بھارتی حکومت اقلیتوں اوراظہار رائے کی آزادی کو تحفظ دینے میں ناکام رہی ہیومین رائٹس واچ
ملک میں اظہارِ رائے کی آزادی کی قدیم روایت کو نقصان پہنچا رہا ہے اور بھارت کا سیکولر چہرہ مسخ ہورہا ہے، رپورٹ
KARACHI:
بھارت میں عدم برداشت کے بڑھتے ہوئے واقعات نے وہاں اقلیتوں کی زندگی کو اجیرن کردیا ہے اور شدت پسند ہندوؤں نے بھارت کے سیکولر چہرے کو مسخ کردیا ہے جس پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حقوقِ انسانی کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ بھارتی حکومت ملک میں اظہارِ رائے کی آزادی اور مذہبی اقلیتوں کو تحفظ دینے میں ناکام رہی ہے۔
ہیومین رائٹس واچ کی ویب سائٹ پر جاری کی گئی رواں سال کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں اظہار رائے کی آزادی سلب کی جا رہی ہے اور مذہبی اقلیتیں عدم تحفظ کا شکار ہیں جب کہ حکومت کے ناقد سول سوسائٹی کے گروپوں کو نہ صرف فنڈنگ کی بندش بلکہ بڑھتی ہوئی پابندیوں کا بھی سامنا ہے۔ رپورٹ کے مطابق جہاں بھارت میں برسرِاقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی کے کچھ رہنماؤں کی جانب سے اقلیتوں کے بارے میں اشتعال انگیز بیانات سامنے آئے وہیں ہندو قوم پرست گروپوں کی جانب سے انہیں ہراساں بھی کیا جاتا رہا اور کچھ واقعات میں نوبت اقلیتوں پر حملوں تک بھی جا پہنچی۔
جنوبی ایشیا کے لیے ہیومن رائٹس واچ کی ڈائریکٹر میناکشی گنگولی کا کہنا تھا کہ بھارتی حکومت کی جانب سے تنقید کو دبانے کی کوشش ملک میں اظہارِ رائے کی آزادی کی قدیم روایت کو نقصان پہنچا رہی ہے اور بھارت کا سیکولر چہرہ مسخ ہورہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انکار یا جوابی ردعمل کے بجائے حکومت کو برداشت اور پرامن مباحثے کو فروغ دینا چاہیے اور تشدد کرنے یا اسے فروغ دینے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جانی چاہیے۔ ہیومن رائٹس واچ کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارت میں حکمران جماعت کے کچھ رہنماؤں کی جانب سے مسلم مخالف بیانات کی روایت تشویش ناک ہے اور اس سے مذہبی اقلیتوں میں عدم تحفظ میں اضافہ ہوا ہے۔
تنظیم کے مطابق جب بھارت میں 4 مسلمانوں کو گائے مارنے کے شبے میں قتل کیا گیا تو اس کے خلاف مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے آواز اٹھائی لیکن ان کا آواز اٹھانا ان کے لیے جرم بن گیا اور شدت پسند بی جے پی کے رہنما ڈنڈے اٹھا کر ان کے پیچھے پڑ گئے اور اس کے خلاف آواز اٹھانے والے افراد کو بھی دھمکی آمیز پیغامات ملنے لگے۔ رپورٹ میں بھارتی حکام پر سول سوسائٹی کے تیستا سیتل واڈ اور جاوید آنند جیسے کارکنوں کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک کا ذکر بھی ہے اور کہا گیا ہے کہ جب انہوں نے 2002 کے گجرات فسادات کے متاثرین کے لیے آواز اٹھائی تو انہیں''ملک مخالف'' قرار دے دیا گیا۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت اپنے ملک کے اندر انسانی حقوق کے تحفظ میں ناکام رہی ہے لیکن وہ عالمی معاملات میں اپنے کردار میں اضافہ چاہتی ہے لیکن یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب ملک میں اقلیتوں کو اظہار رائے کی آزادی ملے۔
بھارت میں عدم برداشت کے بڑھتے ہوئے واقعات نے وہاں اقلیتوں کی زندگی کو اجیرن کردیا ہے اور شدت پسند ہندوؤں نے بھارت کے سیکولر چہرے کو مسخ کردیا ہے جس پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حقوقِ انسانی کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ بھارتی حکومت ملک میں اظہارِ رائے کی آزادی اور مذہبی اقلیتوں کو تحفظ دینے میں ناکام رہی ہے۔
ہیومین رائٹس واچ کی ویب سائٹ پر جاری کی گئی رواں سال کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں اظہار رائے کی آزادی سلب کی جا رہی ہے اور مذہبی اقلیتیں عدم تحفظ کا شکار ہیں جب کہ حکومت کے ناقد سول سوسائٹی کے گروپوں کو نہ صرف فنڈنگ کی بندش بلکہ بڑھتی ہوئی پابندیوں کا بھی سامنا ہے۔ رپورٹ کے مطابق جہاں بھارت میں برسرِاقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی کے کچھ رہنماؤں کی جانب سے اقلیتوں کے بارے میں اشتعال انگیز بیانات سامنے آئے وہیں ہندو قوم پرست گروپوں کی جانب سے انہیں ہراساں بھی کیا جاتا رہا اور کچھ واقعات میں نوبت اقلیتوں پر حملوں تک بھی جا پہنچی۔
جنوبی ایشیا کے لیے ہیومن رائٹس واچ کی ڈائریکٹر میناکشی گنگولی کا کہنا تھا کہ بھارتی حکومت کی جانب سے تنقید کو دبانے کی کوشش ملک میں اظہارِ رائے کی آزادی کی قدیم روایت کو نقصان پہنچا رہی ہے اور بھارت کا سیکولر چہرہ مسخ ہورہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انکار یا جوابی ردعمل کے بجائے حکومت کو برداشت اور پرامن مباحثے کو فروغ دینا چاہیے اور تشدد کرنے یا اسے فروغ دینے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جانی چاہیے۔ ہیومن رائٹس واچ کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارت میں حکمران جماعت کے کچھ رہنماؤں کی جانب سے مسلم مخالف بیانات کی روایت تشویش ناک ہے اور اس سے مذہبی اقلیتوں میں عدم تحفظ میں اضافہ ہوا ہے۔
تنظیم کے مطابق جب بھارت میں 4 مسلمانوں کو گائے مارنے کے شبے میں قتل کیا گیا تو اس کے خلاف مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے آواز اٹھائی لیکن ان کا آواز اٹھانا ان کے لیے جرم بن گیا اور شدت پسند بی جے پی کے رہنما ڈنڈے اٹھا کر ان کے پیچھے پڑ گئے اور اس کے خلاف آواز اٹھانے والے افراد کو بھی دھمکی آمیز پیغامات ملنے لگے۔ رپورٹ میں بھارتی حکام پر سول سوسائٹی کے تیستا سیتل واڈ اور جاوید آنند جیسے کارکنوں کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک کا ذکر بھی ہے اور کہا گیا ہے کہ جب انہوں نے 2002 کے گجرات فسادات کے متاثرین کے لیے آواز اٹھائی تو انہیں''ملک مخالف'' قرار دے دیا گیا۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت اپنے ملک کے اندر انسانی حقوق کے تحفظ میں ناکام رہی ہے لیکن وہ عالمی معاملات میں اپنے کردار میں اضافہ چاہتی ہے لیکن یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب ملک میں اقلیتوں کو اظہار رائے کی آزادی ملے۔