ہمارے لیے خطرہ صرف ’دہشتگردی‘ نہیں

دہشت گردی کی آڑ میں اسلامی تہذیب ثقافت اور اقدار پر ہونے والے حملوں کے سامنے بھی ہمیں سینہ سپر ہونا پڑے گا۔

انفارمیشن ایج اور نیو ورلڈ آرڈر کے تحت مغربی تہذیب ہم پر حملہ آور ہے جس میں حیا اور عفت کے تصور سے خالی مغربی اقدار و روایات کو ہم پر زبردستی مسلط کیا جا رہا ہے۔ فوٹو: فائل

KARACHI:
بھارت کے ممتاز صحافی، دانشور اور سابق سفیر کلدیپ نائر نے اپنی یاداشتوں پر مبنی کتاب Beyond the lines میں لکھا کہ 1991ء میں بطور ہندوستانی سفیر اُن کی ملاقات اُس وقت کی برطانوی وزیراعظم مارگریٹ تھیچر سے لندن میں ہوئی۔ ملاقات میں انہیں سرد جنگ کی فتح اور سوویت یونین کے ٹکڑے ہوجانے کی مبارک باد پیش کی۔ مارگریٹ تھیچر نے جواباً مسکراتے ہوئے کہا کہ ،
''ابھی مبارک باد کا وقت نہیں آیا، ابھی ہمارا ایک دشمن باقی ہے، جس کا نام ''اسلام'' ہے''۔

جو کچھ کلدیپ نائر نے لکھا ہے وہ کوئی انکشاف نہیں بلکہ ایک حقیقت کی تصدیق ہے۔ کمیمونزم کے زوال کے بعد اسلام کو مدِ مقابل دشمن قرار دینے کی پالیسی تو خاصی پرانی ہے، تاہم نوے کی دھائی میں اس کا باقاعدہ اعلان ''تہذیبوں کے تصادم'' (The Clash of Civilization) نظریے کے طور پر کیا گیا تھا۔ جسے معروف امریکی ماہر سیاسیات، سیموئل فلپس ہٹنگٹن (Samuel Phillips Huntington) نے پیش کیا تھا۔ جس کا لُبِ لباب یہ ہے کہ
''سرد جنگ کے خاتمے کے بعد دنیا میں تنازعات اور جنگوں کی وجہ ثقافتی اور مذہبی شناختیں ہوں گی''۔

اس کے اپنے الفاظ یوں ہیں،

People's cultural & religious identities will be primary sources of conflict in the post cold War World



اس نظریے کو پہلے اُس نے 1992ء میں امریکن انٹر پرائزز انسٹی ٹیوٹ کے اندر دیئے جانے والے ایک لیکچر میں پیش کیا جسے بعد ازاں 1993ء میں امور خارجہ کے مجلے Foreign Affairs میں ''تہذیبوں کا تصادم'' کے عنوان کے تحت مضمون کی صورت میں پیش کیا گیا۔ بعد ازاں اسے کتاب کی شکل میں ''تہذیبوں کا تصادم اور عالمی نظام کی تشکیل نو'' (The clash of Civilization and the Remaking of World) کے عنوان سے شائع کیا گیا۔


''سیموئیل ہٹنگٹن'' کی کتاب کے مندرجات اور پھر امریکہ کی سربراہی میں جاری عالمی جنگ کے ارتقائی سفر پرغور کیا جائے تو یہ بات بڑی کھل کر سامنے آتی ہے کہ جنگ کا مقصد بنیادی طور پر مسلمانوں کی تہذیب اور شناخت کو مٹانا ہے۔ جنگ کی ابتداء دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر ہوئی تھی۔ لیکن وقت نے ثابت کیا کہ اس جنگ کے نتیجے میں دہشت گردی میں کمی کے بجائے بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ہے۔ خود امریکی تجزیہ کاروں کے مطابق 2001 میں دہشت گردی کا اکلوتا پلیٹ فارم افغانستان تھا۔ جبکہ 2015ء تک پہنچ کر ان پلیٹ فارمز کی تعداد 6 ہوچکی۔ دہشت گردی اپنے معیار، مقدار، اثر و نفوذ، افرادی قوت اور زیرِ قبضہ علاقہ غرض ہر صورت میں پہلے کی نسبت کئی گنا فروغ پا چکی ہے۔ تاہم یہ معلوم کرنا ایک ناممکن امر ہے کہ دہشت گردی کے کون سے واقعات ''اصلی'' ہیں، اور کون سے مغربی ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کے آپریشنز ہیں۔

یاد رہے کہ مغربی خفیہ ایجنسیاں، خاص طور پر سی آئی اے اور ایم آئی سکس ایسے آپریشنز (false flag operations) کرنے میں خاص مہارت رکھتی ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان، عراق اور دہشت گردی کے شکار دیگر مسلمان ممالک میں بدنام زمانہ بلیک واٹر (جو اب Academi کے نام سے کام کر رہی ہے) اور اس جیسے دیگر نجی عسکری اداروں کی متحرک موجودگی بھی خبروں کی زینت بنتی رہتی ہے۔

غور طلب نقطہ یہ ہے کہ اس جنگ کی آڑ میں ایک جانب مسلمانوں کے خلاف ہونے والے تشدد کو جواز مہیا کیا گیا ہے، کشمیر، فلسطین اور افغانستان میں غیر ملکی قبضے کے خلاف کی جانی والی جائر، قانونی اور بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ جدوجہد کو دہشت گردی سے تعبیر کیا جانے لگا۔ دوسری طرف اس جنگ کی آڑ میں ہماری تہذیبی اور سماجی اقدار کو ہدف بنایا گیا ہے۔ ہمارا سماجی ڈھانچہ، معاشرتی اقدار، خاندانی نظام اور سماجی اداروں کو تباہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ان کی جگہ ہم پر مغربی طرزِ زندگی مسلط کیا جا رہا ہے۔ جس کے زیرِ اثر نوجوان نسل میں اخلاقی، عائلی، سماجی اور معاشرتی قدریں کمزور پڑتی جا رہی ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ فحاشی، عریانی اور بے راہ روی کے سیلاب نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ یہ انفارمیشن ایج اور نیو ورلڈ آرڈر کے تحت مغربی تہذیب کا ہم پر حملہ ہے۔ جس میں حیا اور عفت کے تصور سے خالی مغربی اقدار و روایات کو ہم پر زبردستی مسلط کیا جا رہا ہے۔

ضروت اس امر کی ہے کہ ہم اس جنگ کی تہہ در تہہ پرتوں سے سمجھیں اور ہمہ پہلو حملوں سے آگاہی حاصل کریں۔ جہاں ہر طرح کی دہشت گردی کی کھل کر مذمت ہی نہیں بلکہ آگے بڑھ کر مدافعت کرنا ہے، وہیں دہشت گردی کی آڑ میں اسلامی تہذیب ثقافت اور اقدار پر ہونے والے حملوں کے سامنے بھی سینہ سپر ہونا پڑے گا، ورنہ مغرب کا حیا باختہ کلچر اور عفت نا آشنا تہذیب کا اژدھا ہمیں نگلنے کے لئے بے تاب ہے۔ اس اژدھے کی پھنکاریں ہم اپنے گرد و پیش میں بہت آسانی کے ساتھ سُن سکتے ہیں۔ مغرب نے تو اپنے دشمن کے خلاف جنگ کے کئی محاذ کھولے ہوئے ہیں، اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم کلدیپ نائر اور سیموئل ہٹنگٹن کی مہیا کردہ معلومات کی روشنی میں اپنے دشمن کو پہچان لیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم بے خبری میں ہی مارے جائیں۔
[poll id="920"]


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔


اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
Load Next Story