عوام کی چوری پر تاخیر سے ملنے والے نا مکمل انصاف کا معاملہ
احسن اقبال جو بھی کہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ اس تاریخی ناانصافی کی تصدیق ہمارے عصر میں ایک بار پھر ہوئی ہے۔
1990کا الیکشن چرا لیے جانے کی داستان ایک بار پھر عام ہوئی ہے۔
بلکہ 1988ء کے انتخابات چرانے کی بات بھی سامنے آئی ہے۔ ستر کی دہائی میں مخالف امیدوار کے کیمپ کی مخبری کے جرم پر نکسن ہمیشہ کے لیے سیاست سے باہر ہو گیا۔عدالت نے نہ صرف جرم ثابت کیا بلکہ سزا بھی سنائی۔سب کچھ چند روز میں ہو گیا۔ ہمارا فیصلہ بھی 22روز میں آ سکتا تھا، اور شاید اِس سے زیادہ سخت بھی،مگر22سال میں آیا ہے اور نا مکمل۔پھر بھی یار لوگ ادارتی صفحے الیکشن چرا لیے جانے، الیکشن میں دھاندلی ہونے اور عوام کے خلاف ڈاکہ ڈالنے جیسے ثابت شدہ جرائم کو چھپانے اور 1990کے متاثرہ فریق یعنی پاکستان پیپلز پارٹی اور اُس کے حلیفوںکے خلاف کوئی نقطہ ڈھونڈنے میں صرف کر رہے ہیں۔
انصاف دراصل لوگوں نے کیا ہے۔ شہید محترمہ بینظیر بھٹو تو اپنی 25اکتوبر1990کی۔'الیکشن چرا لیا گیا'' والی بات ثابت ہونے تک اس دنیا میں موجود نہ رہیں۔ تاہم وقت اور عوام نے عجب انصاف کیا ہے کہ جب تمام تر تاخیر کے باوجود 22سال بعد پیپلز پارٹی کو ایوانِ صدرمیں بنائے گئے سازشی سیل اورسرکاری اصراف سے ہرانے کی واردات ثابت ہوئی تو پاکستان کے لوگ ایوان ِ صدر میں پیپلز پارٹی کا صدر لانے میں کامیاب ہو چکے ہیں جس نے ایوانِ صدر کو سازشوں سے پاک کر کے اسے جمہوریت مستحکم کرنے کا باعث بنا دیا ہے۔
مگر 1990کی'' عوام پر ڈاکہ'' نامی واردات کے دوران رائے عامہ کے فرنٹ پر کام کرنے والے کھسیانے ہو کر اب یہ جرم واپس پاکستان پیپلز پارٹی کے سر ڈالنے کے لیے ادارتی صفحے سیاہ کر رہے ہیں۔ اس فیصلے میں ایک صدر کا ذکرہے جو یقیناآصف زرداری نہیں ہو سکتے کیونکہ اُن کے خلاف تو واردات ہوئی تھی، وہ خود کیسے اُس واردات کے خالق ہو سکتے ہیں۔ جواُس وقت ایوانِ صدر میں بیٹھا تھا، اُسی کی بات ہو رہی ہے۔ یہ بہت ظلم کی بات ہو گی کہ اگر 22سال بعد کوئی چھوٹا موٹا فیصلہ آ ہی گیا ہے تو اُسے زورِ بیان اور قلم کی طاقت سے دوبارہ مظلوم پارٹی کے خلاف استعمال کرنا شروع کر دیا جائے۔
ثابت یہ ہوا کہ وہ الیکشن چرائے گئے اور اُس وقت کے صدر غلام اسحاق خان اور اُن کے ساتھیوں نے عوام کے حق ِ رائے دہی پر ڈاکہ ڈالا۔انھوں نے پیپلز پارٹی کو ہروا کر مسلم لیگ کو جتوایا اورشہید محترمہ بینظیربھٹو کی جگہ میاں نواز شریف کو وزیرِ اعظم بنایا۔ تو صاحب یہ بات ثابت ہوئی ہے۔ سزا وغیرہ البتہ نہیں ملی۔ یعنی انصاف اِس حد تک ملا ہے کہ آخر کار عدالت نے 22سال بعد اعترافِ جُرم کی حیثیت رکھنے والے اِ س سیدھے سادھے معاملے کی توثیق کردی ہے کہ 1990میں نواز شریف سرکاری سطح پر دھاندلی کے ذریعے پاکستان کے وزیرِ اعظم بنے تھے۔ہماری تاریخ کا بدترین ڈکٹیٹرتمام تر حربوں اور شہید ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے باوجود پیپلز پارٹی کو ختم کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا تواُس کے جانشینوں نے آمر کا جہاز پٹ جانے کے بعد نئے سرے سے پیپلز پارٹی اور شہید بھٹو کی صاحبزادی محترمہ بینظیر بھٹو کے خلاف سازشیں شروع کر دیں۔
محسن نقوی نے لکھا: سازشوں میں گھر گئی بنتِ ارضِ ایشیا۔ ظالموں نے محسن نقوی کو بھی شہید کر دیا۔عدالتیں جو مرضی فیصلہ دیں اور چاہے جتنی بھی تاخیر کر لیں لیکن پاکستان کے عوام نے تو اُسی وقت کہہ دیا تھا کہ یا اللہ یا رسول۔ بینظیر بے قصور۔ مگر پھر بہت زور لگاکر ، اخباری اشتہاروں، کالموں، اداریوں اور سرکاری میڈیا پر شور مچا کر بھٹو کی بیٹی کو سیکیورٹی رسک ثابت کرنے کا جھوٹ بار بار بولا گیا اور بھٹو کے داماد کو مقدمات میں پھنسا دیا گیا۔مگر لوگ کب مانتے ہیں۔ وہ بار بار پیپلز پارٹی کو لے آتے ہیں۔پی پی پی سمجھتی ہے کہ پاکستان کے لوگ کسی بھی اکیلے سیانے یا سیانوں کے چھوٹے چھوٹے گروہوں سے زیادہ سیانے ہیں۔
وہ جانتے ہیں کون اُن کا خیر خواہ ہے اور کون دھمکی میں مر گیا جو۔۔۔۔ اسلامی جمہوری اتحاد اگست 1988میں جنرل ضیاء الحق کا طیارہ پھٹنے کے بعدجنرل حمید گُل نے تخلیق کیا تھا۔ بظاہر ستمبر 1988میں قائم ہوا لیکن اصل میں تو بی بی شہید کے 1986میں پاکستان میں قدم رکھتے ہی یہ سازشیں شروع ہو گئی تھیں۔آئی جے آئی کو تمام تر سرکاری سپورٹ کے باوجود 1988کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی فقط 53سیٹیں ملیں جب کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے 92نشستیں حاصل کیں۔تاہم پی پی پی کے مخالف پنجاب میں جھرلو چلانے اور نواز شریف کو وزیرِ اعلیٰ بنانے میں کامیاب ہو گئے۔
پھر1989میں تحریکِ عدم اعتماد کی کوشش ہوئی جو ناکام ہوئی۔ 1990میں بی بی شہید کی حکومت ختم کر دی گئی۔ سرکاری سرپرستی، دھاندلی اور پیسے کے بے بہا استعمال کی بنا پرIJIنے قومی انتخابات میں105نشستیں حاصل کیں جب کہ PPP نے 45 نشستیں حاصل کیں۔شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے قومی اسمبلی کے انتخاب کے بعد 25اکتوبر1990کو اسلام آباد ائیر پورٹ پر صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ مجھ سے کہا جا رہا ہے کہ تمہارے خاوند کو ختم کر دیا جائے گا۔انھوں نے کہا کہ IJIصرف بھٹو دشمنی پر قائم ہے۔انھوں نے کہا کہ'' 24 اکتوبر1990 کو عوام کی چوری ہوئی ۔ ظالموں اور غاصبوں نے دن کی روشنی میں عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا۔صوبائی انتخابات میں احتجاجاً حصہ لے رہے ہیں۔ آنیوالے کل کے لیے۔ جمہوریت کے لیے۔''اب عدالت نے اس ڈاکے کو تسلیم کر کے رپٹ کٹوانے کا کہا ہے۔ ہمیں امید ہے تاریخ بالآخر سب حساب صاف کر دے گی۔
اس فیصلے سے ثابت ہوگیا کہ عوام کا مینڈیٹ چوری کرنے کے لیے پیسے لگے اور رقم خرچ ہوئی۔پورے ملک کے لوگوں کی چوری ہوئی جس کے لیے اصل زر بھی تقسیم ہوا اور سود وزارتِ عظمیٰ کی صورت میں وصول کیا گیا۔ کیا یہ کوئی کم بڑی چوری ہے ۔عوام کا پیسہ عوام کی رائے پر ڈاکہ ڈالنے کے لیے استعمال ہوا اور چوہدری نثار ایک دھواں دار پریس کانفرنس بلا کر پوچھتے ہیں ہم نے کیا کیا ہے؟ گویا اس سے بھی بڑی کوئی چوری ہو سکتی ہے ۔کمال سادگی سے دارالحکومت کے باخبر صحافیوں سے استفسار کرتے ہیں کہ IJIمیں آٹھ پارٹیاں اور بھی شامل تھیں، ساری توپوں کے رُخ ہماری جانب کیوں ہیں؟ شاید انھیں لگا کہ صحافیوں کی نئی پود اس عظیم الشان دھاندلی سے قائم ہونے والی حکومت کے وزیرِ اعظم جناب میاں نواز شریف،چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور اسی فیصد ارکانِ اسمبلی کے اُن کی والی مسلم لیگ سے تعلق سے بے خبر ہوں گے۔ شاعر نے غالباًہمارے ممدوح کے لیے ہی کہا تھا کہ۔
یادِ ماضی عذاب ہے یا رب۔ چھین لے مجھ سے حافظہ میرا۔ لوگ حیران ہیں کہ ایک شخص میں اتنی اخلاقی جرأت کہاں سے آ گئی کہ ابھی ججوں کے حکم کی سیاہی بھی خشک نہ ہوئی تھی کہ پوچھنے لگے کہ ہم نے کیا کیا ہے۔یعنی اب بھی ہم نے کیا کیا ہے؟یہ تقریباً اُسی طرح کا سوال ہے جو جنرل یحییٰ خان سے منسوب ہے جب اُس نے پاکستان توڑنے کے بعد کہا تھا کہ میں کیہڑا لوکاں دی کھوتی نوں ہتھ لایا اے۔ عدالت میں ثابت ہوا کہ ایوانِ صدر میں ایک خصوصی الیکشن سیل بنا کر دھاندلی کی منصوبہ بندی ہوئی ۔اور پھر پیسے کے بے دریغ استعمال سے پاکستان پیپلز پارٹی کو حکومت سے باہر رکھنے کی سازش پروان چڑھی۔شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے18اکتوبر1990کو ایک پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ صدر غلام اسحاق خان نے ہدایات جاری کی تھیںکہ کوئی نتیجہ اُنہیں دکھائے بغیر جاری نہ کیا جائے۔
یوں دھاندلی کا مؤثر بندوبست کیا گیا۔ مختصر فیصلے میں تاہم الیکشن سیل کے سربراہ کا نام نظر نہیں آیا جن کے بارے میں عدالت میں، تاریخ میں اور آپ بیتیوں میں بیسیوں گواہیاںموجود ہیں ۔ظاہر ہے سیل تھا تو اُس کا کوئی سربراہ بھی ہو گا۔شاید تفصیلی فیصلے میں اُن ک خلاف کارروائی کرنے کا حکم بھی آجائے۔ مارشل لاء اور جمہوریت میں بنیادی فرق legitimacyکاہے جو عوامی حمایت سے حاصل ہوتی ہے۔ ہماری تاریخ براہِ راست اور بالواسطہ مارشل لاؤں سے بھری پڑی ہے۔ 1990میںبننے والی حکومت بالواسطہ مارشل لاء کی پیداوار تھی۔ یہ عوام کے حقِ رائے دہی کا انکار تھا۔اسی لیے باعثِ تعزیر بھی ٹھہرا۔ احسن اقبال کہتے ہیںکہ عوام نے انتخابات میں تاریخ کی بنیاد پر فیصلہ نہیں دیا۔ بنیاد جو بھی رہی ہو اب تک عوام پیپلز پارٹی کے حق میں فیصلہ کرتے آئے ہیں۔لوگ جانتے ہیں کہ تاریخ میں کیا کیا ناانصافی ہوئی اور کس نے کس پر کیا ظلم کیا۔
احسن اقبال جو بھی کہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ اس تاریخی ناانصافی کی تصدیق ہمارے عصر میں ایک بار پھر ہوئی ہے۔ گویا یہ ایک طرح سے موجودہ دور کا معاملہ ہے۔ اسی لیے تو مسلم لیگ کے حامی کالم نگار روز و شب اپنی لیڈرشپ کی صفائیاں دینے میں لگے ہوئے ہیں۔ہر کالم اس بات سے شروع ہوتا ہے کہ اصغر خان کیس کا نون لیگ سے تعلق نہیں اور اس بات پر ختم ہوتا ہے کہ یہ ماضی کا ایک غیر اہم کیس تھا جو اب ختم ہو چکا ہے۔ لیکن کوئی پوچھے کہ پھر اس معاملے پر ہر روز کالم لکھنے اور میاں صاحبان پر ہونے والی تنقید کا جواب دینے کی کیا ضرورت آن پڑی۔ ظاہر ہے کہیں کوئی چنگاری سلگ رہی ہے جہاں سے مسلسل دھواں اُٹھ رہا ہے۔ اگر نون لیگ اس معاملے کو تاریخ کا ملبہ سمجھ کردبائے گی تو لوگ قانون کی حکمرانی اور انصاف کی علمبرداری جیسے بڑے بڑے آدرشوں کے بارے میں لگائے گئے نعروں کا حساب بھی مانگیں گے۔
ٹھیک ہے ہمارے عدالتی نظام کی کچھ بنیادی خامیوں اور مقدمے کی سیاسی نوعیت کی بنا پر معاملہ بہت لمبا ہوگیا بلکہ بہت ہی لمبا۔لیکن اگر وقت پر انصاف نہیں ملا تو اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ مجرموں کو بے نقاب نہ کیا جائے اور سزائیں نہ دی جائیں۔ انصاف ملنے میں تاخیر بجائے خود ایک نا انصافی ہے۔لیکن دانشورانہ بد دیانتی اورمعذرت خواہی اس سے بڑی نا انصافی ہو گی۔ دن دہاڑے ایک جرم ہوا، پورے پاکستان کے لوگوں کی چوری ہوئی اور اب چور کہہ رہے ہیں کہ عوام اس سے صرفِ نظر کریںگے ۔یہ سب معذرت خواہی البتہ تاریخ کو تبدیل نہیں کرسکتی۔تاریخ یہ ہے کہ اصغر خان نے 1990میںلاہور سے قومی اسمبلی کے حلقہ 95سے میاں نوازشریف کے خلاف الیکشن لڑا اور جب دھاندلی ہوئی تو انھوں نے یہ کیس داخل کیا جس پر اب جا کے کہیں فیصلہ آیا ہے۔ پھر بھی چوہدری نثار پوچھتے ہیںکہ ہم نے کیا کیا ہے۔کِیا یہ کہ پیسے لے کر دھاندلی کی۔ جعلی تنظیمیں بنائیں۔
اور اُن تنظیموں کے فرضی ناموں سے یہ پرائی رقم استعمال کرتے ہوئے ٹنوں کے حساب سے اشتہارات جاری کیے۔روزانہ ایک ایک اخبار میں تین تین چار چار اشتہار چھپتے رہے جن میں بی بی شہید اور صدر زرداری کی کردار کشی کی گئی۔اورجھوٹے کیس دائر کیے گئے۔جب کہ اب ثابت ہوا کہ سرے سے وہ منتخب ہی نہیں ہوئے بلکہ دھاندلی کے مرتکب ہوئے۔ جب منتخب ہی نہ ہوئے تو حکومت کیسے بنالی اور اُن کیسوں کی حقیقت کیا جو اُس حکومت نے بنائے ۔تو صادق اورامین کتنے رہ گئے اور پاکی ٔ داماں کے قصے کیا ہوئے؟پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں نے عوامی جمہوری اتحاد یعنی پیپلز ڈیموکریٹک الائنس (PDA) کے پلیٹ فارم سے اس دھاندلی کے ثبوت ایک وائٹ پیپر کی شکل میں شایع کیے۔
پانچ سو صفحات پر مشتمل اس مفصل رپورٹ میں انتخابات سے قبل ہونے والی دھاندلی، نگران حکومت اور ایوانِ صدر کے جانبدارانہ کردار، گھوسٹ پولنگ سٹیشنوں، جعلی ووٹوں کے اندراج، جعلی شناختی کارڈز، بیلٹ باکسوں کی چوری، جعلی ووٹوں کے بھُگتان،پوسٹل بیلٹ کے غلط استعمال، عوامی جمہوری اتحاد کے ووٹروں کو پولنگ سٹیشنوں پر آنے سے روکنے، گرفتاریوں، اغوا، پولنگ ایجنٹوں کو زبردستی پولنگ اسٹیشن سے نکال دینے، پریذائیڈینگ آ فیسر سے ریٹرننگ آفیسر کے پاس نتیجہ لے جانے کے دوران نتائج میں تبدیلی، پولنگ ایجنٹوں کو مصدقہ نتائج فراہم کرنے سے انکار، پولنگ سٹیشنوں کے اندر پولیس کی موجودگی،اور ٹکٹ ہولڈروں پر انتخاب میں حصہ نہ لینے کے لیے دباؤ ڈالنے جیسے حربے استعمال کرنے کی تمام تفصیلات دی گئی تھیں۔
صدر اسحاق اور روئیداد خان خود اس دھاندلی کی نگرانی کر رہے تھے۔یہ دھاندلی ایوانِ صدر، جانبدار نگران حکومت( جتوئی، غلام حیدر وائیں، جام صادق وغیرہ )، بیوروکریسی اور عدالتی کارندوں کے ذریعے ہوئی۔ پولنگ ڈے پر دھاندلی کا یہ طریقہ تھا کہ منتخب پولنگ سٹیشنوں پر% 100 ووٹ بھگتانے کا ڈھونگ کیا جاتا جب کہ عمومی طور پر 40فیصدسے زیادہ ووٹ نہ پڑے تھے۔اس طرح شدید دھاندلی کے ذریعے پاکستان بھر میں نواز شریف کی پارٹی کوسیٹیں دی گئیں اور وہ وزیراعظم بن گئے۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے اس کُھلی دھاندلی کی بنا پر 100 سیٹوں پر دوبارہ انتخابات کروانے کا مطالبہ کیا۔مگر اُن کا یہ مطالبہ نہ مانا گیا اور یوں میاں صاحب ایک جعلی مینڈیٹ لے کر پہلی بار وزیرِ اعظم بن گئے۔پھر بھی نثار پوچھتے ہیںہم نے کیا کیا ہے۔
یعنی ابھی کچھ کیا ہی نہیں۔ مشاہداللہ کہتے ہیں فیصلے میں نواز شہباز کے نام نہیں۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ جس بیانِ حلفی کی بنیاد پر فیصلہ آیا ہے، اُس میںشریف لوگوںکے نام سرِ فہرست ہیں۔ عدالتی طریقہ کار کے مطابق جب بیانِ حلفی داخل ہو اور دوسری طرف سے اُس بیان کا رد جمع نہ کرایا جائے تو یہ ایک طرح سے الزامات کا اقرار ہوتا ہے اور عدالت کے پاس جمع کرائے گئے بیان ِحلفی کی بنا پر فیصلہ کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہ جاتا۔ لہٰذاآئی ایس آئی کے اُس وقت کے سربراہ کے بیانِ حلفی کی بنا پر نواز شہباز دونوں نے رقوم وصول کیںجو بہر حال ایک ٹوکن کی حیثیت رکھتی ہیں کیونکہ بعد میں ملنے والے دیگر فواید اس سے کہیں بڑھ کر تھے۔میمو کیس اور بہت سے دیگر قضیوں میں پاکستانی عدالتیں پہلے ہی یہ معاملہ طے کر چکی ہیں کہ بیانِ حلفی کا جوابی بیان نہ آنے کا مطلب الزامات کا اقرار ہوتا ہے۔چونکہ میاں صاحبان نے آئی ایس آئی کے اُس وقت کے سربراہ کے بیان پر کسی قسم کا جوابی بیان جمع نہیں کرایا ۔
اس لیے مسلمہ عدالتی روایات کے مطابق شریف برادران کا جرم ثابت ہے اور اگر عدالت نرم رویہ نہ اپناتی تو اُن کو اِس جرم کی سزا بھی دی جا سکتی تھی جو آئین کی پامالی، عوامی مینڈیٹ کی توہین اور رشوت ستانی وغیرہ کے زمرے میں آتا ہے۔یوں دونوں بھائیوں کو قید، جرمانہ اور نا اہلی کی سزائیں مل سکتی تھیں۔ مگر عدالت نے نرمی دکھائی ۔ ہم خوش ہیں کہ 22سال بعد عدالت نے جرم کو جرم تو مان لیا۔ سزائیں ملنے کے لیے ہم مزید 22سال انتظار کرنے کو تیار ہیں۔شہباز شریف آئے روز اخلاقی بنیادوں پر استعفیٰ دینے کی بات کرتے رہتے ہیں۔
اب جو اتنا بڑا جرم ثابت ہوا ہے اور مزید تحقیقات کا حکم جاری ہو گیا ہے تو تحقیقات پوری ہونے اور بے قصور ثابت ہونے تک انھیںچاہیے کہ اخلاقی بنیادوں پر مستعفی ہو جائیں اور اپنے آپ کو صاف کروانے کے بعد ہی عوامی عہدے پر واپس آئیں۔ہماری تاریخ کے اِس موقع پر اصغر خان کیس کا فیصلہ آنے سے بابا کے نام سے پہچانے جانے والے عمر رسیدہ بیوروکریٹ اور اُس کے لگ بھگ چالیس ساتھیوں کے ناموں کی پھر سے شناخت ہو گئی ہے۔اب لوگوں کو پتہ چلا ہے کہ اصلی تے وڈّھے چالیس چور کون ہیں ۔ میں عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ چوروں کو اِن کے بابے سمیت ہمیشہ کے لیے شناخت کر لیں وگرنہ یہ ملتے جلتے ناموں سے اکثر آپ کو دھوکا دیتے رہیں گے۔ میں چوروں کے اِس ٹولے کے چیدہ چیدہ عناصر کو یہ مشورہ بھی دوں گا کہ انقلابی شاعر حبیب جالب کی شاعری کی ٹانگیں توڑنے کے بجائے ایک معروف رومانوی شاعر کی''سنتا جا شرماتا جا''والی غزل گنگنانا شروع کریں۔ اوراگرکوئی انقلابی اقدام ہی کرنا ہے تو اپنے کیے پرتھوڑا سا نادم ہوں کیونکہ کارل مارکس کے خیال میں اس صورتِ حال میں یہ وہ کم سے کم انقلابی اقدام ہے جو وہ کر سکتے ہیں۔
بلکہ 1988ء کے انتخابات چرانے کی بات بھی سامنے آئی ہے۔ ستر کی دہائی میں مخالف امیدوار کے کیمپ کی مخبری کے جرم پر نکسن ہمیشہ کے لیے سیاست سے باہر ہو گیا۔عدالت نے نہ صرف جرم ثابت کیا بلکہ سزا بھی سنائی۔سب کچھ چند روز میں ہو گیا۔ ہمارا فیصلہ بھی 22روز میں آ سکتا تھا، اور شاید اِس سے زیادہ سخت بھی،مگر22سال میں آیا ہے اور نا مکمل۔پھر بھی یار لوگ ادارتی صفحے الیکشن چرا لیے جانے، الیکشن میں دھاندلی ہونے اور عوام کے خلاف ڈاکہ ڈالنے جیسے ثابت شدہ جرائم کو چھپانے اور 1990کے متاثرہ فریق یعنی پاکستان پیپلز پارٹی اور اُس کے حلیفوںکے خلاف کوئی نقطہ ڈھونڈنے میں صرف کر رہے ہیں۔
انصاف دراصل لوگوں نے کیا ہے۔ شہید محترمہ بینظیر بھٹو تو اپنی 25اکتوبر1990کی۔'الیکشن چرا لیا گیا'' والی بات ثابت ہونے تک اس دنیا میں موجود نہ رہیں۔ تاہم وقت اور عوام نے عجب انصاف کیا ہے کہ جب تمام تر تاخیر کے باوجود 22سال بعد پیپلز پارٹی کو ایوانِ صدرمیں بنائے گئے سازشی سیل اورسرکاری اصراف سے ہرانے کی واردات ثابت ہوئی تو پاکستان کے لوگ ایوان ِ صدر میں پیپلز پارٹی کا صدر لانے میں کامیاب ہو چکے ہیں جس نے ایوانِ صدر کو سازشوں سے پاک کر کے اسے جمہوریت مستحکم کرنے کا باعث بنا دیا ہے۔
مگر 1990کی'' عوام پر ڈاکہ'' نامی واردات کے دوران رائے عامہ کے فرنٹ پر کام کرنے والے کھسیانے ہو کر اب یہ جرم واپس پاکستان پیپلز پارٹی کے سر ڈالنے کے لیے ادارتی صفحے سیاہ کر رہے ہیں۔ اس فیصلے میں ایک صدر کا ذکرہے جو یقیناآصف زرداری نہیں ہو سکتے کیونکہ اُن کے خلاف تو واردات ہوئی تھی، وہ خود کیسے اُس واردات کے خالق ہو سکتے ہیں۔ جواُس وقت ایوانِ صدر میں بیٹھا تھا، اُسی کی بات ہو رہی ہے۔ یہ بہت ظلم کی بات ہو گی کہ اگر 22سال بعد کوئی چھوٹا موٹا فیصلہ آ ہی گیا ہے تو اُسے زورِ بیان اور قلم کی طاقت سے دوبارہ مظلوم پارٹی کے خلاف استعمال کرنا شروع کر دیا جائے۔
ثابت یہ ہوا کہ وہ الیکشن چرائے گئے اور اُس وقت کے صدر غلام اسحاق خان اور اُن کے ساتھیوں نے عوام کے حق ِ رائے دہی پر ڈاکہ ڈالا۔انھوں نے پیپلز پارٹی کو ہروا کر مسلم لیگ کو جتوایا اورشہید محترمہ بینظیربھٹو کی جگہ میاں نواز شریف کو وزیرِ اعظم بنایا۔ تو صاحب یہ بات ثابت ہوئی ہے۔ سزا وغیرہ البتہ نہیں ملی۔ یعنی انصاف اِس حد تک ملا ہے کہ آخر کار عدالت نے 22سال بعد اعترافِ جُرم کی حیثیت رکھنے والے اِ س سیدھے سادھے معاملے کی توثیق کردی ہے کہ 1990میں نواز شریف سرکاری سطح پر دھاندلی کے ذریعے پاکستان کے وزیرِ اعظم بنے تھے۔ہماری تاریخ کا بدترین ڈکٹیٹرتمام تر حربوں اور شہید ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے باوجود پیپلز پارٹی کو ختم کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا تواُس کے جانشینوں نے آمر کا جہاز پٹ جانے کے بعد نئے سرے سے پیپلز پارٹی اور شہید بھٹو کی صاحبزادی محترمہ بینظیر بھٹو کے خلاف سازشیں شروع کر دیں۔
محسن نقوی نے لکھا: سازشوں میں گھر گئی بنتِ ارضِ ایشیا۔ ظالموں نے محسن نقوی کو بھی شہید کر دیا۔عدالتیں جو مرضی فیصلہ دیں اور چاہے جتنی بھی تاخیر کر لیں لیکن پاکستان کے عوام نے تو اُسی وقت کہہ دیا تھا کہ یا اللہ یا رسول۔ بینظیر بے قصور۔ مگر پھر بہت زور لگاکر ، اخباری اشتہاروں، کالموں، اداریوں اور سرکاری میڈیا پر شور مچا کر بھٹو کی بیٹی کو سیکیورٹی رسک ثابت کرنے کا جھوٹ بار بار بولا گیا اور بھٹو کے داماد کو مقدمات میں پھنسا دیا گیا۔مگر لوگ کب مانتے ہیں۔ وہ بار بار پیپلز پارٹی کو لے آتے ہیں۔پی پی پی سمجھتی ہے کہ پاکستان کے لوگ کسی بھی اکیلے سیانے یا سیانوں کے چھوٹے چھوٹے گروہوں سے زیادہ سیانے ہیں۔
وہ جانتے ہیں کون اُن کا خیر خواہ ہے اور کون دھمکی میں مر گیا جو۔۔۔۔ اسلامی جمہوری اتحاد اگست 1988میں جنرل ضیاء الحق کا طیارہ پھٹنے کے بعدجنرل حمید گُل نے تخلیق کیا تھا۔ بظاہر ستمبر 1988میں قائم ہوا لیکن اصل میں تو بی بی شہید کے 1986میں پاکستان میں قدم رکھتے ہی یہ سازشیں شروع ہو گئی تھیں۔آئی جے آئی کو تمام تر سرکاری سپورٹ کے باوجود 1988کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی فقط 53سیٹیں ملیں جب کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے 92نشستیں حاصل کیں۔تاہم پی پی پی کے مخالف پنجاب میں جھرلو چلانے اور نواز شریف کو وزیرِ اعلیٰ بنانے میں کامیاب ہو گئے۔
پھر1989میں تحریکِ عدم اعتماد کی کوشش ہوئی جو ناکام ہوئی۔ 1990میں بی بی شہید کی حکومت ختم کر دی گئی۔ سرکاری سرپرستی، دھاندلی اور پیسے کے بے بہا استعمال کی بنا پرIJIنے قومی انتخابات میں105نشستیں حاصل کیں جب کہ PPP نے 45 نشستیں حاصل کیں۔شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے قومی اسمبلی کے انتخاب کے بعد 25اکتوبر1990کو اسلام آباد ائیر پورٹ پر صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ مجھ سے کہا جا رہا ہے کہ تمہارے خاوند کو ختم کر دیا جائے گا۔انھوں نے کہا کہ IJIصرف بھٹو دشمنی پر قائم ہے۔انھوں نے کہا کہ'' 24 اکتوبر1990 کو عوام کی چوری ہوئی ۔ ظالموں اور غاصبوں نے دن کی روشنی میں عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا۔صوبائی انتخابات میں احتجاجاً حصہ لے رہے ہیں۔ آنیوالے کل کے لیے۔ جمہوریت کے لیے۔''اب عدالت نے اس ڈاکے کو تسلیم کر کے رپٹ کٹوانے کا کہا ہے۔ ہمیں امید ہے تاریخ بالآخر سب حساب صاف کر دے گی۔
اس فیصلے سے ثابت ہوگیا کہ عوام کا مینڈیٹ چوری کرنے کے لیے پیسے لگے اور رقم خرچ ہوئی۔پورے ملک کے لوگوں کی چوری ہوئی جس کے لیے اصل زر بھی تقسیم ہوا اور سود وزارتِ عظمیٰ کی صورت میں وصول کیا گیا۔ کیا یہ کوئی کم بڑی چوری ہے ۔عوام کا پیسہ عوام کی رائے پر ڈاکہ ڈالنے کے لیے استعمال ہوا اور چوہدری نثار ایک دھواں دار پریس کانفرنس بلا کر پوچھتے ہیں ہم نے کیا کیا ہے؟ گویا اس سے بھی بڑی کوئی چوری ہو سکتی ہے ۔کمال سادگی سے دارالحکومت کے باخبر صحافیوں سے استفسار کرتے ہیں کہ IJIمیں آٹھ پارٹیاں اور بھی شامل تھیں، ساری توپوں کے رُخ ہماری جانب کیوں ہیں؟ شاید انھیں لگا کہ صحافیوں کی نئی پود اس عظیم الشان دھاندلی سے قائم ہونے والی حکومت کے وزیرِ اعظم جناب میاں نواز شریف،چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور اسی فیصد ارکانِ اسمبلی کے اُن کی والی مسلم لیگ سے تعلق سے بے خبر ہوں گے۔ شاعر نے غالباًہمارے ممدوح کے لیے ہی کہا تھا کہ۔
یادِ ماضی عذاب ہے یا رب۔ چھین لے مجھ سے حافظہ میرا۔ لوگ حیران ہیں کہ ایک شخص میں اتنی اخلاقی جرأت کہاں سے آ گئی کہ ابھی ججوں کے حکم کی سیاہی بھی خشک نہ ہوئی تھی کہ پوچھنے لگے کہ ہم نے کیا کیا ہے۔یعنی اب بھی ہم نے کیا کیا ہے؟یہ تقریباً اُسی طرح کا سوال ہے جو جنرل یحییٰ خان سے منسوب ہے جب اُس نے پاکستان توڑنے کے بعد کہا تھا کہ میں کیہڑا لوکاں دی کھوتی نوں ہتھ لایا اے۔ عدالت میں ثابت ہوا کہ ایوانِ صدر میں ایک خصوصی الیکشن سیل بنا کر دھاندلی کی منصوبہ بندی ہوئی ۔اور پھر پیسے کے بے دریغ استعمال سے پاکستان پیپلز پارٹی کو حکومت سے باہر رکھنے کی سازش پروان چڑھی۔شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے18اکتوبر1990کو ایک پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ صدر غلام اسحاق خان نے ہدایات جاری کی تھیںکہ کوئی نتیجہ اُنہیں دکھائے بغیر جاری نہ کیا جائے۔
یوں دھاندلی کا مؤثر بندوبست کیا گیا۔ مختصر فیصلے میں تاہم الیکشن سیل کے سربراہ کا نام نظر نہیں آیا جن کے بارے میں عدالت میں، تاریخ میں اور آپ بیتیوں میں بیسیوں گواہیاںموجود ہیں ۔ظاہر ہے سیل تھا تو اُس کا کوئی سربراہ بھی ہو گا۔شاید تفصیلی فیصلے میں اُن ک خلاف کارروائی کرنے کا حکم بھی آجائے۔ مارشل لاء اور جمہوریت میں بنیادی فرق legitimacyکاہے جو عوامی حمایت سے حاصل ہوتی ہے۔ ہماری تاریخ براہِ راست اور بالواسطہ مارشل لاؤں سے بھری پڑی ہے۔ 1990میںبننے والی حکومت بالواسطہ مارشل لاء کی پیداوار تھی۔ یہ عوام کے حقِ رائے دہی کا انکار تھا۔اسی لیے باعثِ تعزیر بھی ٹھہرا۔ احسن اقبال کہتے ہیںکہ عوام نے انتخابات میں تاریخ کی بنیاد پر فیصلہ نہیں دیا۔ بنیاد جو بھی رہی ہو اب تک عوام پیپلز پارٹی کے حق میں فیصلہ کرتے آئے ہیں۔لوگ جانتے ہیں کہ تاریخ میں کیا کیا ناانصافی ہوئی اور کس نے کس پر کیا ظلم کیا۔
احسن اقبال جو بھی کہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ اس تاریخی ناانصافی کی تصدیق ہمارے عصر میں ایک بار پھر ہوئی ہے۔ گویا یہ ایک طرح سے موجودہ دور کا معاملہ ہے۔ اسی لیے تو مسلم لیگ کے حامی کالم نگار روز و شب اپنی لیڈرشپ کی صفائیاں دینے میں لگے ہوئے ہیں۔ہر کالم اس بات سے شروع ہوتا ہے کہ اصغر خان کیس کا نون لیگ سے تعلق نہیں اور اس بات پر ختم ہوتا ہے کہ یہ ماضی کا ایک غیر اہم کیس تھا جو اب ختم ہو چکا ہے۔ لیکن کوئی پوچھے کہ پھر اس معاملے پر ہر روز کالم لکھنے اور میاں صاحبان پر ہونے والی تنقید کا جواب دینے کی کیا ضرورت آن پڑی۔ ظاہر ہے کہیں کوئی چنگاری سلگ رہی ہے جہاں سے مسلسل دھواں اُٹھ رہا ہے۔ اگر نون لیگ اس معاملے کو تاریخ کا ملبہ سمجھ کردبائے گی تو لوگ قانون کی حکمرانی اور انصاف کی علمبرداری جیسے بڑے بڑے آدرشوں کے بارے میں لگائے گئے نعروں کا حساب بھی مانگیں گے۔
ٹھیک ہے ہمارے عدالتی نظام کی کچھ بنیادی خامیوں اور مقدمے کی سیاسی نوعیت کی بنا پر معاملہ بہت لمبا ہوگیا بلکہ بہت ہی لمبا۔لیکن اگر وقت پر انصاف نہیں ملا تو اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ مجرموں کو بے نقاب نہ کیا جائے اور سزائیں نہ دی جائیں۔ انصاف ملنے میں تاخیر بجائے خود ایک نا انصافی ہے۔لیکن دانشورانہ بد دیانتی اورمعذرت خواہی اس سے بڑی نا انصافی ہو گی۔ دن دہاڑے ایک جرم ہوا، پورے پاکستان کے لوگوں کی چوری ہوئی اور اب چور کہہ رہے ہیں کہ عوام اس سے صرفِ نظر کریںگے ۔یہ سب معذرت خواہی البتہ تاریخ کو تبدیل نہیں کرسکتی۔تاریخ یہ ہے کہ اصغر خان نے 1990میںلاہور سے قومی اسمبلی کے حلقہ 95سے میاں نوازشریف کے خلاف الیکشن لڑا اور جب دھاندلی ہوئی تو انھوں نے یہ کیس داخل کیا جس پر اب جا کے کہیں فیصلہ آیا ہے۔ پھر بھی چوہدری نثار پوچھتے ہیںکہ ہم نے کیا کیا ہے۔کِیا یہ کہ پیسے لے کر دھاندلی کی۔ جعلی تنظیمیں بنائیں۔
اور اُن تنظیموں کے فرضی ناموں سے یہ پرائی رقم استعمال کرتے ہوئے ٹنوں کے حساب سے اشتہارات جاری کیے۔روزانہ ایک ایک اخبار میں تین تین چار چار اشتہار چھپتے رہے جن میں بی بی شہید اور صدر زرداری کی کردار کشی کی گئی۔اورجھوٹے کیس دائر کیے گئے۔جب کہ اب ثابت ہوا کہ سرے سے وہ منتخب ہی نہیں ہوئے بلکہ دھاندلی کے مرتکب ہوئے۔ جب منتخب ہی نہ ہوئے تو حکومت کیسے بنالی اور اُن کیسوں کی حقیقت کیا جو اُس حکومت نے بنائے ۔تو صادق اورامین کتنے رہ گئے اور پاکی ٔ داماں کے قصے کیا ہوئے؟پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں نے عوامی جمہوری اتحاد یعنی پیپلز ڈیموکریٹک الائنس (PDA) کے پلیٹ فارم سے اس دھاندلی کے ثبوت ایک وائٹ پیپر کی شکل میں شایع کیے۔
پانچ سو صفحات پر مشتمل اس مفصل رپورٹ میں انتخابات سے قبل ہونے والی دھاندلی، نگران حکومت اور ایوانِ صدر کے جانبدارانہ کردار، گھوسٹ پولنگ سٹیشنوں، جعلی ووٹوں کے اندراج، جعلی شناختی کارڈز، بیلٹ باکسوں کی چوری، جعلی ووٹوں کے بھُگتان،پوسٹل بیلٹ کے غلط استعمال، عوامی جمہوری اتحاد کے ووٹروں کو پولنگ سٹیشنوں پر آنے سے روکنے، گرفتاریوں، اغوا، پولنگ ایجنٹوں کو زبردستی پولنگ اسٹیشن سے نکال دینے، پریذائیڈینگ آ فیسر سے ریٹرننگ آفیسر کے پاس نتیجہ لے جانے کے دوران نتائج میں تبدیلی، پولنگ ایجنٹوں کو مصدقہ نتائج فراہم کرنے سے انکار، پولنگ سٹیشنوں کے اندر پولیس کی موجودگی،اور ٹکٹ ہولڈروں پر انتخاب میں حصہ نہ لینے کے لیے دباؤ ڈالنے جیسے حربے استعمال کرنے کی تمام تفصیلات دی گئی تھیں۔
صدر اسحاق اور روئیداد خان خود اس دھاندلی کی نگرانی کر رہے تھے۔یہ دھاندلی ایوانِ صدر، جانبدار نگران حکومت( جتوئی، غلام حیدر وائیں، جام صادق وغیرہ )، بیوروکریسی اور عدالتی کارندوں کے ذریعے ہوئی۔ پولنگ ڈے پر دھاندلی کا یہ طریقہ تھا کہ منتخب پولنگ سٹیشنوں پر% 100 ووٹ بھگتانے کا ڈھونگ کیا جاتا جب کہ عمومی طور پر 40فیصدسے زیادہ ووٹ نہ پڑے تھے۔اس طرح شدید دھاندلی کے ذریعے پاکستان بھر میں نواز شریف کی پارٹی کوسیٹیں دی گئیں اور وہ وزیراعظم بن گئے۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے اس کُھلی دھاندلی کی بنا پر 100 سیٹوں پر دوبارہ انتخابات کروانے کا مطالبہ کیا۔مگر اُن کا یہ مطالبہ نہ مانا گیا اور یوں میاں صاحب ایک جعلی مینڈیٹ لے کر پہلی بار وزیرِ اعظم بن گئے۔پھر بھی نثار پوچھتے ہیںہم نے کیا کیا ہے۔
یعنی ابھی کچھ کیا ہی نہیں۔ مشاہداللہ کہتے ہیں فیصلے میں نواز شہباز کے نام نہیں۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ جس بیانِ حلفی کی بنیاد پر فیصلہ آیا ہے، اُس میںشریف لوگوںکے نام سرِ فہرست ہیں۔ عدالتی طریقہ کار کے مطابق جب بیانِ حلفی داخل ہو اور دوسری طرف سے اُس بیان کا رد جمع نہ کرایا جائے تو یہ ایک طرح سے الزامات کا اقرار ہوتا ہے اور عدالت کے پاس جمع کرائے گئے بیان ِحلفی کی بنا پر فیصلہ کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہ جاتا۔ لہٰذاآئی ایس آئی کے اُس وقت کے سربراہ کے بیانِ حلفی کی بنا پر نواز شہباز دونوں نے رقوم وصول کیںجو بہر حال ایک ٹوکن کی حیثیت رکھتی ہیں کیونکہ بعد میں ملنے والے دیگر فواید اس سے کہیں بڑھ کر تھے۔میمو کیس اور بہت سے دیگر قضیوں میں پاکستانی عدالتیں پہلے ہی یہ معاملہ طے کر چکی ہیں کہ بیانِ حلفی کا جوابی بیان نہ آنے کا مطلب الزامات کا اقرار ہوتا ہے۔چونکہ میاں صاحبان نے آئی ایس آئی کے اُس وقت کے سربراہ کے بیان پر کسی قسم کا جوابی بیان جمع نہیں کرایا ۔
اس لیے مسلمہ عدالتی روایات کے مطابق شریف برادران کا جرم ثابت ہے اور اگر عدالت نرم رویہ نہ اپناتی تو اُن کو اِس جرم کی سزا بھی دی جا سکتی تھی جو آئین کی پامالی، عوامی مینڈیٹ کی توہین اور رشوت ستانی وغیرہ کے زمرے میں آتا ہے۔یوں دونوں بھائیوں کو قید، جرمانہ اور نا اہلی کی سزائیں مل سکتی تھیں۔ مگر عدالت نے نرمی دکھائی ۔ ہم خوش ہیں کہ 22سال بعد عدالت نے جرم کو جرم تو مان لیا۔ سزائیں ملنے کے لیے ہم مزید 22سال انتظار کرنے کو تیار ہیں۔شہباز شریف آئے روز اخلاقی بنیادوں پر استعفیٰ دینے کی بات کرتے رہتے ہیں۔
اب جو اتنا بڑا جرم ثابت ہوا ہے اور مزید تحقیقات کا حکم جاری ہو گیا ہے تو تحقیقات پوری ہونے اور بے قصور ثابت ہونے تک انھیںچاہیے کہ اخلاقی بنیادوں پر مستعفی ہو جائیں اور اپنے آپ کو صاف کروانے کے بعد ہی عوامی عہدے پر واپس آئیں۔ہماری تاریخ کے اِس موقع پر اصغر خان کیس کا فیصلہ آنے سے بابا کے نام سے پہچانے جانے والے عمر رسیدہ بیوروکریٹ اور اُس کے لگ بھگ چالیس ساتھیوں کے ناموں کی پھر سے شناخت ہو گئی ہے۔اب لوگوں کو پتہ چلا ہے کہ اصلی تے وڈّھے چالیس چور کون ہیں ۔ میں عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ چوروں کو اِن کے بابے سمیت ہمیشہ کے لیے شناخت کر لیں وگرنہ یہ ملتے جلتے ناموں سے اکثر آپ کو دھوکا دیتے رہیں گے۔ میں چوروں کے اِس ٹولے کے چیدہ چیدہ عناصر کو یہ مشورہ بھی دوں گا کہ انقلابی شاعر حبیب جالب کی شاعری کی ٹانگیں توڑنے کے بجائے ایک معروف رومانوی شاعر کی''سنتا جا شرماتا جا''والی غزل گنگنانا شروع کریں۔ اوراگرکوئی انقلابی اقدام ہی کرنا ہے تو اپنے کیے پرتھوڑا سا نادم ہوں کیونکہ کارل مارکس کے خیال میں اس صورتِ حال میں یہ وہ کم سے کم انقلابی اقدام ہے جو وہ کر سکتے ہیں۔