مدیر کی مجبوریاں
’’میں ادھارچند بول رہا ہوں، میرا افسانہ ’’اگربتی بنانے کا طریقہ‘‘ شایع ہوگیا؟‘‘
ٹیلی فون کی گھنٹی بج رہی تھی اور ماہنامہ ''لکڑ بگھا'' کا مدیر گوہر ریگستانی اپنے پرچے کی پروف ریڈنگ کررہا تھا۔ ''ہیلو'' اس نے ریسیور اٹھا کر کہا۔
''میں ادھارچند بول رہا ہوں، میرا افسانہ ''اگربتی بنانے کا طریقہ'' شایع ہوگیا؟''
''کب بھیجا تھا؟''
''جی پرسوں''
''بھئی ادھارچند ہم روزنامہ تھوڑا ہی شایع کرتے ہیں، ماہنامہ شایع کرتے ہیں۔ ذرا سا صبر کیجیے۔''
''اور کتنا صبر کروں؟ دو روز تو ہوگئے؟'' ادھارچند نے پوچھا۔
''ابھی تو یہ تک نہیں معلوم کہ وہ ہم تک پہنچا یا نہیں یا ڈاک کے مراحل طے کر رہا ہے۔ بہرحال قابل اشاعت ہوا تو عنوان تبدیل کرنے کے بعد شایع ہوجائے گا۔''
''دیکھئے عنوان نہ تبدیل کیجیے گا۔ ورنہ...''
''بھئی میں ادبی پرچا شایع کرتا ہوں۔ نولکھا پبلی کیشنز کی طرح سے مرغی خانہ کھولیے، صابن بنانے کے طریقے، سگریٹ خود ہی بنائیے، کشیدہ کاری کیجیے وغیرہ پر کتابیں شایع نہیں کرتا۔'' ریگستانی نے کہا اور ریسیور کریڈل پر رکھ دیا۔
وہ اپنی جھینگا کرسی کی طرف مڑا ہی تھا کہ فون کی گھنٹی دوبارہ بجنے لگی۔ اس نے جھنجلا کر ریسیور اٹھایا تو وہی آواز دوبارہ سنائی دی۔ ''آپ نے یہ تو بتایا نہیں کہ افسانہ کب شایع ہوگا؟''
ریگستانی نے اپنی میز کی طرف دیکھا، جس پر افسانوں کی چار اور نظموں، غزلوں کی آٹھ ڈھیریاں رکھی تھیں۔ ملک میں ہر خاص و عام کو افسانہ نگار اور شاعر بننے کا خبط ہوگیا تھا۔ اتنا کہ جس محلے میں ایک پتھر اٹھاؤ، دو تین شاعر نیچے سے نکل آتے تھے۔ کسی کی کوئی چیز لکڑ بھگا میں شایع ہوجائے تو بچھا جاتا تھا اور دعوت کرنے پر تل جاتا تھا۔ کچھ نہیں تو گھر سے کھانا پکوا کر لے آتا تھا۔ پھر ان جملوں کے ساتھ رخصت ہوتا کہ ''ذرا خیال رکھیے گا۔''
جس کا سلیس اردو میں ریگستانی کو ترجمہ کرنا آتا تھا۔ اگلے شمارے میں میری غزل ضرور شایع کیجیے گا، ورنہ تعلقات خراب ہوجائیں گے۔ ریگستانی بھنّا اٹھتا کہ میں مدیر ہوں کہ پی آر او؟ اس نے کہا۔ ''کم از ایک سال تو ضرور لگے گا۔ اس شرط کے ساتھ کہ افسانہ یا مضمون قابل اشاعت ہوا۔ ایک سال بعد بھی شایع نہ ہو تو ازخود سمجھ لیجیے گا کہ وہ ناقابل اشاعت تھا۔
ڈاک سے ہم اطلاع نہیں دیتے، اس لیے کہ ڈاک خرچ بہت بڑھ گیا ہے'' (یہ اس زمانے کی بات ہے جب تیسرے درجے کے افسانہ نگاروں کے پیچھے نہیں دوڑنا پڑتا تھا اور وہ خود دوڑتے ہوئے دفتر تک آجاتے تھے اور ملک میں ادبی رسائل کا بھونچال آیا ہوا تھا۔ اور ہر گلی، ہر محلے سے ایک ادبی پرچا شایع ہورہا تھا۔ اس بھونچال پر ڈائجسٹوں نے ہی قابو پایا اور قوم کو ڈائجسٹوفوبیا میں مبتلا کردیا)
پندرہ منٹ تو خیریت سے گزر گئے۔ اس کے بعد پھر فون کی گھنٹی بجی۔ ریگستانی نے ریسیور اٹھا کر ہیلو کہا تو ''سمرقند بخارا'' کی آواز سنائی دی۔ وہ شکایتی لہجے میں کہہ رہا تھا۔ ''یہ آپ نے میری غزل کیسے شایع کی ہے؟''
''جیسے سب کی شایع ہوتی ہیں، کیوں؟'' ریگستانی نے جواب دیا۔
''دوسرا مصرعہ پانچویں مصرعہ کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ ساتواں نویں کے ساتھ ہے۔ اگر پورا شعر غائب ہوتا تو صبر کرلیا جاتا کہ آپ کو پسند نہیں آیا ہوگا، لہٰذا ایڈٹ کردیا، مگر یہاں تو معاملہ جدا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پروف ریڈنگ سرے سے نہیں ہوئی ہے، الفاظ جگہ جگہ سے اڑ گئے ہیں، میری توبہ جو میں آیندہ...''
''آیندہ آپ اپنی غزلیں ہمیں نہ بھیجئے گا اور ماہنامہ ''گھامڑ'' میں ارسال کردیجیے گا۔ دراصل آخر میں ایک صفحہ خالی جارہا تھا، میں جس اشتہار کا انتظارکررہا تھا، وہ نہیں آیا تو مجبوراً جو کچھ ملا اسے جگہ دے دی۔ پھر لائٹ چلی گئی۔
گھپ اندھیرا۔ کاپیاں پریس جانا تھیں۔ ''اندھا دھند'' پرنٹرز کے مالک ''اللہ رکھا خیابانی'' نے کہا تھا کہ اگر کاپیاں بھیج دیجیے گا تو روزنامہ ''اندھیری روشنی''چھپنے کے بعد لکڑ بگھا کی پلیٹیں لگا دیں گے اور دو گھنٹے میں پرچا چھپ جائے گا، چنانچہ موم بتی کی روشنی میں اندھادھند پروف ریڈنگ ہوئی اور پرچا تیار کرکے اندھا دھند پریس پہنچادیا گیا۔ مزے کی بات وہ چھپ بھی گیا۔ دوسرے دن مارکیٹ میں آگیا، تو پچھلے پرچے کی رقم مل گئی۔ حقیقت میں جب اگلا پرچا اسٹالوں پر پہنچ جاتا ہے تو دوسرے کی واپسی ہوتی ہے اور پھر حساب کتاب۔'' ریگستانی نے وضاحت کی۔
''کاتب نے سیاہی ٹھیک استعمال نہیں کی۔''
''ہمارا پرچا لیتھو پر شایع ہوتا ہے۔'' ریگستانی نے معذرت کی۔ ''آپ درست کہہ رہے ہیں۔ سیاہی ختم ہوچکی تھی۔ اب رات ایک بجے کون دکان کی طرف جاتا؟ اس لیے پانی ملا کر کام چلا لیا گیا۔ ممکن ہے کہیں سے اڑ گیا ہو۔ بات آپ سمجھ رہے ہیں نا؟ رات کا ایک بجا تھا اور سیاہی ختم، پرچا وقت پر ہی شایع کرنا تھا۔ اس لیے...''
''اب میں اپنے دوستوں کے سامنے کہاں تک وضاحت کروں؟'' سمرقند بخارا نے گلوگیر آواز میں کہا۔
''کسی سے یہ کہنے کی ضرورت ہی نہیں ہے کہ آپ کی غزل اس شمارے میں شایع ہوئی ہے۔ میں آیندہ ماہ اسے دوبارہ شایع کردوں گا، خوبصورت فریم کے ساتھ۔'' ریگستانی نے اسے تسلی دی۔
وہ جھانسے میں آگیا اور اس نے گریہ وزاری کرتے ہوئے فون بند کردیا۔
اس روز کوئی اور الجھن آمیزکال نہیںآئی۔ البتہ شام کو محمود خراسانی آگئے۔ وہ ایک کالج میں پڑھاتے تھے اور انھیں رومانی ناول لکھنے کا بہت شوق تھا (حالانکہ ان کی عمر مرثیہ اور نوحہ لکھنے کی تھی) ان کا ایک ناولٹ لکڑ بگھا کے تازہ شمارے میں ''چارپائی کے نیچے'' شایع ہوچکا تھا۔ شمارہ ان کے ہاتھ میں تھا۔ انھوں نے پہلے تو اپنی شیروانی اتاری پھر صوفے پر نیم دراز ہوتے ہوئے کہا۔
''چائے وغیرہ منگواؤ۔'' (وغیرہ کا مطلب تھا بسکٹ یا پیسٹری) جب ریگستانی نے باہر والے کو آواز دے کر بلایا تو انھیں اطمینان ہوگیا کہ چائے وغیرہ کے ساتھ آہی جائے گی۔ اس کے بعد انھوں نے پرچا کھول کر اپنا ناولٹ دکھایا اور بولے۔ ''یہ کتابت کیسی ہے؟ جگہ جگہ سے الفاظ ٹوٹے ہوئے۔ بعض جگہ تو اتنا پھیکا پن ہے کہ لگتا ہے جیسے سیاہی استعمال نہیں کی گئی ہے، کوئلہ گھول کر کام چلا لیا گیا ہے۔ سچ بتاؤ کیا بات ہے؟ باقی پرچا تو چمک رہا ہے۔''
ریگستانی نے پرچے کا جائزہ لیا اور بولا ''یہ پلیٹ صحیح نہیں بنی ہے۔ پریس والے پیسے تو پورے لے لیتے ہیں، لیکن کام صحیح کرکے نہیں دیتے۔ اب کیا کروں؟ اچھن میاں (کاتب) سے کئی بار کہہ چکا ہوں کہ سیاہی اچھی استعمال کیا کریں، مگر وہ مصر ہیں کہ اس سے اچھی مارکیٹ میں نہیں ملتی۔ یہ سیاہی اگر آپ کے منہ پر مل دی جائے تو آپ چھ ماہ تک کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔''
رات کو جب انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ سے اس کے دوست محسن کی کال آئی تو اس کے ہوش اڑ گئے کہ اس کے پرچے کا ڈیکلیئریشن کینسل کیا جاچکا ہے۔ اس لیے کہ اس نے تازہ شمارے میں منٹو کا افسانہ چھاپ دیا ہے۔ ''مگر اس پر تو کافی عرصہ پہلے مقدمہ چل چکا ہے اور منٹو نے اپنا کیس لڑ کر خود کو بری کرالیا تھا۔''
''تم میں ہمت ہے تو اپنا کیس لڑو اور پرچے کو بحال کرالو۔ گزشتہ دنوں تم نے یہ خبر نہیں سنی کہ ایک نیوز ریڈر کو ملازمت سے محض اس لیے برطرف کردیا گیا کہ اس نے سر پہ دوپٹہ اوڑھنے سے انکار کردیا تھا۔ یہ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اسلام کی آمد آمد ہے۔''
پرچے کی سالگرہ منانے سے پہلے ہی ریگستانی اتنا دل شکستہ ہوا کہ اس نے لیتھو کے چار جزو چبائے اور سیاہی کی دو بڑی بوتلیں پی کر دنیا کو داغ مفارقت دے دیا۔ واللہ اعلم بالصواب۔