سندھ کے مسائل کا حل گڈ گورننس

مسئلہ صرف بجلی کی بار بار معطلی کا نہیں بلکہ کراچی اور اندرون سندھ کے دور دراز علاقے مسائلستان کی تصویر بنے ہوئے ہیں

سندھ حکومت کو مسائل کے حل کے لیے غیر معمولی اقدامات سے کایا پلٹنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ فوٹو:فائل

ISLAMABAD:
جمعہ کو صبح پونے 6 بجے بجلی کے بڑے بریک ڈاؤن نے ملک کے اقتصادی انجن کراچی کے 70 فیصد علاقوں کو تاریکی میں ڈبو دیا۔ کے الیکٹرک کے ترجمان کے مطابق جامشورو کے قریب 600 کلو واٹ کی ہائی ٹرانسمیشن لائن ٹرپ کرگئی تھی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ رواں ماہ میں بجلی کا یہ تیسرا بریک ڈاؤن ہے۔

پہلا 20 جنوری 2016ء کو جب کہ دوسرا اسی ہفتے 22 جنوری کو ہوا جس میں فنی خرابی، انتظامی سقم، عدم توجہی، تکنیکی نااہلیت یا ڈسٹری بیوشن نظام میں مضمر ایک وسیع البنیاد فالٹ اس کے اسباب میں شامل تھا یا پورے برقی نظام کو اپ ڈیٹ کرنے اور اس کی تنظیم نو کی ضرورت ہے شاید اس بارے میں حکام نے کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا اور اب تو شہر کراچی میں مزید ایک اور بریک ڈاؤن ویک اپ کال سے کم نہیں، ارباب اختیار اسے محض ایک مکینیکل فالٹ قرار دے کر اپنی ذمے داری سے بچ نہیں سکتے بلکہ انھیں توانائی کے بحران اور کراچی کے صنعتی، تجارتی اور غیر معمولی آبادی اور تعمیراتی ضرورتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے بجلی کی کھپت اور تقسیم کے نظام کا ماسٹر پلان تیار کرنا چاہیے۔

لیکن مسئلہ صرف بجلی کی بار بار معطلی کا نہیں بلکہ کراچی اور اندرون سندھ کے دور دراز علاقے مسائلستان کی تصویر بنے ہوئے ہیں، تھر کی دردناک کہانی کا تسلسل جاری ہے، ہلاکتیں رکنے کا نام نہیں لے رہیں، ارباب بست و کشاد الزامات اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی ''نورا کشتی'' میں مصروف ہیں، جب کہ کراچی اور سندھ کے غریب عوام کو امن کے علاوہ انسانی زندگی میں ریلیف ملنا چاہیے جس کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں، بلکہ عوام دوست انتظامی اقدامات کر کے جمہوری ثمرات عام آدمی کے گھر کی دہلیز پر پہنچائے جا سکتے ہیں۔


تاہم فلاحی ریاست اور سماجی بہبود کے سارے کام شفاف حکومتی اقدامات کے محتاج ہوتے ہیں، وزراء اپنی ذمے داریاں پوری کریں، اداروں کی ورکنگ ریلیشن شپ ہر قسم کی بد عنوانی، تساہل، نااہلیت اور غفلت سے پاک ہو تو کراچی کو رشک جنت بنایا جا سکتا ہے کیونکہ یہ شہر میگا سٹی پاکستان بھر کے لاکھوں محنت کش خاندانواں کے رزق کا وسیلہ بنا ہوا ہے۔ اس کی بندہ نوازی بے مثل ہے، جسے داغدار کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے، تاہم سسٹم میں خرابی اس حد تک سرائیت کر چکی ہے کہ عام آدمی کے ذہن میں بھی یہ سوال اٹھتا ہے کہ گڈ گورننس تو دور کی بات ہے آخر گورننس کس چڑیا کا نام ہے، اور جمہوریت جس طرز حکومت کو کہتے ہیں وہ اچھی حکمرانی سے ہی عبارت ہے۔

اگر حکومت عوامی مسائل کے حل کا ایک شفاف اور مربوط و موثر میکنزم اور عملی ماڈل پیش کرے تو مسائل ناگہانی عذاب بن کر شہریوں پر نازل نہ ہوں۔ مگر جوابدہی اور انتظامی احتساب کے فقدان کے باعث سندھ کے دیہی و شہری علاقوں کے ساتھ ساتھ ملکی معاشی انجن کراچی کو روز کسی نہ کسی بحران کا سامنا رہتا ہے، کبھی بجلی چلی گئی، تو کسی روز پانی کی مین پائپ لائن پھٹ گئی، اکثر علاقوں میں گیس غائب تو کشادہ شاہراہوں پر ٹریفک جام کا اعصاب شکن یومیہ منظر، صحت و تعلیم اور ٹرانسپورٹ کے شعبے کا اللہ ہی حافظ ہے۔

ارباب اختیار صرف سوچیں کہ ایک بڑے شہر اور اس کے میگاپولیٹن کلچر اور سماجی و سیاسی ڈھانچہ کی ترتیب و تزئین کے لوازمات کیا ہونے چاہئیں تو شہریوں کے لائف اسٹائل میں کافی بہتری لائی جا سکتی ہے، صد احترام کراچی اب مائی کولاچی کے دور کی چھوٹی سی ماہی گیر بستی نہیں ایک جیتا جاگتا صنعتی و تجارتی ڈریم لینڈ ہے۔ چنانچہ سندھ حکومت کو مسائل کے حل کے لیے غیر معمولی اقدامات سے کایا پلٹنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
Load Next Story