سوائن فلو

اﷲ وہ وقت نہ لائے کہ راہ چلتے لوگ مرنے لگیں، قبرستان بھر جائیں، اسپتالوں میں جگہ نہ رہے اور تاریخ خود کو دہرائے۔


[email protected]

اﷲ وہ وقت نہ لائے کہ راہ چلتے لوگ مرنے لگیں، قبرستان بھر جائیں، اسپتالوں میں جگہ نہ رہے اور تاریخ خود کو دہرائے۔ برڈ فلو سے کہیں زیادہ خطرناک سوائن فلو کی وبا کا آغاز میکسیکو سے نہیں بلکہ امریکی ریاست کیرولینا سے ہوا اور دنیا کے کئی ممالک اس سے متاثر ہوئے، اس وبا نے مختلف براعظموں کا رخ کیا، ایشیا بھی محفوظ نہ رہا۔

آج کل ہمارا وطن عزیز بھی اس مہلک وبا کی زد میں ہے اور ہمارے پاس ہمیشہ کی طرح اس چیلنج سے نبرد آزما ہونے کے بھی موثر اور خاطر خواہ انتظامات و اقدامات ندارد۔ کراچی میں صرف سول اسپتال میں اس ٹیسٹ کی سہولت میسر ہے، اب اس کا معیار بھی کیا ہے خدا ہی بہتر جانے۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں صرف ایک سرکاری اسپتال میں سہولت تشویش کا مقام ہے۔

کیا اس مرتبہ بھی جنوبی ایشیا میں اس وبا سے ہلاکتوں کا تناسب سب سے زیادہ ہوگا؟ کیا 1918 کی طرح اس بار بھی جواں اموات زیادہ ہوںگی؟ کیا کم وسائل کے ساتھ اس وبا کا مقابلہ کیا جاسکے گا؟ کیا وبائی فلو ویکسین بروقت دستیاب ہوجائے گی؟ کیا غریب ممالک کی معیشت مزید تباہی سے دوچار تو نہیں ہوجائے۔ یہ اور ان جیسے کئی اہم سوالات کے جوابات بلکہ تسلی بخش حقائق پر مبنی جوابات ہمارے حکمرانوں کے پاس نہیں ہیں۔ حکومتوں نے کبھی اس سے نمٹنے کی اطمینان بخش تیاریاں نہیں کیں، دنیا کی دیگر حکومتیں بھی ایسے وبائی چیلنجز کے آگے بے بس نظر آئیں۔

412 قبل مسیح فلو کی وبائیت کا اولین تذکرہ حکیم بقراط سے ملتا ہے جس نے شمالی یونان کے شہر پیرنتھس (Perinthus) میں فلو جیسی وبا کا تذکرہ کیا ہے۔ کچھ مورخین کا خیال ہے کہ 404 قبل مسیح میں بھی یونانی شہر ایتھنز میں اس کی وبا آئی تھی۔ 1375 میں انفلوئنزا کی اصطلاح کا استعمال شروع ہوا، جو کہ اطالوی لفظ ہے جس کے معنی اثرات Influence کے ہیں۔

اس زمانے میں یہ خیال عام تھا کہ انفلوئنزا در اصل ستاروں کے اثرات کے باعث ہوتا ہے، انفلوئنزا کی پہلی وبائیت جس کا تاریخی ریکارڈ ملتا ہے، 1485 میں برطانیہ میں شروع ہوئی اور اس نامعلوم بیماری کو ''پسینہ لانے والا مرض'' (Sickness Sweating) کہا گیا، اس بیماری کے باعث مریض چند دن کے اندر ہی مرجاتا تھا۔

اس وبا سے 30,000 افراد ہلاک ہوئے۔ 1485 سے 1551 اس وبا نے چار مرتبہ حملہ کیا۔ 1551 میں جب یہ وبا ختم ہوئی تو اس وقت لوگوں کا خیال تھا کہ یہ بیماری شورپ شائر (Shropshire) کے جنگلات میں خوابیدگی میں چلی گئی ہے، چنانچہ بڑی تعداد میں جنگل کو کاٹ ڈالا گیا۔ 1580 میں فلو کی بڑی وبائیت کا تاریخ میں تذکرہ ملتا ہے جو یورپ، امریکا اور افریقہ میں پھیلی، اس زمانے میں اس نامعلوم بیماری کا علاج ڈاکٹر مریض کا خون بہاکر کیا کرتے تھے۔

اٹھارویں صدی میں فلو کی تین بڑی وباؤں کا علم ہے، جن میں پہلی وبا کا عرصہ 1729، دوسری کا 1732 تا 1733 اور تیسری وبائیت 1781 تا 1782 میں رہی۔ 1781 میں ایشیا سے شروع ہونے والی وبائیت روس تک پھیلتی چلی گئی تھی، انیسویں صدی انفلوئنزا وائرس سے پیدا ہونے والی چار بڑی وبائیں ملتی ہیں، پہلی وبا کا آغاز 1830 میں چین سے ہوا جو 1833 تک روس اور یورپ میں پھیلتی چلی گئی، اس وبائیت کے بارے میں تاثر یہی ہے کہ یہ 1918 کی وبائیت کی طرح مہلک تھی مگر اس وقت چوں کہ دنیا کی آبادی کم اور ذرایع آمدورفت اس قدر تیز نہ تھے، اس لیے یہ اس قدر لوگوں کو ہلاک نہ کرسکی۔

1886 تا 1887 میں بھی انفلوئنزا کی وبا پھیلی جس کا دائرہ اثر جنوبی نصف کرہ سے شمالی نصف کرہ کی جانب تھا۔ 1847سے 1848 میں بھی بحیرہ روم کے ممالک سے شروع ہونے والی وبا کا دائرہ یورپ تک پھیل گیا، اس صدی کی آخری وبا کا آغاز چین سے ہوا۔ 1889 میں ہونے والی یہ وبا چین سے روس تک اور دسمبر 1889 میں شمالی امریکا اور جاپان تک اپنی تباہ کاریاں مچاگئی۔ 1890 میں یہ وبا لاطینی امریکا اور ایشیا تک پہنچ گئی، اس کے باعث دس لاکھ افراد اس دارفانی سے کوچ کرگئے۔

بیسویں صدی میں فلو کی پانچ وباؤں کا تذکرہ ملتا ہے جن سے اس صدی کے آغاز پر پھیلنے والی وبا فلو کی تمام وباؤں سے بڑی اور مہلک تھی۔ 1918 کا ہسپانوی زکام ام الوبا (مدر آف آل پینڈیمک) بھی کہا جاتاہے۔ یہ عالمگیر وبائی فلو انسانی تاریخ کی بدترین آفت تھی۔ اس بیماری کے بارے میں میڈیکل سائنس بتانے سے قاصر تھی، ڈاکٹر تک نہ جان سکے کہ آخر یہ کیا بلا ہے، فلو جیسی علامات ہیں مگر مرنے والا یا تو نمونیہ سے مرتا ہے یا پھر اس کے گلے پر بھورا دھبہ نمودار ہوتا ہے، جسم نیلا پڑجاتا ہے، سانس لینے میں دشواری محسوس ہوتی ہے، ناک اور منہ سے خون آنے لگتا ہے۔

جس تیزی سے لوگ بیمار ہورہے تھے اس تیزی سے اموات واقع ہورہی تھیں۔ 1918 فلو کا دورانیہ 1918 سے 1919 تک 12 ماہ رہا، اس دوران اس فلو کی تین لہریں آئیں۔ نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن میں 1918 میں ہلاکتوں کا اندازہ 11 کروڑ 80 لاکھ سے 36 کروڑ کے درمیان لگایا گیا، یہ تعداد جنگ عظیم اول میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد سے کئی گنا زیادہ بنتی ہے، عموماً فلو کی وبائیت میں شرح ہلاکت 0.1 فیصد سے زیادہ نہیں ہوئی اس کے برعکس1918 کے فلو کی شرح ہلاکت 2.5 فیصد تھی۔فروری 1957 میں مشرق بعید کے ممالک سے پھیلنے والے ایشیائی فلو کی وجہ سے بیس لاکھ افراد لقمہ اجل بن گئے۔

1968 کے ہانگ کانگ فلو میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد دس لاکھ تھی، 1976 کے خنزیری فلو نے وبائیت کی شکل تو اختیار نہ کی تاہم اس کے خلاف ہونے والا برق رفتار ردعمل اس کی شہرت کا باعث بن گیا، اسے قاتل زکام (Killer Flu) کا نام دیاگیا۔ 1977 کے روسی فلو نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا، تاہم اسے وبائی فلو کی حیثیت نہ دی گئی، اس کے خلاف ویکسین بھی 1978-79 ہی تیار کرلی گئی۔

انفلوئنزا کی عالمگیر وبائیت کو درجہ بہ درجہ مختلف 6 درجوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، ایسے ممالک جہاں کمی واقع ہوچکی ہے اور متاثرہ افراد کی تعداد معمول کی سطح پر واپس آچکی ہے یعنی صرف اتنے افراد ہی متاثر ہورہے ہیں جتنے ہر سال اس بیماری سے متعلق موسم آنے پر ہوتے ہیں فلو وائرس کی تین ذاتیں (S'trains) پائی جاتی ہیں ہر سال ان تینوں ذاتوں کی کسی قدر تبدیل شدہ اقسام سے لوگ متاثر ہوتے رہتے ہیں، لیکن جلد ہی قدرتی مدافعتی نظام ان کے خلاف منظم ہوجاتا ہے، ہر سال دنیا بھر میں بیس ہزار افراد فلو کا شکار ہوتے ہیں۔

سوائن فلو یا خنزیری زکام سے مراد سور میں پیدا ہونے والی تنفسی بیماری ہے جو انفلوئنزا اے وائرس سے پیدا ہوتی ہے۔ 1931 میں پہلی بار سؤر میں انفلوئنزا کا سبب بننے والا وائرس HIN-1 شناخت کیا گیا سور کی وبائیت سال بھر رہتی ہے، اگر انسان کو کسی سور کے فلو وائرس کے باعث زکام ہوجائے تو اسے بھی خنزیری زکام کا نام دیاجاتا ہے، ہمارے جیسے غریب ممالک کم وسائل میں احتیاطی تدابیر اختیار کریں تو بھی بہتر نتائج کی امید ہے احتیاطی تدابیر کے ضمن میں خیال رکھیے کہ متاثرہ افراد سے تقریباً ایک میٹر (3 فٹ) کے فاصلے پر رہیے۔

بیمار ہوں یا صحت مند ہر صورت میں چھینکتے اور بلغم خارج کرتے وقت منہ پر رومال رکھیے، ہاتھ خوب اچھی طرح دھوئیے، نلکے کو بھی صاف رکھیے، متاثرہ شخص کے کھانے پینے کا سامان بالخصوص تولیہ اور دیگر استعمال کی اشیا الگ رکھیے گھر میں تازہ ہوا کی آمد و رفت کا مناسب بندوبست رکھیے، پرہجوم مقامات بازاروں اور اجتماعات میں جانے سے گریز کیجیے، گھر میں متاثرہ مریض کے لیے علیحدہ کمرہ یا گوشہ مخصوص کردیجیے، متاثرہ شخص کی خدمت یا تیمارداری کرتے وقت ناک پر مناسب ماسک کا استعمال رکھیے، اسپتالوں اور طبی مراکز کو چاہیے کہ وہ وائرس شکن ادویہ (اینٹی وائرلز) کے ساتھ ساتھ نمونیے سے بچاؤ کی دوائیں بھی پہلے سے ذخیرہ کرکے رکھیں جو ہنگامی حالات میں لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کے کام آئیںگی۔

مریضوں کی دیکھ بھال پر مامور عملہ بھی اپنے تحفظ اور بچاؤ کے ضمن میں تمام احتیاطی تدابیر کا خیال رکھے، مذہبی و سماجی رہنما بھی اس ضمن میں خصوصی کردار ادا کریں اور اپنے وعظ و خطبات میں لوگوں میں شعور بیدار کرتے ہوئے لوگوں کو صاف ستھرا رہنے کی بطور خاص تلقین کریں اسلام میں صفائی نصف ایمان کا درجہ رکھتی ہے۔ لہٰذا اس ضمن میں صفائی اور پاکیزگی کے وہ تمام طریقے جن کی اسلام نے تعلیم دی ہے ان پر مکمل عمل انتہائی ضروری ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں