بار کونسل کا بار گراں
میری نظر میں خود کئی بڑے اور نامور وکلا ہیں جنھوں نے نوکری کر کے شام کے وقت تعلیم جاری رکھی۔
اتوار 24 جنوری کو ایک انگریزی اخبار میں نہایت نمایاں خبر شایع ہوئی کہ قانون کی تعلیم جو کبھی 2 سال کی تھی وہ 3 سال کی اب جاری تھی، اس وقت بھی جانچ پڑتال کے بعد کی گئی تھی۔ مگر اب وہ (PBC) پاکستان بار کونسل کی سفارش پر یہ سند 3 سال کے بجائے 5 برس میں ملا کرے گی، جب کہ خود یہ سفارش کنندگان 2 سال میں ایل ایل بی، یا 3 سال میں پاس کیے ہوئے ہیں۔
قیام پاکستان سے ایل ایل بی کی کلاسیں 2 سال کے لیے ہوتی تھیں اور اس نے وکلا کی کھیپ تیار کی جو ملک بھر میں اپنے فرائض انجام دے رہی ہے۔ موجودہ فیصلہ جو کیا گیا ہے اس کا اصل فائدہ کالجوں کو ہو گا۔اس فیصلے کو صادر کرنے سے پہلے بہت غور و فکر کی گئی کہ کس طرح غریب طبقات پر کاری ضرب لگائی جائے کیونکہ 90 فیصد وہ طلبا ہیں جو دن کو نوکری کرتے ہیں اور شام کو کالج میں جا کر حاضری دیتے ہیں اور اپنی محنت شاقہ سے تعلیم کے جوہر سے فیض یاب ہوتے ہیں۔
میری نظر میں خود کئی بڑے اور نامور وکلا ہیں جنھوں نے نوکری کر کے شام کے وقت تعلیم جاری رکھی۔ شام کو تعلیمی عمل بند کرنے کی سفارش بھی عام، کم حیثیت، طالب علموں کی حوصلہ شکنی کے مترادف ہے۔ افسوس کا مقام ہے طلبا تنظیموں کو یہ احساس فوری طور پر نہیں ہوا کہ اس کے اثرات دیرپا ہوں گے۔ اس خبر کو اس طرح شایع کیا گیا کہ یہ تمام عمل طلبا کے معیار تعلیم کو بلند کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ معیار تعلیم کو بلند کرنے کا شوشہ لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے چھوڑا گیا ہے۔
لا کالجوں میں عموماً وہ لڑکے اور لڑکیاں تعلیم حاصل کرتے ہیں جو انٹر سائنس میں کسی وجہ سے میڈیکل یا انجینئرنگ میں داخلہ نہیں لے پاتے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ نااہل ہیں بلکہ ان کے رجحانات کا صحیح جائزہ نہیں لیا جاتا کیونکہ کاروبار زندگی انسان اپنے ہاتھ میں نہیں رکھ پاتا۔ خدا ہر شخص سے الگ الگ کام لیتا ہے اور اس میں مداخلت ناممکن ہے اور کسی کے بس میں بھی نہیں، بلکہ تاریخ نے یہ بھی دیکھا ہے کہ دنیا کے بہت بڑے حساب داں حساب میں فیل ہوتے رہے ہیں، کیونکہ ان کے دماغ کی گہرائی کو اساتذہ بھی پہچاننے کے اہل نہ تھے۔ کون زیرک ہے اور کون کم زیرک یہ تو عمل کی دوڑ میں پتہ چلتا ہے۔
عملی زندگی میں صرف یہی نہیں کہ ملازمت کر کے پڑھنے والے کمتر نہیں ہوتے، اگر بار کونسل کے یہ ارکان اتنے ہی باکمال ہوتے تو اس فیلڈ میں یہ عالمی ایوارڈ لے لیتے یا ایسی کتابیں لکھ جاتے جو ملک کی قسمت بدل دیتے، یہ لوگ دراصل حکومت کی پالیسیوں پر عمل درآمد کرانے کے عوض کام کرتے ہیں، یہ چاہتے ہیں کہ کم پیسے والے لوگ تعلیم و حرفت میں آگے بڑھنے نہ پائیں۔ نہ صرف لا کالج میں نوکری پیشہ طالب علم داخلہ لیتے ہیں بلکہ اساتذہ جو خود دن میں پریکٹس کرتے ہیں شام کو استاد کی حیثیت سے نمایاں ہوتے ہیں۔
گویا آج سے پہلے جو کچھ پاکستان میں ہوا وہ غلط ہوا اور اب اصلاح ہو رہی ہے۔ واضح رہے کہ ایل ایل بی یا ایل ایل ایم کا ایم بی بی ایس سے تقابل غیر ضروری ہے۔ دنیا کے کتنے ملک ہیں جہاں تحریری دستور بھی موجود نہیں۔ جس میں لندن پیش پیش ہے جب کہ میڈیسن میں ممکنات نہیں جب کہ یہ زندگی کے روز مرہ اور سماجی مسائل اور ان کی پیچیدگیاں ہیں جو قانون کی گرفت میں آتی ہیں۔ اس لیے میڈیکل کے معاملات کا موازنہ قانون سے نہیں کیا جا سکتا۔ میڈیکل کے تجربات زندہ اور مردہ دونوں پر ممکن ہیں جب کہ قانون کا دائرہ کار الگ ہے، کسی شخص پر تجربہ کے طور پر حملہ نہیں کیا جا سکتا، زخمی نہیں کیا جا سکتا۔
میڈیکل کے مضامین ضخامت کے اعتبار سے قانون سے کہیں زیادہ وسیع ہیں، اگر قانون کے معیار کو بلند اور وسیع تر کرنا مقصود ہے تو پھر منطق اور ادبیات کے ابلاغ عامہ کے ان اکابرین کی گفتگو کے بعض حصے ڈال دیے جائیں تا کہ وکیل اپنے استدلال میں وزن پیدا کر سکے۔ زبان اور بیان کی بہتری کے لیے دنیا کے بڑے ادیبوں کے نثر پارے شامل نصاب کر دیے جائیں جیسا کہ محمد علی جوہر کا وہ حصہ جو انگریزوں سے جوابی تکرار میں تاریخ میں موجود ہے۔ یہ تمام تو اشارے ہیں معروف اساتذہ بیٹھ کر نصاب ترتیب دے سکتے ہیں، جہاں تک معیار کو بلند کرنے کی بات ہے یہ محض ہرزہ سرائی ہے، معیار تو اس وقت تک بلند نہیں ہو سکتا جب تک کہ ذریعہ تعلیم اور نصاب ایک نہ ہو، تا کہ معیار کا کوئی پیمانہ تو موجود ہو۔
کیا پی بی سی کو یہ نہیں معلوم ہے کہ عام لا کالجوں میں 3 سال میں ایل ایل بی کے تعلیمی اخراجات تقریباً ایک لاکھ روپے آتے ہیں، لہٰذا 5 برس میں یہ اخراجات کتنے ہو جائیں گے۔ اب طالب علم خود یہ اخراجات اٹھاتا ہے اور دن کی کلاسز کی وجہ سے طالب علم نوکری نہ کر سکیں گے اور یہ غریب والدین کو اٹھانے پڑیں گے لہٰذا وہ اپنی اضافی تعلیم جاری نہ رکھ سکیں گے، صبح کی تعلیم پر زور اسی لیے دیا گیا ہے کہ طالب علم کو پارٹ ٹائم نہیں کل وقتی مشغول رکھے مگر اس سے رٹنے کی صلاحیت میں تو اضافہ ہو گا لیکن علمی، منطقی، حکمتی چابکدستی میں اضافہ نہ ہو گا کہ بروقت حاضر جوابی سامنے آئے۔
جیسا کہ وکلا کی بلند ترین کلیدی جسم کی روح نے اپنی رائے پیش کی ہے مگر اس کے بھی (External) اسٹوڈنٹس کو روکنے میں پر جلتے ہیں کیونکہ اگر آپ کے پاس ایک سال کی تعلیم کے لیے5½ لاکھ روپے ہیں اور آپ اپنی اولاد کا داخلہ لندن یونیورسٹی میں یہاں کے بعض کالجوں کی طرح کرا سکتے ہیں تو بات ہی کوئی نہیں 5 لاکھ سالانہ فیس اور 50 ہزار اضافی یعنی 3 برس کے لیے 16/17 لاکھ روپے ادا کریں۔ کیا پاکستان بار کونسل ان کو روکنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
ہرگز نہیں بس ایک رقعہ وہ اس کونسل کو روانہ کریں گے تمام معاملات ختم، گویا آسانی سے تمام مشکلات کا ازالہ ہو جائے گا کیونکہ لندن یونیورسٹی کو اپنی رقم درکار ہے اور صاحب ثروت کو قانون کی ڈگری مل جائے گی اور اس جملے کو پاکستان بار کونسل نے کس انداز میں ادا کیا ہے، ذرا غور فرمائیے ''کوئی بین الاقوامی یونیورسٹی ایکسٹرنل اسٹوڈنٹس کے امتحان کا مجاز نہ ہو گی، اگر وہ داخلے کا پی بی سی کا اجازت نامہ نہ لیں گے''۔
ارے بھائی کیا مجال جو آپ لندن یونیورسٹی کے اجازت نامہ کو منسوخ کر سکیں۔ ملک میں ایسے کتنے ہی ادارے کام کر رہے ہیں، اگر ضرورت پڑے تو یہ ادارے من مانی بھی کر سکتے ہیں کیونکہ ایسے تمام تعلیمی ادارے سرمایے کی طاقت کو استعمال کرتے ہیں۔ اور یہ ادارے سرمایے سے توانائی حاصل کرتے ہیں، رہ گئے عام ملک کے نوجوان تو خود یہاں کے خودساختہ عالم فاضل معیار کے نام پر اپنا کھیل کھیل رہے ہوتے ہیں، ملک میں طبقاتی تعلیم تو جاری ہے مگر حالیہ فیصلہ اس سے بھی آگے کی چیز ہے۔
یہ حملہ اس وقت ہوا جب قوم کے اعصاب شل ہیں، طلبا تنظیمیں سیاست دانوں کی آلہ کار ہیں، جو نہیں بھی ہیں وہ کنفیوژن کا شکار ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا نصاب کی جدید ترتیب، تحقیق اور تجدید وقت کے زیاں کا سدباب، تعلیم کی راہ میں جتنے روڑے ہیں ہٹانے کا عمل جاری رہنا چاہیے تھا مگر سرمایہ کا حصول، عوام الناس کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے سے معیار تعلیم مزید پست اور عوام پر بارگراں گزرے گا۔ لیکن آپ کے ہاتھ میں طاقت ہے اس لیے:
خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
قیام پاکستان سے ایل ایل بی کی کلاسیں 2 سال کے لیے ہوتی تھیں اور اس نے وکلا کی کھیپ تیار کی جو ملک بھر میں اپنے فرائض انجام دے رہی ہے۔ موجودہ فیصلہ جو کیا گیا ہے اس کا اصل فائدہ کالجوں کو ہو گا۔اس فیصلے کو صادر کرنے سے پہلے بہت غور و فکر کی گئی کہ کس طرح غریب طبقات پر کاری ضرب لگائی جائے کیونکہ 90 فیصد وہ طلبا ہیں جو دن کو نوکری کرتے ہیں اور شام کو کالج میں جا کر حاضری دیتے ہیں اور اپنی محنت شاقہ سے تعلیم کے جوہر سے فیض یاب ہوتے ہیں۔
میری نظر میں خود کئی بڑے اور نامور وکلا ہیں جنھوں نے نوکری کر کے شام کے وقت تعلیم جاری رکھی۔ شام کو تعلیمی عمل بند کرنے کی سفارش بھی عام، کم حیثیت، طالب علموں کی حوصلہ شکنی کے مترادف ہے۔ افسوس کا مقام ہے طلبا تنظیموں کو یہ احساس فوری طور پر نہیں ہوا کہ اس کے اثرات دیرپا ہوں گے۔ اس خبر کو اس طرح شایع کیا گیا کہ یہ تمام عمل طلبا کے معیار تعلیم کو بلند کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ معیار تعلیم کو بلند کرنے کا شوشہ لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے چھوڑا گیا ہے۔
لا کالجوں میں عموماً وہ لڑکے اور لڑکیاں تعلیم حاصل کرتے ہیں جو انٹر سائنس میں کسی وجہ سے میڈیکل یا انجینئرنگ میں داخلہ نہیں لے پاتے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ نااہل ہیں بلکہ ان کے رجحانات کا صحیح جائزہ نہیں لیا جاتا کیونکہ کاروبار زندگی انسان اپنے ہاتھ میں نہیں رکھ پاتا۔ خدا ہر شخص سے الگ الگ کام لیتا ہے اور اس میں مداخلت ناممکن ہے اور کسی کے بس میں بھی نہیں، بلکہ تاریخ نے یہ بھی دیکھا ہے کہ دنیا کے بہت بڑے حساب داں حساب میں فیل ہوتے رہے ہیں، کیونکہ ان کے دماغ کی گہرائی کو اساتذہ بھی پہچاننے کے اہل نہ تھے۔ کون زیرک ہے اور کون کم زیرک یہ تو عمل کی دوڑ میں پتہ چلتا ہے۔
عملی زندگی میں صرف یہی نہیں کہ ملازمت کر کے پڑھنے والے کمتر نہیں ہوتے، اگر بار کونسل کے یہ ارکان اتنے ہی باکمال ہوتے تو اس فیلڈ میں یہ عالمی ایوارڈ لے لیتے یا ایسی کتابیں لکھ جاتے جو ملک کی قسمت بدل دیتے، یہ لوگ دراصل حکومت کی پالیسیوں پر عمل درآمد کرانے کے عوض کام کرتے ہیں، یہ چاہتے ہیں کہ کم پیسے والے لوگ تعلیم و حرفت میں آگے بڑھنے نہ پائیں۔ نہ صرف لا کالج میں نوکری پیشہ طالب علم داخلہ لیتے ہیں بلکہ اساتذہ جو خود دن میں پریکٹس کرتے ہیں شام کو استاد کی حیثیت سے نمایاں ہوتے ہیں۔
گویا آج سے پہلے جو کچھ پاکستان میں ہوا وہ غلط ہوا اور اب اصلاح ہو رہی ہے۔ واضح رہے کہ ایل ایل بی یا ایل ایل ایم کا ایم بی بی ایس سے تقابل غیر ضروری ہے۔ دنیا کے کتنے ملک ہیں جہاں تحریری دستور بھی موجود نہیں۔ جس میں لندن پیش پیش ہے جب کہ میڈیسن میں ممکنات نہیں جب کہ یہ زندگی کے روز مرہ اور سماجی مسائل اور ان کی پیچیدگیاں ہیں جو قانون کی گرفت میں آتی ہیں۔ اس لیے میڈیکل کے معاملات کا موازنہ قانون سے نہیں کیا جا سکتا۔ میڈیکل کے تجربات زندہ اور مردہ دونوں پر ممکن ہیں جب کہ قانون کا دائرہ کار الگ ہے، کسی شخص پر تجربہ کے طور پر حملہ نہیں کیا جا سکتا، زخمی نہیں کیا جا سکتا۔
میڈیکل کے مضامین ضخامت کے اعتبار سے قانون سے کہیں زیادہ وسیع ہیں، اگر قانون کے معیار کو بلند اور وسیع تر کرنا مقصود ہے تو پھر منطق اور ادبیات کے ابلاغ عامہ کے ان اکابرین کی گفتگو کے بعض حصے ڈال دیے جائیں تا کہ وکیل اپنے استدلال میں وزن پیدا کر سکے۔ زبان اور بیان کی بہتری کے لیے دنیا کے بڑے ادیبوں کے نثر پارے شامل نصاب کر دیے جائیں جیسا کہ محمد علی جوہر کا وہ حصہ جو انگریزوں سے جوابی تکرار میں تاریخ میں موجود ہے۔ یہ تمام تو اشارے ہیں معروف اساتذہ بیٹھ کر نصاب ترتیب دے سکتے ہیں، جہاں تک معیار کو بلند کرنے کی بات ہے یہ محض ہرزہ سرائی ہے، معیار تو اس وقت تک بلند نہیں ہو سکتا جب تک کہ ذریعہ تعلیم اور نصاب ایک نہ ہو، تا کہ معیار کا کوئی پیمانہ تو موجود ہو۔
کیا پی بی سی کو یہ نہیں معلوم ہے کہ عام لا کالجوں میں 3 سال میں ایل ایل بی کے تعلیمی اخراجات تقریباً ایک لاکھ روپے آتے ہیں، لہٰذا 5 برس میں یہ اخراجات کتنے ہو جائیں گے۔ اب طالب علم خود یہ اخراجات اٹھاتا ہے اور دن کی کلاسز کی وجہ سے طالب علم نوکری نہ کر سکیں گے اور یہ غریب والدین کو اٹھانے پڑیں گے لہٰذا وہ اپنی اضافی تعلیم جاری نہ رکھ سکیں گے، صبح کی تعلیم پر زور اسی لیے دیا گیا ہے کہ طالب علم کو پارٹ ٹائم نہیں کل وقتی مشغول رکھے مگر اس سے رٹنے کی صلاحیت میں تو اضافہ ہو گا لیکن علمی، منطقی، حکمتی چابکدستی میں اضافہ نہ ہو گا کہ بروقت حاضر جوابی سامنے آئے۔
جیسا کہ وکلا کی بلند ترین کلیدی جسم کی روح نے اپنی رائے پیش کی ہے مگر اس کے بھی (External) اسٹوڈنٹس کو روکنے میں پر جلتے ہیں کیونکہ اگر آپ کے پاس ایک سال کی تعلیم کے لیے5½ لاکھ روپے ہیں اور آپ اپنی اولاد کا داخلہ لندن یونیورسٹی میں یہاں کے بعض کالجوں کی طرح کرا سکتے ہیں تو بات ہی کوئی نہیں 5 لاکھ سالانہ فیس اور 50 ہزار اضافی یعنی 3 برس کے لیے 16/17 لاکھ روپے ادا کریں۔ کیا پاکستان بار کونسل ان کو روکنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
ہرگز نہیں بس ایک رقعہ وہ اس کونسل کو روانہ کریں گے تمام معاملات ختم، گویا آسانی سے تمام مشکلات کا ازالہ ہو جائے گا کیونکہ لندن یونیورسٹی کو اپنی رقم درکار ہے اور صاحب ثروت کو قانون کی ڈگری مل جائے گی اور اس جملے کو پاکستان بار کونسل نے کس انداز میں ادا کیا ہے، ذرا غور فرمائیے ''کوئی بین الاقوامی یونیورسٹی ایکسٹرنل اسٹوڈنٹس کے امتحان کا مجاز نہ ہو گی، اگر وہ داخلے کا پی بی سی کا اجازت نامہ نہ لیں گے''۔
ارے بھائی کیا مجال جو آپ لندن یونیورسٹی کے اجازت نامہ کو منسوخ کر سکیں۔ ملک میں ایسے کتنے ہی ادارے کام کر رہے ہیں، اگر ضرورت پڑے تو یہ ادارے من مانی بھی کر سکتے ہیں کیونکہ ایسے تمام تعلیمی ادارے سرمایے کی طاقت کو استعمال کرتے ہیں۔ اور یہ ادارے سرمایے سے توانائی حاصل کرتے ہیں، رہ گئے عام ملک کے نوجوان تو خود یہاں کے خودساختہ عالم فاضل معیار کے نام پر اپنا کھیل کھیل رہے ہوتے ہیں، ملک میں طبقاتی تعلیم تو جاری ہے مگر حالیہ فیصلہ اس سے بھی آگے کی چیز ہے۔
یہ حملہ اس وقت ہوا جب قوم کے اعصاب شل ہیں، طلبا تنظیمیں سیاست دانوں کی آلہ کار ہیں، جو نہیں بھی ہیں وہ کنفیوژن کا شکار ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا نصاب کی جدید ترتیب، تحقیق اور تجدید وقت کے زیاں کا سدباب، تعلیم کی راہ میں جتنے روڑے ہیں ہٹانے کا عمل جاری رہنا چاہیے تھا مگر سرمایہ کا حصول، عوام الناس کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے سے معیار تعلیم مزید پست اور عوام پر بارگراں گزرے گا۔ لیکن آپ کے ہاتھ میں طاقت ہے اس لیے:
خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے