ایک سچا مسیحا چاہیے

مہذب دنیا میں ذمے دار فوراً اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے ازخود اپنا عہدہ چھوڑ دیتے ہیں


نجمہ عالم January 28, 2016
[email protected]

گزشتہ دنوں باچا خان یونیورسٹی میں دہشت گردی کی واردات پر مختلف اخبارات میں لکھنے والوں نے اس سانحے کے ہر پہلو پر اس قدر ماہرانہ انداز میں روشنی ڈالی ہے جن کو پڑھ کر لگتا ہے کہ شاید وہ خود تربیت یافتہ سیکیورٹی اہلکار ہوں۔ کئی ایک نے اس بات کو اہم گردانہ ہے کہ جب خفیہ اداروں کی پیشگی اطلاع تھی کہ کوئی بڑی کارروائی ہونے والی ہے تو کیا صرف اطلاع سے کسی ہونے والے حادثے کو روکا جاسکتا ہے؟ یا اس کی روشنی میں کوئی حفاظتی منصوبہ بندی بھی ہونی چاہیے تھی۔

حادثہ ہوجانے کے بعد بھاگ دوڑکا فائدہ؟ جو ہونا تھا وہ تو ہوچکا۔ یہ تمام تحریریں پڑھ کر ہر صاحب عقل و فہم سوچ سکتا ہے کہ جب لکھنے والوں کے ذہن رسا اپنی تحریروں میں اس سانحے کے مختلف پہلو اس طرح اجاگرکرسکتے ہیں، ایسے حادثوں کے پیشگی تدارک کے اتنے آسان اور عام فہم حل پیش نہیں کرسکتے ہیں تو جو اسی کام کے لیے مقرر ہیں اور انھیں اسی صورتحال سے نپٹنے کی باقاعدہ تربیت بھی دی جاتی ہے اور ان پر زرکثیر بھی خرچ کیا جاتا ہے تو وہ کسی اطلاع پر متحرک کیوں نہیں ہوتے؟ جب کہ بالکل اسی نوعیت کا ایک واقعہ آرمی پبلک اسکول (پشاور) میں محض ایک سال قبل پیش آچکا ہے۔

تعلیمی ادارے مسلسل دہشتگردی کی زد پر ہیں۔ تازہ اطلاع ہے کہ سکیورٹی خدشات کے پیش نظر ملک بھر میں اے پی ایس اور فیڈرل بورڈ کے اسکول بند کردیے گئے ہیں، نجی تعلیمی اداروں نے سیکیورٹی کے نام پر فیسوں میں بھی کافی اضافہ کردیا ہے پھر بھی حفاظتی انتظام نہ ہونے کے برابر، سوائے اس کے کہ گیٹ کچھ پوچھ گچھ کے بعد کھولے جاتے ہیں طلبہ کے آنے جانے کے اوقات کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے (مگر نظر نہیں یعنی کچھ ہو جائے تو اس ریکارڈ سے تحقیق کی جاسکے) زیادہ سے زیادہ ایک بندوق بردار (گن مین) ادارے کی چھت پر مورچہ بند بٹھا دیا گیا ہے کہ وہ گیٹ اور سڑک پر نظر رکھے کچھ اداروں نے کیمرے نصب کردیے ہیں جو مختلف اطراف کی فلمبندی کرتے رہتے ہیں اور اس انتظام کے بعد سب بے فکر ہوگئے کہ سخت حفاظتی انتظامات کردیے گئے ہیں۔

تعلیمی اداروں میں الیکٹریشن، پلمبر، بڑھئی، مالی وغیرہ بڑے اداروں کے جن کا نیٹ ورک ملک بھر میں بنیادی سطح سے لے کر اعلیٰ سطح تک قائم ہے یہ سب ان کے ذاتی اور مستقل ملازمین ہوتے ہیں جس برانچ میں ان کی ضرورت ہوتی ہے ہیڈ آفس سے ان کو روانہ کردیا جاتا ہے۔

مگر گلی گلی محلہ محلہ قائم نجی اسکولوں میں یہ تمام کام عام لوگوں کو بلا کر کروائے جاتے ہیں، اب ان میں سے کون ادارے میں آکر اس کا مکمل نقشہ اپنے ذہن میں محفوظ رکھتا ہے اور وہ کس کس کو یہ معلومات فراہم کرسکتا ہے کہ حفاظتی انتظام کس طرف سے ناقص ہے اور عمارت کے کون سے حصے میں طلبا و اساتذہ اور عملے کے دیگر افراد کی آمد و رفت کم ہوتی ہے، کس طرف سے عمارت میں باآسانی داخل ہوکر وہاں موجود طلبا اور اساتذہ کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے (باچا خان یونیورسٹی میں ایسے ہی کام کرنے والے نے دہشت گردوں کو وہاں کا نقشہ فراہم کیا)

بعض لکھنے والوں نے اس واقعے پر اس قدر مدلل انداز میں لکھا ہے لگتا ہے کہ وہ تربیت یافتہ لوگ ہیں مثلاً یہ کہ خفیہ اطلاع پر اگر صوبے کے تمام تعلیمی اداروں کا جائزہ لے لیا جاتا کہ آیندہ چند دنوں میں کس کس ادارے میں کوئی تقریب ہونے والی ہے۔ پھر ایک فہرست ایسی تقریبات کی بنا لی جاتی جن میں باہر کے لوگوں کو بڑی تعداد میں مدعوکیا گیا ہو تو باآسانی یہ بات سامنے آجاتی کہ چند دنوں بعد باچا خان کی برسی ہے، اس حوالے سے صوبے کے کئی اداروں میں تقریبات منعقد ہوں گی، کچھ میں محض ادارے کے طلبا واساتذہ شریک ہوں گے اور کچھ میں بڑے پیمانے پر بیرونی مہمانوں کو بھی مدعو کیا جائے گا تو فوراً ہی متاثرہ یونیورسٹی میں ہونے والے مشاعرے کا علم ہوجاتا جس میں کافی تعداد میں بیک وقت مہمان شرکت کر رہے تھے، یہ تو طے ہے کہ دہشت گرد ایسے ہی موقعے کو اپنی کارروائی کے لیے منتخب کرتے ہیں کہ جب زیادہ سے زیادہ افراد ایک جگہ جمع ہوں۔

جب اس انداز میں کام کیا جاتا تو صوبے کے تمام تعلیمی اداروں میں متذکرہ یونیورسٹی میں ہونے والی تقریب پر فوراً نظر مرکوز ہوجاتی اور قبل از وقت مجرموں تک پہنچا جاسکتا تھا اور شاید ان کو زندہ گرفتار بھی کیا جاسکتا تھا اس طرح آگے کے تمام مراحل بلا کسی جانی نقصان کے آسانی سے گرفت میں آجاتے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب لکھنے والے اس انداز میں تحقیقاتی منصوبے پیش کرسکتے ہیں تو وہ لوگ جو ایسے ہی کاموں کے لیے مقرر ہیں وہ کیوں اس طرح کام نہیں کرسکتے؟

فیصل ایئربیس، سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملہ، کراچی ایئرپورٹ پر دہشت گردی، واہگہ بارڈر پر خودکش حملے کے علاوہ امام بارگاہوں، مساجد، گرجا گھروں میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کچھ زیادہ پرانے ہیں اور نہ بھلا دیے جانے والے۔ اس دہشت گردی کی نذر ایک اندازے کے مطابق تقریباً پانچ ہزار سے زائد شہری، فوجی جوان، پولیس اور رینجرز اہلکار ہوچکے ہیں اس کے باوجود شہریوں کی جان اور ملکی املاک کی حفاظت پر معمور لوگ جس قدر ان کو مستعد ہونا چاہیے نظر نہیں آتے۔ ہر سانحے کے بعد اس کی تحقیق پر ابتدا میں بڑی سرگرمی دکھائی جاتی ہے پھر وقت کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ معاملہ ٹھنڈا پڑنے لگتا ہے اور بات آئی گئی ہوجاتی ہے۔

اس صورتحال کے پس پشت بدعنوانی، رشوت، سفارش اور اقربا پروری کا عفریت کارفرما ہے جس کے باعث کسی بھی ادارے میں مطلوبہ قابلیت و اہلیت کے افراد کا فقدان نظر آتا ہے، اہلیت (میرٹ) کا قتلِ عام قوم کو آج اس مقام پر لے آیا ہے کہ پورا قومی ڈھانچہ ہی زمیں بوس ہوتا جا رہا ہے اور افسوس صد افسوس کہ اس صورتحال کا کسی کو احساس بھی نہیں جن کو احساس ہے وہ کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ یوں لگتا ہے کہ ذمے دار سمجھتے ہیں کہ دہشت گردوں کا یہ آخری حملہ تھا اب اس کے بعد وہ کچھ نہیں کریں گے، لہٰذا بے فکر ہوجانا چاہیے جب ہم بے فکری سے پاؤں پھیلا کر آرام فرما رہے ہوتے ہیں تو پھر کوئی بڑا واقعہ رونما ہوجاتا ہے۔ پھر سانپ نکلنے کے بعد لکیر پٹتی رہتی ہے۔

آرمی پبلک اسکول (پشاور) کے اندوہناک سانحے کے بعد قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد کا عزم کیا گیا تھا جو تحریر و تقریر کی حد تک تو بڑا اچھا تھا مگر عمل اس پر کس قدر ہوا؟ یہ ہم سب کی سمجھ سے بالاتر ہے۔ ہم پاکستانیوں نے تو اپنی ذمے داریاں پوری کرنے اور غلطیوں پر شرمندہ ہونا ایک مدت ہوئی چھوڑ دیا ہے۔

مہذب دنیا میں ذمے دار فوراً اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے ازخود اپنا عہدہ چھوڑ دیتے ہیں کسی کو مطالبہ کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔ جب کہ ہم کسی کے کہنے سننے کے باوجود بھی اپنے عہدوں اور کرسیوں سے چمٹے رہتے ہیں۔ برطرفی کا مطالبہ کرنے والے بھی اپنے مطالبے میں نہ سنجیدہ ہوتے ہیں نہ پرجوش، ذمے دار بھی پوری ڈھٹائی سے اپنے اپنے مقام پر براجمان رہتے ہیں۔ معاشرتی سطح پر یہ ایسی خوفناک صورتحال ہے جس کا من حیث القوم ہمیں شاید ادراک ہی نہیں۔

بے حسی، غیر ذمے داری، لاتعلقی کی جس کیفیت سے ہم دوچار ہیں وہ تنزلی کی جانب جاتے ہوئے مردہ معاشرے کی نشاندہی کرتی ہے۔ اگر یہ صورتحال کافی عرصے کسی قوم پر طاری رہے تو کوئی بھی اس کو مکمل تباہی سے نہیں بچا سکتا۔ اگر کسی قوم میں ذرا سی بھی حس باقی رہ جائے تو وہ گرتے گرتے ایک بار پھر سنبھل جاتی ہے ذرا اپنے اردگرد نظر دوڑائیں کتنی قومیں ہیں جو غار مذلت کے دہانے پر پہنچ کر پلٹ آئیں۔ آج طاقتور اور ترقی یافتہ قوموں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ خدا کرے ہمارے ساتھ بھی ایسا ہوجائے کوئی مسیحا ہمارے یہاں پیدا ہوجائے جو ہمیں غفلت و بے حسی کی نیند سے بیدار کردے۔ اے کاش۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں