کوریا کا مسئلہ اور سامراج
آج سامراج شکست خوردہ ہے اور وہ رجعتی طاقتوں کا سہارا لے کر آگے بڑھنا چاہتا ہے۔
جنوری کے اوائل میں عوامی جمہوریہ کوریا (شمالی کوریا) کے چوتھے ایٹمی دھماکے کے ساتھ اس اعلان نے کہ ''ہم ایک ایسی ریاست بن گئے ہیں جس کے پاس ہائیڈروجن بم بھی ہے۔'' امریکا اور اس کے اتحادی نیٹو ممالک کے ایوانوں میں بھونچال کی کیفیت پیدا کردی۔ اس مسئلے پر مغربی پریس نے تب سے پروپیگنڈے کا ایک طوفان گرم کر رکھا ہے جس کی دیکھا دیکھی ہمارے لکیر کے فقیر اور کوریائی تاریخ سے نابلد نجی چینلز کے کچھ اینکرز نے بھی اسی لہجے کی جگالی کی جو تقریباً 70 سال سے عوامی جمہوری کوریا کے خلاف سامراج کا وتیرہ ہے۔
ایک طرف امریکا، برطانیہ، جاپان اور مقبوضہ کوریا (جنوبی کوریا) کی کٹھ پتلی حکومت اور دیگر شامل باجے اس اقدام کی مذمت کر رہے ہیں تو دوسری جانب امریکی وزیر خارجہ فرماتے ہیں کہ ''اگر شمالی کوریا نے واقعی ہائیڈروجن بم کا دھماکا کیا ہے تو امریکا اپنے علاقائی اتحادیوں کے ساتھ مل کر شمالی کوریا کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل تیار کرے گا''۔ موصوف نے مزید فرمایا کہ ''ہم اپنے دوستوںکو اکیلا نہیں چھوڑ سکتے۔''
اب ان سے کوئی پوچھے کوریا کے خلاف لائحہ عمل پر تو آپ 1866 سے عمل پیرا ہیں، جب ''جنرل شرمن'' نامی پہلا امریکی بحری جہاز ''سفارتی روابط'' کے نام پر کوریا کے دریائے تائی دونگ میں داخل ہوا تھا اورکوریائی عوام نے اس کے خلاف شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کوریا کے موجودہ صدر کم جونگ ان کے دادا کامریڈ کم ال سنگ کے جد امجد ''کم انگ بو'' می کی قیادت میں اس پر حملہ کرتے ہوئے اس بھگادیا تھا۔
دوسری عالمگیر جنگ کے زمانے میں جب جاپانی سامراج کے خلاف پندرہ سال طویل گوریلا جنگ کے بعد کامریڈ کم ال سنگ کی قیادت میں اہل کوریا نے آزادی حاصل کی تو اسے تقسیم کرنا بھی آپ ہی کے لائحہ عمل کا حصہ تھا۔ اس کے بعد کوریا پر تین سالہ جنگ مسلط کرنا بھی آپ ہی کے لائحہ عمل کا حصہ تھا، جس میںآپ کی قیادت میں 16 ممالک کی 18 لاکھ فوج کی بہرحال آپ کو شکست ہی ہوئی۔دنیا کو کوریا میں قصاب کا کردار ادا کرنیوالا آپ کا جنرل میکارتھر بخوبی یاد ہے، جو شمالی کوریا کو فتح کرنے چلا تھا اور مانچوریا کی سرحد پر کھڑے ہو کر چین میں داخل ہونے کی بڑ ہانک رہا تھا۔
لیکن اسے اپنے تمام تر ٹائٹلز سے محروم ہوتے ہوئے برطرف ہونا پڑا تھا۔ 27 جولائی 1953کو جب امریکی سامراجیوں نے پانمو نجوم کے مقام پر عوامی جمہوری کوریا کے سرخ پرچم کے آگے سر خم کرتے ہوئے جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط کیے تو ''اقوام متحدہ کی افواج'' کے امریکی کمانڈر انچیف نے ان الفاظ میں اپنی ذلت آمیز شکست کا اعتراف کیا ''اپنی حکومت کی ہدایات پر عملدرآمد کرتے ہوئے مجھے یہ ناقابل رشک اعزاز ملا ہے کہ میں تاریخ میں امریکی افواج کا پہلا ایسا کمانڈر بن گیا ہوں جس نے فتح حاصل کیے بغیر جنگ بندی تسلیم کی ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ ہر چیز ناکام ہوئی ہے اور میں محسوس کرتا ہوں کہ میرے پیش رو جنرل ڈگلس میکارتھر اور جنرل میتھور جوے کی بھی یہی رائے تھے''۔بہرحال جنگ بندی کے وقت جو معاہدہ کیا گیا تھا اس سے روگردانی بھی آپ کے لائحہ عمل کا حصہ تھا اور اس کے بعد آج تک کوریا کو گھیراؤ بھی آپ کی پالیسی کا جزولاینفک ہے۔ 27 جولائی 1953 کو جو معاہدہ ہوا تھا امریکا نے اسے قبول نہیں کیا۔ اس معاہدے میں طے ہوا تھا کہ کوریائی خطے کو اسلحے سے پاک کیا جائے گا، مگر آج 62 سال بعد بھی وہاں مسلسل سامراجی فوجی مشقیں جاری ہیں۔
رہ گئی اپنے دوستوں کو تنہا نہ چھوڑنے کی بات، تو تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ امریکا نے ہمیشہ اپنے دوستوں کو تنہا ہی چھوڑا ہے۔ ایران کا رضا شاہ پہلوی، ویتنام کا ڈیم، فلپائن کا مارکوس اور چلی کا پنوشے اس کی بہترین مثالیں ہیں۔
دراصل امریکی سامراج نے گزشتہ کئی دہائیوں سے آزاد ممالک اور اقوام کے وسائل پر قبضہ کرنے اور انھیں غلام بنانے کے لیے غیر علانیہ طور پر تیسری عالمی جنگ چھیڑی ہوئی ہے۔ اس جنگ کے نتیجے میں وہ صومالیہ، سوڈان، عراق، افغانستان اور لیبیا پر قبضہ کرچکا ہے اور شام کی قومی آزادی کو سلب کرکے وہاں اپنے پٹھوؤں کو مسلط کرنا چاہتا ہے اور یہی کچھ وہ عوامی جمہوریہ کوریا (شمالی کوریا) کے خلاف جارحیت کرکے کرنا چاہتا ہے۔
امریکی سامراج نے گزشتہ 70 سال سے عوامی جمہوریہ کوریا (شمالی کوریا) کا گھیراؤ کر رکھا ہوا ہے اور جنوبی کوریا کو اپنے قبضے میں رکھ کر وہاں نہ صرف 30 ہزار سے زائد امریکی فوجی مستقل بنیادوں پر رکھے ہوئے ہیں، بلکہ وہاں اپنے جارحانہ سامراجی عزائم کے پیش نظر درجنوں فوجی اڈے بھی قائم کیے ہوئے ہیں جب کہ جاپان میں بھی فوجی اڈے قائم کرکے خطے میں جنگی جنون کو ہوا دے رہا ہے۔ امریکا نے اقوام متحدہ کو درحقیقت اپنا ذیلی ادارہ بنا رکھا ہے اور اس کی آڑ میں سامراج دشمن ریاستوں خصوصاً کیوبا، وینزویلا، شام، اور عوامی جمہوریہ کوریا کے خلاف غیر انسانی اور ظالمانہ پابندیاں لگانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ یہ سب کچھ امریکی سامراج ان ممالک کو انھیں آزاد نقطہ نظر اپنانے کی سزا کے طور پر کررہا ہے۔
کوریائی کمیونسٹوں کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ دونوں کوریاؤں کو متحد کردیا جائے مگر امریکی سامراج اور اس کی کاسہ لیس کٹھ پتلی جنوبی کوریائی حکومت یہ ماننے کو تیار نہیں ہے، جو کہ سامراجی منافقت کی بہت بڑی مثال ہے۔ دوسری عالمگیر جنگ کے بعد دنیا بھر میں امن قائم ہوگیا تھا مگر اس کے خاتمے کے بعد بھی کوریا کو مسلسل حالتِ جنگ میں رکھا گیا اور سامراج نے اس کا گھیراؤ کیا ہوا ہے تاکہ سوشلزم کو ختم کیا جاسکے اور وہاں کے محنت کشوں نے جس سرمایہ دارنہ نظام سے نجات حاصل کی ہے اسے دوبارہ ان پر مسلط کردیا جائے۔
لیکن یہ سامراج کی خیال خامی ہے کیونکہ کوریائی سوشلزم اپنی زمین کی معروضی صداقتوں سے پیدا ہوا ہے اور اس وقت دنیا کی سب سے بڑی سامراجی قوت کو جواب دے رہا ہے۔ سوشلسٹ کوریا نے نہ صرف دس لاکھ دانشور تیار کیے بلکہ اس نے ایک مضبوط نظریاتی فوج بھی تیار کی ہے۔ جب تک سوویت یونین قائم تھا، کوریا نے اس وقت تک ایٹم بم بنانے کی کوشش بھی نہیں کی مگر اس کے بعد جب سامراج بدمست ہاتھی بنا تو اس کو جواب دینے کے لیے سوشلسٹ کوریا نے ایٹمی طاقت حاصل کی۔ سامراج اور اس کے گماشتوں کو کبھی بھی یقین نہیں تھا کہ ایک ایسا ملک جس کا نصف صدی سے بھی زیادہ عرصے سے گھیراؤ جاری ہے، وہ ایٹم بم بنالے گا مگر کوریا نے اس کے سارے تخمینے اور اندازے غلط ثابت کیے۔
اگر شمالی کوریا ایٹمی قوت نہیں بنتا تو اس کا حشر بھی عراق، افغانستان اور لیبیا جیسا کیا جاتا۔ہر ملک کو اپنے دفاع کا حق ہے تاکہ وہ اپنی ترقی اور عوام کا تحفظ کرسکے۔ ایٹمی اسلحہ دنیا بھر میں ختم ہونا چاہیے اور اس سلسلے میں کسی کے ساتھ امتیاز نہیں برتنا چاہیے۔ اگر امریکا، برطانیہ، فرانس اور دیگر ممالک اپنے ایٹمی اسلحے کے ذخائر کو تلف کرنے پر راضی نہیں ہیں تو انھیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ دوسرے ممالک کو اپنی حفاظت کے لیے کیے جانے والے اقدامات سے روک سکے۔ اس سلسلے میں امریکی سامراج اور اس کے حواریوں کی منافقت دنیا بھر پر عیاں ہے۔
عوامی جمہوریہ کوریا کے محنت کش عوام نے اپنی پارٹی کی قیادت میں سامراج کے خلاف جو کامیاب مزاحمت جاری رکھی ہے اور اپنی سوشلسٹ ترقی و حاصلات کو قائم رکھا ہے یہ دراصل ان کی دفاعی مضبوطی کے باعث ہی ممکن ہوسکا ہے، جس سے امریکی سامراج اور خطے میں موجود اس کے گماشتے خوفزدہ ہیں۔کوریا نے یہ سبق دیا ہے کہ اگر پارٹی آپ کے ساتھ ہے اور وہ لوگوں کی پارٹی ہے تو سامراج کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔
آج سامراج شکست خوردہ ہے اور وہ رجعتی طاقتوں کا سہارا لے کر آگے بڑھنا چاہتا ہے۔ نام نہاد سپر طاقتوں کے پاس امن کا کوئی فارمولا نہیں ہے، یہ محنت کش عوام کے پاس ہے۔ لڑائی امریکی عوام کے ساتھ نہیں ہے بلکہ ان کے سامراجی حکمرانوں کے ساتھ ہے جن کے مظالم کا خود امریکی عوام بھی شکار ہیں۔
ایک طرف امریکا، برطانیہ، جاپان اور مقبوضہ کوریا (جنوبی کوریا) کی کٹھ پتلی حکومت اور دیگر شامل باجے اس اقدام کی مذمت کر رہے ہیں تو دوسری جانب امریکی وزیر خارجہ فرماتے ہیں کہ ''اگر شمالی کوریا نے واقعی ہائیڈروجن بم کا دھماکا کیا ہے تو امریکا اپنے علاقائی اتحادیوں کے ساتھ مل کر شمالی کوریا کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل تیار کرے گا''۔ موصوف نے مزید فرمایا کہ ''ہم اپنے دوستوںکو اکیلا نہیں چھوڑ سکتے۔''
اب ان سے کوئی پوچھے کوریا کے خلاف لائحہ عمل پر تو آپ 1866 سے عمل پیرا ہیں، جب ''جنرل شرمن'' نامی پہلا امریکی بحری جہاز ''سفارتی روابط'' کے نام پر کوریا کے دریائے تائی دونگ میں داخل ہوا تھا اورکوریائی عوام نے اس کے خلاف شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کوریا کے موجودہ صدر کم جونگ ان کے دادا کامریڈ کم ال سنگ کے جد امجد ''کم انگ بو'' می کی قیادت میں اس پر حملہ کرتے ہوئے اس بھگادیا تھا۔
دوسری عالمگیر جنگ کے زمانے میں جب جاپانی سامراج کے خلاف پندرہ سال طویل گوریلا جنگ کے بعد کامریڈ کم ال سنگ کی قیادت میں اہل کوریا نے آزادی حاصل کی تو اسے تقسیم کرنا بھی آپ ہی کے لائحہ عمل کا حصہ تھا۔ اس کے بعد کوریا پر تین سالہ جنگ مسلط کرنا بھی آپ ہی کے لائحہ عمل کا حصہ تھا، جس میںآپ کی قیادت میں 16 ممالک کی 18 لاکھ فوج کی بہرحال آپ کو شکست ہی ہوئی۔دنیا کو کوریا میں قصاب کا کردار ادا کرنیوالا آپ کا جنرل میکارتھر بخوبی یاد ہے، جو شمالی کوریا کو فتح کرنے چلا تھا اور مانچوریا کی سرحد پر کھڑے ہو کر چین میں داخل ہونے کی بڑ ہانک رہا تھا۔
لیکن اسے اپنے تمام تر ٹائٹلز سے محروم ہوتے ہوئے برطرف ہونا پڑا تھا۔ 27 جولائی 1953کو جب امریکی سامراجیوں نے پانمو نجوم کے مقام پر عوامی جمہوری کوریا کے سرخ پرچم کے آگے سر خم کرتے ہوئے جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط کیے تو ''اقوام متحدہ کی افواج'' کے امریکی کمانڈر انچیف نے ان الفاظ میں اپنی ذلت آمیز شکست کا اعتراف کیا ''اپنی حکومت کی ہدایات پر عملدرآمد کرتے ہوئے مجھے یہ ناقابل رشک اعزاز ملا ہے کہ میں تاریخ میں امریکی افواج کا پہلا ایسا کمانڈر بن گیا ہوں جس نے فتح حاصل کیے بغیر جنگ بندی تسلیم کی ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ ہر چیز ناکام ہوئی ہے اور میں محسوس کرتا ہوں کہ میرے پیش رو جنرل ڈگلس میکارتھر اور جنرل میتھور جوے کی بھی یہی رائے تھے''۔بہرحال جنگ بندی کے وقت جو معاہدہ کیا گیا تھا اس سے روگردانی بھی آپ کے لائحہ عمل کا حصہ تھا اور اس کے بعد آج تک کوریا کو گھیراؤ بھی آپ کی پالیسی کا جزولاینفک ہے۔ 27 جولائی 1953 کو جو معاہدہ ہوا تھا امریکا نے اسے قبول نہیں کیا۔ اس معاہدے میں طے ہوا تھا کہ کوریائی خطے کو اسلحے سے پاک کیا جائے گا، مگر آج 62 سال بعد بھی وہاں مسلسل سامراجی فوجی مشقیں جاری ہیں۔
رہ گئی اپنے دوستوں کو تنہا نہ چھوڑنے کی بات، تو تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ امریکا نے ہمیشہ اپنے دوستوں کو تنہا ہی چھوڑا ہے۔ ایران کا رضا شاہ پہلوی، ویتنام کا ڈیم، فلپائن کا مارکوس اور چلی کا پنوشے اس کی بہترین مثالیں ہیں۔
دراصل امریکی سامراج نے گزشتہ کئی دہائیوں سے آزاد ممالک اور اقوام کے وسائل پر قبضہ کرنے اور انھیں غلام بنانے کے لیے غیر علانیہ طور پر تیسری عالمی جنگ چھیڑی ہوئی ہے۔ اس جنگ کے نتیجے میں وہ صومالیہ، سوڈان، عراق، افغانستان اور لیبیا پر قبضہ کرچکا ہے اور شام کی قومی آزادی کو سلب کرکے وہاں اپنے پٹھوؤں کو مسلط کرنا چاہتا ہے اور یہی کچھ وہ عوامی جمہوریہ کوریا (شمالی کوریا) کے خلاف جارحیت کرکے کرنا چاہتا ہے۔
امریکی سامراج نے گزشتہ 70 سال سے عوامی جمہوریہ کوریا (شمالی کوریا) کا گھیراؤ کر رکھا ہوا ہے اور جنوبی کوریا کو اپنے قبضے میں رکھ کر وہاں نہ صرف 30 ہزار سے زائد امریکی فوجی مستقل بنیادوں پر رکھے ہوئے ہیں، بلکہ وہاں اپنے جارحانہ سامراجی عزائم کے پیش نظر درجنوں فوجی اڈے بھی قائم کیے ہوئے ہیں جب کہ جاپان میں بھی فوجی اڈے قائم کرکے خطے میں جنگی جنون کو ہوا دے رہا ہے۔ امریکا نے اقوام متحدہ کو درحقیقت اپنا ذیلی ادارہ بنا رکھا ہے اور اس کی آڑ میں سامراج دشمن ریاستوں خصوصاً کیوبا، وینزویلا، شام، اور عوامی جمہوریہ کوریا کے خلاف غیر انسانی اور ظالمانہ پابندیاں لگانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ یہ سب کچھ امریکی سامراج ان ممالک کو انھیں آزاد نقطہ نظر اپنانے کی سزا کے طور پر کررہا ہے۔
کوریائی کمیونسٹوں کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ دونوں کوریاؤں کو متحد کردیا جائے مگر امریکی سامراج اور اس کی کاسہ لیس کٹھ پتلی جنوبی کوریائی حکومت یہ ماننے کو تیار نہیں ہے، جو کہ سامراجی منافقت کی بہت بڑی مثال ہے۔ دوسری عالمگیر جنگ کے بعد دنیا بھر میں امن قائم ہوگیا تھا مگر اس کے خاتمے کے بعد بھی کوریا کو مسلسل حالتِ جنگ میں رکھا گیا اور سامراج نے اس کا گھیراؤ کیا ہوا ہے تاکہ سوشلزم کو ختم کیا جاسکے اور وہاں کے محنت کشوں نے جس سرمایہ دارنہ نظام سے نجات حاصل کی ہے اسے دوبارہ ان پر مسلط کردیا جائے۔
لیکن یہ سامراج کی خیال خامی ہے کیونکہ کوریائی سوشلزم اپنی زمین کی معروضی صداقتوں سے پیدا ہوا ہے اور اس وقت دنیا کی سب سے بڑی سامراجی قوت کو جواب دے رہا ہے۔ سوشلسٹ کوریا نے نہ صرف دس لاکھ دانشور تیار کیے بلکہ اس نے ایک مضبوط نظریاتی فوج بھی تیار کی ہے۔ جب تک سوویت یونین قائم تھا، کوریا نے اس وقت تک ایٹم بم بنانے کی کوشش بھی نہیں کی مگر اس کے بعد جب سامراج بدمست ہاتھی بنا تو اس کو جواب دینے کے لیے سوشلسٹ کوریا نے ایٹمی طاقت حاصل کی۔ سامراج اور اس کے گماشتوں کو کبھی بھی یقین نہیں تھا کہ ایک ایسا ملک جس کا نصف صدی سے بھی زیادہ عرصے سے گھیراؤ جاری ہے، وہ ایٹم بم بنالے گا مگر کوریا نے اس کے سارے تخمینے اور اندازے غلط ثابت کیے۔
اگر شمالی کوریا ایٹمی قوت نہیں بنتا تو اس کا حشر بھی عراق، افغانستان اور لیبیا جیسا کیا جاتا۔ہر ملک کو اپنے دفاع کا حق ہے تاکہ وہ اپنی ترقی اور عوام کا تحفظ کرسکے۔ ایٹمی اسلحہ دنیا بھر میں ختم ہونا چاہیے اور اس سلسلے میں کسی کے ساتھ امتیاز نہیں برتنا چاہیے۔ اگر امریکا، برطانیہ، فرانس اور دیگر ممالک اپنے ایٹمی اسلحے کے ذخائر کو تلف کرنے پر راضی نہیں ہیں تو انھیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ دوسرے ممالک کو اپنی حفاظت کے لیے کیے جانے والے اقدامات سے روک سکے۔ اس سلسلے میں امریکی سامراج اور اس کے حواریوں کی منافقت دنیا بھر پر عیاں ہے۔
عوامی جمہوریہ کوریا کے محنت کش عوام نے اپنی پارٹی کی قیادت میں سامراج کے خلاف جو کامیاب مزاحمت جاری رکھی ہے اور اپنی سوشلسٹ ترقی و حاصلات کو قائم رکھا ہے یہ دراصل ان کی دفاعی مضبوطی کے باعث ہی ممکن ہوسکا ہے، جس سے امریکی سامراج اور خطے میں موجود اس کے گماشتے خوفزدہ ہیں۔کوریا نے یہ سبق دیا ہے کہ اگر پارٹی آپ کے ساتھ ہے اور وہ لوگوں کی پارٹی ہے تو سامراج کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔
آج سامراج شکست خوردہ ہے اور وہ رجعتی طاقتوں کا سہارا لے کر آگے بڑھنا چاہتا ہے۔ نام نہاد سپر طاقتوں کے پاس امن کا کوئی فارمولا نہیں ہے، یہ محنت کش عوام کے پاس ہے۔ لڑائی امریکی عوام کے ساتھ نہیں ہے بلکہ ان کے سامراجی حکمرانوں کے ساتھ ہے جن کے مظالم کا خود امریکی عوام بھی شکار ہیں۔