جینا اسی کا نام ہے کا دوسرا حصہ
’’ایک گیانی کا قول ہے، ”اگر سفر سے لطف اندوز ہونے کا ہنر نہیں، تو منزل پر بھی خود کو بے چین ہی پاﺅ گے۔“
ISLAMABAD:
ایک گیانی کا قول ہے، "اگر سفر سے لطف اندوز ہونے کا ہنر نہیں، تو منزل پر بھی خود کو بے چین ہی پاﺅ گے۔" عام مشاہدہ ہے زندگی کے آخری برسوں میں انسان کو احساس رائیگانی گھیر لیتا ہے۔ وہ پچھتاوے کا شکار نظر آتا ہے۔ اس کا تعلق غربت یا بیماری سے نہیں، اس صورت حال کا سامنا ان افراد کو بھی کرنا پڑتا ہے، جنہیں مالی آسودگی میسر تھی، سماج میں رتبہ حاصل تھا۔
دولت، شہرت اور طاقت کے باوجود ان افراد کا احساس رائیگانی حیران کن نہیں۔ سبب یہ ہے، وہ دورانِ سفر بہت الجھے رہے۔ کاندھوں پر مصروفیات کا بوجھ تھا، ہمہ وقت ان کے ذہن میں آوازیں گونجتی رہتی تھیں۔ اس شور کی وجہ سے وہ سفر سے محظوظ نہیں ہوسکے۔ زندگی کے پُل سے گزرتے ہوئے نہ تو نیلگوں آسمان دکھائی دیا، نہ ہی ندی پر تیرتی کشتیوں پر نظر پڑی۔ سرسبز درختوں اور چہچہاتے پرندوں کی بھی خبر نہیں ہوئی۔ ذہن میں اتنا شور تھا کہ وہ فطرت کے گیتوں سے محروم رہے۔
جینا اِسی کا نام ہے کہ پہلے باب "خود کلامی کا اسرار" میں، ایک دن میں ذہن میں جنم لینے والے 70 ہزار خیالات اور ان کے ہولناک اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے ہم تین نکات پر پہنچے تھے۔
ہمارے ذہن پر منفی جذبات جیسے حسد، کینہ، غصہ، خود ترسی، نفرت، خوف اور خدشات کا ریلہ بہتا رہتا ہے۔ یہ اتنا پر قوت ہوتا ہے کہ مثبت سوچ کے بند ڈھے جاتے ہیں۔ منفی خود کلامی میں مبتلا ہوکر انسان ڈپریشن کا شکار ہوجاتا ہے۔ نہ صرف ذہنی اور جسمانی عوارض کا جنم ہوتا ہے، بلکہ وہ منتشر الخیال ہونے کے باعث سماجی حیثیت بھی کھونے لگتا ہے۔
اِسے سادہ ترین الفاظ میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے، آپ کے ذہن میں موجود باتونی شخص مناسب تربیت نہ ہونے کے باعث منفی خیالات کو جنم دینے والا آلہ بن جاتا ہے۔ یہ شخص آپ کا دشمن ہے۔ آپ کی تباہی کا خواہش مند۔ یہ امر خطرناک ہے۔ آپ کے خاندانی اور کاروباری دشمنوں کے برعکس یہ دشمن ہمیشہ آپ کے ساتھ رہتا ہے۔ صبح آنکھ کھلتے ہی روبرو ہوتا ہے، ساتھ سفر کرتا ہے، ڈنر کے وقت موجود ہوتا ہے، بستر میں بھی پیچھا نہیں چھوڑتا۔ یہ باتونی شخص آپ کی سوچ پر غالب ہے۔ کبھی غم کا وار کرتا ہے تو کبھی خوف کا، کبھی دل میں حسد کی آگ جلاتا ہے، تو کبھی غصے کی۔ یہ آپ پر کس حد تک قابو پاچکا ہے؟ جاننے کے لیے ایک مشق کیجئیے، جس کا نام ہے،
آرام دہ نشست کا انتخاب کریں۔ ہونٹوں پر ہلکی سے مسکراہٹ سجائیں۔ آنکھیں بند کرنے کے بعد 3 گہرے سانس لیجیئے۔ اب توجہ خیالات پر مرکوز کریں۔ آپ کا کام ان خیالات کو گِننا ہے جو خودکار طریقے سے ذہن میں جنم لے رہے ہیں۔ جو خیال آئے، اسے گنیں اور جانے دیں۔ احتیاط یہ کیجیئے کہ آپ ان میں شامل نہ ہوں۔ ان سے لا تعلق رہیں۔ ممکن ہے، ذہن میں کسی ناپسندیدہ شخص کی تصویر آئے، یک دم غصے کا احساس پیدا ہو۔ آپ کو چوکنا رہنا ہے، احساس پیدا ہوتے ہی آپ اس میں شامل ہوجائیں گے اور بہتے چلے جائیں گے۔ توجہ بھٹک جائے گی۔ بس، معمول کی رفتار سے سانس لیتے رہیں اور مسکراہٹ قائم رکھیں۔ ممکن ہے آپ کا ذہن کہے،
ذرا پریشان مت ہوں، بس اس خیال کو گن لیں۔ یہ مشق بہت پرقوت ہے کیوںکہ یہ آپ کو بے چین کردے گی۔ ممکن ہے، بے نام اذیت جسم کو جکڑ لے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ آپ کے اندر موجود باتونی شخص شدید پریشان ہے۔ وہ ایک اجنبی صورت حال کے روبرو ہے۔ وہ تو خیالات کی دنیا میں جینے کا عادی ہے۔ جب آپ کی دنیا خیالات سے عاری ہوگی تو وہ کرب میں مبتلا ہوجائے گا اور اس کا نتیجہ آپ پر پڑے گا۔ سانسوں کی ترتیب ٹوٹ جائے گی، دھڑکن بڑھ جائے گی۔ اگر یہ مشق آپ کو اذیت دے تو پریشان مت ہوں، اس میں مہارت بڑی ریاضت کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ پتا مارنا پڑتا ہے۔ سنیاسی اپنے ذہن کو خیالات سے پاک کرنے کے لیے ہی تو ہمالیہ کا رخ کرتے ہیں۔
اس اجنبی تجربے کے بعد "پانچ منٹ کی حقیقت" میں تھوڑی ترمیم کیجیے۔ ابتدائی تمام شرائط وہی ہیں۔ آرام دہ نشست، چہرے پر مسکراہٹ، آنکھیں بند، گہرے سانس۔ کرنا بس یہ ہے کہ اس بار توجہ سانس پر مرکوز رکھیں۔ سانس لینے اور چھوڑنے کی کوشش نہ کریں، فطرت کو اپنا کام کرنے دیں، آپ بس خوشی کے ساتھ اس عمل کا مشاہدہ کریں۔ اس دوران ممکن ہے توجہ بھٹکے، پریشان مت ہوں، پھر سانس کی طرف متوجہ ہوجائیں۔ اسے آتے ہوئے، جاتے ہوئے دیکھیں۔
اس میں ایک ترمیم اور کی جاسکتی ہے۔ صوفیوں کے ہاں مراقبے کی اقسام میں "مراقبہِ نور" بھی شامل ہے۔ آپ اس کا تجربہ کرسکتے ہیں۔ آنکھیں بند کرنے کے بعد تصور کیجیے کہ آسمان سے نور برس رہا ہے۔ توجہ ضرور بھٹکے گی، مگر پھر اس خیال پر لوٹ آئیں۔ ابتدائی مشق کے برعکس بعد میں کی جانے والی معمولی تبدیلیاں حیرت انگیز ثابت ہوگی۔ خیالات گننے کا عمل ترک کرکے سانس کی آمدورفت پر توجہ مرکوز کرنا یا نور کو برستے ہوئے دیکھنا زیادہ سہل اور خوش گوار ہے۔ پہلی مشق کے برعکس آپ خیالات سے مکمل طور پر کنارہ کش نہیں ہوتے، بلکہ مخصوص خیال کا خود انتخاب کر رہے ہیں۔ سانس کو دیکھنا یا نور کا مشاہدہ کرنا باتونی ذہن کے لیے نسبتاً قابل قبول ہے۔
یہ مشق کیجیے۔ یہ آپ کو ایسی خاموشی سے متعارف کرائے گی، جس کا آپ نے پہلے کبھی تجربہ نہیں کیا۔ روح ٹھہراﺅ سے بھر جائے گی۔ آپ اِن پانچ منٹ میں خوشی کی ایسی کیفیت سے گزریں گے جو صوفیوں کی مسکراہٹ میں دمکتی ہے، جس کی گونج بچوں کی قلقاری میں سنائی دیتی ہے۔
افراتفری کی اس زندگی میں شور شرابے میں مکمل چپ اور کامل خاموشی کا حصول دشوار ہے، البتہ یہ مشق آپ کو لمحہِ موجود کے جادو سے متعارف کروائے گی، جس سے ہم آہنگ ہونا زندگی کی معراج ہے۔
5 منٹ کی حقیقت نامی مشق دن میں 3 بار کیجیئے۔ اس کا روحانی اثر اپنی جگہ، یہ آپ کو ذہنی اور جسمانی سکون بھی عطا کرے گی۔ بہتر انسان بنائے گی۔ دل سادگی کی سمت بڑھے گا۔ آپ اب لوگوں کی باتیں زیادہ توجہ سے سننے لگیں گے۔ اِس مشق کے بعد عیاں ہوجائے گا کہ آپ کے ذہن میں موجود شخص ایک اجنبی ہے، ایک درانداز، ایک Infiltrator، مگر عشروں کی تربیت سے وہ آپ کے جسم کا حصہ بن گیا۔ اب اس سے نجات مشکل ہے، البتہ دوستی کی جاسکتی ہے، اُسے سدھارا جاسکتا ہے۔
کچھ روحانی گروہ تجویز دیتے ہیں، آپ کو ذہن پر مکمل قابو پانا ہوگا، ذہنی شاہ راہ کی کڑی نگرانی کرنی ہوگی، منفی خودکلامی سے جان چھڑانی ہوگی۔ مشورے سود مند معلوم ہوتے ہیں، مگر کیا عملی بھی ہیں؟ ہزاروں برس کے ارتقا کے بعد ذہن اس سطح پر پہنچا ہے جہاں وہ خود کار طریقے سے، مسلسل سوچ سکتا ہے۔ ہمارا جسم اہم ترین افعال خودکار طریقے سے انجام دیتا ہے، آپ دھڑکن کی گنتی نہیں رکھتے، سیڑھیاں چڑھتے ہوئے پٹھوں کو کنٹرول نہیں کرتے، سانس لیتے سمے پھیپھڑوں کو نہیں پھیلاتے، غذا ہضم کرنے کا اختیار آپ کے پاس نہیں اور یہ اچھا ہے۔ یہ انتہائی پیچیدہ افعال ہیں، جنہیں قدرت خود انجام دیتی ہے۔
یعنی "پانچ منٹ کی حقیقت" نامی مشق آپ میں جو روحانی احساس اجاگر کرتی ہے، اسے ہمہ وقت، روزمرہ کے معمولات انجام دیتے ہوئے قائم رکھنا سہل نہیں، اگر آپ ایسا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو شاید زندگی سے کٹ جائیں۔ مگر دنیا ترک کرنے کا نام زندگی نہیں۔ زندگی تو ہر لمحے کو جینے میں پنہاں ہے۔ خواہشات ترک مت کیجیے۔ یہ قدرت کا تحفہ ہے۔ اگر موسیقار بننا چاہتے ہیں، تو اس کا حق رکھتے ہیں، بزنس مین بننے کی خواہش میں کوئی قباحت نہیں، مصنف بننے کی آرزو قیمتی ہے۔ کامیابی کی تمنا بیش قیمت ہے۔ اسی کا نام جینا ہے۔ البتہ اس کے لیے خود کلامی پر مائل ذہن کو لمحہِ موجود کے جادو سے آشنا کرنا ہوگا، کیوںکہ یہی وہ زمین ہے، جس میں آپ اچھے مستقبل کا، ایک خوب صورت زندگی کا بیج بو سکتے ہیں۔ جو وقت میسر ہے، اسے بہتر انداز میں استعمال کرنا وہ اختیار ہے جو دنیا کا کوئی شخص آپ سے نہیں چھین سکتا، اس وقت کو اپنی ترقی کے لئے استعمال کرنا آپ کا بنیادی حق ہے۔ اس حق کا دشمن وہ شخص ہے جو آپ کے ذہن میں بیٹھا ہے، جو مسلسل بولتا رہتا ہے، توجہ منتشر کرتا ہے۔ آپ ڈنر کرتے ہوئے خوراک پر دھیان نہیں دیتے، کسی کی بات سنتے ہوئے اپنے اندیشوں میں گم ہوتے ہیں، ڈرائیو کرتے ہوئے بجلی کے بل کے بارے میں سوچ رہے ہوتے ہیں۔ الغرض آپ کبھی وہاں نہیں ہوتے، جہاں آپ کو ہونا چاہیئے اور اس وجہ سے اپنی بہترین صلاحیتوں کے اظہار میں ناکام رہتے ہیں۔ کیوںکہ بہترین کارکردگی کا اظہار توجہ اور یکسوئی مانگتا ہے اور قدرت کے یہ تحفے باتونی شخص کی نذر ہوجاتے ہیں۔ لمحہِ موجود ضائع ہوجاتا ہے۔
ممکن ہے، آپ کے ذہن میں سوال پیدا ہو کہ لمحہِ موجود کیوں کر ہماری خواہشات کی تکمیل میں معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ بھاگ دوڑ کی زندگی میں یہ کیسے ہمارے ہاتھ آئے گا؟
آپ کا سوال درست ہے، اور اس کا جواب ممتاز فرانسیسی فلسفے رینے دیکارت کے اس مقولے میں پیوست ہے،
ایک گیانی کا قول ہے، "اگر سفر سے لطف اندوز ہونے کا ہنر نہیں، تو منزل پر بھی خود کو بے چین ہی پاﺅ گے۔" عام مشاہدہ ہے زندگی کے آخری برسوں میں انسان کو احساس رائیگانی گھیر لیتا ہے۔ وہ پچھتاوے کا شکار نظر آتا ہے۔ اس کا تعلق غربت یا بیماری سے نہیں، اس صورت حال کا سامنا ان افراد کو بھی کرنا پڑتا ہے، جنہیں مالی آسودگی میسر تھی، سماج میں رتبہ حاصل تھا۔
دولت، شہرت اور طاقت کے باوجود ان افراد کا احساس رائیگانی حیران کن نہیں۔ سبب یہ ہے، وہ دورانِ سفر بہت الجھے رہے۔ کاندھوں پر مصروفیات کا بوجھ تھا، ہمہ وقت ان کے ذہن میں آوازیں گونجتی رہتی تھیں۔ اس شور کی وجہ سے وہ سفر سے محظوظ نہیں ہوسکے۔ زندگی کے پُل سے گزرتے ہوئے نہ تو نیلگوں آسمان دکھائی دیا، نہ ہی ندی پر تیرتی کشتیوں پر نظر پڑی۔ سرسبز درختوں اور چہچہاتے پرندوں کی بھی خبر نہیں ہوئی۔ ذہن میں اتنا شور تھا کہ وہ فطرت کے گیتوں سے محروم رہے۔
جینا اِسی کا نام ہے کہ پہلے باب "خود کلامی کا اسرار" میں، ایک دن میں ذہن میں جنم لینے والے 70 ہزار خیالات اور ان کے ہولناک اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے ہم تین نکات پر پہنچے تھے۔
- انسان ہمہ وقت خیالات میں گِھرا رہتا ہے۔ یہ خیالات شعوری انتخاب نہیں ہوتے۔ خود کار طریقے سے جنم لیتے رہتے ہیں، اور خود کلامی کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔
- جن خیالات سے احساسات جڑجائیں، وہ کبھی آوازوں تو کبھی تصاویر کی صورت بار بار ذہن کی سڑک سے گزرتے رہتے ہیں۔
- معاشرتی تربیت ذہن کو قنوطی بنا دیتی ہے، جس کی وجہ سے ہم خوشی کو جلد بھلا دیتے ہیں، مگر یاس کو ذہن میں بٹھا لیتے ہیں۔ پھر یاسیت ایک زنجیری عمل کے ذریعے کرب کے مزید خیالات جنم دیتی ہے۔
نتیجہ
ہمارے ذہن پر منفی جذبات جیسے حسد، کینہ، غصہ، خود ترسی، نفرت، خوف اور خدشات کا ریلہ بہتا رہتا ہے۔ یہ اتنا پر قوت ہوتا ہے کہ مثبت سوچ کے بند ڈھے جاتے ہیں۔ منفی خود کلامی میں مبتلا ہوکر انسان ڈپریشن کا شکار ہوجاتا ہے۔ نہ صرف ذہنی اور جسمانی عوارض کا جنم ہوتا ہے، بلکہ وہ منتشر الخیال ہونے کے باعث سماجی حیثیت بھی کھونے لگتا ہے۔
اِسے سادہ ترین الفاظ میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے، آپ کے ذہن میں موجود باتونی شخص مناسب تربیت نہ ہونے کے باعث منفی خیالات کو جنم دینے والا آلہ بن جاتا ہے۔ یہ شخص آپ کا دشمن ہے۔ آپ کی تباہی کا خواہش مند۔ یہ امر خطرناک ہے۔ آپ کے خاندانی اور کاروباری دشمنوں کے برعکس یہ دشمن ہمیشہ آپ کے ساتھ رہتا ہے۔ صبح آنکھ کھلتے ہی روبرو ہوتا ہے، ساتھ سفر کرتا ہے، ڈنر کے وقت موجود ہوتا ہے، بستر میں بھی پیچھا نہیں چھوڑتا۔ یہ باتونی شخص آپ کی سوچ پر غالب ہے۔ کبھی غم کا وار کرتا ہے تو کبھی خوف کا، کبھی دل میں حسد کی آگ جلاتا ہے، تو کبھی غصے کی۔ یہ آپ پر کس حد تک قابو پاچکا ہے؟ جاننے کے لیے ایک مشق کیجئیے، جس کا نام ہے،
''5 منٹ کی حقیقت''
آرام دہ نشست کا انتخاب کریں۔ ہونٹوں پر ہلکی سے مسکراہٹ سجائیں۔ آنکھیں بند کرنے کے بعد 3 گہرے سانس لیجیئے۔ اب توجہ خیالات پر مرکوز کریں۔ آپ کا کام ان خیالات کو گِننا ہے جو خودکار طریقے سے ذہن میں جنم لے رہے ہیں۔ جو خیال آئے، اسے گنیں اور جانے دیں۔ احتیاط یہ کیجیئے کہ آپ ان میں شامل نہ ہوں۔ ان سے لا تعلق رہیں۔ ممکن ہے، ذہن میں کسی ناپسندیدہ شخص کی تصویر آئے، یک دم غصے کا احساس پیدا ہو۔ آپ کو چوکنا رہنا ہے، احساس پیدا ہوتے ہی آپ اس میں شامل ہوجائیں گے اور بہتے چلے جائیں گے۔ توجہ بھٹک جائے گی۔ بس، معمول کی رفتار سے سانس لیتے رہیں اور مسکراہٹ قائم رکھیں۔ ممکن ہے آپ کا ذہن کہے،
"کیوں وقت ضائع کرتے ہو۔"
ذرا پریشان مت ہوں، بس اس خیال کو گن لیں۔ یہ مشق بہت پرقوت ہے کیوںکہ یہ آپ کو بے چین کردے گی۔ ممکن ہے، بے نام اذیت جسم کو جکڑ لے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ آپ کے اندر موجود باتونی شخص شدید پریشان ہے۔ وہ ایک اجنبی صورت حال کے روبرو ہے۔ وہ تو خیالات کی دنیا میں جینے کا عادی ہے۔ جب آپ کی دنیا خیالات سے عاری ہوگی تو وہ کرب میں مبتلا ہوجائے گا اور اس کا نتیجہ آپ پر پڑے گا۔ سانسوں کی ترتیب ٹوٹ جائے گی، دھڑکن بڑھ جائے گی۔ اگر یہ مشق آپ کو اذیت دے تو پریشان مت ہوں، اس میں مہارت بڑی ریاضت کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ پتا مارنا پڑتا ہے۔ سنیاسی اپنے ذہن کو خیالات سے پاک کرنے کے لیے ہی تو ہمالیہ کا رخ کرتے ہیں۔
اس اجنبی تجربے کے بعد "پانچ منٹ کی حقیقت" میں تھوڑی ترمیم کیجیے۔ ابتدائی تمام شرائط وہی ہیں۔ آرام دہ نشست، چہرے پر مسکراہٹ، آنکھیں بند، گہرے سانس۔ کرنا بس یہ ہے کہ اس بار توجہ سانس پر مرکوز رکھیں۔ سانس لینے اور چھوڑنے کی کوشش نہ کریں، فطرت کو اپنا کام کرنے دیں، آپ بس خوشی کے ساتھ اس عمل کا مشاہدہ کریں۔ اس دوران ممکن ہے توجہ بھٹکے، پریشان مت ہوں، پھر سانس کی طرف متوجہ ہوجائیں۔ اسے آتے ہوئے، جاتے ہوئے دیکھیں۔
اس میں ایک ترمیم اور کی جاسکتی ہے۔ صوفیوں کے ہاں مراقبے کی اقسام میں "مراقبہِ نور" بھی شامل ہے۔ آپ اس کا تجربہ کرسکتے ہیں۔ آنکھیں بند کرنے کے بعد تصور کیجیے کہ آسمان سے نور برس رہا ہے۔ توجہ ضرور بھٹکے گی، مگر پھر اس خیال پر لوٹ آئیں۔ ابتدائی مشق کے برعکس بعد میں کی جانے والی معمولی تبدیلیاں حیرت انگیز ثابت ہوگی۔ خیالات گننے کا عمل ترک کرکے سانس کی آمدورفت پر توجہ مرکوز کرنا یا نور کو برستے ہوئے دیکھنا زیادہ سہل اور خوش گوار ہے۔ پہلی مشق کے برعکس آپ خیالات سے مکمل طور پر کنارہ کش نہیں ہوتے، بلکہ مخصوص خیال کا خود انتخاب کر رہے ہیں۔ سانس کو دیکھنا یا نور کا مشاہدہ کرنا باتونی ذہن کے لیے نسبتاً قابل قبول ہے۔
یہ مشق کیجیے۔ یہ آپ کو ایسی خاموشی سے متعارف کرائے گی، جس کا آپ نے پہلے کبھی تجربہ نہیں کیا۔ روح ٹھہراﺅ سے بھر جائے گی۔ آپ اِن پانچ منٹ میں خوشی کی ایسی کیفیت سے گزریں گے جو صوفیوں کی مسکراہٹ میں دمکتی ہے، جس کی گونج بچوں کی قلقاری میں سنائی دیتی ہے۔
افراتفری کی اس زندگی میں شور شرابے میں مکمل چپ اور کامل خاموشی کا حصول دشوار ہے، البتہ یہ مشق آپ کو لمحہِ موجود کے جادو سے متعارف کروائے گی، جس سے ہم آہنگ ہونا زندگی کی معراج ہے۔
5 منٹ کی حقیقت نامی مشق دن میں 3 بار کیجیئے۔ اس کا روحانی اثر اپنی جگہ، یہ آپ کو ذہنی اور جسمانی سکون بھی عطا کرے گی۔ بہتر انسان بنائے گی۔ دل سادگی کی سمت بڑھے گا۔ آپ اب لوگوں کی باتیں زیادہ توجہ سے سننے لگیں گے۔ اِس مشق کے بعد عیاں ہوجائے گا کہ آپ کے ذہن میں موجود شخص ایک اجنبی ہے، ایک درانداز، ایک Infiltrator، مگر عشروں کی تربیت سے وہ آپ کے جسم کا حصہ بن گیا۔ اب اس سے نجات مشکل ہے، البتہ دوستی کی جاسکتی ہے، اُسے سدھارا جاسکتا ہے۔
کچھ روحانی گروہ تجویز دیتے ہیں، آپ کو ذہن پر مکمل قابو پانا ہوگا، ذہنی شاہ راہ کی کڑی نگرانی کرنی ہوگی، منفی خودکلامی سے جان چھڑانی ہوگی۔ مشورے سود مند معلوم ہوتے ہیں، مگر کیا عملی بھی ہیں؟ ہزاروں برس کے ارتقا کے بعد ذہن اس سطح پر پہنچا ہے جہاں وہ خود کار طریقے سے، مسلسل سوچ سکتا ہے۔ ہمارا جسم اہم ترین افعال خودکار طریقے سے انجام دیتا ہے، آپ دھڑکن کی گنتی نہیں رکھتے، سیڑھیاں چڑھتے ہوئے پٹھوں کو کنٹرول نہیں کرتے، سانس لیتے سمے پھیپھڑوں کو نہیں پھیلاتے، غذا ہضم کرنے کا اختیار آپ کے پاس نہیں اور یہ اچھا ہے۔ یہ انتہائی پیچیدہ افعال ہیں، جنہیں قدرت خود انجام دیتی ہے۔
یعنی "پانچ منٹ کی حقیقت" نامی مشق آپ میں جو روحانی احساس اجاگر کرتی ہے، اسے ہمہ وقت، روزمرہ کے معمولات انجام دیتے ہوئے قائم رکھنا سہل نہیں، اگر آپ ایسا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو شاید زندگی سے کٹ جائیں۔ مگر دنیا ترک کرنے کا نام زندگی نہیں۔ زندگی تو ہر لمحے کو جینے میں پنہاں ہے۔ خواہشات ترک مت کیجیے۔ یہ قدرت کا تحفہ ہے۔ اگر موسیقار بننا چاہتے ہیں، تو اس کا حق رکھتے ہیں، بزنس مین بننے کی خواہش میں کوئی قباحت نہیں، مصنف بننے کی آرزو قیمتی ہے۔ کامیابی کی تمنا بیش قیمت ہے۔ اسی کا نام جینا ہے۔ البتہ اس کے لیے خود کلامی پر مائل ذہن کو لمحہِ موجود کے جادو سے آشنا کرنا ہوگا، کیوںکہ یہی وہ زمین ہے، جس میں آپ اچھے مستقبل کا، ایک خوب صورت زندگی کا بیج بو سکتے ہیں۔ جو وقت میسر ہے، اسے بہتر انداز میں استعمال کرنا وہ اختیار ہے جو دنیا کا کوئی شخص آپ سے نہیں چھین سکتا، اس وقت کو اپنی ترقی کے لئے استعمال کرنا آپ کا بنیادی حق ہے۔ اس حق کا دشمن وہ شخص ہے جو آپ کے ذہن میں بیٹھا ہے، جو مسلسل بولتا رہتا ہے، توجہ منتشر کرتا ہے۔ آپ ڈنر کرتے ہوئے خوراک پر دھیان نہیں دیتے، کسی کی بات سنتے ہوئے اپنے اندیشوں میں گم ہوتے ہیں، ڈرائیو کرتے ہوئے بجلی کے بل کے بارے میں سوچ رہے ہوتے ہیں۔ الغرض آپ کبھی وہاں نہیں ہوتے، جہاں آپ کو ہونا چاہیئے اور اس وجہ سے اپنی بہترین صلاحیتوں کے اظہار میں ناکام رہتے ہیں۔ کیوںکہ بہترین کارکردگی کا اظہار توجہ اور یکسوئی مانگتا ہے اور قدرت کے یہ تحفے باتونی شخص کی نذر ہوجاتے ہیں۔ لمحہِ موجود ضائع ہوجاتا ہے۔
ممکن ہے، آپ کے ذہن میں سوال پیدا ہو کہ لمحہِ موجود کیوں کر ہماری خواہشات کی تکمیل میں معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ بھاگ دوڑ کی زندگی میں یہ کیسے ہمارے ہاتھ آئے گا؟
آپ کا سوال درست ہے، اور اس کا جواب ممتاز فرانسیسی فلسفے رینے دیکارت کے اس مقولے میں پیوست ہے،
"میں سوچتا ہوں، اس لیے میں ہوں''۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔