پاکستان کا ہر شعبہ زبوں حالی کا شکار
پورا ہی پاکستان اذیت کی لپیٹ میں ہے۔ کہیں کسی طرح کا دکھ ہے اور کہیں کچھ اور طرح کے غم ہیں۔
الحمدﷲ عیدالاضحیٰ بھی دکھ سکھ کی دھوپ چھائوں کے ساتھ گزر ہی گئی اور امریکا میں آنے والا سمندری طوفان امریکا کی 17 ریاستوں کو برباد کرکے ذرا پرے کو ہوگیا ہے۔
سمندری طوفان ''سینڈی'' نے 8 کروڑ شہریوں کو متاثر کیا، ہوائی اڈے بدستور بند ہیں، تقریباً ایک کروڑ کے قریب امریکی بجلی سے بھی محروم ہیں، امریکی معیشت کو 45 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا، انسانی جانوں کا بھی زیاں ہوا۔ اس قدرتی آفت سے بچنے کے لیے کوئی سائنسی فارمولا کام نہ آسکا، سب بے بس نظر آئے۔ سینڈی طوفان کے حوالے سے امت مسلمہ کا یہ خیال اپنی جگہ درست ہے کہ امریکا پر اﷲ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا ہے کہ انھوں نے فلم کے ذریعے گستاخی کرکے اﷲ کے غیظ و غضب کو آواز دی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ دنیا کی عیش و عشرت اور چھوٹی موٹی کامیابیوں کے نشے میں غرق ہوچکے ہیں۔
کیا اس بات سے وہ غافل ہیں کہ جب وہ اﷲ اور اس کے رسولوں اور نبیوں کی نافرمانی کرتے ہیں تو اﷲ ان کے کرتوتوں کا بدلہ ان کی ہلاکت و بربادی کی شکل میں دے دیتا ہے۔ جب کعبۃ اﷲ پر ابرہہ کے لشکر نے چڑھائی کی تھی تب اﷲ تعالیٰ نے ابابیل کے غول کے غول بھیج دیے تھے اور ابرہہ کی فوج پرندوں کے مارے ہوئے نوکیلے پتھروں سے پسے ہوئے بھوسے کی مانند ہوگئی۔ اﷲ بڑی قدرت و حکمت والا ہے، چھیڑ خانی کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا ہے۔
امریکا سے ہٹ کر اگر ہم بات کریں اپنے ملک کی تو یہاں بھی آئے دن ارضی و سماوی آفات نازل ہوتی رہتی ہیں، بسوں کا الٹ جانا، آسمانی بجلی کا گرنا، ڈنگی مچھروں کی افزائش، ینگلیریا کی بیماری، سیلاب، زلزلے، آپس کی رنجشیں، قتل و غارت، اقتدار سے بے پناہ محبت اور ٹارگٹ کلنگ، جہازوں کا گرنا اور بھی بہت سارے حادثات جو اچانک رونما ہوجاتے ہیں، جن کے بارے میں وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔ ان دنوں ٹریفک حادثات کی شرح بھی بڑھتی جارہی ہے، ہر روز بے شمار لوگ ٹرینوں، بسوں اور ہیوی ٹریفک خاص طور پر ٹینکرز، ٹرالر اور ٹرک کی زد میں آکر جاں بحق ہوجاتے ہیں۔
یہ حادثات ٹرانسپورٹ کی تیز رفتاری کے باعث وجود میں آتے ہیں اور چند لمحوں میں جیتی جاگتی زندگیاں ہمیشہ کے لیے سوجاتی ہیں۔ اکثر جگہوں پر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ٹریفک پولیس اپنے فرائض انجام نہیںدیتی ہے بلکہ ڈرائیور اپنی مرضی سے جہاں دل چاہتا ہے گاڑی موڑ لیتے ہیں، ان حالات میں گاڑیوں کے آپس میں ٹکرانے کے اندیشے بہت بڑھ جاتے ہیں اور کبھی کبھی خطرناک حادثہ بھی ہوجاتا ہے، نتیجے میں قیمتی جانیں تلف ہوجاتی ہیں اور یہ سب کچھ ٹریفک کا نظام درست نہ ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ٹریفک کانسٹیبل بے حد لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور بے قاعدگیوں کے معاملے میں خود کفیل ہوچکے ہیں۔
ان تمام سواریوں میں سب سے خطرناک سواری موٹر سائیکل کی ہے جو موت خریدتی بھی ہے اور بانٹتی بھی ہے۔ ان موٹر سائیکل سواروں کے لیے شاید کسی بھی قسم کے قوانین نہیں ہیں، یہ بڑی بڑی کشادہ سڑکوں اور بے پناہ رش میں موٹر سائیکل کے کرتب بلامعاوضہ دکھاتے ہیں۔ یہ غیر تربیت یافتہ اور تعلیم سے بے بہرہ نوجوان اپنی موٹر سائیکلوں کو سائلنسر سے آزاد کردیتے ہیں، اسپیڈو میٹر بھی نکال دیتے ہیں، اس طرح اس کی آواز تیز ہوجاتی ہے اور موٹر سائیکل چلانے میں ہلکی، اب یہ لااُبالی نوجوان موٹر سائیکلوں پر کھڑے ہوکر، ناچتے ہوئے چلاتے ہیں، بعض اوقات بریک سے ہاتھ ہٹاکر تالیاں بجاتے اور مختلف تماشے دکھانا شروع کردیتے ہیں۔
فیملی سوار موٹر سائیکل ڈرائیور ذرا احتیاط سے چلاتے ہیں لیکن یہ منچلے گاڑیوں اور بسوں کے سامنے سے ہوا کی طرح اڑتے چلے جاتے ہیں لیکن گاڑی سوار کو اس وقت بے حد مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور سانحہ ہوتے ہوتے بال بال بچ جاتا ہے، زیادہ تر ایکسیڈنٹ موٹر سائیکلوں کی ہی وجہ سے ہوتے ہیں، سگنل توڑنے میں یہ ماہر ہوتے ہیں، چھوٹی سواری ہونے کا پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہیں، موٹر سائیکل زگ زیگ کے انداز میں چلائی جاتی ہے، تیز رفتار بھاگتی دوڑتی گاڑیوں کے سامنے یہ نوجوان اچانک آجاتے ہیں اور ایسا ہر روز، ہر وقت، ہر لمحہ ہوتا ہے۔
ٹریفک پولیس ڈیپارٹمنٹ کو چاہیے کہ وہ اصول و ضوابط بنائے اور سڑک کے درمیان میں صرف موٹر سائیکلوں کے لیے ٹریک بنائے اور صرف اور صرف انھی ٹریک پر موٹر سائیکل کو چلانے کی اجازت دی جائے اور خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے بھاری جرمانے مقررکیے جانے چاہئیں۔
موٹر سائیکلوں اور ان کے سواروں کی وجہ سے عوام کا تحفظ بھی مفقود ہوچکا ہے۔ زیادہ تر جرائم موٹر سائیکلوں کے ہی ذریعے کیے جاتے ہیں، یہ سواری پتلی سے پتلی گلی یا سڑک پرآسانی سے گزر جاتی ہے، اسی وجہ سے چوری، ڈکیتی، ٹارگٹ کلنگ بہت آسانی سے ہوجاتی ہے، اگر پولیس مجرموں کا پیچھا بھی کرتی ہے تو تنگ راستوں میں پولیس موبائل کا جانا ناممکن ہوجاتا ہے، اگر اسکوٹر استعمال کیا جائے تب جان کے خطرات زیادہ لاحق ہوتے ہیں، نہ عوام کی حفاظت ہے اور نہ محافظوں کی۔
چاروں صوبوں سمیت سندھ کے حالات بہت حد تک خراب ہوچکے ہیں۔ خوف و ہراس قدم سے قدم ملا کرچلتا ہے، اپنے پیاروں کے آنے میں ذرا دیر ہوجائے تو ماؤں کے کلیجے منہ کوآجاتے ہیں، وہ سراپا دعا بنی چوکھٹ پر کھڑی اپنے گھر والوں کی واپسی کا راستہ تکا کرتی ہیں۔
صدر آصف علی زرداری نے گورنر ہاؤس کراچی میں قائم مقام گورنر سندھ نثار احمدکھوڑو اور وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ سے ملاقات میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اولین ترجیح ملک میں قیام امن ہے، توانائی کا بحران، غربت، مہنگائی، بے روزگاری ختم کریں اور انتخابات مقررہ وقت پر شفاف طریقے سے کروا کر تاریخی کارنامہ انجام دیں گے۔ لیکن صدر صاحب! بہت تاخیر ہوگئی ہے، زبانی جمع خرچ سے بات نہیں بنتی، عوام حقیقتاً امن و سکون کے خواہشمند ہیں، زخم سہتے سہتے تھک گئے ہیں، بھوک پیاس نے انھیں نڈھال کردیا ہے، سیٹھ اور وڈیرے کے ظلم نے ان سے ان کی اعصابی طاقت اور بصیرت و بصارت چھین لی ہے، انھیں کولہو کا بیل بنادیا گیا ہے۔ کون سا ظلم ہے جو عوام نہیں سہہ رہی، انھیں زندہ آگ میں جھونک دیا جاتا ہے، موت کے زنداں میں قید کردیا جاتا ہے، بے روزگاری، اغوا، تشدد عروج پر ہے۔ حالات کی تبدیلی کے لیے کوئی تو پہل کرے کوئی تو حقیقتاً انصاف کا بول بالا کرے اور قوانین کو نافذالعمل بنائے تاکہ کمزور و مجبور اور بے بس لوگ بھی حقیقی معنوں میں زیست بسر کرسکیں۔
پورا ہی پاکستان اذیت کی لپیٹ میں ہے۔ کہیں کسی طرح کا دکھ ہے اور کہیں کچھ اور طرح کے غم ہیں۔ ڈرون حملوں نے بھی ہنستے بستے گھروں کو اجاڑ دیا ہے۔ پاکستان میں بھی اعلیٰ شخصیات خصوصاً تحریک انصاف کے لیڈر عمران خان نے ڈرون حملوں کے خلاف اپنی اور اپنے ساتھیوں کی جانوں کو خطرے میں ڈال کر وزیرستان کا رخ کیا تھا اور یہ بہت ہمت و جرأت اور ملک اور اس کی عوام سے بے پناہ محبت و ایثار کا ثبوت تھا۔ اب تو امریکا کی خاص شخصیات بھی ڈرون حملوں کے خلاف بات کررہی ہیں اور اسے ناجائز قرار دے رہی ہیں۔
گلوبل ایکسچینج کی بورڈ آف ڈائریکٹر کی رکن امریکی سابق کرنل این رائٹ نے کہا کہ پاکستان میں ڈرون حملے عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے، امریکی شہریوں سے ٹیکس میں لیے گئے ڈالر بے گناہ لوگوں کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ انھوں نے کہا کہ ہم طالبان کے حمایتی نہیں لیکن طالبان کی آڑ میں ہم بے قصور عوام کو مارنے نہیں دیں گے۔پاکستان کو اپنا قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر میدان میں مثبت تبدیلی ناگزیر ہے۔ علمی و صنعتی تمام شعبے بدحالی و زبوں حالی کا شکار ہیں۔ آئے دن پاکستان کی کرنسی کی قیمت میں نمایاں کمی کی خبر منظر عام پر آتی ہے۔ اس طرح پاکستان اپنی مجموعی کارکردگی کے لحاظ سے 60 سال پیچھے چلا گیا ہے۔