ہمیں سارے کام حکومت پر چھوڑ کر خود بری الذمہ نہیں ہو جانا چاہیے۔ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کی نشاندہی کرنا عوام کا بھی فرض ہے۔