پی پی پی کی بدترین اقتصادی کارکردگی

5۔ جی ڈی پی کے تناسب کے اعتبار سے سرمایہ کاری 2008 میں تناسب 23 فیصد تھا جو کہ کم ہوتے ہوتے اب صرف 12.5 فیصد رہ گیا ہے


Zubair Muhammad November 03, 2012
زبیر محمد

میں نے اپنی ایک تحریر میں پی پی پی کی موجودہ حکومت کی افسوسناک اقتصادی کارکردگی کا مختصراً ذکر کیا تھا۔پی پی پی میں میرے بہت سے دوستوں نے مجھے کال کیا اور اقتصادی کارکردگی کے بارے میں میرے منفی تاثرات کو چیلنج کر تے ہوئے استفسار کیا کہ میں نے کس بنیاد پر اقتصادی کارکردگی کو خراب قرار دیا ہے۔

پی پی پی کی اقتصادی کارکردگی صرف خراب ہی نہیں بلکہ افسوسناک حد تک خراب ہے بلکہ ہماری آزادی کے بعد سے کسی بھی حکومت نے اس قدر بدتر اقتصادی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ذیل میں میکرو اکنامک انڈیکیٹرز یا عمومی اقتصادی اعشاریوں سے میرے مؤقف کی وضاحت ہوتی ہے۔

(1 جی ڈی پی کی نمو:
2008-12ء کے دوران جی ڈی پی کی اوسط نمو 2.9 فیصد رہی۔ ہماری تاریخ میں چار سال کے عرصے تک اس قدر کم شرح نمو کبھی نہیں رہی۔ آئیے اب پاکستان کی شرح نمو کا خطے کے دیگر ممالک کی اسی عرصے کے دوران شرح نمو کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں۔

بھارت 7.8 فیصد
بنگلہ دیش 6.9 فیصد
سری لنکا 6.1 فیصد
پاکستان 2.9 فیصد

جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں ریجن کے دیگر ممالک میں جی ڈی پی یا مجموعی قومی پیداوار کی شرح نمو پاکستان سے کتنی زیادہ ہے۔ بلکہ کئی ملکوں کی تو ہماری شرح نمو کے دوگنا سے بھی زیادہ ہے جب کہ ماہرین اقتصادیات کا اس بات پر اتفاق ہے کہ پاکستان جیسے ملکوں کو غربت کی دلدل سے باہر نکلنے کے لیے کم از کم 6 فیصد شرح کے تسلسل کی ضرورت ہے۔

2) افراط زر: پاکستان میں اس حکومت کی پوری مدت کے دوران (ماسوائے آخری دو تین مہینوں کے) افراط زر کی شرح ڈبل ڈیجٹ یعنی دو ہندسوں پر مشتمل رہی ہے۔ تاریخی اعتبار سے 1947ء کے بعد اس اعتبار سے یہ بدترین افراط زر ہے۔ ہاں پی پی پی کی اولین حکومت 1972-77ء کے دور میں افراط زر کی شرح موجودہ شرح سے بھی بلند تر تھی۔ خیر اب دیکھتے ہیں کہ گزشتہ چار سال میں خطے کے دیگر ممالک میں یہ شرح کیسی رہی۔

2008ء: بھارت 8.8، سری لنکا 23.4، بنگلہ دیش 10.1، پاکستان 13.1
2009ء: بھارت 2.0، سری لنکا 3.5، بنگلہ دیش 4.9، پاکستان 19.0
2010ء بھارت 9.6، سری نکا 5.9، بنگلہ دیش 8.2، پاکستان 12.5
2011ء بھارت 9.6، سری لنکا 7.1، بنگلہ دیش 10.4، پاکستان 12.5
2012ء بھارت 7.4، سری لنکا 6.7، بنگلہ دیش 9.5، پاکستان 10.5

متذکرہ ممالک بالخصوص بھارت میں افراط زر کی شرح کم رہی ہے یعنی صرف سنگل ڈیجٹ (مفرد ہندسہ) اس پورے عرصے کے دوران بھی ڈبل ڈیجٹ تک نہیں پہنچی لیکن پاکستان کی حکومت افراط زر پر قابو پانے میں یکسر ناکام ہو گئی۔

3) جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکس: جب پی پی پی 2008ء میں اقتدار میں آئی تو جی ڈی پی کے ساتھ ٹیکس کا تناسب 10 فیصد تھا اور منصوبہ یہ تھا کہ اس میں ہر سال ایک فیصد کا اضافہ کرتے ہوئے اس کو بڑھایا جائے گا تا کہ 2013ء تک یہ 15 فیصد تک پہنچ سکے جو کہ بہت صحت مند رجحان کی عکاسی کرتا ہے۔ تاہم ہمیں اب تک 14 فیصد تناسب تک ضرور پہنچ جانا چاہیے تھا جب کہ ہمارا تناسب 9 فیصد سے بھی کم ہے۔ یعنی اقتدار سنبھالنے کے موقع پر جو تناسب تھا اس سے بھی ایک فیصد سے زیادہ کم۔ اس اعتبار سے پاکستان کی پوزیشن سب سے خراب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ حکومت سوشل سیکٹر یا انفرااسٹرکچر کے منصوبوں میں سرمایہ کاری لانے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔

(4 بجٹ خسارہ:
گزشتہ سال کا بجٹ خسارہ تمام حدود عبور کر تے ہوئے7 فیصد تک پہنچ چکا تھا لیکن اس سے بھی بڑی خطرے کی گھنٹی اس مرتبہ بجنے والی ہے جب بجٹ خسارہ 8 سے 9 فیصد تک پہنچ جائے گا۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ ہوسکتا ہے۔ اس کے ملکی معیشت پر کیا اثرات ہوں گے؟ کرنسی روپے کی تعداد کے حساب سے دیکھا جائے تو یہ دو ٹریلین (یعنی دو سو بلین) سے بھی زیادہ ہوسکتا ہے جس کو ظاہر ہے کہ قرضوں پر قرضے لیے چلے جانے سے پر کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ قرضے مرکزی بینک اور دیگر کمرشل بینکوں سے لیے جائیں گے اس کے بھی الٹا تباہ کن نتائج ہوں گے۔ اس سے نجی شعبہ تو قرضوں کے حصول سے مکمل طور پر محروم ہو جائے گا۔

نیز حکومت کو قرضہ دینا اس اعتبار سے بھی آسان کام ہے کیونکہ بینکوں کو اس طرح قرضے کے ڈوبنے کا خطرہ نہیں ہوتا۔ اور یوں افراط زر میں اضافے پر اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔

5۔ جی ڈی پی کے تناسب کے اعتبار سے سرمایہ کاری: 2008ء میں یہ تناسب 23 فیصد تھا جو کہ کم ہوتے ہوتے اب صرف 12.5 فیصد رہ گیا ہے۔ گزشتہ 30 سال میں بدترین خسارہ ہے۔ اس تناسب میں 10 فیصد کمی کا مطلب ہے سرمایہ کاری کی مد میں 20 ملین (2 کروڑ) ڈالر کی کمی، یہ کمی نہ صرف داخلی بلکہ بیرونی سرمایہ کاری میں بھی ہے۔

میں نے جگہ کی قلت کے باعث صرف 5 اقتصادی اعشاریوں کا ذکر کیا ہے۔ مایوس کن کارکردگی اظہر من الشمس ہے۔ یہ اعداد و شمار از خود بول رہے ہیں۔ دیگر تمام عشاریے بھی منفی ہیں، سرکاری قرضوں کا حجم گزشتہ چار سال میں دو گنا سے زیادہ ہو گیا ہے۔ سرکاری ادارے جیسے پیپکو، ریلویز اور پاکستان اسٹیل سب کے سب بھاری خسارے میں جا رہے ہیں۔ (اندازاً 400 ارب روپے سالانہ کے حساب سے) اس پر مستزاد یہ کہ پاکستان توانائی کے بدترین بحران سے دو چار ہے جس میں بہتری کی کوئی کوشش نظر نہیں آتی۔ نجکاری کا عمل تقریباً بالکل رک چکا ہے۔

اقتصادی صورتحال مایوس کن ہے اور اس کی بہتری کے لیے بھی کچھ نہیں کیا جا رہا۔ ایسی افسوسناک اقتصادی کارکردگی کے پیش نظر پی پی پی کا آیندہ الیکشن میں برسر اقتدار آنا تقریباً ناممکن نظر آ رہا ہے۔

(مضمون نگار مسلم لیگ(ن) کی میڈیا اینڈ مینی فیسٹو کمیٹی کے رکن اور آئی بی ایم مڈل ایسٹ اور افریقہ ریجن کے سابق چیف ایگزیکٹو افسر ہیں )

[email protected]

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں