صرف 09 فیصد پاکستانی ٹیکس دیتے ہیں سرکاری دستاویز
13 سال سے ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح میں مسلسل کمی، اب 9.1 فیصد ہے۔
ROME:
پاکستان میں 13سال کے دوران ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح میں مسلسل کمی کا انکشاف ہوا ہے اور اب بین الاقوامی سطح پر ٹیکس ٹو جی ڈی پی کے لحاظ سے پاکستان 23 ویں نمبر آگیا ہے۔
یہ انکشاف چیئرمین ایف بی آر علی ارشد حکیم کی طرف سے وزیراعظم کو دی جانے والی پریزنٹیشن میں کیا گیا۔ ''ایکسپریس'' کو دستیاب دستاویز کے مطابق پاکستان میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 9.1 فیصد ہے جبکہ لیبیا میں2.7 فیصد، چاڈ میں 4.2 فیصد، برما میں 4.9 فیصد، انگولا میں 5.7فیصد،کانگو میں 5.9 فیصد، نائجیریا میں 6.1 فیصد،سوڈان میں 6.3 فیصد، افغانستان میں6.4 فیصد، یمن میں 7.1فیصد ،الجزائرمیں 7.7 فیصد، سینٹرل افریقین ری پبلک میں7.7 فیصد، کمبوڈیا میں8 فیصد، بنگلہ دیش میں 8.5 فیصد، ہیٹی میں 9فیصد، گیبن میں 10.3 فیصد، سرالیون میں10.5 فیصد، پاناما میں10.6 فیصد، بھوٹان میں 10.7 فیصد، مڈغاسکر میں 10.7فیصد،گنی میں 8.2فیصد اور ایکٹوریل گنی میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح1.7 فیصد ہے۔
دستاویز میںبتایا گیاکہ سال 2007-08سے لے کر سال 2010-11 تک 4 سال کے دوران پاکستان میں ٹیکس دہندگان کی طرف سے کمپلائنس کی شرح 1فیصد سے بتدریج کم ہوکر 0.92 فیصد پر آگئی، پاکستان میں آبادی کے لحاظ سے ٹیکس دہندگان کی تعداد بھی دیگر ممالک کے مقابلے میں انتہائی کم ہے، ملکی مجموعی آبادی کا صرف 0.9 فیصد حصہ ٹیکس ادا کرتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں بھارت میں 4.7 فیصد، ارجنٹائن 16.5 فیصد،کینیڈا 80 فیصد اور فرانس میں مجموعی آبادی کا 58فیصد حصہ ٹیکس ادا کرتا ہے۔
دستاویزکے مطابق سال 2007-08 کے دوران پاکستان میں ٹیکس دہندگان کے کمپلائنس کی شرح ایک فیصد تھی جو مالی سال 2008-09میں کم ہوکر0.96 فیصد، مالی سال 2009-10میں 0.98 فیصد اور مالی سال 2010-11میں کم ہوکر 0.92فیصد پر آگئی جسے بڑھانا بے حد ضروری ہے تاہم پاکستان میں کارپوریٹ سیکٹر میں کمپلائنس کی شرح 41.8 فیصد ہے، ایس ای سی پی کے پاس رجسٹرڈ کمپنیوں کی تعداد 50 ہزار 839 ہے جن میں سے 21 ہزار 285 کمپنیاں انکم ٹیکس گوشوارے جمع کراتی ہیں اور کارپوریٹ سیکٹر میں نان کمپلائنس کی شرح اب بھی 58.2 فیصد ہے۔
پاکستان میں 13سال کے دوران ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح میں مسلسل کمی کا انکشاف ہوا ہے اور اب بین الاقوامی سطح پر ٹیکس ٹو جی ڈی پی کے لحاظ سے پاکستان 23 ویں نمبر آگیا ہے۔
یہ انکشاف چیئرمین ایف بی آر علی ارشد حکیم کی طرف سے وزیراعظم کو دی جانے والی پریزنٹیشن میں کیا گیا۔ ''ایکسپریس'' کو دستیاب دستاویز کے مطابق پاکستان میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 9.1 فیصد ہے جبکہ لیبیا میں2.7 فیصد، چاڈ میں 4.2 فیصد، برما میں 4.9 فیصد، انگولا میں 5.7فیصد،کانگو میں 5.9 فیصد، نائجیریا میں 6.1 فیصد،سوڈان میں 6.3 فیصد، افغانستان میں6.4 فیصد، یمن میں 7.1فیصد ،الجزائرمیں 7.7 فیصد، سینٹرل افریقین ری پبلک میں7.7 فیصد، کمبوڈیا میں8 فیصد، بنگلہ دیش میں 8.5 فیصد، ہیٹی میں 9فیصد، گیبن میں 10.3 فیصد، سرالیون میں10.5 فیصد، پاناما میں10.6 فیصد، بھوٹان میں 10.7 فیصد، مڈغاسکر میں 10.7فیصد،گنی میں 8.2فیصد اور ایکٹوریل گنی میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح1.7 فیصد ہے۔
دستاویز میںبتایا گیاکہ سال 2007-08سے لے کر سال 2010-11 تک 4 سال کے دوران پاکستان میں ٹیکس دہندگان کی طرف سے کمپلائنس کی شرح 1فیصد سے بتدریج کم ہوکر 0.92 فیصد پر آگئی، پاکستان میں آبادی کے لحاظ سے ٹیکس دہندگان کی تعداد بھی دیگر ممالک کے مقابلے میں انتہائی کم ہے، ملکی مجموعی آبادی کا صرف 0.9 فیصد حصہ ٹیکس ادا کرتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں بھارت میں 4.7 فیصد، ارجنٹائن 16.5 فیصد،کینیڈا 80 فیصد اور فرانس میں مجموعی آبادی کا 58فیصد حصہ ٹیکس ادا کرتا ہے۔
دستاویزکے مطابق سال 2007-08 کے دوران پاکستان میں ٹیکس دہندگان کے کمپلائنس کی شرح ایک فیصد تھی جو مالی سال 2008-09میں کم ہوکر0.96 فیصد، مالی سال 2009-10میں 0.98 فیصد اور مالی سال 2010-11میں کم ہوکر 0.92فیصد پر آگئی جسے بڑھانا بے حد ضروری ہے تاہم پاکستان میں کارپوریٹ سیکٹر میں کمپلائنس کی شرح 41.8 فیصد ہے، ایس ای سی پی کے پاس رجسٹرڈ کمپنیوں کی تعداد 50 ہزار 839 ہے جن میں سے 21 ہزار 285 کمپنیاں انکم ٹیکس گوشوارے جمع کراتی ہیں اور کارپوریٹ سیکٹر میں نان کمپلائنس کی شرح اب بھی 58.2 فیصد ہے۔