فیصلہ کن مرحلہ
جنرل مشرف اپنی بطور آرمی چیف کی مدت میں کئی بار از خود توسیع لینے کے حق میں جو دلائل دینے کی کوشش کر رہے ہیں
جنرل مشرف اپنی بطور آرمی چیف کی مدت میں کئی بار از خود توسیع لینے کے حق میں جو دلائل دینے کی کوشش کر رہے ہیں اس سے جنرل راحیل شریف (یا فوج) کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا حالانکہ میڈیا میں حالیہ دنوں میں ان کی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے ایک مہم چلائی جا رہی ہے۔
حیرت کی بات ہے بدنام زمانہ این آر او کے خالق' جس کے ذریعے کرپشن کو قانونی حیثیت دیدی گئی اور پاکستان کو آصف زرداری کی شکل میں صدر مملکت اور فوج کے سپریم کمانڈر کا تحفہ دیا گیا، انھوں نے اس بات کا احساس نہ کیا کہ اس متنازعہ مہم کے نتیجے میں نہ صرف جنرل راحیل شریف اور پاک فوج کی شہرت کو نقصان پہنچے گا جس میں کہ یہ تحریک چلانے والوں کے ذاتی مفادات و محرکات کار فرما تھے۔
جنرل راحیل شریف نے یہ کہہ کے کہ میں عہدے کی مدت میں توسیع لینے پر یقین نہیں رکھتا لہٰذا میں مقررہ تاریخ پر ریٹائر ہو جاؤں گا، دس ماہ قبل ہی ان قیاس آرائیوں کا منہ بند کر دیا ہے جب کہ حکومت کو انھیں توسیع دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کرنا ہے بشرطیکہ وہ حکومت کی طرف سے دی جانے والی توسیع قبول کر لیں۔
چیف آف آرمی اسٹاف نے توسیع نہ لینے کا اعلان کر کے اس امر کی یقین دہانی کرائی ہے کہ پاک فوج ایک مضبوط ادارہ ہے اور ان کے اس عہدے سے ہٹنے کے بعد دہشت گردی کے خلاف لڑائی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا جو مکمل جوش اور عزم و استحکام کے ساتھ جاری رہے گی۔ پاکستان کا قومی مفاد ہر چیز پر مقدم ہے جس کا ہر قیمت پر تحفظ کیا جائے گا۔ چیف آف آرمی اسٹاف نے یہ اعلان کر کے اس امر کی بھی تصدیق کر دی ہے کہ کوئی بھی ناگزیر نہیں ہوتا لہٰذا نئے لوگوں کو میرٹ پر اور صحیح وقت پر موقع دیا جانا چاہیے۔
اس موقع پر میں 22 جولائی 2010ء کو شایع ہونیوالے اپنے ایک آرٹیکل کا حوالہ دینا چاہوں گا جس کا عنوان تھا ''توسیع اور توقعات'' میں نے لکھا تھا کہ جنرل وحید کاکڑ نے 1993ء میں نسبتاً آزاد اور غیر جانبدارانہ انتخابات کا یقین دلایا جس کے نتیجے میں محترمہ بے نظیر بھٹو کامیاب ہوئیں۔
ان کی کامیابی نے عوام اور سیاست دانوں کے وسیع پیمانے پر جذبات کی ترجمانی کی۔ اس پر محترمہ نے ممنون احسان ہو کر جنرل کاکڑ کی چیف آف آرمی اسٹاف کی حیثیت سے 1996ء تک توسیع کی پیش کش کی لیکن جنرل کاکڑ نے انکار کر کے ایک بڑی شاندار مثال قائم کی۔ ان کا کہنا تھا ''میرے انکار کرنے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اس سے آرمی میں دیگر افسروں کی پروموشن کا سلسلہ رک جاتا ہے اور بہت وفادار اور مخلص سینئرز ملٹری افسران جو اپنی باری کے انتظار میں ہوتے ہیں وہ ناامیدی کا شکار ہو جاتے ہیں''۔
جنرل راحیل شریف توسیع لینے سے انکار کر کے یہ پیغامدیا ہے کہ وہ اپنے کام کو اپنی باقی ماندہ مدت میں مکمل کر سکتے ہیں۔ ان کے کردار کے بارے میں اگر کوئی یہ اندازہ لگائے تو وہ غلطی پر ہو گا کہ جنرل راحیل شریف پنجاب میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں اور ان کے ہمدردوں کا پیچھا نہیں کریں گے یا سندھ میں ان کرپٹ لوگوں کا احتساب نہیں ہو گا جو بالواسطہ طور پر دہشت گردی کی حمایت کرتے ہیں اور ایسے حالات پیدا کرتے ہیں جو ٹارگٹ کلنگ کرنیوالوں کو سہولت فراہم کرتے ہیں۔ جنرل راحیل کی ترجیحات میں فوج کی خود احتسابی بھی شامل ہے جن پر ہاتھ ڈالنا بصورت دیگر ممکن نہیں۔
آپریشن ضرب عضب جس کے ذریعے شمالی وزیرستان سے عسکریت پسندوں کا کامیابی سے صفایا کر دیا گیا' کراچی اور بلوچستان میں امن قائم کیا گیا۔ عمران خان کے دھرنے کے دوران ہر کوئی یہ سوچ رہا تھا کہ چونکہ حکمران جماعت بہت غیر مقبول ہو گئی ہے اس لیے جنرل راحیل شریف کو حکومت پر قبضہ کر لینا چاہیے لیکن جنرل راحیل کی دانش اور پیشہ ورانہ طرز فکر نے انھیں اس سے باز رکھا کہ وہ کوئی غیر آئینی اقدام کریں۔
چونکہ روایتی طور پر آرمی کا حکومت کی خارجہ اور قومی سیکیورٹی پالیسیوں پر مضبوط اثر ہوتا ہے اس لیے چیف آف آرمی اسٹاف نے طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مفاہمت کرانے کی کوشش کی جب کہ ایران اور سعودی عرب کے مابین کشیدگی ختم کرانے کے لیے بھی ان کی مساعی قابل قدر ہے۔ جو لوگ نومبر میں ان کی رخصتی پر نظر جمائے بیٹھے ہیں اور خوش ہو رہے ہیں ان کو دوبارہ سوچنا چاہیے کہ کیا ان کی جگہ پر آنے والا اتنا ہی صبر و تحمل والا اور شرافت و نجابت کا نمونہ ہو گا۔
جنرل راحیل کی نومبر میں ہونے والی ریٹائرمنٹ کے بارے میں عام لوگوں میں جو گہری تشویش پائی جاتی ہے ان کی تالیف قلب کے لیے ایک ممکنہ حل موجود ہے۔
ہمارے عسکری منصوبہ سازوں نے جے سی ایس سی کے ڈھانچے میں تبدیلی نہ کر کے اس کی بغیر دانتوں کے شیر کی حیثیت میں کوئی بہتری نہیں کی بالخصوص اس کے بعد سے جب ہم نے جوہری صلاحیت حاصل کی لیکن آج کی جنگ میں مسلح افواج کے تمام شعبوں کو یعنی زمینی فوج کے ساتھ فضائی اور بحری افواج کو بھی مشترکہ طور پر شریک ہونا پڑے گا۔ ان تینوں سروسز کو مشترکہ آپریشنل اور انتظامی اہلیت دینے کے لیے 1975ء میں جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی (JCSC) تخلیق کی گئی لیکن اس سے ہمارے سیاسی اور عسکری منصوبہ سازوں کے اس ذہن کا پتہ چلتا ہے جو روایت کو توڑنا نہیں چاہتے تھے۔
یہاں پر میں اپنے ایک اور مقالے کا حوالہ دینا چاہتا ہوں جس کا عنوان تھا ''اکیسویں صدی کی جنگیں لڑنا'' ہمیں سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ مسلح افواج کے تمام شعبوں کو مکمل طور پر آپس میں ہم آہنگ کر دیا جائے۔ چونکہ ہمارے پاس بڑے پیمانے پر جنگی نقل و حرکت کے لیے جغرافیائی گہرائی کی کمی ہے اس لیے بھارت کے ساتھ ہماری کوئی بھی لڑائی ایک محدود وقت میں انتہائی تیز اور خوفناک ہو گی جس کو فضا اور سمندر سے مدد فراہم کی جا سکے تاہم اس کی جیت ہار کا فیصلہ زمین (گراؤنڈ) پر ہی ہو گا۔ تکنیکی طور پر جے سی ایس سی کے چیئرمین کے لیے ہر لحاظ سے طاقتور اور انتہائی موثر کنٹرول رکھنے والے افسر کی ضرورت تھی جو تمام سروسز کو ہدایات جاری کر سکے۔
ہماری جوہری فورسز یعنی اسپیشل پلاننر ڈویژن (ایس پی ڈی) وغیرہ اور سائبر وار فیئر ان دونوں کو لازمی طور پر ایک گروپ میں پرو دیا جائے تا کہ یہ ''تزویراتی فورسز'' کے طور پر ایک علیحدہ سروس کی حیثیت سے کام کر سکیں۔ تمام پیرا ملٹری فورسز کو بھی ''ہوم لینڈ سیکیورٹی کمان'' (ایچ ایس سی) میں متشکل کیا جائے۔ جے سی ایس سی کا چیئرمین لازمی طور پر ایک پانچ ستاروں والا جرنیل ہونا چاہیے جب کہ ڈپٹی چیئرمین تزویراتی فورسز کا کمانڈر ہو اور اس عہدے کے لیے چار ستاروں والے جرنیل یا اس کے ہم مرتبہ دیگر آفیسر ہونے چاہئیں اور یہ منصب باری باری بحریہ اور فضائیہ کو بھی ملنا چاہیے۔
جے سی ایس سی کو مجموعی طور پر جنگ کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے جس میں جوہری فورسز بھی شامل ہوں تا کہ جنگی منصوبے کو باہمی مشاورت کے ساتھ نافذ العمل کیا جا سکے۔
اس حوالے سے تعمیری اصلاحات کی جانی چاہئیں جن میں -1جے سی ایس سی کو جی ایچ کیو میں منتقل ہونا چاہیے اور ہیڈ کوارٹر کے ساتھ مطابقت رکھنی چاہیے-2 جے سی ایس سی کے چیئرمین کو افسروں کی پروموشن کرنے والی کمیٹی کی صدارت کرنی چاہیے جن کو تینوں سروسز میں ایک ستارے سے تین ستارے تک دیے جائیں جن کی جی ایچ کیو کی طرف سے منظوری حاصل ہو چکی ہو -
3 تمام فوجی ضروریات کی چیزیں جی ایچ کیو کے زیر اہتمام یکساں معیار کی حاصل کی جائیں -4آئی ایس آئی اور آئی ایس پی آر جی ایچ کیو کو رپورٹ کریں۔ اس مشترکہ کمان کے سربراہ کا درست انتخاب اعلیٰ قومی مفاد کے لیے بے حد ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے میرٹ کو اولیت دینی چاہیے۔ اس منصب کے لیے ایک ایسا تجربہ کار پیشہ ور سپاہی درکار ہے جس کی شعوری بلوغت تسلیم کی جاتی ہو اور اس کی ساکھ پر کوئی شبہ نہ ہو۔
اگرچہ جنرل راحیل شریف نے واضح کر دیا ہے کہ انھیں توسیع نہیں چاہیے جب کہ قوم چاہتی ہے کہ وہ اس منصب پر قائم رہیں۔ واضح رہے کہ توسیع اور پروموشن میں ایک فرق ہے۔ تینوں افواج کی مشترکہ کمان کی سربراہی کے لیے جنرل راحیل شریف سے بہتر اور کوئی شخص نہیں۔ پاکستان کے لیے اس سے اچھی اور کوئی بات نہیں ہو سکتی کہ جنرل راحیل شریف کو ترقی دیکر جے سی ایس سی کا چیئرمین بنا دیا جائے اور یہ ادارہ وہ کام کر سکے جس کے لیے اسے تخلیق کیا گیا تا کہ یہ جنگ اور امن دونوں حالات میں یکساں طور پر موثر ثابت ہو سکے۔
حیرت کی بات ہے بدنام زمانہ این آر او کے خالق' جس کے ذریعے کرپشن کو قانونی حیثیت دیدی گئی اور پاکستان کو آصف زرداری کی شکل میں صدر مملکت اور فوج کے سپریم کمانڈر کا تحفہ دیا گیا، انھوں نے اس بات کا احساس نہ کیا کہ اس متنازعہ مہم کے نتیجے میں نہ صرف جنرل راحیل شریف اور پاک فوج کی شہرت کو نقصان پہنچے گا جس میں کہ یہ تحریک چلانے والوں کے ذاتی مفادات و محرکات کار فرما تھے۔
جنرل راحیل شریف نے یہ کہہ کے کہ میں عہدے کی مدت میں توسیع لینے پر یقین نہیں رکھتا لہٰذا میں مقررہ تاریخ پر ریٹائر ہو جاؤں گا، دس ماہ قبل ہی ان قیاس آرائیوں کا منہ بند کر دیا ہے جب کہ حکومت کو انھیں توسیع دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کرنا ہے بشرطیکہ وہ حکومت کی طرف سے دی جانے والی توسیع قبول کر لیں۔
چیف آف آرمی اسٹاف نے توسیع نہ لینے کا اعلان کر کے اس امر کی یقین دہانی کرائی ہے کہ پاک فوج ایک مضبوط ادارہ ہے اور ان کے اس عہدے سے ہٹنے کے بعد دہشت گردی کے خلاف لڑائی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا جو مکمل جوش اور عزم و استحکام کے ساتھ جاری رہے گی۔ پاکستان کا قومی مفاد ہر چیز پر مقدم ہے جس کا ہر قیمت پر تحفظ کیا جائے گا۔ چیف آف آرمی اسٹاف نے یہ اعلان کر کے اس امر کی بھی تصدیق کر دی ہے کہ کوئی بھی ناگزیر نہیں ہوتا لہٰذا نئے لوگوں کو میرٹ پر اور صحیح وقت پر موقع دیا جانا چاہیے۔
اس موقع پر میں 22 جولائی 2010ء کو شایع ہونیوالے اپنے ایک آرٹیکل کا حوالہ دینا چاہوں گا جس کا عنوان تھا ''توسیع اور توقعات'' میں نے لکھا تھا کہ جنرل وحید کاکڑ نے 1993ء میں نسبتاً آزاد اور غیر جانبدارانہ انتخابات کا یقین دلایا جس کے نتیجے میں محترمہ بے نظیر بھٹو کامیاب ہوئیں۔
ان کی کامیابی نے عوام اور سیاست دانوں کے وسیع پیمانے پر جذبات کی ترجمانی کی۔ اس پر محترمہ نے ممنون احسان ہو کر جنرل کاکڑ کی چیف آف آرمی اسٹاف کی حیثیت سے 1996ء تک توسیع کی پیش کش کی لیکن جنرل کاکڑ نے انکار کر کے ایک بڑی شاندار مثال قائم کی۔ ان کا کہنا تھا ''میرے انکار کرنے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اس سے آرمی میں دیگر افسروں کی پروموشن کا سلسلہ رک جاتا ہے اور بہت وفادار اور مخلص سینئرز ملٹری افسران جو اپنی باری کے انتظار میں ہوتے ہیں وہ ناامیدی کا شکار ہو جاتے ہیں''۔
جنرل راحیل شریف توسیع لینے سے انکار کر کے یہ پیغامدیا ہے کہ وہ اپنے کام کو اپنی باقی ماندہ مدت میں مکمل کر سکتے ہیں۔ ان کے کردار کے بارے میں اگر کوئی یہ اندازہ لگائے تو وہ غلطی پر ہو گا کہ جنرل راحیل شریف پنجاب میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں اور ان کے ہمدردوں کا پیچھا نہیں کریں گے یا سندھ میں ان کرپٹ لوگوں کا احتساب نہیں ہو گا جو بالواسطہ طور پر دہشت گردی کی حمایت کرتے ہیں اور ایسے حالات پیدا کرتے ہیں جو ٹارگٹ کلنگ کرنیوالوں کو سہولت فراہم کرتے ہیں۔ جنرل راحیل کی ترجیحات میں فوج کی خود احتسابی بھی شامل ہے جن پر ہاتھ ڈالنا بصورت دیگر ممکن نہیں۔
آپریشن ضرب عضب جس کے ذریعے شمالی وزیرستان سے عسکریت پسندوں کا کامیابی سے صفایا کر دیا گیا' کراچی اور بلوچستان میں امن قائم کیا گیا۔ عمران خان کے دھرنے کے دوران ہر کوئی یہ سوچ رہا تھا کہ چونکہ حکمران جماعت بہت غیر مقبول ہو گئی ہے اس لیے جنرل راحیل شریف کو حکومت پر قبضہ کر لینا چاہیے لیکن جنرل راحیل کی دانش اور پیشہ ورانہ طرز فکر نے انھیں اس سے باز رکھا کہ وہ کوئی غیر آئینی اقدام کریں۔
چونکہ روایتی طور پر آرمی کا حکومت کی خارجہ اور قومی سیکیورٹی پالیسیوں پر مضبوط اثر ہوتا ہے اس لیے چیف آف آرمی اسٹاف نے طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مفاہمت کرانے کی کوشش کی جب کہ ایران اور سعودی عرب کے مابین کشیدگی ختم کرانے کے لیے بھی ان کی مساعی قابل قدر ہے۔ جو لوگ نومبر میں ان کی رخصتی پر نظر جمائے بیٹھے ہیں اور خوش ہو رہے ہیں ان کو دوبارہ سوچنا چاہیے کہ کیا ان کی جگہ پر آنے والا اتنا ہی صبر و تحمل والا اور شرافت و نجابت کا نمونہ ہو گا۔
جنرل راحیل کی نومبر میں ہونے والی ریٹائرمنٹ کے بارے میں عام لوگوں میں جو گہری تشویش پائی جاتی ہے ان کی تالیف قلب کے لیے ایک ممکنہ حل موجود ہے۔
ہمارے عسکری منصوبہ سازوں نے جے سی ایس سی کے ڈھانچے میں تبدیلی نہ کر کے اس کی بغیر دانتوں کے شیر کی حیثیت میں کوئی بہتری نہیں کی بالخصوص اس کے بعد سے جب ہم نے جوہری صلاحیت حاصل کی لیکن آج کی جنگ میں مسلح افواج کے تمام شعبوں کو یعنی زمینی فوج کے ساتھ فضائی اور بحری افواج کو بھی مشترکہ طور پر شریک ہونا پڑے گا۔ ان تینوں سروسز کو مشترکہ آپریشنل اور انتظامی اہلیت دینے کے لیے 1975ء میں جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی (JCSC) تخلیق کی گئی لیکن اس سے ہمارے سیاسی اور عسکری منصوبہ سازوں کے اس ذہن کا پتہ چلتا ہے جو روایت کو توڑنا نہیں چاہتے تھے۔
یہاں پر میں اپنے ایک اور مقالے کا حوالہ دینا چاہتا ہوں جس کا عنوان تھا ''اکیسویں صدی کی جنگیں لڑنا'' ہمیں سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ مسلح افواج کے تمام شعبوں کو مکمل طور پر آپس میں ہم آہنگ کر دیا جائے۔ چونکہ ہمارے پاس بڑے پیمانے پر جنگی نقل و حرکت کے لیے جغرافیائی گہرائی کی کمی ہے اس لیے بھارت کے ساتھ ہماری کوئی بھی لڑائی ایک محدود وقت میں انتہائی تیز اور خوفناک ہو گی جس کو فضا اور سمندر سے مدد فراہم کی جا سکے تاہم اس کی جیت ہار کا فیصلہ زمین (گراؤنڈ) پر ہی ہو گا۔ تکنیکی طور پر جے سی ایس سی کے چیئرمین کے لیے ہر لحاظ سے طاقتور اور انتہائی موثر کنٹرول رکھنے والے افسر کی ضرورت تھی جو تمام سروسز کو ہدایات جاری کر سکے۔
ہماری جوہری فورسز یعنی اسپیشل پلاننر ڈویژن (ایس پی ڈی) وغیرہ اور سائبر وار فیئر ان دونوں کو لازمی طور پر ایک گروپ میں پرو دیا جائے تا کہ یہ ''تزویراتی فورسز'' کے طور پر ایک علیحدہ سروس کی حیثیت سے کام کر سکیں۔ تمام پیرا ملٹری فورسز کو بھی ''ہوم لینڈ سیکیورٹی کمان'' (ایچ ایس سی) میں متشکل کیا جائے۔ جے سی ایس سی کا چیئرمین لازمی طور پر ایک پانچ ستاروں والا جرنیل ہونا چاہیے جب کہ ڈپٹی چیئرمین تزویراتی فورسز کا کمانڈر ہو اور اس عہدے کے لیے چار ستاروں والے جرنیل یا اس کے ہم مرتبہ دیگر آفیسر ہونے چاہئیں اور یہ منصب باری باری بحریہ اور فضائیہ کو بھی ملنا چاہیے۔
جے سی ایس سی کو مجموعی طور پر جنگ کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے جس میں جوہری فورسز بھی شامل ہوں تا کہ جنگی منصوبے کو باہمی مشاورت کے ساتھ نافذ العمل کیا جا سکے۔
اس حوالے سے تعمیری اصلاحات کی جانی چاہئیں جن میں -1جے سی ایس سی کو جی ایچ کیو میں منتقل ہونا چاہیے اور ہیڈ کوارٹر کے ساتھ مطابقت رکھنی چاہیے-2 جے سی ایس سی کے چیئرمین کو افسروں کی پروموشن کرنے والی کمیٹی کی صدارت کرنی چاہیے جن کو تینوں سروسز میں ایک ستارے سے تین ستارے تک دیے جائیں جن کی جی ایچ کیو کی طرف سے منظوری حاصل ہو چکی ہو -
3 تمام فوجی ضروریات کی چیزیں جی ایچ کیو کے زیر اہتمام یکساں معیار کی حاصل کی جائیں -4آئی ایس آئی اور آئی ایس پی آر جی ایچ کیو کو رپورٹ کریں۔ اس مشترکہ کمان کے سربراہ کا درست انتخاب اعلیٰ قومی مفاد کے لیے بے حد ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے میرٹ کو اولیت دینی چاہیے۔ اس منصب کے لیے ایک ایسا تجربہ کار پیشہ ور سپاہی درکار ہے جس کی شعوری بلوغت تسلیم کی جاتی ہو اور اس کی ساکھ پر کوئی شبہ نہ ہو۔
اگرچہ جنرل راحیل شریف نے واضح کر دیا ہے کہ انھیں توسیع نہیں چاہیے جب کہ قوم چاہتی ہے کہ وہ اس منصب پر قائم رہیں۔ واضح رہے کہ توسیع اور پروموشن میں ایک فرق ہے۔ تینوں افواج کی مشترکہ کمان کی سربراہی کے لیے جنرل راحیل شریف سے بہتر اور کوئی شخص نہیں۔ پاکستان کے لیے اس سے اچھی اور کوئی بات نہیں ہو سکتی کہ جنرل راحیل شریف کو ترقی دیکر جے سی ایس سی کا چیئرمین بنا دیا جائے اور یہ ادارہ وہ کام کر سکے جس کے لیے اسے تخلیق کیا گیا تا کہ یہ جنگ اور امن دونوں حالات میں یکساں طور پر موثر ثابت ہو سکے۔