مصنوعی ثقلی میدان تخلیق ہو پائے گا
کام یابی ٹیلی کمیونیکیشن اور دیگر شعبوں کے لیے انقلابی ثابت ہوگی
کشش ثقل وہ قوت ہے جس سے زمین کسی شے کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ مصنوعی ثقلی میدان تخلیق کرنا جن کی قوت میں انسان اپنی مرضی سے تبدیلی لاسکے، سائنس فکشن فلموں اور کہانیوں کا خیال معلوم ہوتا ہے، تاہم ایک محقق نے اس تصور کو پردۂ سیمیں سے باہر نکال کر حقیقت بنا دینے کا دعویٰ کیا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ مصنوعی ثقلی میدان کی تخلیق کے لیے نئی ٹیکنالوجی درکار نہیں ہوگی بلکہ یہ کام دست یاب ٹیکنالوجیز سے ممکن ہوسکے گا۔
بیلجیئم کی نام ور یونیورسٹی سے وابستہ معروف سائنس داں آندرے فزفا نے ایک طریقۂ کار تجویز کیا ہے جس کے ذریعے دست یاب ٹیکنالوجیز سے کام لیتے ہوئے ثقلی میدان تخلیق کیے جاسکیں گے۔ بہ الفاظ دیگر انسان کشش ثقل کو کنٹرول کرسکے گا۔
سائنس داں اب تک ارضی کشش ثقل کو مدنظر رکھتے ہوئے ایجادات و اختراعات کرتے چلے آرہے ہیں۔ زمین کی اس قوت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنا ان کا دیرینہ خواب ہے جس کی تکمیل کے لیے آندرے فزفا نے علم ریاضی سے مدد لیتے ہوئے ایک نمونہ پیش کیا ہے۔ فزفا کا کہنا ہے کہ ثقلی میدان تخلیق کرنے کے لیے ہمیں ایک ڈیوائس سے کام لینا ہوگا جس میں انتہائی موصل برقی مقناطیس (سپرکنڈکٹنگ الیکٹرو میگنیٹس) استعمال کیے گئے ہوں۔ CERN اور ITER ری ایکٹر میں ان ٹیکنالوجیز کا استعمال کیا جارہا ہے۔
فزفا مصنوعی ثقلی میدان کی تخلیق کا عمل دو تجربات یا دو مراحل پر مشتمل ہوگا۔ پہلے مرحلے میں جسیم سپرکنڈکٹنگ کوائلز کی مدد سے ثقلی میدان تخلیق کیا جائے گا۔ دوسرے مرحلے میں حساس ترین انٹرفیرومیٹرز کے ذریعے ثقلی میدان کو 'محسوس' کیا جائے گا۔
فزفا کا کہنا ہے کہ ان تجربات کے لیے بڑے پیمانے پر وسائل درکار ہوں گے۔ تاہم اس کی کام یابی انسان کو چار بنیادی قوتوں میں سے آخری قوت پر بھی ' فتح' نصیب کردے گی۔ فزفا کے مطابق کشش ثقل پر اب تک ہونے والی تمام تحقیق کی بنیاد اس کے مشاہدے اور اسے سمجھنے پر رہی ہے۔ اس قوت پر قابو پانے کے لیے اب تک کوئی کوشش نہیں کی گئی۔
اس بارے میں سائنس داں نے اپنے تحقیقی مقالے میں لکھا ہے،'' کشش ثقل کا مطالعہ اب تک یک طرفہ سرگرمی رہی ہے، جس میں انسان اس قوت کو مدنظر رکھا ہے۔ بہ الفاظ دیگر وہ سائنسی تجربات اور ایجادات کے معاملے میں اس قوت کی ' ہدایات' کے مطابق عمل کرتا رہا ہے، مگر اسے کبھی اس قوت کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کا خیال نہیں آیا تھا۔ وہ اس خیال کو محض سائنس فکشن فلموں اور ناولوں میں پیش کرکے دل بہلاتا رہا ہے۔''
اگر فزفا کے پیش کردہ ماڈل کے مطابق تجربات کام یاب ہوجاتے ہیں تو پھر آئن اسٹائن کے نظریہ عمومی اضافیت کو ایک بڑے چیلنج کا سامنا ہوگا۔ تاہم مصنوعی ثقلی میدان کی تخلیق پر دسترس حاصل کرلینے کے ٹیلی کمیونیکیشن اور دوسرے میدانوں پر انقلابی اثرات مرتب ہوں گے اور ان گنت ایجادات کی جاسکیں گی۔
بیلجیئم کی نام ور یونیورسٹی سے وابستہ معروف سائنس داں آندرے فزفا نے ایک طریقۂ کار تجویز کیا ہے جس کے ذریعے دست یاب ٹیکنالوجیز سے کام لیتے ہوئے ثقلی میدان تخلیق کیے جاسکیں گے۔ بہ الفاظ دیگر انسان کشش ثقل کو کنٹرول کرسکے گا۔
سائنس داں اب تک ارضی کشش ثقل کو مدنظر رکھتے ہوئے ایجادات و اختراعات کرتے چلے آرہے ہیں۔ زمین کی اس قوت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنا ان کا دیرینہ خواب ہے جس کی تکمیل کے لیے آندرے فزفا نے علم ریاضی سے مدد لیتے ہوئے ایک نمونہ پیش کیا ہے۔ فزفا کا کہنا ہے کہ ثقلی میدان تخلیق کرنے کے لیے ہمیں ایک ڈیوائس سے کام لینا ہوگا جس میں انتہائی موصل برقی مقناطیس (سپرکنڈکٹنگ الیکٹرو میگنیٹس) استعمال کیے گئے ہوں۔ CERN اور ITER ری ایکٹر میں ان ٹیکنالوجیز کا استعمال کیا جارہا ہے۔
فزفا مصنوعی ثقلی میدان کی تخلیق کا عمل دو تجربات یا دو مراحل پر مشتمل ہوگا۔ پہلے مرحلے میں جسیم سپرکنڈکٹنگ کوائلز کی مدد سے ثقلی میدان تخلیق کیا جائے گا۔ دوسرے مرحلے میں حساس ترین انٹرفیرومیٹرز کے ذریعے ثقلی میدان کو 'محسوس' کیا جائے گا۔
فزفا کا کہنا ہے کہ ان تجربات کے لیے بڑے پیمانے پر وسائل درکار ہوں گے۔ تاہم اس کی کام یابی انسان کو چار بنیادی قوتوں میں سے آخری قوت پر بھی ' فتح' نصیب کردے گی۔ فزفا کے مطابق کشش ثقل پر اب تک ہونے والی تمام تحقیق کی بنیاد اس کے مشاہدے اور اسے سمجھنے پر رہی ہے۔ اس قوت پر قابو پانے کے لیے اب تک کوئی کوشش نہیں کی گئی۔
اس بارے میں سائنس داں نے اپنے تحقیقی مقالے میں لکھا ہے،'' کشش ثقل کا مطالعہ اب تک یک طرفہ سرگرمی رہی ہے، جس میں انسان اس قوت کو مدنظر رکھا ہے۔ بہ الفاظ دیگر وہ سائنسی تجربات اور ایجادات کے معاملے میں اس قوت کی ' ہدایات' کے مطابق عمل کرتا رہا ہے، مگر اسے کبھی اس قوت کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کا خیال نہیں آیا تھا۔ وہ اس خیال کو محض سائنس فکشن فلموں اور ناولوں میں پیش کرکے دل بہلاتا رہا ہے۔''
اگر فزفا کے پیش کردہ ماڈل کے مطابق تجربات کام یاب ہوجاتے ہیں تو پھر آئن اسٹائن کے نظریہ عمومی اضافیت کو ایک بڑے چیلنج کا سامنا ہوگا۔ تاہم مصنوعی ثقلی میدان کی تخلیق پر دسترس حاصل کرلینے کے ٹیلی کمیونیکیشن اور دوسرے میدانوں پر انقلابی اثرات مرتب ہوں گے اور ان گنت ایجادات کی جاسکیں گی۔