ڈرے ہوئے لوگ

امکانات اورناممکنات کے میدانِ زارمیں ہزاروں مقامات ہیں جن پرلکھاجاسکتاہے۔

raomanzarhayat@gmail.com

امکانات اورناممکنات کے میدانِ زارمیں ہزاروں مقامات ہیں جن پرلکھاجاسکتاہے۔ عامیانہ سے لے کر رہبرانہ عنوانات قدم قدم پربکھرے پڑے ہیں۔کیا لکھوں بلکہ اپنے آپ سے سوال ہے کہ کیوں لکھوں ۔کیا پورے سندھ کے نظام کو محض ایک ناقابل رشک انسان کوبچانے کے لیے داؤپرلگانے پرلکھوں؟اس سیدکے متعلق لکھوں جس نے بقول وزیرداخلہ،اپوزیشن لیڈرکی حیثیت سے مراعات کاانبارسمیٹ لیا؟ان افسروں کے متعلق لکھوں،جنہوں نے چاپلوسی کے میدان میں یدطولیٰ حاصل کرنے کے بعد اپنے بینک اکاؤنٹ اس قدرتواناکرلیے کہ ملکی خزانہ شرمانے لگے؟جھوٹ کے ان سوداگروں کے متعلق لکھوں جوخاکم بدہن، ملک کوفروخت کرنے کامعاوضہ لے کرلوگوں میں مایوسی پھیلارہے ہیں؟

ان ننانوے فیصدمظلوم مدارس کے متعلق لکھوں جودنیاکے سب سے بڑے سماجی نظام کاحصہ ہیں،مگرمحض ایک فیصددہشت گردوں کی وجہ سے زیرعتاب ہیں؟ان سفیدپوش گھرانوں کے متعلق لکھوں جو تنگدستی اور مفلسی کے ہاتھوں اپنی نوجوان بچیوں کورات کے اندھیرے میں گھرسے باہربھیجنے پرمجبورہیں۔جوصبح کواپنی بیٹی سے کوئی سوال تک نہیں پوچھ سکتے۔کیونکہ انھی پیسوں سے گھرمیں لوگوں کی روح اوربدن کاواجبی سارشتہ قائم ہے۔ صاحبان! کیا لکھوں بلکہ کیاکیالکھوں۔

امتحان کیجیے مراجب تک
شوق زورآزما نہیں ہوتا
مومن خان مومن

آہستہ آہستہ جذباتیت کے بادل چھٹ رہے ہیں۔ ہم جوہیں، اب سب کونظرآتاہے۔ پُرجوش نعرے اب خاموش سے ہوچکے ہیں۔ نئی نسل کے کسی بچے یا بچی سے پوچھیے تواکثریت ان مغربی چراگاہوں میں ہجرت کرنا چاہتی ہے جہاں خوابوں کی ہلکی سی تعبیرہو۔ سومیں سے نوے نوجوان پاکستان میں بے کاری اور تذلیل سے اتنے اُکتا چکے ہیں کہ کسی بھی جائزیا ناجائزطریقے سے مغربی یورپ، امریکا حتیٰ کہ ملایشیااورافریقہ جانے کے لیے تیارہوچکے ہیں۔

اپنے ملک میں انھیں کوئی مستقبل نظرنہیں آتا۔مکالمہ میں تلخی اوردلیل ہے۔پہلے کوئی میرے پاس آتاتھاتو میں اسے ملک میں رہنے کامشورہ ضروردیتاتھامگراب خاموش ہوجاتا ہوں۔سال میں اکثرغیرممالک میں جاتارہتاہوں۔تلخ بات یہ ہے کہ ہماراملک گزشتہ تین دہائیوں سے مہذب دنیا کے اصولوں سے اُلٹ چل رہاہے۔نتیجہ یہ ہے ہم دنیاکے اکثرممالک سے کٹ چکے ہیں۔لے دے کردوممالک سعودی عرب اور چین،ہمارے ساتھ وابستہ نظرآتے ہیں۔ ان کے اپنے اپنے قومی بلکہ ذاتی مفادات ہیں۔

مشکل وقت آنے پرہم تنہا ہوںگے۔یہی قانون قدرت ہے۔سب کچھ نوشتہِ دیوارہے مگرکوئی غورکرنے کے لیے تیار نہیں۔ملک کاواحدادارہ فوج باقی بچاہے۔فوج سے ہزاروں غلطیاں ہوئیں ہیں۔مگرغلطیاں کس سے نہیں ہوتیں۔مگراب ہرطرف سے فوج پریلغار ہوچکی ہے۔اسے ایک منظم طریقے سے دیوار سے لگایا جاچکا ہے۔اگرفوج پر نفسیاتی حملہ کارگرہوا،تونتیجہ کیا ہو سکتا ہے، سوچ کربھی دل دہلتاہے۔

صاحبان!ہم کیالوگ تھے اورکیابنادیے گئے ہیں۔ ٹیپو سلطان کی شہادت کے چنددن بعدانگریزوں کے فاتح لشکر نے انگریزمرداورخواتین کے لیے ایک پروگرام ترتیب دیا۔ سلطان کے اہل خانہ کے زیوارات اورپارچات کی نمائش کی گئی۔انگریزتاریخ دان لکھتاہے کہ جب انگریز خواتین نے اتنے دیدہ زیب کپڑے،زیوارات اور نوادرات دیکھے تو ششدررہ گئیں۔ان کے خواب میں بھی نہیں تھاکہ کوئی خاتون اس درجہ خوبصورت کپڑے اورزیوارات سے آراستہ ہوسکتی ہے۔


ہال میں سکوت طاری ہوگیا۔ میسوردنیاکی امیر ترین ریاستوں میں سے ایک تھی۔ایک ایسی متوازن حکومت جہاں مندروں کو سرکاری امداددی جاتی تھی۔ غیرمسلموں کی مذہبی عمارات کے ساتھ جاگیریں مختص کی گئیں تھیں۔ مسلمانوں کی تمام دولت یاتوبظاہرایمان دارانگریزافسروں نے چوری کرلی،یاپھربرطانیہ کی حکومت اورشاہی خاندان کے تصرف میں چلی گئیں۔یہ نوحہ نہیں،حقیقت ہے۔جس وقت برصغیرکی ترقی کی شرح دوہندسوں میں تھی،اس وقت برطانیہ کی ترقی کی شرح انتہائی کمزورتھی۔ میں تاریخی رومانیت کاشکارنہیں ہوں۔میں دلیل سے بات کرناچاہتاہوں۔عرض کرنے کا مقصدیہ ہے کہ مسلمان تھے کیااورآج کیاہیں۔

ملک کی طرف نظراُٹھاکردیکھیے۔ہم نے مرکزی نکتہ یعنی لوگوں میں آسانیاں تقسیم کرنے بجائے ان میں حددرجہ تقسیم اور دشواریاں پیداکردیں ہیں۔ لوگوں کے ذہن منقسم اورمنتشر ہوچکے ہیں۔اس بحث میں نہیں جاناچاہتاکہ ملک میں یہ سب کیسے ہوا۔ہرایک کے علم میں ہے کہ دین کو ریاستی اورذاتی مقاصدکے لیے کیسے استعمال کیاگیا۔مسلمانوں کے ملک میں دینی سیاسی جماعتوں کاکتناجوازہے، یہ اپنی حدتک ایک سنجیدہ سوال ہے۔

اس پرکوئی بھی بحث کرنے کے لیے تیار نہیں۔ کوئی پوچھنے کی بھی جرات نہیں کرسکتا۔میراسوال ہے کہ کیا بنگلہ دیش میں مذہبی سیاسی جماعتوں پرپابندی بِنا سوچے سمجھے لگائی گئی ہے؟کیا مہذب ممالک میں دینی جماعتوں کو سیاست کرنے کی اجازت ہے؟خیر میں اپنے خیالات میں کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔

عرض کررہاتھاکہ مسلمان جوپوری دنیامیں سب سے زیادہ ترقی پسنداورجدت کواپنانے والے تھے۔ہمارے جیسے معاشروں میں اندھی تقلیدکی بدولت ایک علمی جمود کا شکار ہوگئے۔قدیم مسلمان معاشروں کی جدت پسندی پررشک آتا ہے۔ہرطرح کے علمی تجربہ اورنئی بات کہنے کی بھرپورآزادی تھی۔یہ تحقیق کی دنیاکے لوگ تھے۔ان کی زندگی اسلام سے کشیدکیے گئے اصولوں کے مطابق تھی۔مگر نئی بات سوچنے کی بھرپوراجازت دیتے تھے۔نئے تجربہ کی گنجائش تھی۔آپ (Coffee) کی مثال لیجیے۔دنیامیں صرف ایک دن میں تقریباًدوارب کافی کے کپ روزانہ پیے جاتے ہیں۔

کوئی نہیں جانتا،کہ یہ مشروب مسلمانوں کاتحفہ ہے۔چھ سوسال پہلے یمن میں ایک مسلمان نے کافی کے پودے سے بیج یاپھل اتارے۔اسکوگرم پانی میں تر کیا اور ابتدائی طرزکی کافی بنا ڈالی۔کافی تمام مسلمان علماء اورعوام جسم میں تازگی اورپھرتی کے لیے استعمال کرتے تھے۔ پندرھویں صدی میں قاہرہ سے لے کردمشق،اوراستنبول سے لے کر بغدادتک کافی پینے کارواج تھا۔ جب یہ یورپ پہنچی توعیسائی پادریوں نے اسے "مسلمان مشروب"قراردیا۔کافی پورے یورپ میں پھیل گئی۔مشروب کی دکانوں پرعلماء،فلسفی اور دانشوربیٹھ کرعلمی مباحثہ کرتے تھے۔آج کسی کوکافی پیتے ہوئے ہرگز ہرگز یاد نہیں کہ یہ دراصل پوری دنیاکومسلمانوں کی جانب سے ایک تحفہ ہے۔ یہی کافی آج کے پاکستان یا مسلمان دنیامیں دریافت ہوتی تواسے حلال اورحرام کے میزان پریقیناً پر کھا جاتا۔ مجھے گمان ہے کہ اسے متنازعہ مشروب بنادیاجاتا۔

تعلیم مکمل کرنے کے بعد"ڈگری"دینے کارواج سو فیصدمسلمان درسگاہوں سے شروع ہوا۔859ء میں فاطمہ اَل فہری(Fatima al Fihri)نے پہلامدرسہ مراکش میں شروع کیا۔ علمی درسگاہ کانام اَل قراؤنی (Al- Karaouine)تھا۔یہ اس درجہ مستنداورجدیدمدرسہ تھاکہ شمالی افریقہ بلکہ پوری دنیاسے طلباء حصولِ علم کے لیے یہاں آتے تھے۔طلباء کے لیے رہائش گاہ کی سہولت موجودتھی۔خواتین کے علم حاصل کرنے پرکوئی پابندی نہیں تھی۔آپ حیران ہوںگے کہ مدرسے میں قرآن اورفقہ کی تعلیم کے علاوہ اس وقت کے تمام جدیدعلوم پڑھائے جاتے تھے۔

کسی کواعتراض نہیں ہوتاتھاکہ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ ابتدائی الجبرااورطب کے مضامین کیوں پڑھائے جاتے ہیں۔مدرسے کے لیے یہ بھی لازم نہیں تھاکہ اس میں صرف مسلمان طلباء آئیں۔ہرمذہب کے لوگوں کے لیے مدرسے کے دروازے کھلے ہوئے تھے۔ اَل۔قراؤنی کے دروازے پرقطعاً یہ نہیں لکھاہواتھاکہ یہ ایک مخصوص فرقے کے لیے ہے۔کسی کویہ بھی اعتراض نہیں تھاکہ ان کے ساتھ غیر مسلم بھی پڑھ رہے ہیں۔چندسال تعلیم مکمل کرنے بعد،جب مہتم مدرسہ اوراساتذہ سمجھتے تھے کہ طالب علم تمام مضامین سیکھ چکاہے تواسے ایک ڈگری دی جاتی تھی۔ اس ڈگری کو "اجازہ" کہا جاتا تھا۔

یاد رہے سن859کی بات کر رہا ہوں۔مدرسہ کے طفیل یہ نظام جامعتہ اَل ازھرمیں رائج ہوا۔ ساتھ ساتھ یہ اسپین تک پہنچ گیا۔قدیم مسلمان سائنسدانوں نے دنیامیں انقلاب برپا کردیاتھا۔ہزاروں نام ہیں،لاکھوں ایجادیں ہیں۔کس کس کاذکرکروں۔کیمرہ تک ابوالہیثیم کے تجربات کا مرہونِ منت ہے۔الجبرا، سائنس اور درجنوں شعبوں میں ترقی صرف اور صرف مسلمانوں کی بدولت ممکن ہوئی۔مسلمانوں سے پہلے یونانی تجربات بھی اپنی جگہ مستحکم اورٹھوس تھے۔عرض کرنے کا مقصدبہت سادہ سا ہے۔

میراسوال ہے کہ سیکڑوں برس پہلے مسلمان معاشرے، اس درجہ جدت پسند،غیرمقلداوربے خوف کیوں تھے؟ وہ اس حدتک پُراعتمادکیسے تھے کہ ہرچیزپر دلیل اورمنطق کے حوالے سے بات کرنے کے لیے تیار تھے؟ اس کے بالکل برعکس آج کل کے مسلمان معاشرے بالخصوص ہمارے ملک میں لوگ اتنے خوف زدہ کیوں ہیں۔ ہم دلیل کی بنیادپرکوئی نئی بات سوچنے،سننے اوراپنانے سے ڈرتے کیوں ہیں؟ ہمیں کس چیزکاخوف ہے۔شائدہم علمی، شخصی، دینی اور ذاتی حیثیت میں اس درجہ کمزورہیں کہ ہمیں اپنے آپ سے ڈرلگتاہے؟
Load Next Story