پاکستان میں یہودی آخری حصہ

انکی اس سپر گورنمنٹ یا ورلڈ رولر ماڈل سٹی کے قیام کے مرتب شدہ ایجنڈہ میں وہ پاکستان کے متعلق جو بنیادی نظریہ رکھتے ہیں

ان کی اس سپر گورنمنٹ یا ورلڈ رولر ماڈل سٹی کے قیام کے مرتب شدہ ایجنڈہ میں وہ پاکستان کے متعلق جو بنیادی نظریہ رکھتے ہیں اس کے لیے بحیثیت مسلمان اور خاص طور پاکستانی ہم پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ہم عالم انسانیت یا اقوام عالم کی معلوم تاریخ کی روشنی میں اس کے ناقابل تحریف ثبوتوں کی بنیاد پر ازسر نو مطالعہ کرکے اس کو نئے تشخص کے ساتھ پیش کریں تاکہ مظلومیت کی چکی میں پستی عالم انسانیت کی تمدنی زندگی کو لاحق بنیادی مسائل کے نہ صرف یقینی اور دیرپا حل کا ناقابل تردید نظریہ دیا جانا ممکن بن سکے بلکہ اس سے اقوام عالم کو تحقیقات نظریہ پاکستان کی سچائی اور اس کے تہذیب خانہ کعبہ اور تہذیب بیت المقدس کی مشترکہ وارثی کی حقیقت بھی سمجھائی جانی ممکن بن سکے۔

تب ہمیں جاوید چوہدری جیسے دانشوروں کے وسیع النظری پر مبنی خیالات، مطالبات اور مشوروں کی افادیت اور یہودیوں کی پاکستان میں مسلمان اور عیسائی کی حیثیت سے موجودگی کے پہلو کی قابل فکر سنگینی کا ادراک ہونا ممکن ہوگا۔ کیونکہ یہ قوم تہذیب بیت المقدس سے الگ کیا گیا وہ دیمک ہے جو انتظام معاشرت کی تمام اشکال کو کھوکھلا کرتا، مملکتوں کی جڑیں کھودتا اور ہر قسم کا انتشار پھیلاتا رہتا ہے۔

کتنے جاں گداز اور روح پرور تصور پر مبنی نظریہ اپنے تمام تر لوازمات کے ساتھ معلوم ومروجہ پیمانوںپر کھرا اترتے ہوئے کائنات کی سب سے بڑی کھلی حقیقت و سچائی کی ثابتی ہے کہ ہم بحیثیت مسلمان اقوام عالم کی اس قدیم ترین تہذیب خانہ کعبہ سے وابستہ ہیں، جس تہذیب نے ہمیں اپنا مطیع و غلام بناکر خود سے منسلک نہیں کیا بلکہ ہماری روحوں کی پاکیزگی کے اقرار اور عرب و عجم فرق کے خاتمے کی بنیاد پر نہ صرف اپنا وارث قرار دیا ہے، بلکہ نظریہ پاکستان کی عملی تفسیر کے ساتھ جسد واحد کو لاحق مضمرات، تکلیفات، خطرات کے امکانات کی تعلیمات کے معلوم اور حالیہ ارتقائی مرحلے تک صیغہ راز میں رہنے والی انسانی تاریخ کی عملی تجربہ گاہ میں لازمی و حتمی نتائج بیان کرتے ہوئے امام الناس کے منصب کی ذمے داریاں ادا کرنے کے انداز کو اس کی تمام تر ثابتیوں اور ناقابل تردید تاریخی استدلال کے ساتھ حیات ارض وسماء اور آسودگی مز اج انسانی کی تمام تر تحقیقات سے بھی نوازا ہے۔

تہذیب خانہ کعبہ ایک ایسی تہذیب ہے کہ جو انسان کی آج سے چار ہزار سال قبل کی تاریخ کی روشنی میں مرتب کیے گئے مشاہدات، تجربات وتحقیقات کی روشنی میں نظام کرہ ارض اور انتظام کائنات کے اپنے خوبصورت نظریے کی وجہ سے دن بدن تعظیم وتکریم کے شباب کو حاصل کرتے ہوئے محفل حیات ارض وسماء میں اپنے شمع رہنمائی ہونے کی حیثیت سے انسانیت کو شدت سے لاحق خطرات کے سدباب کا اقرار کرانے، تہذیبوں کی تنزلی و تنسیخی کے اسباب کو ظاہر کرتے ہوئے محقق دنیا کے تمام حصوں میں اپنی نئی اور جدید تفسیرات پیش کرنے کی جنگ لڑرہی ہے۔

کیونکہ تہذیب بیت المقدس سے بے دخل ہونے والی قوم تہذیب خانہ کعبہ سے جڑے انسانی گروہوں سمیت عالم انسانیت کو اپنے سازشی ہتھکنڈوں سے دن بہ دن استبدادی آہنی پنجوں میں جکڑتی جارہی ہے، جن کا مقصد حیات اپنے محققین اور انقلابی رہنماؤں کی تعلیمات کے الٹ تہذیب بیت المقدس پر غاصبانہ قبضہ سے تہذیب خانہ کعبہ کو ثانوی حیثیت دیے جانے کی عملی صورت دے کر اقوام عالم میں بٹی انسانیت پر اپنی فتح کا جھنڈا لہرانا ہے۔ اس کے لیے انھوں نے صدیوں ذلتیں جھیلی ہیں،لیکن تذلیل انسانیت کے نکتے پر مجتمع اپنی روش سے بعض نہیں آئے۔

فراعین مصر کی پانچ سو سالہ غلامی سے ان کو اپنے ہاتھ سے ایک بھی انسان کو قتل کیے جانے کے بغیر آزادی دلانے والے حضرت موسیٰؑ نے کوہ عباریم پر ان کی اس روش پر اپنی تحقیقات کے لازمی نتائج میں ان کے کھیت اور شہر میں برا ہونے، وباء کو ان سے لپٹے رہنے کے ساتھ ساتھ ان کے نیچے کی زمین کا لوہے اور اوپر کے آسمان کا پیتل کا بن جانے، ان کودشمن کے آگے شکست ملنے، غنیم کے ہاتھوں ان کی گردن پر لوہے کا جوا رکھ کر زمین کے ایک سرے (ایشیا) سے دوسرے سرے (یورپ) تک کی تمام قوموں میں پراگندہ ہونے کو اپنی وصیت قرار دیا تھا۔


ان کی تاریخ ان نتائج کی سچائی کا بہترین اور ناقابل تردید ثبوت ہے، جس میں انھوں نے پہلے پہل ارض فلسطین پر حتی، فلستی، اموری، کنعانی، فرزی، حوی، یبوسی وغیرہ کے ہاتھوں شکست وریخت کو جھیلا۔ ارض فلسطین میں انھوں نے حضرت موسیٰؑ کے بتائے گئے اصولوں کے الٹ مضبوط مرکزی حکومت کے قیام کے بجائے 1500 قبل مسیح میں حضرت موسیٰؑ کی وراثت میں دیے گئے ارض فلسطین کو اپنے بنی شمعون، بنی دانی، بنی یمین، بنی افرائیم، بنی روبن، بنی جد، بنی منسی، بنی اشکار، بنی زبولون، بنی نفتالی اور بنی آشر پر مشتمل بارہ قبائل میں تقسیم کرکے رکھ دیا، تو آس پاس کی ریاستوں کے موآبیوں، ادومیوں اور عمونیوں نے صدیوں تک ان کے لگائے گئے تاکستان کے پھل ان کو کھانے نہ دیے۔

انھوں نے اپنی اس روش کے ثبوت کے طور پر اپنے استعماری ہتھکنڈوں سے مضبوط مرکزی حکومتوں کا تقریباً خاتمہ کروادیا ہے، اور خصوصی طور پر پاکستان میں اٹھارہویں ترمیم اور قبائلی عصبیت کی بنیاد پر منتخب ہونے والے نمایندوں کے دم قدم پر چلنے والا بلدیاتی نظام متعارف کرواکے مرکز کو کمزور کرنے کی سازشوں میں جتے ہوئے ہیں۔چونکہ انھوں نے فاتحین کی ثقافت اپناکر اپنی بقا کی جنگ لڑنے کا سبق ارض فلسطین پر یونان کے قبضے یعنی لگ بھگ دو صدی قبل مسیح میں ہی پڑھ لیا تھا اور بعد میں سرزمین عرب اور یورپی ممالک میں بھی انھوں نے یہی روش اپنائے رکھی۔

آج انھوں نے اپنی اس روش کو Survival Of The Fittest کے نظریے سے دنیا پر رائج کردیا ہے، جب کہ تحقیقات نظریہ پاکستان نے ان کی اس روش کو عربی زبان میں منافقت کے نام سے تعبیر کرتے مدینہ میں عبداللہ بن ابی، اسپین میں فرڈیننڈ اور کیسٹل کی ازابیلہ اور برصغیر میں جعفر صادق و ناؤمل کے تسلسل میں نریندر مودی جیسے کوتلیہ چانکیہ کے پرخلوص چیلوں کی صورت میں دکھایا بھی ہے۔

جب کہ بعد کی تاریخ میںان کو از روئے تورات معاہدہ شکنی کی سزا کے طور پر مدینہ بدر کا فیصلہ سنانیوالے حضرت سعدؓ بن معاذ کی پراسرار شہادت اور یہودی پہلوان مرحب سمیت خیبر کے قلعوں کو مٹی کا ڈھیر بنانیوالے جناب حضرت علی ابن ابی طالبؓ کی شہادت سے لے کر یورپی بادشاہوں کے پراسرار قتل کے واقعات بھی ان کی اپنے مسیحاؤں کو مصلوب کرنے کی روش کا زندہ وتابندہ ثبوت ہیں۔

اس لحاظ سے پاکستان کے پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خان، حکیم محمد سعید شہید، عمر اصغر خان سمیت ہزاروں کی تعداد میں ہونے والی پراسرار ہلاکتوں کی نہ صرف ذمے داری عائد ہوتی ہے بلکہ ایسی حرکتوں میں ان کے ملوث ہونے کی ثابتی کی بنیاد پر ان کی فری میسن تنظیم پر 1960 میں پاکستان میں پابندی عائد کرکے صرف اس تنظیم کی ملکیتیں بحق سرکار ضبط کی گئیں تھیں۔ اس کے علاوہ تاریخ پاکستان میں ایسی کوئی دوسری بڑی کارروائی دیکھنے کو نہیں ملتی۔

ان کے تاریخی بھونڈے جوازوں کی طرح جنرل ضیاء الحق کے دور اقتدار میں نامساعد حالات کی وجہ سے انھیں پاکستان چھوڑنے کا جواز بھی گھڑا ہے، کیونکہ یہ یہودی بن کر اپنے الدار یہودیوں کے استعماری مفادات کی تکمیل میں اتنا بھرپور کردار ادا نہیں کرسکتے تھے، اس لیے انھوں نے ملک چھوڑنے اور مسلمان بننے کی سازشیں اپنائیں۔ تحقیقات نظریہ پاکستان تو بس اس سچائی کی ترجمانی کے فرائض ادا کرتا آیا ہے جو ہمارے اور ان کے انبیائے کرامؑ کی وہ سنت ہے کہ جس کو زندہ کرنے کا انعام سو شہیدوں کا ثواب ہے، کیونکہ اس کی پاداش میں انھوں نے اپنے مسیحاؤں کو ستایا اور مصلوب کروایا تھا۔
Load Next Story