مجرموں کی بہار
آج کل ملک میں ہر طرف مجرموں کی بہار آئی ہوئی ہے، آپ کو باآسانی اور وافر مقدار میں ہر جگہ ہر قسم کے مجرم دستیاب ہیں
آج کل ملک میں ہر طرف مجرموں کی بہار آئی ہوئی ہے، آپ کو باآسانی اور وافر مقدار میں ہر جگہ ہر قسم کے مجرم دستیاب ہیں، ایک پر ایک مفت مہیا ہے، ہر مجرم حسب اوقات اپنے اپنے کرتب دکھانے میں مصروف ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ ہر مجرم ہر موقع کو آخری موقع جانتے ہوئے اپنا کام دکھا رہا ہے۔
آپ کو انسانوں کی یہ قسم بازاروں، گلیوں، محلوں، آفسز، ایوانوں، عبادت گاہوں اور درباروں میں جابجا اور خودبخود دیکھنے کو نصیب ہوجاتی ہے، ان میں سے کوئی موبائلوں کا شوقین ہے، کوئی نقدی کا شوقین ہے، تو کوئی پلاٹوں اور پرمٹوں پر مرمٹا ہے، تو کسی کی کمیشن پر جان جارہی ہے، کسی کی فائلوں میں جان اٹکی ہوئی ہے تو کوئی سانحوں کا ذمے دار ہے۔
انتہا تو یہ ہوگئی ہے کہ آپ اگر عباد ت گاہ میں عبادت میں مصروف ہیں تو کوئی بعید نہیں کہ کوئی جیکٹ پہنے پچھلی صف میں آرام سے بیٹھا ہوا ہو اور صحیح وقت کا انتظار کررہا ہو۔ آپ بڑے شوق سے اپنی پسندیدہ چیزیں خریدتے ہیں لیکن انھیں استعمال کوئی اور کررہا ہوتا ہے۔ آپ گھر بنانے کے لیے پلاٹ خریدتے ہیں، لیکن یہ دیکھ کر سکتے میں آجاتے ہیں کہ آپ کے پلاٹ پر کوئی اور اپنا گھر تعمیر کررہا ہوتا ہے۔
کار آپ اپنے لیے خریدتے ہیں لیکن تھوڑے ہی دنوں بعد چلا کوئی اور رہا ہوتا ہے۔ آپ قومی جذبے سے سرشار ہوکر ٹیکس اس امید پر دیتے پھرتے ہیں کہ وہ آپ پر ہی خرچ ہوں گے لیکن ہوتا یہ ہے کہ آپ ہی کے ہم وطن آپ کے ادا کردہ ٹیکس کے پیسوں پر عیاشیوں پر عیاشیاں کرتے پھرتے ہیں اور آپ انتظار کرتے کرتے سب کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہہ کر چل دیتے ہیں۔
ایک زمانہ ہوا کرتا تھا جب مجرموں کے سب سے بڑے دشمن مجرم ہی ہوا کرتے تھے اور مجرموں کو سب سے زیادہ ڈر اور خوف اپنے ہی بھائی بندوں سے ہوا کرتا تھا، لیکن دیکھتے ہی دیکھتے جہاں سب کچھ بدل گیا وہاں مجرم بھی بدل گئے، اب سب مجرم ایک دوسرے کے نہ صرف دوست اور معاون ہیں بلکہ سب ایک دوسرے کے کاموں پر پردہ ڈالنے میں مصروف رہتے ہیں اور ایک دوسرے کے سب سے بڑے وکیل بنے پھرتے ہیں۔ مجال ہے کہ کوئی شریف شخص ان کے خلاف بات تو کرلے۔
دنیا بھر کے سماجوں میں سے کسی بھی سماج کو اتنی بدترین صورتحال کا سامنا نہیں ہے جتنا کہ ہمیں سامنا ہے۔ ہم بیک وقت تینوں ہی قسم کے مجرموں یعنی (1) سماجی مجرموں، (2) سیاسی مجرموں، (3) مذہبی مجرموں کے ہاتھوں برباد ہورہے ہیں اور دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ یہ تینوں ہی قسم کے مجرم اپنے آپ کو مجرم تسلیم کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمیں آیندہ بھی اسی قسم کی صورتحال سے مزید دوچار ہونا پڑے گا، کیونکہ جب آپ اپنے آپ کو مجرم تسلیم کرلیتے ہیں تو پھر آپ اپنے آپ میں تبدیلی لانا شروع کردیتے ہیں اور تمام منفی سوچوں اور سرگرمیوں سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں۔
آئیں انسان کی فطرت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، انسانی نفسیات اور عمرانیات کے ماہرین کی سوچوں کو تین گروہوں میں بانٹا جاسکتا ہے، پہلے گروہ کا خیال ہے کہ انسان فطرتاً بدکار اور گناہگار ہے، وہ سب کام اپنی خودغرضی کی وجہ سے کرتا ہے، اس کے لیے اپنے مقاصد کے لیے کچھ بھی کرنا بعید از قیاس نہیں۔ دوسرے گروہ کا ایمان ہے کہ انسان فطرتاً نیک اور ہمدرد ہے، جو دوسروں کا خیال رکھتا ہے اور انھیں تکلیف نہیں پہنچاتا، ان کا خیال ہے کہ جن لوگوں کی تربیت صحیح خطوط پر نہیں ہوتی وہ غلط راستے پر نکل جاتے ہیں اور ایسے اعمال کے مرتکب ہوتے ہیں جن سے ان کو خود بھی اور دوسروں کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔
جب کہ تیسرے گروہ کا نظریہ یہ ہے کہ انسان فطرتاً نہ تو نیک ہے اور نہ ہی بد۔ وہ کورے کاغذ کی طر ح ہے، اس کی پرورش جس ماحول میں کی جائے وہ اسی ماحول میں ڈھل جاتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ہر بچہ بہت سے امکانات لے کر پیدا ہوتا ہے اور اس کی تربیت اسے مختلف سانچوں میں ڈھال دیتی ہے۔
مشہورترین ماہر نفسیات سگمنڈ فرائڈ کا کہنا ہے کہ ہمارے ہر فعل کے دو محرک ہوا کرتے ہیں (1) نفسانی خواہش (2) بڑا بننے کی امنگ۔ جب کہ امریکا کے بڑے فلسفی پروفیسر ڈیوی کا کہنا ہے کہ انسانی فطرت کی سب سے بڑی خواہش ''اہم بننے کی امنگ'' ہے۔ ہم اگر باریکی کے ساتھ تینوں گروہوں کے خیال کا مطالعہ کریں تو ہم اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے کہ تیسرے گروہ کا نظریہ حقیقت سے زیادہ قریب ہے، اس لیے کہ بچپن کی محرومیاں، سماجی ناانصافیاں اور عدم تحفظ اتنی ہولناک بیماریاں ہیں جو انسان کے اندر وہ تباہیاں پھیلاتی ہیں جن کا تصور بھی محال ہے اور پھر وہ انسان ایک ایسا ہتھیار بن جاتا ہے جسے کوئی بھی کبھی بھی غلط استعمال کرلیتا ہے اور اکثر اوقات وہ خود اپنے ہی خلاف استعمال ہوجاتا ہے۔
ظاہر ہے ہم سب چاہتے ہیں کہ ہم اس منزل پر پہنچ جائیں جہاں پہنچنے کے بعد ہم خود کو قوی، برتر، بڑا اور کامیاب محسوس کریں۔ بس مجرم اس مقصد یا خواہش کی تکمیل کے لیے جو راستہ اختیار کرتا ہے وہ دوسروں سے جدا ہوتا ہے۔ آج ہم سب اسی بڑا یا اہم بننے کی امنگ اور سماجی ناانصافیوں، محرومیوں کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہورہے ہیں ۔
بظاہر اس صورتحال سے باہر نکلنے کے تمام دروازوں پر بڑے بڑے تالے پڑے ہوئے ہیں، اب خدا جانتا ہے کہ آگے بھی ہمارے ساتھ کیا یہی سب کچھ ایسا ہی ہوتا رہے گا یا پھر کسی روز ہماری زمین پر وہ سورج اگ آئے گا جو امن، تحفظ، کامیابی، چین، خوشحالی چاروں طرف بکھیر دے گا۔ دیکھتے ہیں ہمارے نصیب میں کیا لکھا ہے۔
آپ کو انسانوں کی یہ قسم بازاروں، گلیوں، محلوں، آفسز، ایوانوں، عبادت گاہوں اور درباروں میں جابجا اور خودبخود دیکھنے کو نصیب ہوجاتی ہے، ان میں سے کوئی موبائلوں کا شوقین ہے، کوئی نقدی کا شوقین ہے، تو کوئی پلاٹوں اور پرمٹوں پر مرمٹا ہے، تو کسی کی کمیشن پر جان جارہی ہے، کسی کی فائلوں میں جان اٹکی ہوئی ہے تو کوئی سانحوں کا ذمے دار ہے۔
انتہا تو یہ ہوگئی ہے کہ آپ اگر عباد ت گاہ میں عبادت میں مصروف ہیں تو کوئی بعید نہیں کہ کوئی جیکٹ پہنے پچھلی صف میں آرام سے بیٹھا ہوا ہو اور صحیح وقت کا انتظار کررہا ہو۔ آپ بڑے شوق سے اپنی پسندیدہ چیزیں خریدتے ہیں لیکن انھیں استعمال کوئی اور کررہا ہوتا ہے۔ آپ گھر بنانے کے لیے پلاٹ خریدتے ہیں، لیکن یہ دیکھ کر سکتے میں آجاتے ہیں کہ آپ کے پلاٹ پر کوئی اور اپنا گھر تعمیر کررہا ہوتا ہے۔
کار آپ اپنے لیے خریدتے ہیں لیکن تھوڑے ہی دنوں بعد چلا کوئی اور رہا ہوتا ہے۔ آپ قومی جذبے سے سرشار ہوکر ٹیکس اس امید پر دیتے پھرتے ہیں کہ وہ آپ پر ہی خرچ ہوں گے لیکن ہوتا یہ ہے کہ آپ ہی کے ہم وطن آپ کے ادا کردہ ٹیکس کے پیسوں پر عیاشیوں پر عیاشیاں کرتے پھرتے ہیں اور آپ انتظار کرتے کرتے سب کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہہ کر چل دیتے ہیں۔
ایک زمانہ ہوا کرتا تھا جب مجرموں کے سب سے بڑے دشمن مجرم ہی ہوا کرتے تھے اور مجرموں کو سب سے زیادہ ڈر اور خوف اپنے ہی بھائی بندوں سے ہوا کرتا تھا، لیکن دیکھتے ہی دیکھتے جہاں سب کچھ بدل گیا وہاں مجرم بھی بدل گئے، اب سب مجرم ایک دوسرے کے نہ صرف دوست اور معاون ہیں بلکہ سب ایک دوسرے کے کاموں پر پردہ ڈالنے میں مصروف رہتے ہیں اور ایک دوسرے کے سب سے بڑے وکیل بنے پھرتے ہیں۔ مجال ہے کہ کوئی شریف شخص ان کے خلاف بات تو کرلے۔
دنیا بھر کے سماجوں میں سے کسی بھی سماج کو اتنی بدترین صورتحال کا سامنا نہیں ہے جتنا کہ ہمیں سامنا ہے۔ ہم بیک وقت تینوں ہی قسم کے مجرموں یعنی (1) سماجی مجرموں، (2) سیاسی مجرموں، (3) مذہبی مجرموں کے ہاتھوں برباد ہورہے ہیں اور دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ یہ تینوں ہی قسم کے مجرم اپنے آپ کو مجرم تسلیم کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمیں آیندہ بھی اسی قسم کی صورتحال سے مزید دوچار ہونا پڑے گا، کیونکہ جب آپ اپنے آپ کو مجرم تسلیم کرلیتے ہیں تو پھر آپ اپنے آپ میں تبدیلی لانا شروع کردیتے ہیں اور تمام منفی سوچوں اور سرگرمیوں سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں۔
آئیں انسان کی فطرت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، انسانی نفسیات اور عمرانیات کے ماہرین کی سوچوں کو تین گروہوں میں بانٹا جاسکتا ہے، پہلے گروہ کا خیال ہے کہ انسان فطرتاً بدکار اور گناہگار ہے، وہ سب کام اپنی خودغرضی کی وجہ سے کرتا ہے، اس کے لیے اپنے مقاصد کے لیے کچھ بھی کرنا بعید از قیاس نہیں۔ دوسرے گروہ کا ایمان ہے کہ انسان فطرتاً نیک اور ہمدرد ہے، جو دوسروں کا خیال رکھتا ہے اور انھیں تکلیف نہیں پہنچاتا، ان کا خیال ہے کہ جن لوگوں کی تربیت صحیح خطوط پر نہیں ہوتی وہ غلط راستے پر نکل جاتے ہیں اور ایسے اعمال کے مرتکب ہوتے ہیں جن سے ان کو خود بھی اور دوسروں کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔
جب کہ تیسرے گروہ کا نظریہ یہ ہے کہ انسان فطرتاً نہ تو نیک ہے اور نہ ہی بد۔ وہ کورے کاغذ کی طر ح ہے، اس کی پرورش جس ماحول میں کی جائے وہ اسی ماحول میں ڈھل جاتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ہر بچہ بہت سے امکانات لے کر پیدا ہوتا ہے اور اس کی تربیت اسے مختلف سانچوں میں ڈھال دیتی ہے۔
مشہورترین ماہر نفسیات سگمنڈ فرائڈ کا کہنا ہے کہ ہمارے ہر فعل کے دو محرک ہوا کرتے ہیں (1) نفسانی خواہش (2) بڑا بننے کی امنگ۔ جب کہ امریکا کے بڑے فلسفی پروفیسر ڈیوی کا کہنا ہے کہ انسانی فطرت کی سب سے بڑی خواہش ''اہم بننے کی امنگ'' ہے۔ ہم اگر باریکی کے ساتھ تینوں گروہوں کے خیال کا مطالعہ کریں تو ہم اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے کہ تیسرے گروہ کا نظریہ حقیقت سے زیادہ قریب ہے، اس لیے کہ بچپن کی محرومیاں، سماجی ناانصافیاں اور عدم تحفظ اتنی ہولناک بیماریاں ہیں جو انسان کے اندر وہ تباہیاں پھیلاتی ہیں جن کا تصور بھی محال ہے اور پھر وہ انسان ایک ایسا ہتھیار بن جاتا ہے جسے کوئی بھی کبھی بھی غلط استعمال کرلیتا ہے اور اکثر اوقات وہ خود اپنے ہی خلاف استعمال ہوجاتا ہے۔
ظاہر ہے ہم سب چاہتے ہیں کہ ہم اس منزل پر پہنچ جائیں جہاں پہنچنے کے بعد ہم خود کو قوی، برتر، بڑا اور کامیاب محسوس کریں۔ بس مجرم اس مقصد یا خواہش کی تکمیل کے لیے جو راستہ اختیار کرتا ہے وہ دوسروں سے جدا ہوتا ہے۔ آج ہم سب اسی بڑا یا اہم بننے کی امنگ اور سماجی ناانصافیوں، محرومیوں کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہورہے ہیں ۔
بظاہر اس صورتحال سے باہر نکلنے کے تمام دروازوں پر بڑے بڑے تالے پڑے ہوئے ہیں، اب خدا جانتا ہے کہ آگے بھی ہمارے ساتھ کیا یہی سب کچھ ایسا ہی ہوتا رہے گا یا پھر کسی روز ہماری زمین پر وہ سورج اگ آئے گا جو امن، تحفظ، کامیابی، چین، خوشحالی چاروں طرف بکھیر دے گا۔ دیکھتے ہیں ہمارے نصیب میں کیا لکھا ہے۔