موروثی کرتوت
سرکار کے اداروں کے بارے میں ہمیشہ سے یہی کہا جاتا ہے کہ خراب کارکردگی دکھانے میں استاد ہوتے ہیں۔
ISLAMABAD:
میرا مشاہدہ ہے کہ دھیرے دھیرے میں بھی کچھ بداخلاق ہوتا جا رہا ہوں۔ پہلے ایسا نہیں تھا۔
بچپن میں تو بالکل ہی نہیں تھا۔ ایک روز اس کی وجہ سوچنے بیٹھا تو پانچ منٹ کے اندر ہی (دقیانوسی) قنوطی اور مردم بے زار ہو کے رہ گیا۔ تب میں چاہتا تو دو سیاسی جماعتوں اور دانشوروں کے ایک گروہ کو آسانی سے جوائن کر سکتا تھا۔ کالی زبان والی بہت سی بسورتی ہوئی شکلیں اپنے اپنے گلاس رکھ کے مجھے ویلکم کرنے کو اٹھ کھڑی ہوتیں۔ مجھ سے ملتے جلتے اور اسی کیفیت سے گزرتے ہوئے لوگ اور جانے کتنے ہوں گے۔ کچھ جوشیلے رہنماؤں میں جس رفتار اور کثرت سے بدتمیزیاں پھیل رہی ہیں اور گستاخیوں کے مظاہر عام ہو رہے ہیں، اس کا نتیجہ یہی نکلے گا۔ مایوسیوں سے لدی ہوئی اداسی رگوں میں اتنی گہری ہو رہی ہے کہ اب ہونٹوں پہ تیسرے درجے کی ہنسی لانے کے لیے بھی چار چھ میراثی اور بھانڈ درکار ہیں، جیسے اس وڈیرے نے رکھے ہوئے تھے جو بھانڈوں کے جھنڈ کو مخاطب کرکے حکم دیتا تھا۔ ''اوئے کھوتے دے پُترو مجھے ذرا ہنساؤ میرا ڈکار پھنسا ہوا ہے۔''
سرکار کے اداروں کے بارے میں ہمیشہ سے یہی کہا جاتا ہے کہ خراب کارکردگی دکھانے میں استاد ہوتے ہیں۔ گوناگوں نااہلیوں اور کرپشنوں سے مالامال۔ حتیٰ کہ تعلیمی اداروں سے لے کر سرکار کی نگرانی میں چلنے والی صنعتیں اور کاروبار بھی۔ تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے۔ بلکہ یہ تو طے ہے کہ کاروبار کرنا حکومت کا کام ہی نہیں۔ پھر بھی جب جب اس نے کاروبار کیا، لٹیا ہی ڈبوئی۔ ادھر یہ بھی ستم ظریفی ہے کہ جب اس نے کچھ اداروں سے جان چھڑائی اور انھیں نجی ملکیت میں سونپا تو اس کے بعد بھی وہ اسی کھجور میں اٹکے رہے جہاں آسمان سے گرے تھے۔ سارے لچھن ابھی تک سرکاری ہیں۔
ایک کے سوا سارے بینک پہلے نجی ملکیت میں تھے۔ سارے اطوار دوستانہ اور فدویانہ تھے۔ پھر سرکار کی ملکیت میں چلے گئے، لوٹے تو سرکار کا نخرہ، غمزہ اور لال فیتہ لوٹانا بھول گئے۔ واپس نجی ملکیت میں آئے برسوں گزر گئے لیکن وہیں اٹکے ہوئے ہیں۔ ایک غیر ملکی گروپ نے نجی ملکیت میں دیا جانے والا ایک بڑا بینک خرید لیا۔ کاروباری لحاظ سے اس بڑے بینک نے بہت اچھی کارکردگی دکھائی ہے لیکن اندر ایسی داستانیں بھی چھپی ہوئی ہیں کہ سرکار کا محکمہ مال بھی سنے تو شرما جائے۔ بغیر پہیوں والی فائل کے اوپر کیسے بیٹھنا ہے اور چلتی ہوئی خیبر میل کو بلیک میل کیسے بنانا ہے، یہ سب شعبدے ابھی تک دکھائے جا رہے ہیں، ایک کمپنی نے کروڑوں روپے کی جائیداد کے کاغذات رواں کاروباری قرضے کے لیے ان کے پاس مارگیج کیے تھے۔
کمپنی نے بینک سے یہ کاروبار ختم کیا تو ایک ایک پائی لوٹا دی لیکن گزشتہ دس برس سے وہ آنے بہانے ان کاغذات کو دبائے بیٹھے ہیں۔ ان بہانوں میں یہ چیز بھی شامل ہے کہ اس کمپنی سے ملتے جلتے نام والی کوئی بھی کمپنی اگر کبھی بھی اور کہیں بھی دنیا میں موجود تھی تو اس کے سارے قصور اور ڈیفالٹ کی ذمے دار یہی ہے ، بینک کے اہلکار وقفے وقفے سے ایسے بے سر پیر کے الزامات اس کے کھاتے میں ڈال کے ان کی وضاحتیں طلب کرتے ہیں۔ اس المیے کی تفصیل بہت طربیہ ہے۔ ساری معلومات ملیں گی تو کبھی تفصیل سے عرض کروں گا۔ سو فیصد سرکار والے حیلے بہانے، وہی کلرکانہ ذہنیت، ویسے ہی ٹاؤٹ اور ویسے ہی سودے۔ پر حکومت یہاں بری الذمہ ہے۔ اس کی گاگر پھوٹی تو وہ پانی بھرن سے چھوٹی۔
ایک اور کمپنی کو چند برس پہلے خدا خدا کرکے پرائیویٹائز کیا گیا تھا، اب ایک غیر ملکی کمپنی اس کے انتظامی معاملات سنبھالے ہوئے ہے۔ اخراجات کو معقول حد میں لانے کے لیے اس نے ہزاروں ملازمین کو فارغ کیا تھا۔ اب پھر کر رہی ہے لیکن ابھی تک سارے کرتوت سرکاری ہیں۔ فون خراب ہوجائے تو ممکن ہے کہ ہفتوں کیا مہینوں بھی کوئی نہ پوچھے۔ میرے ایک جاننے والے نے فون لگوایا تو ساتھ ہی انٹرنیٹ اور ٹی وی کا پیکیج بھی لے لیا، تیسرے دن فون ڈیڈ ہوگیا۔ اب گھر میں نہ فون ہے نہ ٹی وی اور نہ انٹرنیٹ۔ کہنے لگے روز دن میں دو مرتبہ شکایت درج کراتا ہوں، روز ہی کمپیوٹر سے کلیئر ہوجاتی ہے اور نیا نمبر ملتا ہے۔
چھ بار ٹیلی فون ایکسچینج جاچکا ہوں۔ وہ تحریری درخواست لے کے رکھ لیتے ہیں۔ اب ایک لائن مین کا موبائل نمبر لے کر آیا ہوں اس، سے پرائیویٹ اپائٹمنٹ لی ہے۔ پھر ایک روز محلے سے گزرتے ہوئے میں نے ان صاحب کو دیکھا کہ گلی کے کونے میں لگے ہوئے فون کے ڈبے کے پاس پتھر پہ اکڑوں بیٹھے ہیں اور لائن مین ڈبہ کھول کے تاروں کے گچھے میں گم ہے، میں نے حال پوچھا تو بولے ''محترم لائن مین صاحب کے ساتھ روز دوپہر کو یہیں بیٹھتا ہوں۔ مذاکرات بھی جاری ہیں اور سودا بھی۔ یہ انڈر گراؤنڈ کیبل کی فالٹ بتا رہے ہیں لہٰذا ریٹ اور مدت زیادہ ہے۔'' گویا سرکار گئی ہے سرکار کا مزاج نہیں گیا۔
آپ کے ای ایس سی کو دیکھ لیجیے۔ سرکار یہاں بھی فارغ ہوچکی۔ ادارہ نجی ملکیت میں چلا گیا لیکن آپ ذرا بچت کرنے کی کوشش کر دیکھیں، لُو برساتے موسم میں بغیر اے سی کے سوتے ہیں۔ دو مہینے ملک سے باہر اور تین مہینے رشتے داروں کے ہاں رہ کے آجائیں، کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ میٹر نہیں چلا تو پہلے سے بھی دگنا بل بنا کے وصول کرلیا جائے گا کہ آپ نے فراڈ کیا ہے۔ میٹر میں ہیرا پھیری کی ہے۔ الزام بھی اپنا، لیبارٹری بھی اپنی اور منصف بھی خود۔ اب جرمانہ کس حساب سے کروانا ہے اس کے لیے مجھے نوٹ دکھاؤ تاکہ میرا موڈ بنے۔ ہاں اگر مفت کی بجلی چاہیے تو کئی پیکیج حاضر ہیں۔ کنڈا پیکیج سب سے سستا اور کارآمد ہے۔ چوبیس گھنٹے ان لمیٹڈ خدمات مہیا کرتا ہے۔ طلب کریں تو آپ کے در پہ حاضری دیں گے۔ کورنش بجا لائیں گے، مفاداتی اخلاق شاید ایک قدرتی صلاحیت ہے۔
میں اس صلاحیت سے بھی عاری ہوں، کسی ایک جگہ کے کیڑے کہیں اور جا نکالتا ہوں اسی لیے لگتا ہے کہ مجھ بداخلاق اور دقیانوسی کی چھوٹی موٹی مسرتیں بھی کہیں اور پھنس گئی ہیں۔ ایسے میں میرے ہونٹوں پہ تیسرے درجے کی ہنسی لانے کے لیے دانشوروں، سیاست دانوں اور تاجروں کے کسی گروہ کی نہیں ایمان فروشوں کی ضرورت ہے۔
میرا مشاہدہ ہے کہ دھیرے دھیرے میں بھی کچھ بداخلاق ہوتا جا رہا ہوں۔ پہلے ایسا نہیں تھا۔
بچپن میں تو بالکل ہی نہیں تھا۔ ایک روز اس کی وجہ سوچنے بیٹھا تو پانچ منٹ کے اندر ہی (دقیانوسی) قنوطی اور مردم بے زار ہو کے رہ گیا۔ تب میں چاہتا تو دو سیاسی جماعتوں اور دانشوروں کے ایک گروہ کو آسانی سے جوائن کر سکتا تھا۔ کالی زبان والی بہت سی بسورتی ہوئی شکلیں اپنے اپنے گلاس رکھ کے مجھے ویلکم کرنے کو اٹھ کھڑی ہوتیں۔ مجھ سے ملتے جلتے اور اسی کیفیت سے گزرتے ہوئے لوگ اور جانے کتنے ہوں گے۔ کچھ جوشیلے رہنماؤں میں جس رفتار اور کثرت سے بدتمیزیاں پھیل رہی ہیں اور گستاخیوں کے مظاہر عام ہو رہے ہیں، اس کا نتیجہ یہی نکلے گا۔ مایوسیوں سے لدی ہوئی اداسی رگوں میں اتنی گہری ہو رہی ہے کہ اب ہونٹوں پہ تیسرے درجے کی ہنسی لانے کے لیے بھی چار چھ میراثی اور بھانڈ درکار ہیں، جیسے اس وڈیرے نے رکھے ہوئے تھے جو بھانڈوں کے جھنڈ کو مخاطب کرکے حکم دیتا تھا۔ ''اوئے کھوتے دے پُترو مجھے ذرا ہنساؤ میرا ڈکار پھنسا ہوا ہے۔''
سرکار کے اداروں کے بارے میں ہمیشہ سے یہی کہا جاتا ہے کہ خراب کارکردگی دکھانے میں استاد ہوتے ہیں۔ گوناگوں نااہلیوں اور کرپشنوں سے مالامال۔ حتیٰ کہ تعلیمی اداروں سے لے کر سرکار کی نگرانی میں چلنے والی صنعتیں اور کاروبار بھی۔ تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے۔ بلکہ یہ تو طے ہے کہ کاروبار کرنا حکومت کا کام ہی نہیں۔ پھر بھی جب جب اس نے کاروبار کیا، لٹیا ہی ڈبوئی۔ ادھر یہ بھی ستم ظریفی ہے کہ جب اس نے کچھ اداروں سے جان چھڑائی اور انھیں نجی ملکیت میں سونپا تو اس کے بعد بھی وہ اسی کھجور میں اٹکے رہے جہاں آسمان سے گرے تھے۔ سارے لچھن ابھی تک سرکاری ہیں۔
ایک کے سوا سارے بینک پہلے نجی ملکیت میں تھے۔ سارے اطوار دوستانہ اور فدویانہ تھے۔ پھر سرکار کی ملکیت میں چلے گئے، لوٹے تو سرکار کا نخرہ، غمزہ اور لال فیتہ لوٹانا بھول گئے۔ واپس نجی ملکیت میں آئے برسوں گزر گئے لیکن وہیں اٹکے ہوئے ہیں۔ ایک غیر ملکی گروپ نے نجی ملکیت میں دیا جانے والا ایک بڑا بینک خرید لیا۔ کاروباری لحاظ سے اس بڑے بینک نے بہت اچھی کارکردگی دکھائی ہے لیکن اندر ایسی داستانیں بھی چھپی ہوئی ہیں کہ سرکار کا محکمہ مال بھی سنے تو شرما جائے۔ بغیر پہیوں والی فائل کے اوپر کیسے بیٹھنا ہے اور چلتی ہوئی خیبر میل کو بلیک میل کیسے بنانا ہے، یہ سب شعبدے ابھی تک دکھائے جا رہے ہیں، ایک کمپنی نے کروڑوں روپے کی جائیداد کے کاغذات رواں کاروباری قرضے کے لیے ان کے پاس مارگیج کیے تھے۔
کمپنی نے بینک سے یہ کاروبار ختم کیا تو ایک ایک پائی لوٹا دی لیکن گزشتہ دس برس سے وہ آنے بہانے ان کاغذات کو دبائے بیٹھے ہیں۔ ان بہانوں میں یہ چیز بھی شامل ہے کہ اس کمپنی سے ملتے جلتے نام والی کوئی بھی کمپنی اگر کبھی بھی اور کہیں بھی دنیا میں موجود تھی تو اس کے سارے قصور اور ڈیفالٹ کی ذمے دار یہی ہے ، بینک کے اہلکار وقفے وقفے سے ایسے بے سر پیر کے الزامات اس کے کھاتے میں ڈال کے ان کی وضاحتیں طلب کرتے ہیں۔ اس المیے کی تفصیل بہت طربیہ ہے۔ ساری معلومات ملیں گی تو کبھی تفصیل سے عرض کروں گا۔ سو فیصد سرکار والے حیلے بہانے، وہی کلرکانہ ذہنیت، ویسے ہی ٹاؤٹ اور ویسے ہی سودے۔ پر حکومت یہاں بری الذمہ ہے۔ اس کی گاگر پھوٹی تو وہ پانی بھرن سے چھوٹی۔
ایک اور کمپنی کو چند برس پہلے خدا خدا کرکے پرائیویٹائز کیا گیا تھا، اب ایک غیر ملکی کمپنی اس کے انتظامی معاملات سنبھالے ہوئے ہے۔ اخراجات کو معقول حد میں لانے کے لیے اس نے ہزاروں ملازمین کو فارغ کیا تھا۔ اب پھر کر رہی ہے لیکن ابھی تک سارے کرتوت سرکاری ہیں۔ فون خراب ہوجائے تو ممکن ہے کہ ہفتوں کیا مہینوں بھی کوئی نہ پوچھے۔ میرے ایک جاننے والے نے فون لگوایا تو ساتھ ہی انٹرنیٹ اور ٹی وی کا پیکیج بھی لے لیا، تیسرے دن فون ڈیڈ ہوگیا۔ اب گھر میں نہ فون ہے نہ ٹی وی اور نہ انٹرنیٹ۔ کہنے لگے روز دن میں دو مرتبہ شکایت درج کراتا ہوں، روز ہی کمپیوٹر سے کلیئر ہوجاتی ہے اور نیا نمبر ملتا ہے۔
چھ بار ٹیلی فون ایکسچینج جاچکا ہوں۔ وہ تحریری درخواست لے کے رکھ لیتے ہیں۔ اب ایک لائن مین کا موبائل نمبر لے کر آیا ہوں اس، سے پرائیویٹ اپائٹمنٹ لی ہے۔ پھر ایک روز محلے سے گزرتے ہوئے میں نے ان صاحب کو دیکھا کہ گلی کے کونے میں لگے ہوئے فون کے ڈبے کے پاس پتھر پہ اکڑوں بیٹھے ہیں اور لائن مین ڈبہ کھول کے تاروں کے گچھے میں گم ہے، میں نے حال پوچھا تو بولے ''محترم لائن مین صاحب کے ساتھ روز دوپہر کو یہیں بیٹھتا ہوں۔ مذاکرات بھی جاری ہیں اور سودا بھی۔ یہ انڈر گراؤنڈ کیبل کی فالٹ بتا رہے ہیں لہٰذا ریٹ اور مدت زیادہ ہے۔'' گویا سرکار گئی ہے سرکار کا مزاج نہیں گیا۔
آپ کے ای ایس سی کو دیکھ لیجیے۔ سرکار یہاں بھی فارغ ہوچکی۔ ادارہ نجی ملکیت میں چلا گیا لیکن آپ ذرا بچت کرنے کی کوشش کر دیکھیں، لُو برساتے موسم میں بغیر اے سی کے سوتے ہیں۔ دو مہینے ملک سے باہر اور تین مہینے رشتے داروں کے ہاں رہ کے آجائیں، کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ میٹر نہیں چلا تو پہلے سے بھی دگنا بل بنا کے وصول کرلیا جائے گا کہ آپ نے فراڈ کیا ہے۔ میٹر میں ہیرا پھیری کی ہے۔ الزام بھی اپنا، لیبارٹری بھی اپنی اور منصف بھی خود۔ اب جرمانہ کس حساب سے کروانا ہے اس کے لیے مجھے نوٹ دکھاؤ تاکہ میرا موڈ بنے۔ ہاں اگر مفت کی بجلی چاہیے تو کئی پیکیج حاضر ہیں۔ کنڈا پیکیج سب سے سستا اور کارآمد ہے۔ چوبیس گھنٹے ان لمیٹڈ خدمات مہیا کرتا ہے۔ طلب کریں تو آپ کے در پہ حاضری دیں گے۔ کورنش بجا لائیں گے، مفاداتی اخلاق شاید ایک قدرتی صلاحیت ہے۔
میں اس صلاحیت سے بھی عاری ہوں، کسی ایک جگہ کے کیڑے کہیں اور جا نکالتا ہوں اسی لیے لگتا ہے کہ مجھ بداخلاق اور دقیانوسی کی چھوٹی موٹی مسرتیں بھی کہیں اور پھنس گئی ہیں۔ ایسے میں میرے ہونٹوں پہ تیسرے درجے کی ہنسی لانے کے لیے دانشوروں، سیاست دانوں اور تاجروں کے کسی گروہ کی نہیں ایمان فروشوں کی ضرورت ہے۔