تمام پاکستانی چلتے پھرتے بم ہیں
محفلوں میں لطیفے سناتے وقت ہم یہ بھی چیک نہیں کرتے کہ کیا ہم اپنی زبان سے کسی کو تکلیف تو نہیں پہنچا رہے.
BAHAWALPUR:
''ایک سکھ جو کہ کہیں چوکیداری کرتا تھا اسے کہیں سے ایک چراغ مل گیا، چراغ کافی گندا تھا، اس نے سوچا کہ اسے رگڑ کر صاف کر لیا جائے، کام آ جائے گا۔ اس نے اس چراغ کو ایک کپڑے سے رگڑا تو اس میں سے گڑگڑاہٹ کی آوازآئی اور دھواں سا نکلا... پھر اس دھویں نے ایک جن کی شکل اختیار کر لی اور اس جن نے قہقہہ لگا کر سوال کیا، '' کیا حکم ہے میرے آقا؟ '' سکھ تھوڑا سا گھبرایا مگر اس نے ہکلاتے ہکلاتے کہا کہ ایک بڑا سا محل ہونا چاہیے... محل نظروں کے سامنے آ گیا، جن نے پھر سوال کیا، '' کوئی اور حکم میرے آقا؟ '' اس نے کہا کہ اس محل میں ہر طرف سونے اور چاندی کا کام ہو جائے یہاں تک کہ اس کا بڑا داخلی گیٹ بھی پورے کا پورا سونے کا ہو!!! حکم کی تعمیل ہوئی، جن نے پھر ہاہاہاہا ہوہوہوہو کا ورد کیا اور کہا، ''آپ کے پاس فقط تین خواہشوں کی تکمیل کا چانس تھا، اب آپ بتائیں کہ تیسری خواہش کیا ہے؟ ''
میں نے یہاں تک لطیفہ سنایا اور رکی، پھر اس چھوٹے سے لاؤنج میں کافی پر موجود اپنی بیٹی کی سہیلیوں سے سوال کیا کہ وہ اندازہ لگائیں کہ اس نے کیا مانگا ہو گا... سب کا جواب لگ بھگ یہی تھا کہ اس نے بیوی کی خواہش کی ہو گی۔ ''تم لوگ بھول گئیں کہ میں نے کہا تھا وہ چوکیدار سکھ تھا ... اس نے کہا، اب مجھے اس محل میں چوکیدار لگوا دو!! '' میں سمجھی کہ میرے اس لطیفے پر سب لوگ کھلکھلا کر ہنسیں گے مگر دبی دبی ہنسی کی آوازیں آئیں، میں حیران تو ہوئی مگر یہی سوچا کہ میرے احترام میں یہ لوگ تھوڑا تھوڑا ہنسی ہیں یا شاید تھوڑا ہنسنا ترقی یافتہ ہونے کی علامت ہو گی اور ہم زیادہ اور بات بے بات ہنسنے والے شاید اسی لیے غیر ترقی یافتہ ہیں۔
''چلتے ہیں!!! '' ایک کے اٹھتے ہی سب اٹھ گئیں اور دروازے تک انھیں اللہ حافظ کہتے ہوئے حجاب میں ملبوس ایک لڑکی نے مجھ سے ملتے ہوئے کہا کہ میں کسی وقت ان کے ہاں بھی چکر لگاؤں ۔ میں سمجھی کہ وہ مسلمان ہی ہو گی۔
''نام بھول گئی تمہارا بیٹا؟ '' میں نے سوال کیا، اتنے خلوص سے وہ دعوت دے رہی تھی تو میرا فرض تھا کہ اس کا مکمل تعارف توحاصل کرتی۔
''سوہنی کور آنٹی!!!!'' اور میرے پاس ایسی زمین نہ تھی کہ جو پھٹتی اور اس میں، میں سما جاتی۔ اس وقت جس شرمندگی کا سامنا تھا نہ اس کا ذکر الفاظ میں ممکن ہے نہ ہی اس کیفیت کا جو دو دن قبل ہوئی اور مجھے احساس ہوا کہ اس وقت سوہنی کور کی کیا حالت ہوئی ہو گی جب میں اپنے لطیفے میں سکھوں کے '' اوصاف ''بیان کر رہی تھی۔
......
''میڈم میرے بیٹے کے جوتے اسکول میں تبدیل ہو گئے ہیں، عید کی چھٹیوں کے بعد وہ بالکل نئے جوتے پہن کر اسکول آیا تھا مگر جب واپس گیا تو اس کے پاؤں میں اسی کمپنی اور اسی سائز کے مگر موچی سے مرمت شدہ جوتے تھے!! ''
''جی آپ کی بیگم نے کل فون کیا تھا اور کل سے میں نے بار ہا اس کی کلاس میں سب بچوں کے جوتے چیک کیے ہیں، بچوں سے بھی پوچھا ہے مگر کلاس کے تقریبا سبھی بچوں کا ناپ بھی ایک ہے اور جوتے بھی اسی کمپنی کے اور ایک ہی ڈیزائن کے ہیں!!''
''تو کیا میں سمجھوں کہ اسکول میرے بیٹے کے جوتے ڈھونڈنے میں ناکام ہو گیا ہے؟ ''
''میں انتہائی معذرت خواہ ہوں مگر یقین کریں سر کہ اس سے قبل مجھے کبھی ایسی صورت حال کا سامنا نہیں ہوا، کوئی کتاب کاپی گم ہو جائے توعموماً ہم اس کا بندوبست کر دیتے ہیں مگر جوتا!!!!'' میں اپنی بے بسی کو الفاظ پہنا رہی تھی حالانکہ ذہن میں یہی آ رہا تھا کہ ہم اس بچے کو نئے جوتے لے دیتے ہیں۔''براہ مہربانی!!!'' ان صاحب نے کہا، '' چیک کریں کہ اس اسکول میں کون گجراتی آ گیا ہے؟ '' اس وقت وہ صاحب میرے اور خود میں سوہنی کورکے جوتوں میں کھڑی تھی، میرے سارے وجود کا خون میرے چہرے پر آ کر ابلنے لگا اور میں نے گہری سانس لے کر خود کو سنبھالا۔
''کسی ا ور کا تو علم نہیں سر... مگر میرا تعلق گجرات سے ہے!!! '' میرے الفاظ کسی بم کی طرح ان پر پھٹے اور ان کے چہرے پر ہو جانے والا شرمندگی کا لیپ... مگر مجھے اس سے لطف اندوز ہونے کے بجائے چند برس پہلے کی وہ شام اپنی پوری تفصیلات کے ساتھ یاد آ گئی۔ وہ کچھ کہہ رہے تھے، کوئی معذرتی الفاظ ہوں گے یا کوئی بودی وضاحت مگر میں کچھ سن ہی نہ رہی تھی، میری حسیں سب کہیں اور تھیں۔ مجھے احساس ہو ا کہ بسا اوقات ہم سب کتنے ظالم ہو جاتے ہیں، سوچتے ہی نہیں کہ کتنی آسانی سے ہم کسی کی قومیت... ملک اور مذہب کی بنا پر سب کو لپیٹ دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں سکھوں ، پٹھانوں اور بھئیوں کے لطیفے زبان زد عام ہیں، ان کے بارے میں ٹیلی فونوں پر ہونے والے '' فارورڈ'' پیغامات، جن سے ہم انھیں کمتر، بے وقوف، گھامڑ، کم عقل اور بد دماغ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
محفلوں میں لطیفے سناتے وقت ہم یہ بھی چیک نہیں کرتے کہ کیا ہم اپنی زبان سے کسی کو تکلیف تو نہیں پہنچا رہے، ہمارا مذہب کتنا واضح کہتا ہے '' مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے لوگ محفوظ ہوں '' گجراتیوں کو جوتی چور کہنے کی جانے کیا روایت ہے ، اس تاریخ پر روشنی ڈالنے کے بجائے اہم یہ سوال ہے کہ کیا ہر گجراتی جوتی چور ہوتا ہے؟ اگر چند سو برس قبل کسی کمیونٹی کے ایک فرد نے کوئی غلط کام کیا ہو گا تو کیاسب پر یہ لیبل قیامت تک کے لیے لگ گیا۔
اپنے رویے بدلنے کی ضرورت ہے، sweeping statements کسی کے بارے میں بھی نہ دیں خواہ وہ کوئی امریکی ہے، یورپین ہے، اماراتی ہے ، ہندوستانی ہے یا اپنے ہی ملک میں کسی اور صوبے یا قومیت کا! خاندان، علاقہ، ملک یا مذہب کسی انسان کی شخصیت کی تخلیق میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، ہم میں سے ہر شخص کسی نہ کسی عادت کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے کہ کس مذہب یا علاقے کا ہے مگر اسے تضحیک کا باعث نہیں ہونا چاہیے۔ ہر شخص ایک اکائی ہے ، اس کی اپنی انفرادیت ہے۔ ایک ہی ملک یا علاقے میں رہنے والے لوگ مختلف حالات کے تحت علیحدہ علیحدہ انداز میں reactکرتے ہیں، یہ فرق ان کی انفرادی سوچ کا ہوتا ہے اور انھیں کسی بنا پر ایسا نہیں کہا جا سکتا کہ فلاں علاقے کے لوگ سب چالاک ہوتے ہیں، فلاں ملک کے سب لوگ دھوکے باز ہیں یا فلاں قبیلے کے سب لوگ بے وقوف ہوتے ہیں۔
جس ایک اذیت کا سامنا ہمیں بیرونی دنیا میں ہر ہر ائیر پورٹ پر، ہر ہر بارڈر پر کرنا پڑتا ہے وہ ہم پر''پاکی'' کا ٹائٹل ہے۔ جہاں کوئی پاکستانی نظر آتا ہے لوگ اس کی قطار سے ہٹ کر علیحدہ قطار بنا لیتے ہیں، اگر آپ بظاہر پاکستانی نہیں نظر آتے تو آپ کے نام کے ساتھ محمد، احمد، علی، عبداللہ اور عمر کا سابقہ یا لاحقہ... یا آپ کے منہ سے ادا ہونیوالے الفاظ، '' پاکستان''... وہ لفظ جو کبھی فخر کی علامت ہوتا تھا اب وہ آپ کو دہشت گرد ثابت کرنے کی پہلی علامت ہے۔ امریکا، کینیڈا یا یورپی ممالک میں لوگ ہم سے خوف زدہ ہوتے ہیں، ہمارے ساتھ مل کر کوئی کاروبار کرتے ہوئے جھجکتے ہیں، ہمارے بچوں کے ساتھ یونیورسٹیوں کے ہاسٹلز میں کمرے شئیر کرنیسے ڈرتے ہیں... وہ وقت دور نہیں جب ہمارے ہاں سے کسی کو بھی باہر سفر کے لیے ویزہ نہیں ملے گا کیونکہ وہ اپنے ملکوں میں سنتے رہتے ہیں ... '' تمام پاکستانی چلتے پھرتے بم ہیں!!!!''
''ایک سکھ جو کہ کہیں چوکیداری کرتا تھا اسے کہیں سے ایک چراغ مل گیا، چراغ کافی گندا تھا، اس نے سوچا کہ اسے رگڑ کر صاف کر لیا جائے، کام آ جائے گا۔ اس نے اس چراغ کو ایک کپڑے سے رگڑا تو اس میں سے گڑگڑاہٹ کی آوازآئی اور دھواں سا نکلا... پھر اس دھویں نے ایک جن کی شکل اختیار کر لی اور اس جن نے قہقہہ لگا کر سوال کیا، '' کیا حکم ہے میرے آقا؟ '' سکھ تھوڑا سا گھبرایا مگر اس نے ہکلاتے ہکلاتے کہا کہ ایک بڑا سا محل ہونا چاہیے... محل نظروں کے سامنے آ گیا، جن نے پھر سوال کیا، '' کوئی اور حکم میرے آقا؟ '' اس نے کہا کہ اس محل میں ہر طرف سونے اور چاندی کا کام ہو جائے یہاں تک کہ اس کا بڑا داخلی گیٹ بھی پورے کا پورا سونے کا ہو!!! حکم کی تعمیل ہوئی، جن نے پھر ہاہاہاہا ہوہوہوہو کا ورد کیا اور کہا، ''آپ کے پاس فقط تین خواہشوں کی تکمیل کا چانس تھا، اب آپ بتائیں کہ تیسری خواہش کیا ہے؟ ''
میں نے یہاں تک لطیفہ سنایا اور رکی، پھر اس چھوٹے سے لاؤنج میں کافی پر موجود اپنی بیٹی کی سہیلیوں سے سوال کیا کہ وہ اندازہ لگائیں کہ اس نے کیا مانگا ہو گا... سب کا جواب لگ بھگ یہی تھا کہ اس نے بیوی کی خواہش کی ہو گی۔ ''تم لوگ بھول گئیں کہ میں نے کہا تھا وہ چوکیدار سکھ تھا ... اس نے کہا، اب مجھے اس محل میں چوکیدار لگوا دو!! '' میں سمجھی کہ میرے اس لطیفے پر سب لوگ کھلکھلا کر ہنسیں گے مگر دبی دبی ہنسی کی آوازیں آئیں، میں حیران تو ہوئی مگر یہی سوچا کہ میرے احترام میں یہ لوگ تھوڑا تھوڑا ہنسی ہیں یا شاید تھوڑا ہنسنا ترقی یافتہ ہونے کی علامت ہو گی اور ہم زیادہ اور بات بے بات ہنسنے والے شاید اسی لیے غیر ترقی یافتہ ہیں۔
''چلتے ہیں!!! '' ایک کے اٹھتے ہی سب اٹھ گئیں اور دروازے تک انھیں اللہ حافظ کہتے ہوئے حجاب میں ملبوس ایک لڑکی نے مجھ سے ملتے ہوئے کہا کہ میں کسی وقت ان کے ہاں بھی چکر لگاؤں ۔ میں سمجھی کہ وہ مسلمان ہی ہو گی۔
''نام بھول گئی تمہارا بیٹا؟ '' میں نے سوال کیا، اتنے خلوص سے وہ دعوت دے رہی تھی تو میرا فرض تھا کہ اس کا مکمل تعارف توحاصل کرتی۔
''سوہنی کور آنٹی!!!!'' اور میرے پاس ایسی زمین نہ تھی کہ جو پھٹتی اور اس میں، میں سما جاتی۔ اس وقت جس شرمندگی کا سامنا تھا نہ اس کا ذکر الفاظ میں ممکن ہے نہ ہی اس کیفیت کا جو دو دن قبل ہوئی اور مجھے احساس ہوا کہ اس وقت سوہنی کور کی کیا حالت ہوئی ہو گی جب میں اپنے لطیفے میں سکھوں کے '' اوصاف ''بیان کر رہی تھی۔
......
''میڈم میرے بیٹے کے جوتے اسکول میں تبدیل ہو گئے ہیں، عید کی چھٹیوں کے بعد وہ بالکل نئے جوتے پہن کر اسکول آیا تھا مگر جب واپس گیا تو اس کے پاؤں میں اسی کمپنی اور اسی سائز کے مگر موچی سے مرمت شدہ جوتے تھے!! ''
''جی آپ کی بیگم نے کل فون کیا تھا اور کل سے میں نے بار ہا اس کی کلاس میں سب بچوں کے جوتے چیک کیے ہیں، بچوں سے بھی پوچھا ہے مگر کلاس کے تقریبا سبھی بچوں کا ناپ بھی ایک ہے اور جوتے بھی اسی کمپنی کے اور ایک ہی ڈیزائن کے ہیں!!''
''تو کیا میں سمجھوں کہ اسکول میرے بیٹے کے جوتے ڈھونڈنے میں ناکام ہو گیا ہے؟ ''
''میں انتہائی معذرت خواہ ہوں مگر یقین کریں سر کہ اس سے قبل مجھے کبھی ایسی صورت حال کا سامنا نہیں ہوا، کوئی کتاب کاپی گم ہو جائے توعموماً ہم اس کا بندوبست کر دیتے ہیں مگر جوتا!!!!'' میں اپنی بے بسی کو الفاظ پہنا رہی تھی حالانکہ ذہن میں یہی آ رہا تھا کہ ہم اس بچے کو نئے جوتے لے دیتے ہیں۔''براہ مہربانی!!!'' ان صاحب نے کہا، '' چیک کریں کہ اس اسکول میں کون گجراتی آ گیا ہے؟ '' اس وقت وہ صاحب میرے اور خود میں سوہنی کورکے جوتوں میں کھڑی تھی، میرے سارے وجود کا خون میرے چہرے پر آ کر ابلنے لگا اور میں نے گہری سانس لے کر خود کو سنبھالا۔
''کسی ا ور کا تو علم نہیں سر... مگر میرا تعلق گجرات سے ہے!!! '' میرے الفاظ کسی بم کی طرح ان پر پھٹے اور ان کے چہرے پر ہو جانے والا شرمندگی کا لیپ... مگر مجھے اس سے لطف اندوز ہونے کے بجائے چند برس پہلے کی وہ شام اپنی پوری تفصیلات کے ساتھ یاد آ گئی۔ وہ کچھ کہہ رہے تھے، کوئی معذرتی الفاظ ہوں گے یا کوئی بودی وضاحت مگر میں کچھ سن ہی نہ رہی تھی، میری حسیں سب کہیں اور تھیں۔ مجھے احساس ہو ا کہ بسا اوقات ہم سب کتنے ظالم ہو جاتے ہیں، سوچتے ہی نہیں کہ کتنی آسانی سے ہم کسی کی قومیت... ملک اور مذہب کی بنا پر سب کو لپیٹ دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں سکھوں ، پٹھانوں اور بھئیوں کے لطیفے زبان زد عام ہیں، ان کے بارے میں ٹیلی فونوں پر ہونے والے '' فارورڈ'' پیغامات، جن سے ہم انھیں کمتر، بے وقوف، گھامڑ، کم عقل اور بد دماغ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
محفلوں میں لطیفے سناتے وقت ہم یہ بھی چیک نہیں کرتے کہ کیا ہم اپنی زبان سے کسی کو تکلیف تو نہیں پہنچا رہے، ہمارا مذہب کتنا واضح کہتا ہے '' مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے لوگ محفوظ ہوں '' گجراتیوں کو جوتی چور کہنے کی جانے کیا روایت ہے ، اس تاریخ پر روشنی ڈالنے کے بجائے اہم یہ سوال ہے کہ کیا ہر گجراتی جوتی چور ہوتا ہے؟ اگر چند سو برس قبل کسی کمیونٹی کے ایک فرد نے کوئی غلط کام کیا ہو گا تو کیاسب پر یہ لیبل قیامت تک کے لیے لگ گیا۔
اپنے رویے بدلنے کی ضرورت ہے، sweeping statements کسی کے بارے میں بھی نہ دیں خواہ وہ کوئی امریکی ہے، یورپین ہے، اماراتی ہے ، ہندوستانی ہے یا اپنے ہی ملک میں کسی اور صوبے یا قومیت کا! خاندان، علاقہ، ملک یا مذہب کسی انسان کی شخصیت کی تخلیق میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، ہم میں سے ہر شخص کسی نہ کسی عادت کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے کہ کس مذہب یا علاقے کا ہے مگر اسے تضحیک کا باعث نہیں ہونا چاہیے۔ ہر شخص ایک اکائی ہے ، اس کی اپنی انفرادیت ہے۔ ایک ہی ملک یا علاقے میں رہنے والے لوگ مختلف حالات کے تحت علیحدہ علیحدہ انداز میں reactکرتے ہیں، یہ فرق ان کی انفرادی سوچ کا ہوتا ہے اور انھیں کسی بنا پر ایسا نہیں کہا جا سکتا کہ فلاں علاقے کے لوگ سب چالاک ہوتے ہیں، فلاں ملک کے سب لوگ دھوکے باز ہیں یا فلاں قبیلے کے سب لوگ بے وقوف ہوتے ہیں۔
جس ایک اذیت کا سامنا ہمیں بیرونی دنیا میں ہر ہر ائیر پورٹ پر، ہر ہر بارڈر پر کرنا پڑتا ہے وہ ہم پر''پاکی'' کا ٹائٹل ہے۔ جہاں کوئی پاکستانی نظر آتا ہے لوگ اس کی قطار سے ہٹ کر علیحدہ قطار بنا لیتے ہیں، اگر آپ بظاہر پاکستانی نہیں نظر آتے تو آپ کے نام کے ساتھ محمد، احمد، علی، عبداللہ اور عمر کا سابقہ یا لاحقہ... یا آپ کے منہ سے ادا ہونیوالے الفاظ، '' پاکستان''... وہ لفظ جو کبھی فخر کی علامت ہوتا تھا اب وہ آپ کو دہشت گرد ثابت کرنے کی پہلی علامت ہے۔ امریکا، کینیڈا یا یورپی ممالک میں لوگ ہم سے خوف زدہ ہوتے ہیں، ہمارے ساتھ مل کر کوئی کاروبار کرتے ہوئے جھجکتے ہیں، ہمارے بچوں کے ساتھ یونیورسٹیوں کے ہاسٹلز میں کمرے شئیر کرنیسے ڈرتے ہیں... وہ وقت دور نہیں جب ہمارے ہاں سے کسی کو بھی باہر سفر کے لیے ویزہ نہیں ملے گا کیونکہ وہ اپنے ملکوں میں سنتے رہتے ہیں ... '' تمام پاکستانی چلتے پھرتے بم ہیں!!!!''