الیکشن یا سیاسی دنگل
کچھ آئینی و قانونی حلقے اصغر خان کی پٹیشن پر فیصلے کو ’’انصاف تاخیر انصاف سے انکار‘‘ کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔
اصغر خان مقدمے کے فیصلے میں عدالتِ عظمیٰ نے 1990 کے انتخابات میں ایوانِ صدر کی ایما پر جنرل اسلم بیگ کی نگرانی میں سیاست دانوں میں رقوم کی تقسیم کے عمل کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیتے ہوئے صدر کے سیاسی کردار اور ایوان صدر کو کسی پارٹی یا گروہ کے لیے استعمال کرنے کے اقدام کو بھی غیر قانونی قرار دے دیا ہے۔
اصغر خان کی طرف سے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے اس پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ مبصرین اور آئینی ماہرین کی جانب سے اس فیصلے پر متضاد آرا سامنے آرہی ہیں۔ پی پی پی اور (ن) لیگ نے اس فیصلے کو سراہا ہے لیکن ناپسندیدہ حصّوں پر تنقید بھی کی ہے۔ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال کر سیاسی محاذ آرائی کا سلسلہ شروع کردیا ہے جس میں وقت کے ساتھ مزید شدّت پیدا ہونے کا امکان ہے۔ (ن) لیگ کے رہنمائوں نے ایف آئی اے کو رحمان ملک کے ماتحت اور زیر اثر قرار دیتے ہوئے اس کی تحقیقات پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے جب کہ پی پی پی نے مسلم لیگ ن کی قیادت پر تنقید کی ہے۔
منظور وٹو نے پی پی پی پنجاب کے صدر کا عہدہ سنبھالتے ہی لاہور میں اپنے خطاب کے دوران واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ انھیں زرداری نے ایک خاص مقصد کے لیے پنجاب بھیجا ہے، انھوں نے دو مرتبہ تخت لاہور کو شکست دی ہے۔ فردوس عاشق اعوان نے بھی برملا اعلان کیا کہ الیکشن سیاسی دنگل اور دائو پیچ سے جیتے جاتے ہیں۔ صدر زرداری نے سب سے زیادہ پیچ دار آدمی کو پنجاب میں صدر بنا کر بھیجا ہے۔ دوسری جانب وزیراعظم نے بھی اپنے حلقۂ انتخاب میں گھن گرج کر توپوں کا رخ (ن) لیگ کی طرف کردیا ہے۔ صدر کے کردار سے متعلق سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے علاوہ لاہور ہائی کورٹ میں بھی ایک آئینی درخواست زیرِ سماعت ہے، جس پر عنقریب فیصلہ آنے کی توقع ہے۔
کچھ آئینی و قانونی حلقے اصغر خان کی پٹیشن پر فیصلے کو ''انصاف تاخیر انصاف سے انکار'' کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔ خود چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم نے اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے فیصلے سے سیاسی انتشار میں اضافہ ہوگا، ملک کو کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ ماضی میں ہر کسی سے غلطیاں ہوئی ہیں، انھیں بھلا کر آگے بڑھا جائے۔ بقول ان کے الیکشن سے پہلے ایک نیا تنازع کھڑا کردیا گیا ہے۔ دوسری طرف الیکشن کمشنر نے اس عزم کا اظہار بھی کیا ہے کہ انتخابی عمل فوج یا عدلیہ کے بجائے خود الیکشن کمیشن کی نگرانی میں ہوگا۔ ان کا یہ بیان بھی بڑا معنی خیز ہے کہ شفاف الیکشن کے بجائے قابل قبول الیکشن کرائے جائیں گے، جن کو قوم قبول کرلے۔
سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے میں جہاں جنرل بے نقاب ہوئے ہیں اور کرپٹ سیاست دانوں کے نام سامنے آئے ہیں، وہیں اس وقت کے سندھ کے ملٹری انٹیلی جنس کے سربراہ حامد سعید کے سپریم کورٹ میں داخل کرائے گئے تحریری بیانات میں بھی ایسے سنسنی خیز انکشافات شامل ہیں جنھیں قومی مفاد کے تحت عدالت نے خفیہ رکھا ہے، جو مستقبل میں منظرعام پر آکر سیاسی ہلچل مچانے کا باعث بن سکتے ہیں۔ عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کے بعد حکومت اور سیاسی جماعتوں کے کردار اور اخلاص کا امتحان شروع ہوچکا ہے۔ سیاسی جماعتوں اور رہنمائوں کی تاریخ رہی ہے کہ اپنے مفادات کی خاطر ایک دوسرے کا ماضی بے نقاب کرتے ہیں اور اسی کی خاطر سب کچھ فراموش بھی کردیتے ہیں۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خود رقم کی تقسیم کا اعتراف کرکے قانون کی گرفت میں آجانیوالوں اور بے نقاب ہوجانے والے کرداروں کو نظرانداز کرنا ملک اور عوام کے ساتھ ظلم اور غداری کے مترادف نہیں ہوگا؟ اگر ایسا ہوتا ہے تو مستقبل میں حلف سے انحراف کرکے قومی خزانہ لٹا کر الیکشن پر اثرانداز ہونے کی ریت نہیں پڑجائے گی؟ ایسے لوگوں کو تمغۂ جمہوریت سے کیوں نوازا جاتا ہے؟ جمہوریت پر شب خون مارنے والوں کو دیدہ عبرت بنانے کے بجائے گارڈ آف آنر دے کر محفوظ راستہ کیوں فراہم کردیا جاتا ہے؟ کیا یہ ہی جمہوریت کا حسن ہے؟ کیا یہ عوام کی خدمت کے اصول ہیں؟ ایک عام تاثر یہ ہے کہ یہ معاملہ بھی روایتی طریقے سے دیگر اہم قومی معاملات کی طرح مخصوص، سیاسی مفادات حاصل کرکے نظرانداز کردیا جائے گا۔ عدالتِ عظمیٰ کے متذکرہ فیصلے سے ایک پنڈورا بکس کھل چکا ہے جس کو ملکی سیاست پر کسی بھی قسم کے اثرات کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ سیاسی جماعتوں نے اسے اپنے سیاسی و ذاتی مفادات کے استعمال کے لیے شروع کردیا ہے اور ملکی مفادات کو پس پشت ڈال دیا ہے۔
اس عمل سے ملک کے وقار اور مستقبل پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اور یہ آنیوالے انتخابات پر بھی اثرانداز ہوگا۔ سیاست دانوں کی روایتی روش عالمی تنہائی اور عدم استحکام کے شکار پاکستان کو مزید سنگین صورت حال سے دوچار کرسکتی ہے۔ پاکستان میں انتخابات سے پہلے نومبر میں امریکا اور چین میں بھی سیاسی قیادت تبدیل ہوسکتی ہے۔ اوباما اور رومنی دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان میں ڈرونز حملے جاری رکھے جائیں گے اور کانگریس کی پابندیوں سے مشروط ہوگی۔ رومنی نے اسامہ کی ہلاکت پر اوباما کو مبارک باد پیش کی ہے اور کہا ہے کہ وہ آئی ایس آئی کی طاقت سے پریشان ہیں۔ پاکستان میں سویلین قیادت موجود نہیں، کرۂ ارض پر موجود اس ملک کو طلاق دینے کا یہ وقت نہیں ہے۔
اوباما نے بھی کہا ہے کہ پاکستان کو اس کے حال پر نہیں چھوڑ سکتے، اس کے پاس 2 سو سے زیادہ جوہری ہتھیار ہیں، وہاں فوج اور آئی ایس آئی کی چلتی ہے۔ پاکستان ٹوٹا تو یہ افغانستان اور امریکا کے لیے خطرناک ہوگا۔ اوباما اور رومنی کے پاکستان اور پاکستانی فوج سے متعلق یہ شرم ناک الفاظ اور اس کے عزائم انتہائی تشویش ناک ہیں، جن پر ہر باغیرت اور محب وطن شہری اور سیاست دانوں کو سنجیدگی سے اپنا اور ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قومی مفادات کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ ملک ہوگا تو الیکشن، اقتدار اور مفادات بھی باقی رہیں گے۔