خدارا سفر کے آسان ذرائع کو بننے دیجیے

میٹرو بس سروس ہو یا پھر اورنج ٹرین منصوبہ، ان کا سب سے زیادہ فائدہ غریب اور متوسط طبقہ کے لوگوں کو ہی ہوگا۔


احمد عثمان January 30, 2016
یہ حکومت کا ایک انتہائی قابل ستائش قدم ہے کہ تمام تر مخالفت کے باوجود اس طرح کےعوام دوست پروجیکٹ متعارف کروا رہی ہے۔

یہ جون 2007ء کی بات ہے جب مشرف دور میں نیشنل انٹرن شپ کے نام سے ایک پروگرام شروع کیا گیا تھا جس میں یونیورسٹی سے فارغ التحصیل طلباء کے لیے فوری طور پر کام سیکھنے کے مواقع پیدا کئے گئے تھے۔ خوش قسمتی یہ کہ اُس پروگرام میں میری بھی سلیکشن ہوئی تھی جسے میں نے غنیمت جانتے ہوئے اسے فوری طور پر جوائن کرلیا تھا تاکہ مناسب ملازمت ملنے تک کچھ تجربہ حاصل کرلیا جائے۔ میری تعیناتی وزارتِ تجارت کے UN سیکشن میں ہوئی جو اسلام آباد سیکرٹریٹ میں واقع ہے جبکہ میری رہائش ٹیپو روڈ پر آفیسرز کالونی میں تھی، جس کے پاس پہلا بس اسٹاپ موتی محل پلازہ کا ہوا کرتا تھا، اور موتی محل پلازہ سے اسلام آباد سیکرٹریٹ اس وقت ویگن میں پہنچنے کا عمل تقریباً 2 گھنٹے پر محیط ہو جایا کرتا تھا۔

جہاں سلیکشن کی خوشی تھی وہاں یہ پریشانی بھی تھی کہ یہ سفر کیسے طے کیا جائے کیوںکہ تعلیم کے دوران تو قائدِ اعظم یونیورسٹی کی بہترین بسوں سے استفادہ حاصل کیا تھا، پھر گھر میں موجود اکلوتی کار والد صاحب کے زیرِ استعمال تھی، لیکن اب پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرنا تھا جو اسلام آباد کے رہنے والوں کے لیے کسی سزا سے کم نہیں تھا۔ لیکن خیر پہلے دن تو والد صاحب چھوڑ آئے۔ لیکن اگلے دن ہم نے خود ہی پہنچنا تھا، بس اِسی مقصد کے لیے بس اسٹاپ پر آگئے، لیکن وہاں پہنچتے ہی لوگوں کے بے تحاشہ رش نے ہمارا استقبال کیا۔ بس اسٹاپ پر ملازمت پیشہ افراد اور طلباء کی ایک بہت بڑی تعداد موجود تھی۔ پھر جیسے ہی کوئی ویگن آتی تو 20 ، 25 مسافر اس پر حملہ کردیتے لیکن مسئلہ یہ پیش آتا کہ اُس ویگن میں سیٹ ایک یا دو ہی ہوتیں۔ لہذا ایک یا دو ہی خوش قسمت اس میں بیٹھ پاتے تھے، باقی ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ جاتے، یہ سلسلہ کافی دیر تک چلتا رہا اور میں یونہی یہ تماشہ دیکھتا رہا اور خود کو اس کے لئے تیار کرتا رہا کیونکہ، اس سارے عمل میں میرے کپڑوں کا ستیا ناس ہوجانا تھا۔

لیکن جب ایک گھنٹے کے انتظار کے باوجود بھی رش میں کمی واقع نہ ہوئی تو ٹیکسی لینے میں ہی عافیت جانی اور یوں طویل انتظار کے بعد سیکرٹریٹ پہنچ گیا۔ پھر اگلے دن کا آغاز بھی بالکل ویسا ہی ہوا، اور حالات کا جائزہ لینے کے بعد پھر ٹیکسی پکڑی اور آفس پہنچ گیا۔ لیکن جب پیسوں کا حساب لگایا تو معلوم ہوا کہ اگر یوںہی روز ٹیکسی کا استعمال کیا تو سارا وظیفہ تو ٹیکسی کے اخراجات میں ہی خرچ ہوجائے گا ہے اور اِس وظیفے کے حوالے سے جو سہانے سپنے ہم نے دیکھے ہیں وہ سپنے ہی رہ جائیں گے۔ تین چار دن کے بعد دل کو پھر کڑا کیا اور سوچا آج کچھ بھی ہوجائے جاونگا تو ویگن پر ہی جاونگا۔ بس پھر جیسے ہی ویگن دیکھی آؤ دیکھا نہ تاؤ اور مجمع میں گھس کر اندر جانے کی کوشش شروع کردی۔ خوب دھکے پڑے سیٹ تو ہاتھ نہ آئی البتہ اس دھکم پیل میں میری نظر کی عینک کہیں گر کر ٹوٹ گئی۔ اس کا بقیہ ماندہ فریم اٹھایا اور پھر ٹیکسی لی اور آفس آگیا۔

بہت شرمندگی محسوس ہوئی اپنی جوانی پر اور ایک عجیب احساس محرومی کا شکار ہوگیا، پھر پھر مجھے غصہ آیا اور اگلے دن اپنا سب سے پرانا سوٹ نکالا ٹائی اتار کر جیب میں رکھی، عینک اتار کر ایک مضبوط سے کور میں ڈالی آستینیں اوپر چڑھا لیں اور ویگن پر نظر جما دی اور کمانڈو ایکشن کے لئے تیار ہوگیا، اور کسی نا کسی طریقے سے آدھا اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوگیا اب صورت حال یہ تھی کہ میرے ساتھ ایک 70، 80 سال کے ایک بزرگ بھی اندر آنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اب مجھے مکمل طور پر اندر جانے کے لئے ان کو ہلکا سا دھکا دینا پڑتا۔ لیکن کچھ گھر والوں کی تربیت اور کچھ انسانیت آڑے آگئی اور میں نے انہیں جگہ دے دی اور پھر ان کے پیچھے آنے والوں نے مجھے اتنے دھکے دیئے کہ میری گرفت کمزور پڑتی گئی اور میں ویگن سے باہر ہوگیا۔

منزل کے اتنے قریب پہنچ کر واپسی پر دکھ تو ہوا پر ایک حوصلہ بھی پیدا ہوا کہ تھوڑی اور محنت کی جائے تو سیٹ مل سکتی ہے، خیر دوسری ویگن میں اپنے تمام تر پرانے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے ویگن میں گھسنے میں کامیاب ہوگیا۔ اس وقت جو خوشی کے تاثرات میرے تھے وہ یقیناً سکندر اعظم کے دنیا کو فتح کرنے کے بعد بھی نہیں ہوں گے۔ غرض کچھ ہی عرصے بعد میں بھی ایک ماہر اور مشاق مسافر بن چکا تھا۔ وہ تمام داؤ پیچ جن کی بنیاد پر ویگن میں داخل ہونا آسان ہوتا ہے، مجھے آگئے تھے بلکہ اس میں کچھ جدت ایسے پیدا کرلی کہ جب ویگن رکتی تھی تو لوگ اس کے دروازے کی طرف لپکتے تھے، اور میں تیزی سے اسکی پچھلی کھڑکی کھولتا تھا اور وہاں سے اندر۔ خیر یہ تو تھی مری روڈ کے روٹ پر چلنے والی اس ویگن کے اندر داخل ہونے کی کہانی لیکن اندر داخل ہونے کے بعد بھی پریشانی میں کوئی خاص کمی نہیں آتی، آئے روز مسافروں اور کنڈیکٹر کے درمیان ہونے والی لڑائی جھگڑے اور پھر ڈرائیورز کی گاڑی نا چلانے کی دھمکی اور پھر فیض آباد پہنچ کر کم مسافروں کی صورت میں دوسری ویگن میں شفٹ کرنا اور پھر ان ڈرئیور حضرات کی آپس کی بحث کرائے پر، مسافروں کو شدید گرمی میں خوب ذلیل کیا جاتا۔

ٹریفک پولیس بھی اپنی وصولی کے بعد خاموش تماشائی بنی رہتی اور مسافروں کی عزتِ نفس خوب مجروح ہوتی، چلیں میں تو ایک نوجوان لڑکا تھا، ہمت کر کے بیٹھ ہی جاتا تھا لیکن بزرگ شہری اور خواتین کی کیا حالت ہوتی ہوگی وہ خواتین جو روز ان ویگنوں پر سفر کرتی ہیں ان کو کیا مسائل درپیش ہیں، وہ بیچاریں تو بیان بھی نہیں کرسکتی۔ اس روٹ پر چلنے والی ویگنوں میں خواتین کو فرنٹ سیٹ پر بٹھایا جاتا ہے۔ وہاں بمشکل 2 خواتین بیٹھ سکتی ہیں لیکن وہاں کئی بار 3 خواتین کو بٹھایا جاتا ہے۔ جہاں ان کے لئے جگہ کی کمی کی وجہ سے ایک اذیت ناک صورت حال بن جاتی ہے، وہاں ڈرائیور حضرات بھی گئیر لگاتے ہوئے ''ہاتھ کی صٖفائی'' سے نہیں چوکتے اور ان خواتین کو دوہری اذیت سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔

دوسرا مسئلہ یہ درپیش آتا کہ دوران سفر انتہائی فحش گانے لگائے جاتے ہیں اور فرنٹ سیٹ کی ''پرائیوسی'' برقرار رکھنے کے لئے فرنٹ سیٹ کو ایک لکڑی کا بورڈ لگا کر بند کردیا جاتا ہے۔ پھر آگے چھوٹی اسکرین پرگانے کے بے ہودہ مناطر بھی بے خوفی سے چلائے جاتے ہیں لیکن چونکہ لکڑی سے آگے اور پیچھے کے درمیان ایک آہنی دیوار کھڑی کردی جاتی تھی، اِس لیے یہ مناظر نہ تو پیچھے بیٹھے مرد حضرات دیکھ سکتے اور نہ ہی اعتراض کرسکتے۔

اب ایسی صورت میں جو خواتین یہ ویگن استعمال نہیں کرنا چاہتی ان کے لئے واحد ذریعہ ٹیکسی رہ جاتا ہے جو غیر محفوظ ہونے کے علاوہ مہنگا بھی ہے۔ جو ہر کوئی برداشت نہیں کرسکتا۔ یوں بہت سی خواتین ملکی ترقی کے دھارے میں شامل ہونے سے پہلے ہی ہمت ہار دیتی ہیں۔

اب حکومت کی طرف سے یہ ایک انتہائی قابل ستائش قدم ہے کہ تمام تر مخالفت کے باوجود پہلے میٹرو بس چلائی اور اب اورنج لائن ٹرین کے منصوبے پر کام تیزی سے جاری و ساری ہے۔ ان پروجیکٹس کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہے کیونکہ اس کا سب سے زیادہ فائدہ غریب اور متوسط طبقے کے لوگوں کو ہی ہوتا ہے۔ جو اپنی ذاتی سواری سے بھی محروم ہیں اور ٹیکسی کے کرایہ بھی دینے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اس کے ساتھ ساتھ طلباء اور ملازمت پیشہ لوگوں کا نہ صرف قیمتی وقت بچے گا بلکہ وہ خواتین جو سفری مشکلات کی وجہ سے گھر بیٹھ چکی تھی ان کو بھی ایک نیا حوصلہ ملے گا-

اِس لیے لوگوں سے التجا ہے کہ خدارا ذاتی مفاد سے ہٹ کر عوام کی سہولت کے لیے بنائے جانے والے پروجیکٹس کی مخالفت کرنے کے بجائے اُن کے لیے حمایت کریں، تاکہ مسائل میں کسی حد تک تو کمی واقع ہوسکے۔

[poll id="922"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں