سرشام پتلی تماشا
مغربی ممالک کی ترقی کا راز خوشحال زندگی کی عادت اور اس کے چھن جانے کے خوف میں پوشیدہ ہے۔
مغربی ممالک کی ترقی کا راز خوشحال زندگی کی عادت اور اس کے چھن جانے کے خوف میں پوشیدہ ہے۔ چنانچہ امریکی سیاست، امریکی باشندوں کو خوشحال زندگی مہیا کرتی ہے اور امریکی حکومت اس کے چھن جانے کے خوف میں مبتلا کرنے والے دشمن کو ایجاد کرتی ہے، یا دریافت کرتی ہے، پھر سپلائی کرتی ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر ہٹلر کے خاتمے کے بعد برطانوی وزیراعظم چرچل نے امریکی صدر کو مشورہ دیا کہ تیسرا اتحادی روس جرمنوں سے دوبدو جنگ کرکے ادھ موا ہوچکا ہے، کیوں نہ لگے ہاتھوں اس سے بھی نجات حاصل کرلی جائے، لیکن یہ بات امریکی صدر کی سمجھ میں اس وقت نہیں آئی، البتہ افغانستان میں روسی شکست کے بعد سمجھ میں آئی کہ کل رنگروٹ مجاہدین آج کے روس جیسی سپر پاور کو شکست دینے والے تجربہ کار گوریلے بن چکے ہیں، کیوں نہ ان کو ٹھکانے لگا دیا جائے، ورنہ یہ باقی اکلوتی سپر پاور کے سر پر ننگی تلوار بن کر لٹکتے رہیںگے۔
سوال یہ ہے کہ دوسرا آپشن کیوں نہیں آزمایا گیا؟ مثلاً مجاہدین کو بسایا جائے اور اس علاقے سے افلاس کا خاتمہ کردیا جائے، آج دنیا دہشت گردی سے محفوظ ہوجاتی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مجاہدین کی آڑ میں پوری امت مسلمہ مغرب کے نشانے پر تھی کیوں کہ ان میں مغرب کو چیلنج کرنے کی جرأت بھی پیدا ہوگئی اور صلاحیت بھی، مجاہدین اس کا جیتا جاگتا ثبوت تھے، مغربی دنیا کو ذہنی طور پر تیار کرنے کے لیے تہذیبوں کے تصادم کے شوشے بھی چھوڑے جانے لگے۔
اس کی ابتدا پاکستان میں مسلکی، لسانی اور فرقہ وارانہ تعصبات سے پاک پہلی اسلامی سربراہی کانفرنس سے ہوئی جس کے روح رواں شاہ فیصل (سعودی فرمانروا) اور مسٹر بھٹو (پاکستان کے وزیراعظم) تھے اس کے بعد طاقت کے اظہار کے لیے کامیاب تیل کا ہتھیار استعمال کیا گیا، جس نے ساری مغربی دنیا کو ہلاکر رکھ دیا۔ یہ طے کرلیا گیا کہ ہر حال میں عالم اسلام کو طویل المدتی اور قلیل المدتی منصوبوں سے کام لے کر بے دست و پا کردیا جائے۔ مثلاً (1) مسلم دنیا کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کے لیے سنی شیعہ تفریق کو نچلی سطح سے دشمنی اور نفرت کی انتہا پر پہنچادیا جائے۔ (2) دونوں فرقوں کے غیر متنازعہ، قابل احترام مذہبی و سیاسی رہنماؤں کو جو باہمی اختلافات کی صورت میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کے قابل ہوں چُن چُن کر بتدریج قتل کردیا جائے۔ چنانچہ اس سلسلے کا پہلا قتل شاہ فیصل کا ہوا۔
ماضی میں مسلکی اختلافات مقامی سطح تک محدود ہوتے تھے، اہمیت کے لحاظ سے بچوں کی لڑائی، جیسے ادھر جھڑپ ہوئی پھر دیکھتے ہی دیکھتے ایک کے بعد ایک، اس کو فرقہ وارانہ تنظیموں کے ذریعے مقامی سطح سے ملکی سطح تک لے جایا گیا، نتیجہ سامنے ہے، آج فنڈنگ کرنے والے ممالک ایک دوسرے کے مقابل حالت جنگ میں کھڑے ہیں۔
ذرا ماضی میں جھانکیے، مسلکی تعصبات سے پاک اسلامی سربراہ کانفرنس کا انعقاد، افرو ایشیائی اتحاد کے چرچے، تیسری دنیا کے ممالک کے اتحاد کی کوششیں سب خواب ہوئے۔
ذرا دیوقامت شخصیات کو یاد کیجیے، ماؤزے تنگ، چواین لائی، سوکارتو، شاہ فیصل، بھٹو، ایوب خان، بن باﷲ ، قذافی وغیرہ وغیرہ، جو قتل ہونے سے بچ گئے وہ بحرانوں کی بھینٹ چڑھ گئے۔
آج اگر ایک ڈاکٹر قتل کردیا جاتا ہے تو وہ ظاہر ہے کسی نہ کسی مسلک کا ہو گا۔ اگر ایک مسلک کا ہوگا تو فرض کرلیا جاتا ہے دوسرے مسلک نے مارا ہوگا اور اگر دوسرے مسلک کا ہوا تو فرض کرلیا جاتا ہے کہ پہلے مسلک نے مارا ہوگا۔ جب مطلوبہ نتائج حاصل ہوگئے تو اچانک 9/11 کے حادثے کے متعلق امریکیوں کا خیال یہ ہے کہ اس میں یہودی ملوث ہے۔
ان ساری انسانیت دشمن سازشوں کے جواب میں مکافات عمل نے ایک شامت اعمال کو جنم دیا جس کو عرف عام میں خودکش بمبار کہتے ہیں۔ جب کسی قوم کو جینے نہیں دیا جاتا ہے تو پھر وہ اپنی پسند سے مرنے کا فیصلہ کرلیتی ہے، تب خودکش بمبار جنم لیتا ہے، یعنی طاقت ور قوم کے ہاتھ میں ڈرانے کو کچھ بھی نہیں رہتا، قانون کی حرمت نہ سزا کا خوف۔ اگر خودکش بمبار رنگے ہاتھوں پکڑا بھی جاتا ہے، تو بہادری کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ نہ صرف بھاگو بلکہ سر پر پیر رکھ کر بھاگو۔
روس کے خلاف اپنا مطلب حاصل کرنے کے لیے مذہبی شدت پسندی کے جن کو بوتل سے نکالنے والوں نے یہ نہیں دیکھا کہ نیا زمانہ ہے، کہیں بوتل ڈسپوزایبل تو نہیں ہے؟ ادھر جن بوتل سے نکلا ادھر بوتل پچک گئی۔ مجاہدین پر قابو پانے کے لیے طالبان تیار کیے گئے وہ گلے پڑگئے، القاعدہ پہلے ہی حلق میں اٹکی ہوئی تھی۔ اب داعش گلے کا ہار ہے، اگر آج داعش کو کچل بھی دیا جاتا ہے تو کل کی کیا گارنٹی کہ کوئی ابوالداعش جنم نہیں لے گی۔
تاریخ کا مسخرہ پن ملاحظہ کیجیے، امریکا شام کے حکمرانوں کے خلاف نظریاتی بنیاد پر ہے، کیوں کہ وہ روس کے حلقہ اثر میں ہے۔ سعودی عرب مسلکی بنیاد پر مخالفت کررہا ہے کیوں کہ وہاں شیعہ اقلیت حکمران ہے، اسرائیل سیاسی بنیاد پر مخالفت کررہا ہے کیوں کہ شام حزب اﷲ کا حمایتی ہے، ایران جس کا سرپرست ہے داعش ایران اور سعودی دونوں کی مخالف تنظیم ہے کیوں کہ وہ دونوں کے ممالک سے متفق نہیں، امریکا شام میں داعش کا مخالف اور افغانستان میں حامی ہے کیوں کہ داعش طالبان کی بھی دشمن ہے۔ سرشام جو پتلی تماشا ہورہا ہے اسے صرف دیکھا جاسکتا ہے۔
سمجھنے میں وقت ضایع کرنا بے کار، کیوں کہ پتلی تماشے کی ڈور نظر آرہی ہے نہ اس کو ہلانے والے ہاتھ، بے شک امریکا کو اسلحہ کی مارکیٹ جس کے لیے ایک جنگ عظیم یا بڑی جنگوں کا جمعہ بازار چاہیے۔ میری منطق یہ کہتی ہے کہ اس خطے میں چین جیسے گیم چینجر کے ہوتے ہوئے (تفصیلی بحث پھر کبھی) جنگ عظیم برپا کرنے کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو ہی نہیں سکتا، کیوں کہ چین ''فروزن ڈپلومیسی'' کا نہ صرف موجد ہے بلکہ ماہر بھی ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر ہٹلر کے خاتمے کے بعد برطانوی وزیراعظم چرچل نے امریکی صدر کو مشورہ دیا کہ تیسرا اتحادی روس جرمنوں سے دوبدو جنگ کرکے ادھ موا ہوچکا ہے، کیوں نہ لگے ہاتھوں اس سے بھی نجات حاصل کرلی جائے، لیکن یہ بات امریکی صدر کی سمجھ میں اس وقت نہیں آئی، البتہ افغانستان میں روسی شکست کے بعد سمجھ میں آئی کہ کل رنگروٹ مجاہدین آج کے روس جیسی سپر پاور کو شکست دینے والے تجربہ کار گوریلے بن چکے ہیں، کیوں نہ ان کو ٹھکانے لگا دیا جائے، ورنہ یہ باقی اکلوتی سپر پاور کے سر پر ننگی تلوار بن کر لٹکتے رہیںگے۔
سوال یہ ہے کہ دوسرا آپشن کیوں نہیں آزمایا گیا؟ مثلاً مجاہدین کو بسایا جائے اور اس علاقے سے افلاس کا خاتمہ کردیا جائے، آج دنیا دہشت گردی سے محفوظ ہوجاتی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مجاہدین کی آڑ میں پوری امت مسلمہ مغرب کے نشانے پر تھی کیوں کہ ان میں مغرب کو چیلنج کرنے کی جرأت بھی پیدا ہوگئی اور صلاحیت بھی، مجاہدین اس کا جیتا جاگتا ثبوت تھے، مغربی دنیا کو ذہنی طور پر تیار کرنے کے لیے تہذیبوں کے تصادم کے شوشے بھی چھوڑے جانے لگے۔
اس کی ابتدا پاکستان میں مسلکی، لسانی اور فرقہ وارانہ تعصبات سے پاک پہلی اسلامی سربراہی کانفرنس سے ہوئی جس کے روح رواں شاہ فیصل (سعودی فرمانروا) اور مسٹر بھٹو (پاکستان کے وزیراعظم) تھے اس کے بعد طاقت کے اظہار کے لیے کامیاب تیل کا ہتھیار استعمال کیا گیا، جس نے ساری مغربی دنیا کو ہلاکر رکھ دیا۔ یہ طے کرلیا گیا کہ ہر حال میں عالم اسلام کو طویل المدتی اور قلیل المدتی منصوبوں سے کام لے کر بے دست و پا کردیا جائے۔ مثلاً (1) مسلم دنیا کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کے لیے سنی شیعہ تفریق کو نچلی سطح سے دشمنی اور نفرت کی انتہا پر پہنچادیا جائے۔ (2) دونوں فرقوں کے غیر متنازعہ، قابل احترام مذہبی و سیاسی رہنماؤں کو جو باہمی اختلافات کی صورت میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کے قابل ہوں چُن چُن کر بتدریج قتل کردیا جائے۔ چنانچہ اس سلسلے کا پہلا قتل شاہ فیصل کا ہوا۔
ماضی میں مسلکی اختلافات مقامی سطح تک محدود ہوتے تھے، اہمیت کے لحاظ سے بچوں کی لڑائی، جیسے ادھر جھڑپ ہوئی پھر دیکھتے ہی دیکھتے ایک کے بعد ایک، اس کو فرقہ وارانہ تنظیموں کے ذریعے مقامی سطح سے ملکی سطح تک لے جایا گیا، نتیجہ سامنے ہے، آج فنڈنگ کرنے والے ممالک ایک دوسرے کے مقابل حالت جنگ میں کھڑے ہیں۔
ذرا ماضی میں جھانکیے، مسلکی تعصبات سے پاک اسلامی سربراہ کانفرنس کا انعقاد، افرو ایشیائی اتحاد کے چرچے، تیسری دنیا کے ممالک کے اتحاد کی کوششیں سب خواب ہوئے۔
ذرا دیوقامت شخصیات کو یاد کیجیے، ماؤزے تنگ، چواین لائی، سوکارتو، شاہ فیصل، بھٹو، ایوب خان، بن باﷲ ، قذافی وغیرہ وغیرہ، جو قتل ہونے سے بچ گئے وہ بحرانوں کی بھینٹ چڑھ گئے۔
آج اگر ایک ڈاکٹر قتل کردیا جاتا ہے تو وہ ظاہر ہے کسی نہ کسی مسلک کا ہو گا۔ اگر ایک مسلک کا ہوگا تو فرض کرلیا جاتا ہے دوسرے مسلک نے مارا ہوگا اور اگر دوسرے مسلک کا ہوا تو فرض کرلیا جاتا ہے کہ پہلے مسلک نے مارا ہوگا۔ جب مطلوبہ نتائج حاصل ہوگئے تو اچانک 9/11 کے حادثے کے متعلق امریکیوں کا خیال یہ ہے کہ اس میں یہودی ملوث ہے۔
ان ساری انسانیت دشمن سازشوں کے جواب میں مکافات عمل نے ایک شامت اعمال کو جنم دیا جس کو عرف عام میں خودکش بمبار کہتے ہیں۔ جب کسی قوم کو جینے نہیں دیا جاتا ہے تو پھر وہ اپنی پسند سے مرنے کا فیصلہ کرلیتی ہے، تب خودکش بمبار جنم لیتا ہے، یعنی طاقت ور قوم کے ہاتھ میں ڈرانے کو کچھ بھی نہیں رہتا، قانون کی حرمت نہ سزا کا خوف۔ اگر خودکش بمبار رنگے ہاتھوں پکڑا بھی جاتا ہے، تو بہادری کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ نہ صرف بھاگو بلکہ سر پر پیر رکھ کر بھاگو۔
روس کے خلاف اپنا مطلب حاصل کرنے کے لیے مذہبی شدت پسندی کے جن کو بوتل سے نکالنے والوں نے یہ نہیں دیکھا کہ نیا زمانہ ہے، کہیں بوتل ڈسپوزایبل تو نہیں ہے؟ ادھر جن بوتل سے نکلا ادھر بوتل پچک گئی۔ مجاہدین پر قابو پانے کے لیے طالبان تیار کیے گئے وہ گلے پڑگئے، القاعدہ پہلے ہی حلق میں اٹکی ہوئی تھی۔ اب داعش گلے کا ہار ہے، اگر آج داعش کو کچل بھی دیا جاتا ہے تو کل کی کیا گارنٹی کہ کوئی ابوالداعش جنم نہیں لے گی۔
تاریخ کا مسخرہ پن ملاحظہ کیجیے، امریکا شام کے حکمرانوں کے خلاف نظریاتی بنیاد پر ہے، کیوں کہ وہ روس کے حلقہ اثر میں ہے۔ سعودی عرب مسلکی بنیاد پر مخالفت کررہا ہے کیوں کہ وہاں شیعہ اقلیت حکمران ہے، اسرائیل سیاسی بنیاد پر مخالفت کررہا ہے کیوں کہ شام حزب اﷲ کا حمایتی ہے، ایران جس کا سرپرست ہے داعش ایران اور سعودی دونوں کی مخالف تنظیم ہے کیوں کہ وہ دونوں کے ممالک سے متفق نہیں، امریکا شام میں داعش کا مخالف اور افغانستان میں حامی ہے کیوں کہ داعش طالبان کی بھی دشمن ہے۔ سرشام جو پتلی تماشا ہورہا ہے اسے صرف دیکھا جاسکتا ہے۔
سمجھنے میں وقت ضایع کرنا بے کار، کیوں کہ پتلی تماشے کی ڈور نظر آرہی ہے نہ اس کو ہلانے والے ہاتھ، بے شک امریکا کو اسلحہ کی مارکیٹ جس کے لیے ایک جنگ عظیم یا بڑی جنگوں کا جمعہ بازار چاہیے۔ میری منطق یہ کہتی ہے کہ اس خطے میں چین جیسے گیم چینجر کے ہوتے ہوئے (تفصیلی بحث پھر کبھی) جنگ عظیم برپا کرنے کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو ہی نہیں سکتا، کیوں کہ چین ''فروزن ڈپلومیسی'' کا نہ صرف موجد ہے بلکہ ماہر بھی ہے۔